donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Rasool Allah Ki Taleem Dahshat Nahi Mohabbat Hai


عیدمیلادالنبی ﷺکے موقع پر دنیا کو محبت کا پیغام دیجئے


رسول اللہ کی تعلیم دہشت، نہیں محبت ہے


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


اسلام نام ہے اعلیٰ اخلاق کا ، بلند نظریہ زندگی کا،کامل نظام حیات کا ،روحانی آسودگی کااور یہی بات اسے پرکشش بناتی ہے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اسلام کی اشاعت کے لئے زور زبردستی سے کام لیا جائے۔ اسے دنیا پر تھوپنے کی کوشش کی جائے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ کی جانب سے حکم ہوا کہ آپ اسلام کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچائیں تو آپ نے سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اس کی دعوت دی اور دوست واحباب کو اس خدائی پیغام کی طرف بلایا۔ آپ کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا،آپ کے چچازاد بھائی اور آپ کے پروردہ مولائے کائنات علی مرتضیٰ اور سب سے قریبی دوست ابوبکر صدیق ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے اسے قبول کرنے میں سبقت کی۔جس امین وصادق شخص کی زبان سے اللہ کے کلمات بندوں کے سامنے آئے تھے، اس کے جھوٹ سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔اس کے بعد دعوت عام شروع ہوئی اور اعلانیہ طور پر لوگوں کو اس پیغام کی طرف بلایا جانے لگا۔ اس جانب پیشقدمی کرنے والوں میں غریب، مزدور، غلام اور وہ لوگ تھے جن کے دل صاف تھے اور کفروشرک کی برائیوں سے متنفر تھے۔ ایسا بار بار ہوا کہ شعروسخن کا ذوق رکھنے والے اہل عرب قرآن کریم کی آیات سن کر بیخود ہوجاتے اور پکار اٹھتے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔ایسے لوگ خودبخود اسلام قبول کرلیتے۔ سرداران مکہ اور شہر کے مالدار ومعززسمجھے جانے والے افراد ذرا تاخیر سے مسلمان ہوئے، بلکہ وہ ابتدا میں اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔اسلام قبول کرنے والے چھپ چھپ کر ایک اللہ کا نام لیتے اور اس کی عبادت کرتے۔ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتیں مگر سچائی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور ایسا ہی ہوا کہ ایک دن اسلام کی کشش کو عرب وعجم نے محسوس کیا۔جنھوں نے اسلام نہیں قبول کیا وہ بھی اس کے اثرات سے نہیں بچ پائے۔

تلوار کس کے ہاتھ میں تھی؟

    اسلام کی مقبولیت کو دیکھ کر منکرین اسلام نے یہ جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور مسلم حکمرانوں نے جس علاقے پر قبضہ کیا وہاں لوگوں کو زبردستی اور لالچ دے کر اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔ حالانکہ ایسی صورت میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اسلام تلوار کی زور سے پھیلا ہے تو تلوار اٹھانے والے کہاں سے آئے؟ کیا وہ آسمان سے اترے تھے؟ انھیں کس چیز نے مجبور کیا تھا کہ وہ اسلام قبول کرلیں؟ سچ تو یہ ہے کہ مکہ میں تلوار اسلام پسندوں کے ہاتھ میں نہیں تھی بلکہ اس کے مخالفین کے ہاتھوں میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو نہتے تھے۔ صدیق اکبر اور علی مرتضیٰ نے تلوار نہیں اٹھایا تھا۔ ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ نے تلوار نہیں اٹھایا تھا۔ صہیب رومی اور بلال حبشی نے تلوار اپنے ہاتھ میں نہیں لی تھی۔ یہ تو وہ لوگ تھے جو مظلوم تھے، جنھیں ستایا گیا تھا، جو تلوار کا شکار ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خانہ کعبہ کے پاس نماز ادا کرنے جاتے تو آپ کو پریشان کیا جاتا۔ آپ سجدے میں ہوتے تو غلاظت آپ کے جسم  اطہرپر ڈال دیا جاتا۔ بلال حبشی ،صہیب رومی،عمار بن یاسر اور ان کے اہل خاندان ان مظلوموں میں شامل تھے جن پر انتہا درجے کے مظالم ہوئے ۔ اگر ایسا ظلم پہاڑ پر ہوتا تو پتھروں کے دل بھی کانپ اٹھتے مگر انھوں نے انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت سمیہ تو ایسی خاتون تھیں جو ان مظالم کی تاب نہ لاسکیں اور شہید ہوگئیں مگر زبان پر اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے، کا وظیفہ رہا۔ دنیا میں تاریخ کی ایک بھی ایسی کتاب نہیں مل سکتی جو یہ دعویٰ کرسکے کہ مکی زندگی میں کسی مسلمان کے ہاتھ میں تلوار آئی ہو۔

جنگوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

    مکہ میں جب اہل اسلام پرمظالم بڑھ گئے تو ان سے بچنے کے لئے یہ اجازت ملی کہ جو لوگ مکہ چھوڑ کر کسی دوسرے محفوظ علاقے میں پناہ لینا چاہیں وہ لے سکتے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں نے اپنا گھربار، زمین جائداد اور احباب ورشتہ دار کو چھوڑ کر پہلے حبشہ اورپھر یثرب(مدینہ) کا رخ کیا۔ مسلمانوں نے اسلام کے لئے بہت سی قربانیاں دیں مگر تلوار نہیں اٹھائی، باوجود اس کے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسلام تلوار کی زور سے پھیلا ہے اور اس کی اشاعت میں زور زبردستی کو دخل ہے تو اسے اس کی کوتاہ نظری ہی کہا جائے گا۔ ہاں جب اسلام دشمنوں نے، انھیں مدینہ میں بھی چین سے نہ رہنے دیا اور یہاں بھی لشکر لے کر چڑھ دوڑے تو انھیں اپنی حفاظت کے لئے مجبوراً تلوار اٹھانی پڑی۔ انھوں نے اپنی دفاع کے لئے لڑائیاں لڑیں۔ عہد نبوی میں ایک بھی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فرد یا قبیلے کے خلاف خود حملہ کا ارادہ کیا ہو۔ جس قدر لڑائیاں پیش آئیں سب کی سب دفاعی تھیں۔ دفاع کی دوشکلیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ جب کوئی قوم مدینہ پر حملہ آور ہوئی تو آپ دفاع کے لئے نکلے۔ بدر، احد، خندق کی لڑائیاں اسی قسم کی تھیں۔ دوسری شکل یہ تھی کہ جب کوئی قوم حملے کا ارادہ کرتی اور تیاریوں میں مصروف ہوتی تو آپ اسی کے علاقے پر حملہ آور ہوکر اس کے منصوبے کو ناکام کردیتے۔ جیسا کہ خیبر کی جنگ میں ہوا تھا۔

زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنایا جاسکتا

    دنیا کا کوئی بھی نظریہ زبردستی کسی پر زیادہ دن تک نہیں تھوپا جاسکتا۔ابتدائی سو سال کے اندر ہی مسلمان عرب سے نکل کر ایران، سنٹرل ایشیا، مصر سے لے کر افریقہ تک چھا چکے تھے اور یوروپ کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔برصغیر ہندوپاک میں بھی اسلام کے پیغام توحید کے خوشبودار جھونکوں کی ٹھنڈک محسوس کی جارہی تھی اور سندھ وپنجاب کے علاقوں میں مسلمانوں کی کچھ چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں کی آمد فاتح کی حیثیت سے ہوئی تھی اور اسی بات کو بہانہ بناکر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جب یہاں مسلمان لشکر کے ساتھ آئے اور حکومت کی تو ظاہر ہے کہ انھوں نے اپنے نظریات مقامی باشندوں پر تھوپے ہونگے۔ حالانکہ یہ اندیشہ ہی غلط اور مفروضہ ہے۔اس کی حمایت میں کوئی تاریخی ثبوت نہیں پیش کیا جاسکتا۔ تاریخی شواہد تو کہتے ہیں کہ بیشتر مسلمان حکمرانوں کا اسلامی اخلاقیات سے زیادہ گہرا رشتہ نہیں تھا اور ان کی روز مرہ کی زندگی میں ہزاروں خرابیاں شامل ہوگئی تھیں اور ان میں سے بیشتر کو اسلام کی اشاعت میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔تبلیغ اسلام کا کام تو ابتدا میں صحابہ اور تابعین نے کیااور بعد کے دور میں علمائ، صالحین اور صوفیہ نے انجام دیا۔ برصغیرپاک،ہنداور بنگلہ دیش میں کروڑوں مسلمان ہیں مگر اسی کے ساتھ اس خطے میں اسی قدر بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی غیرمسلم بھی رہتے ہیں۔ اگر یہاں صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلم حکمرانوں نے عوام کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی ہوتی تو کیا کوئی غیر مسلم باقی رہ پاتا؟ ہاں ایک آدھ مثالیں اس قسم کی ضرور ملتی ہیں مگر جہاں بھی کسی حکمراں نے ایسا کیا۔ اس عہد کے علماء اور صوفیہ نے اس کی مخالفت کی اور انھیں آگاہ کیا کہ ’’مذہب کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں‘‘  (البقرہ:256) ایسی ایک مثال کشمیر کے حکمراں سکندربت شکن کے عہد میں سامنے آئی تھی جس کے نومسلم وزیر سویہ بھٹ نے بعض غیرمسلموں کو زبردستی اسلام قبول کرانے کا کام کیا تھا۔ جب یہ بات شاہ ہمدان کے صاحبزادے میرمحمد ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے بادشاہ سے اس کی شکایت کی اور کہا کہ ایسا کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس کے بعد آپ نے بادشاہ سے اجازت دلوائی کہ جن لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے، وہ چاہیں تو اپنے قدیم مذہب کی جانب لوٹ سکتے ہیں۔

اسلام اخلاق سے پھیلا

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات بتاتے ہیں کہ آپ اعلیٰ درجے کے منصف مزاج، اخلاق مند، اور رحم وکرم کے خوگر تھے۔آپ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں دی ہے۔

’’اور بیشک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘

(القلم:4)
     حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا کہ ’’آپ کا اخلاق قرآن مجید تھا‘‘۔ام المومنین کی اس گواہی کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجسم اخلاق تھے اسی لئے ہم سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے میںآپ کی رحم دلی، غربا پروری، بیکسوں کی یاوری جیسی عظیم صفات کو دیکھتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکین کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے اپنے کردار کو پیش کیا تھا۔ قرآن حکیم میں ہے :

’’بیشک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔‘‘

(یونس، 10 : 16)
    ظاہر ہے کہ اسی اعلیٰ اخلاق کے نتیجے میں اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ صحابہ کرام بھی اسی درسگاہ نبوت کے تربیت یافتہ تھے اور جس علاقے میں بھی پہنچے اسی اخلاق کو لے کر پہنچے جو بارگاہ رسالت سے پایا تھا۔ اسی کے ساتھ خود اسلام کی تعلیمات میں وہ جذب وکشش ہے جس کے اثر میں کوئی بھی آسکتا ہے۔ موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے غیراسلامی اخلاق کے باوجود اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ حالانکہ ایسی تنظیمیں یا افراد بھی مفقود ہیں جو اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں باوجود اس کے دنیا کا سب سے تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۷۰ء تک دنیا میں مسلمانوں کی آبادی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ ہوجائے گی۔آج کل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اسلام کے خلاف خوب خوب پرچار کیا جارہا ہے مگر یہ اسلام کی کشش ہے کہ موجودہ نامساعد حالات میں بھی بھارت سے لے کر یوروپ وامریکہ تک میں روز بروز اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔کل اگر اسلام مخالفین کے ہاتھوں میں تلوار تھی اور اس کا استعمال اسلام کی اشاعت روکنے کے لئے کیا جارہا تھا تو آج بھی میڈیا کی تلوار اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ میں ہے مگر پھر بھی اس کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوپایا ہے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تلوار کا استعمال اسلام کی اشاعت کے لئے نہیں بلکہ اس کا راستہ روکنے کے لئے کیا گیا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 903