donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Taleem Ke Farogh Me Aham Kirdar Nibha Rahe Hain Deeni Madaris


تعلیم کے فروغ میں اہم کردار نبھا رہے ہیں دینی مدارس


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    بھارت ایک سیکولرملک ہے اور یہاں کے دینی مدرسے بھی امن وامان اور قومی یکجہتی میں یقین رکھتے ہیں۔اس وقت دنیا بھر میں دہشت گردی کا دور دورہ ہے مگر یہ ہندوستانی مدرسوں کی امن ویکجہتی کی تعلیم کا اثر ہے کہ بھارت میں اس قسم کی سرگرمیوں کو فروغ نہیں مل پایا ہے۔ جن لوگوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا وہ مدرسہ پس منظر کے نہیں تھے،حالانکہ وہ بھی یکے بعد دیگرے باعزت رہائی پارہے ہیں۔ یعنی انھیں جھوٹے مقدموں میں پھنسایا گیا تھا۔مدارس کے خلاف غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کا ازالہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ مدرسوں کے دروازے غیرمسلم بھائیوں کے لئے بھی کھلے ر ہیں اور انھیں وقتاً فوقتاً مدعو کیا جاتا رہے۔ اسلامی مدارس کا علم کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔ خاص طور پر وہ غریب اور مفلس بچے جن کے پاس نہ پیسے ہیں اور نہ ہی ان کے والدین ان کے کھانے پینے کا انتظام کرسکتے ہیں، انھیں علم کی دولت سے مالا مال کرنے میں مدارس نے اہم رول ادا کیا ہے۔اس وقت ملک کے جن جن خطوں میں مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں دینی مدرسے بھی پائے جاتے ہیں۔یہ سلسلہ بھارت میں قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ جدید ہندوستان کا پہلا مدرسہ یوپی کے دیوبند میں 1866 میں قائم ہوا لیکن اس سے پہلے ہی لکھنؤ میں فرنگی محل مدرسے کی تنصیب اورنگ زیب کے زمانے میں ہو چکی تھی۔اسی کے نصاب درس نظامیہ کو دارالعلوم نے بھی قبول کیاجو آج بھی وہاں لاگو ہے۔ دیوبند کے بعد 1894 میں لکھنؤ میں ندوہ قائم کیا گیا۔ دیوبند مدرسہ تو بعد میں ایک نظریے میں تبدیل کر دیا گیا اور فی الحال ملک وبیرون ملک میں دیوبندی نظریہ کافی مقبول ہے۔ اسی نظریے کی کوکھ سے تبلیغی جماعت کا جنم بھی ہوا جو تنقیدوں کے نشانے پر رہتے ہوئے اصلاحی کام بھی کرتی رہی اور اس وقت دنیا کی سب سے بڑی مسلم تنظیم ہے۔یہ وہ مدرسے ہیں جو حکومت سے ایک پیسے کی بھی مالی مدد نہیں لیتے۔ان میں سے دیوبند کا بجٹ 40-45 کروڑ اور ندوہ کا قریب 20 کروڑ سالانہ ہے۔ ان دونوں مدرسوں میں اسلامی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم کا بہترین انتظام ہے۔گزشتہ صدی کے اوائل میں بریلی میں مدرسہ منظر اسلام اور مدرسہ مظہراسلام کا قیام بھی عمل میں آیا اور ابتدا میں یہاں سے اچھے علماء کی فراغت ہوئی مگر یہ سلسلہ زیادہ دن نہیں چل پایا۔ علاوہ ازین شیعہ، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی نظریات کے مدرسے بھی بڑی تعداد میںملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ، جامعۃ الاصلاح سرائے میر، الثقافۃ ا لسنیہ کیرل، ملک کے نامی گرامی مدرسے ہیں، جن کے فارغین دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔  ملک بھر میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں جوسرکاری امداد نہیں لیتے ہیں اور کامیابی سے چل رہے ہیں۔ دولتمند مسلمانوں کے چندے اور ہر سال نکلنے والی زکوۃ سے ان مدرسوں کا خرچ چلتا ہے۔مدارس کا کام دین اسلام کی تبلیغ کرنا ہے۔ ان میں مولوی تیار کئے جاتے ہیں جو مساجد میں نماز پڑھاتے ہیں اور قرآن پاک کے احکام کی تبلیغ کرتے ہیںلیکن لکھنؤ کے ایک مدرسے سلطان المدارس سے معروف ترقی پسند شاعرکیفی اعظمی نکلے جو اپٹا میں سرگرم رہے اور کمیونسٹ تحریکوں کے روح رواں رہے۔ نغمہ نگار مجروح سلطانپوری بھی مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے۔ملک کے اولین صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی تھی۔سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ابتدائی تعلیم غیر منقسم پنجاب کے ایک مدرسے میں ہوئی تھی۔

 مدرسوں کی ریاست،اترپردیش

    اترپردیش میں ملک کے تمام بڑے بڑے مدرسے موجود ہیں۔حکومت سے تسلیم شدہ مدرسوں کی تعداد 7000سے تجاوز کر چکی ہے ان میں سے 466 مدرسے سرکاری گرانٹ کی فہرست میں شامل ہیں۔ یعنی ان مدرسوں کے ٹیچروں کی تنخواہ حکومت دیتی ہے۔ تاہم یہاں بعض لوگ جعلی مدرسے بھی کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں اور بدعنوانی کی خبریں عام ہیں ۔ اس وقت تقریبا سو ایسے ہی مدرسوں کی منظوری ختم کرنے کی کارروائی چل رہی ہے۔ یوپی مدرسہ تعلیم بورڈ کی امتحانات میں کھلے عام نقل پر بھی حکومت کارروائی کر چکی ہے حالانکہ یہ سب یہاں کے سرکاری اسکولوں میں بھی عام ہے۔یوپی سے ملحقہ قریب 550 کلو میٹر طویل نیپال بارڈر والے یوپی کے علاقوں میںموجود ہزاروں مدرسوں کو لے کر فی الحال حالات پرسکون ہیں، لیکن یوپی کی سیاست کا یہ مستقل محور رہا ہے۔ نوے کی دہائی کے وسط میں لکھنؤ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دہشت گردوں کی تلاش میں اے ٹی ایس کے چھاپے سے ماحول بہت گرمایا تھا۔ بی جے پی حکومت میں نیپال سے ملحقہ علاقوں کے مدرسوں کی جانچ کے حکم سے بھی بہت ہنگامہ مچا تھا۔ لیکن یوپی کے ایک مدرسے سے نکلے وسیم الرحمٰن آئی اے ایس بن گئے تو عبید قریشی ایم بی بی ایس ڈاکٹر۔ قریب نصف درجن مدرسہ کے طالب علم بھارتی انڈین سول سروسیز میں ہیں تو کئی عدالتی خدمات میں ہیں۔

ملک بھر کے مدرسوں کا مختصر جائزہ

    بہار میں 3700سے زیادہ مدرسے بہار مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں۔یہاں مدرسوں میں دینی نصاب کے ساتھ ساتھ اسکولوں کا نصاب بھی پڑھایا جاتاہے اور مدرسوں کی سندوں کو سرکاری طور پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔مدھیہ پردیش میں 7000کے قریب مدرسے ہیں جن میں سے لگ بھگ 1500سرکاری منظوری پاچکے ہیں اور انھیں گرانٹ ملتا ہے۔ ان مدرسوں کے امتحانات کی نگرانی سرکار کی طرف سے کی جاتی ہے۔مغربی بنگال میں غیرسرکاری مدرسوں کی کثرت ہے مگر 600مدرسے سرکاری ہیں۔ ممتابنرجی سرکار اس معاملے میں کچھ سنجیدہ قدم اٹھا رہی ہے۔ اس نے انگلش میڈیم مدرسہ کا تجربہ کیا ہے اور 500کروڑروپئے مدرسہ ایجوکیشن کے لئے بجٹ میں مخصوص کیا ہے۔گجرات میں 150منظور شدہ مدرسے ہیں جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دیتے ہیں۔یہاں بڑی تعداد چھوٹے مدرسوں کی بھی ہے جو سرکاری امداد کے بغیر چلتے ہیں۔کیرل میں مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے مدرسے بھی زیادہ بہتر طریقے سے چلا رہے ہیں۔ یہاں 12,000کے لگ بھگ مدرسے ہیں جو مختلف تنظیموں کے تحت چلتے ہیں اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دیتے ہیں۔یہاں مدرسوں میں سی بی ایس سی بورڈ کا نصاب بھی چلتا ہے، یہان مدرسوں میں پڑھانے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔آسام میں 707دینی مدرسے ہیں جو الگ الگ سطح پر سرکاری منظوری رکھتے ہیں۔ یہاں کے مدرسوں کے نصاب میں تمام عصری علوم شامل ہیں ۔علاوہ ازیں سینکڑوں غیرسرکاری مدرسے بھی یہاں چلتے ہیں۔تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں لگ بھگ 6000مدرسے ہیں۔ان میں سے بیشتر مدرسے درس نظامیہ کی تعلیم دیتے ہیں مگر عصری علوم کی تدریس بھی ہوتی ہے۔ان میں 1200مدرسے دینی مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں۔ریاست جموں وکشمیر میں تقریباً 700مدرسے ہیں جو سرکاری ہیں اور ان کے امتحانات کا اہتمام بھی حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 746