donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Maghribi Pakistan Ke Refugion Ke Masle Ko Seyasi Rang Na Diya Jaye


مغربی پاکستان کے رفیوجیوں کے مسئلے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے


کشمیر نہیں بھارت کو ڈھونڈنا ہے ان خانماں برباد رفیوجیوں کے مسئلے کا حل


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    مغربی پاکستان سے بھارت آنے والے ہندووں کو اب تک بھارت کی شہریت کیوں نہیں دی گئی؟ کیا ان کا مسئلہ سیاست کا شکار ہوچکا ہے؟ کیا اب اس بہانے سے کشمیر میں سیاست کا ایک نیا کھیل شروع ہونے والا ہے؟ آخر ساری دنیا کے رفیوجیوں کو قبول کرنے والا بھارت مغربی پاکستان کے شہریوں کو قبول کرنے کو تیار کیوں نہیں ہے؟ کیا سنگھ پریوار کے اشاروں پر چلنے والی مرکزی سرکار ہندتو کا ثبوت دے گی اور ان رفیوجیوں کے مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے گی؟ہم نے یہاں جو سوالات اٹھائے ہیں ان کے جواب کا انتظار رہے گا اور ہم چاہیں گے کہ انسانیت کے ناطے ان لوگوں کے مسئلے پر غور کیا جائے اور کوئی حل نکالا جائے۔ مغربی پاکستان سے سرحد پار کر کے ۱۹۴۷ء میں بھارت آئے ہندووں کو آج تک شہریت کا نہ ملنا اپنے آپ میں ایک بڑا مسئلہ ہے اور بھارت سرکار کی ناکامیوں میں سے ایک بڑی ناکامی ہے۔ موجودہ سرکار کے بارے میں خود سنگھ پریوار کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آٹھ سو سال میں یہ ہندووں کی پہلی سرکار ہے تو اس سے ہم امید کرسکتے ہیں کہ سیاست کے جال میں اس مسئلے کو الجھانے کے بجائے انسانی بنیاد پر اس جانب توجہ دے گی۔ حالانکہ مرکز میں اٹل بہاری واجپائی بھی آئے تھے اور انھوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دیا تھا۔ اگر یہ مسئلہ مسلمانوں کا ہوتا یا عیسائیوں سے جڑا ہوا ہوتا تو بی جے پی سرکار پہلو تہی کرسکتی تھی مگر ایسا ہے نہیں ۔ یہ تمام رفیوجی ہندو یا عیسائی ہیں اور آزادی کے بعد سے بھارت کی شہریت کے منتظر ہیں مگر انھیں آج تک شہری حقوق حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ حالانکہ تقسیم وطن کے وقت جو لوگ بھارت آئے تھے انھیں فوراً شہریت مل گئی تھی نیز بعد کے دور میں جب بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تھا تب بھی بڑی تعداد میں لوگ مغربی بنگال آئے تھے اور انھیں بھی بھارت کی شہریت دے دی گئی تھی مگر کتنی عجیب بات ہے کہ تقسیم وطن کے بعد ہی بھارت آنے والے ان ہندووں کو شہریت نہیں ملی جو جموں میں آکر بس گئے تھے اور آج حالات ایسے ہیں کہ اگر انھیں ریاست جموں و کشمیر کا شہری مان لیا جائے تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوسکتا ہے اور کشمیر کے امن وامان کو آگ لگ سکتی ہے۔ آج یہ مسئلہ حساس ہوچکا ہے اور اس میں پیچیدگی بھی آگئی ہے۔ حال ہی میں ایک جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی نے انھیں شہریت دینے کی سفارش کی ہے اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے جموں وکشمیر کے گورنر کو لکھا ہے کہ انھیں شہریت دی جائے مگر ایسا لگتا نہیں ہے کہ ان کا مسئلہ حل ہونے والا ہے کیونکہ وادی مین اس کی مخالفت شروع ہوچکی ہے اوراگر یہ معاملہ آگے بڑھا یا گیا تو اس آگ میں شدت آسکتی ہے۔ کوئی بھی سرکار نہیں چاہے گی کہ کشمیر میں ایک بار پھر آگ لگے اور وہی دور واپس آئے جس سے بہت مشکل سے نکلنے کا موقع ملا ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ جیت گئی تو انھیں شہریت دلوائے گی مگر اب یہ مسئلہ ٹیڑھی کھیر بن گیا ہے جسے حلق سے اتارنا آسان نہیں ہے۔وہ چاہتی ہے کہ انھیں جموں کی شہریت دلوائے کیونکہ اس سے یہاں چار اسمبلی سیٹیں بڑھ سکتی ہیں اور یہ اسی کے حصے میں آئیں گی مگر اس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں جس سے وہ خوفزدہ ہے۔  

کون ہیں یہ رفیوجی؟

    جموں  کے سانبہ اور کٹھوعہ میں رہنے والے یہ رفیوجی اصل میں پاکستان کے سیال کوٹ اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے آئے تھے ۔ ان میں سبھی ہندو اور سکھ ہیں۔ یہ سبھی ایس سی۔ایس ٹی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ۱۹۴۷ء میں جب سیالکوٹ علاقے میں ہندووں کے خلاف فساد شروع ہوا اور ان کا یہاں رہنا سہنا مشکل ہوگیا تو یہ لوگ جموں چلے آئے۔ عام طور پر جو لوگ اس دور میں بھارت آئے تھے انھیں یہاں کی شہریت مل گئی تھی مگر ان کا مسئلہ پیچیدہ اس لئے بن گیا کہ یہ جموں وکشمیر میں آئے تھے جس کی نوعیت اور بھارت کے ساتھ الحاق میں کئی قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ ریاست کو باقی ملک سے انفرادی حیثیت دیتی ہے دفعہ ۳۷۰۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ان رفیوجیوں کو جموں وکشمیر کا شہری کیسے ماناجاسکتا ہے؟ ان لوگوں کی مالی حیثیت اچھی نہیں ہے اور کم پڑھے لکھے لوگ ہیں لہٰذا اپنے حق کے لئے لڑنا بھی ان کے لئے آسان نہیں ہے تاہم۵۳سالہ لبا رام گاندھی کی قیادت میں یہ لوگ ایک مدت سے اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مسئلے کی پیچیدگی کا اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں لوک سبھا میں ووٹ دینے کا حق ہے مگر ودھان سبھا الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ ریاستی سرکار کے تحت چلنے والے کسی بھی اسکول میں ان کے بچوں کا داخلہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کی کسی اسکیم سے یہ فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ تاہم مرکزی سرکارکی ایس سی ایس ٹی کی اسکیموں سے انھیں مستفید ہونے کا حق حاصل ہے۔ ابتدا میں صرف پانچ ہزار خاندان یہاں آئے تھے مگر اب ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے اور ان کی آبادی تین لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔انھیں یہاں کی شہریت دینے میں جو قانونی اڑچن ہے اس کے بارے میں کشمیر کے ایک قانون داں ظفر شاہ کا کہنا ہے کہ ریاست کا اپنا الگ آئین ہے جو باقی بھارت سے الگ ہے ایسے میں مرکزی سرکار انھیں یہاں کی شہریت دینے کا فیصلہ نہیں کرسکتی ہے۔ حالانکہ انھیں شہریت دیا گیا تو پھر دوسرا مسئلہ آئے گا جموں میں اسمبلی سیٹیں بڑھانے کا اور اس کی بھی مخالفت ہوگی کیونکہ طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔جب کہ لبّارام گاندھی کا کہنا ہے کہ جب پنجاب کے لوگ جموں میں کارخانے لگاسکتے ہیں اور یہاں کی شہریت پاسکتے ہیں تو ہمیں کیوں نہیں مل سکتی۔ کیا قانون صرف غریبوں کے لئے ہے؟ وہ مزید بتاتے ہیں کہ یہ رفیوجی کچھ دن جموں میں رہنے کے بعد پنجاب جارہے تھے کہ شیخ عبداللہ نے انھیں روک لیا تھا اور کہا تھا کہ ہم تمہیں شہریت دیںگے مگر آج تک انھیں شہریت نہیں مل پائی۔

کشمیر میں اسرائیل؟

    مغربی پاکستان کے ان رفیوجیوں کو شہریت دینے کے بارے میں وادی میں مثبت رائے نہیں ہے۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو لگتا ہے کہ اگر یہاں ہندووں کی آبادی میں اضافہ ہوا تو وہ اقلیت میں آجائینگے اور چین کے زنجیانگ علاقے میں جو مسلمانوں کی حالت ہوئی ویسی ہی ان کی حالت ہوجائے گی۔ اسی خوف کی وجہ سے وہ انھیں شہریت دینے کی مخالفت کر رہے ہیں۔حریت کانفرنس (گیلانی) کی طرف سے اس مسئلے میں بہت ہی سخت رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جس طرح سے عرب کے سینے میں سرائیل کا خنجر اتارا گیا اسی طرح کشمیر میں بھی ایک اسرائیل بسانے کی سازش رچی جارہی ہے۔ حریت کے ترجمان کے مطابق ہولو کاسٹ یوروپ میں ہوا اور سزا عربوں کو دی گئی، اسی طرح تقسیم وطن کی سزا کشمیریوں کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مغربی پاکستان کے رفیوجیوں کو اگر یہاں ووٹ دینے کا حق دیا گیا تو اس کے نتائج سنگین ہونگے۔ ایسی سوچ صرف علاحدگی پسندوں کی ہی نہیں ہے بلکہ مین اسٹریم کے لیڈروں کی بھی ہے اور وہ رفیوجیوں کو شہریت دینے کی بات کو مسلم اکثریتی کشمیر کے خلاف سنگھی سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئر رشید نے تو ایک بڑی ریلی کرکے مرکزی سرکار کو دھمکی دے ڈالی ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو حالات بدتر ہوجائینگے لہٰذا مرکزی سرکار آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے۔ ان کی ریلی میں نعرے لگائے گئے ’’عمر مفتی ایک ہوجائو، رفیوجیوں کو ریاست سے بھگائو‘‘ ’’حریت والو ایک ہوجائو ریاست سے رفیوجیوں کو بھگائو‘‘۔اسی طرح نیشنل کانفرنس کے علی محمد ساگر بھی اسے کشمیریوں کے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔  

مرکزی سرکار کیا کر رہی ہے؟

    مرکزی سرکار نے مغربی پاکستان کے رفیوجیوں کو بسانے کا تہیہ کیا ہوا ہے لہذا جہاں اس نے ریاستی سرکار سے کہا ہے کہ قانون میں ترمیم کرکے انھیں شہریت دی جائے وہیں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ان کے ہر خاندان کو تیس تیس لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی کے ساتھ مرکزی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ ترک وطن کرنے والے کشمیری پنڈتوں کو جو جو سہولیات حاصل ہیں وہی تمام سہولیات ان رفیوجیوں کو بھی حاصل ہونگی۔انھیں فوج میں نوکری دینے اور دوسری سرکاری ملازمتوں میں شامل کرنے کا پلان بھی مودی سرکار نے بنایا ہے۔  ان کی بازآبادکاری کے لئے مرکز کئی اقدام کر رہا ہے مگر جہاں تک انھیں ریاست کی شہریت دینے کی بات ہے وہ ایک حساس معاملہ ہے اور آگ سے کھیلنے جیساہے۔ اس لئے مرکز ریاست کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ یہ مسئلہ آج تک حل نہیں ہوا، اور اس کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ یہ لوگ جموں وکشمیر میں رہ رہے ہیں اور مرکز کی کسی سرکار نے نہیں چاہا کہ یہ لوگ ریاست چھوڑ کرکہیں اور  جائیں۔ حالانکہ اس کا درمیانہ راستہ یہ تھا کہ انھیں پنجاب کے علاقے میں بسا دیا جاتا وہاں وہ مسائل درپیش نہیں آتے جو یہاں درپیش آرہے ہیں مگر آج چونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے لہذا بے حد حساس ہوگیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو انسانیت کی بنیاد پر دیکھا جائے۔ ان لوگوں کو ووٹر کے بجائے انسان سمجھا جائے۔  


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 607