donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> South Asia
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Sajid Khakwani
Title :
   Mulk China Ka Sale Nau

ملک چین کاسال نو

"Guo Nian"

(   19فروری2015، چین میں آمدسال نواور جشن بہاراں کے موقع پر خصوصی تحریر)

از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی

drsajidkhakwani@gmail.com


    چین میں سال نو کی آمد پر جشن بہاراں کا تہوار تائیوانی تہذیب میں سب سے اہم تہوار تصورکیاجاتاہے،چین میں اس کانام ’’چینی سال نو‘‘ہے،جبکہ چین سے باہر اسے تائیوانی جشن بہاراں کانام بھی دیاجاتاہے۔مشرقی ایشیاکایہ قدیمی تہوار سال کے آغازپر پہلے مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع ہوتاہے اور پندرہ دنوں تک اس کی تقریبات زندہ رہتی ہیں،پہلے ماہ کی ہی پندرہ تاریخ کو’’لالٹین میلے‘‘میں اس پندرہ روزہ تہوار کااختتام ہوجاتاہے۔اس طویل تہوارکاایک خاص موقع ایک رات کا عشائیہ ہوتاہے جس کاانعقادوسیع پیمانے پر کیاجاتاہے اور اس عشائیے میں روایتی کھانے تیار کیے جاتے ہیں اور دسترخوان پر چنے جاتے ہیں ،ان کھانوں میںبطخ،مرغی،خنزیرکاگوشت اور بعض مقامات پر مچھلی بھی شامل ہوتی ہے اورمیٹھابھی ضروری خیال کیاجاتاہے۔یہ عشایہ ایک طرح کے پورے خیش قبلیے کا سالانہ عشائیہ ہوتاہے جس میں تمام افراد شریک ہوتے ہیںاوررات گئے تک آگ کے کنارے اس عشائیہ کی تقریبات چلتی رہتی ہیں۔تقریب کے آخر میں بعض لوگ عبادت گاہ کی طرف بھی سدھارجاتے ہیںاور رات کے بقیہ میں سے کچھ وقت وہاں گزارتے ہیں۔یہ تہوار خاص طورپر خاندان والوں کے لیے اور خاندانی بزرگوں سے ملنے کے لیے مخصوص ہوتاہے اور اس عشایئے کے لیے خاندان کی سب سے بزرگ ہستی کے گھرکا یااسی کے گھرسے قریب ترین جگہ کا انتخاب کیاجاتاہے۔عشائیہ کے آخر میں تمام شرکا کی تصویر بھی لی جاتی ہے اور تصویرکے لیے خاندان کے سب سے بوڑھے مردکو درمیان میں بٹھایاجاتاہے۔اس موقع پر چین اور تائیوان میںعام تعطیل بھی ہوتی ہے۔ چین میں رہنے والے اور دوسری دنیاؤں میں بسنے والے چینی باشندوں کے علاوہ ہانک کانگ،ماکو،تھائی لینڈ، کوریا،جاپان ،نیپال،بھوٹان،ویت نام،فلپائن اورسنگاپورکی تہذیبی تقریبات میں بھی اس تہوارکے اثرات ملتے ہیں۔خاص طور پر ’’ہان تہذیب‘‘کی باقیات جہاں جہاں بھی موجود ہیں وہاں یہ تہوار پورے مذہبی و ثقافتی جوش و خوش سے منایاجاتاہے۔

    چین کے باشندے اس تہوار کا بہت بے چینی سے انتظار کرتے یں،اس موقع پر نمائشی اشیااورتحفوں کی خریدوفروخت پر بے پناہ وسائل خرچ کیے جاتے ہیںاور لوگ دل کھول کر اپنی جیبیں خالی کرتے ہیں۔مختلف قسم کے کھانے تیارکیے جاتے ہیں اور مرد،خواتین اور بچے اپنے لیے نئے نئے کپڑے سلواتے ہیںاورنئے جوتے خریدتے ہیںتاکہ تہوار کے موقع پر دیدہ ذیب نظر آئیں۔تمام گھروں میں خوب خوب اور رگڑ رگڑکرصفائیاں کی جاتی ہیں اور آمدسال نو کے موقع پر ہر طرح کے میل کچیل کو گھرسے نکال دینے کو ایک نیک مذہبی شگون کادرجہ حاصل ہوتاہے۔دروازوں اور کھڑکیوں کو سرخ رنگ کے خوبصورت نمائشی کاغذوں کے کٹتیوںسے آراستہ کیاجاتاہے،ان کٹتیوں پرسال نوکی آمد کے حوالے سے خوشی،خوش بختی،دولت اور طویل العمری کے بارے میں خوبصورت تحریریں بڑے دلکش انداز سے تحریر کی گئی ہوتی ہیںجبکہ بعض لوگ اس موقع پر سارے گھرکو سرخ رنگ سے قلعی کرواتے ہیں۔بچوں کو سرخ لفافوں میں کرنسی ڈال کر عیدی کے طورپر دی جاتی ہے جبکہ بڑوں کے لیے یہ تہوار سال بھر کی رنجشوں اور ناراضگیوں کے خاتمے کا باعث بھی بن جاتاہے۔اور اس موقع پر ایک دوسرے کوصحت اور خوشی کی مبارک بھی دی جاتی ہے۔اس تہوار کے موقع پر سرخ رنگت کے پیچھے ایک روایتی کہانی کارفرماہے،چینی سال کاآغازایک جنگلی جانور’’نیان‘‘سے لڑائی کے ساتھ ہوتاتھا۔نیان ہر سال کے پہلے دن گاؤںپر حملہ کرتاتھاتاکہ پالتوجانوروں کوکھائے،فصلوں کو اجاڑے اورکاشتکاروںکواوران کے بچوں کوہڑپ کرکے اپنے پیٹ کاایندھن بھرے۔گاؤںکے لوگ’’نیان‘‘سے بچنے کے لیے سال کی پہلی رات اپنے گھروںکے دروازوں پر خوراک رکھ دیاکرتے تھے جس کے باعث نیان وہی خوراک کھاکر واپس چلاجاتاتھااوران کی بچت ہو جاتی تھی۔ایک دفعہ لوگوں نے دیکھاکہ نیان ایک بچے سے ڈرکر بھاگاچلاجارہاہے کیونکہ بچے نے سرخ رنگت کے کپڑے زیب تن کیے رکھے تھے،تب سے گاؤں والوںنئے سال کے آغاز پر سرخ رنگ کو اپنا لیا،اب وہ اپنے گھروں اور کھڑکیوںکوسرخ رنگ دیتے ہیں اور سرخ رنگ کاہی لالٹین جلاتے ہیں چنانچہ تب سے نیان نے حملہ کرنا چھوڑ دیاہے۔اب نیان کو چین کے قدیم دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا’’ہونگ جن لوذو‘‘((Hongjun Laozuنے گرفتارکررکھاہے اور یہ دیوتا نیان پر سواری بھی کرتاہے۔

    پندرہ روزہ تہوارکاپہلادن آسمانی خداؤں اور دیوتاؤں کو خوش آمدید کہنے کادن ہوتاہے،پہلی تاریخ کاآغازچونکہ نصف شب کو ہوجاتاہے اس لیے رات گئے سے ہی روشنیوں کاانتظام کرلیاجاتاہے اور بڑے بڑے بانس جلتے رہتے ہیںاور آتش بازی بھی کسی حد تک جاری رہتی ہے،اس ساری تگ و دو کامقصد ’’نیان‘‘کو دوررکھناہے۔بدھ مذہب کے ماننے والے سال کے اس پہلے دن گوشت سے پرہیزکرتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق اس سے طوالت عمری ملتی ہے۔بدھوں کے مطابق سال کا پہلا دن ان کے ایک دیوتا’’بدائی لولان‘‘کے جنم کادن بھی ہے۔تہوارکے دوسرے دن شادی شدہ خواتین اپنے میکے جاتی ہیںجبکہ چینی تہذیب میں خواتین کے میکے جانے کو عموماََپسند نہیں کیاجاتااورسخت معیوب سمجھاجاتاہے لیکن سال کادوسرادن شادی شدہ خواتین کے لیے اس لحاظ سے پرمسرت دن ہوتاہے کہ وہ اپنے والدین،بزرگوں اور دیگر نسبی رشتہ داروں سے ملنے کے لیے خصوصی طور پراپنے آبائی علاقے چلی جاتی ہیں۔سال اور تہوار کے دوسرے دن بعض بے روزگاریا منگتوں نے دولت کے دیوتاکی تصویراٹھائی ہوتی ہے اور گھرگھرخوش بختی کی صدائیں دیتے ہوئے گزرتے ہیں جبکہ گھروالے کچھ سکے بطورخوش قسمتی دولت کے ان کی نذرکردیتے ہیں۔بعض مذہبی روایات کے مطابق سال کادوسرادن کتوں کی پیدائش کادن ہے ،چنانچہ اس دن کتوں کے نصیب بھی کھلے رہتے ہیں۔تہوارکاتیسرادن غریب شیطان کا دن کہلاتاہے اور بعض علاقوں میں اسے سرخ منہ والا دن یا سرخ کتے کا دن بھی کہتے ہیں،یہ سب استعارات نحوست کی نشاندہی کرتے ہیں چنانچہ تیسرے دن کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملتی اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی دبکے رہتے ہیں۔جدید چین کے اکثر علاقے چوتھے دن سال نو کی تقریبات ختم کر کے تواپنی اپنی ذمہ داریوں پر لوٹ آتے ہیں لیکن باقی ماندہ افراد تہوار کے پندرہ دن پورے کرتے ہیں۔

    پانچواں دن دولت کے دیوتاکا جنم دن سمجھاجاتاہے اور گھروں میں عمدہ پکوان تیارکیے جاتے ہیں،ساتواں دن سب لوگوں کی زندگی کو ایک سال کااضافہ عطاکرتاہے اور آج کے دن سب لوگ اب ایک سال اور بڑے ہوگئے ہیں،بدھوں کے ہاں ساتویں دن بھی گوشت سے پرہیزکیاجاتاہے۔آٹھواں دن خاندان کے ساتھ رات کے کھانے کادن ہوتاہے ۔نواں دن دعاؤں کا دن ہوتاہے اور ہرکوئی اپنی مراد یںمانگتاہے۔تیرہواں دن چین کے عسکری دیوتاکادن ہے اس دن صرف سبزیاں کھائی جاتی ہیں تاکہ کئی دنوں سے بھراہواپیٹ صاف ہو سکے۔آخری اور پندرواں دن ’’لالٹین میلا‘‘ کہلاتاہے گھروں کی دیواروں پر موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں اور خاندان بھرکے لوگ اپنے ہاتھوں میں لالٹین لے کر رات کے اندھیروں میں گلی میں نکلتے ہیں ۔سال نوکے تہوار کایہ آخری دن ہوتاہے۔بعض مقامات پر یہ پندرہ دن مکمل طورپر منائے جاتے ہیں جبکہ بعض مقامات پر ان سے کم ایام میں یہ تہوار اختتام پزیر ہوجاتاہے۔ان تمام ایام میں موسیقی بھی مکمل طورپر انسانوں کاساتھ دیتی ہے اور مقامی زبانوں میں سال نو کے خوش آمدیدی گیتوں سے تمام تقریبات گونجتی رہتی ہیں۔اس تہوار کی آمد سے کئی دن پہلے سے تیاریاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں اوربچے  بچیاںموسیقی کی دھن پر نغموں کی مشق کرتے ہیں۔تمام تہواروں کے دوران سرخ ہیرے کانشان گھروں کے ماتھے پر لٹکارہتاہے جو خوش بختی کانشان سمجھاجاتاہے۔

    خوشی اور غمی کے مواقع کی فراہمی تمام مذاہب کے درمیان قدر مشترک ہے۔سیکولرازم اور مذہبی تعلیمات میں یہی فرق ہے کہ مذہبی تعلیمات جوانوں کو اپنے بزرگوں سے قریب کرتی ہیں،خاندانوں کو جوڑتی ہیں اور انسانوں سے پیارکرنا سکھاتی ہیںجبکہ سیکولرازم میں بوڑھے افراد کنارے لگادیے جاتے ہیں،خاندان کی اکائی کو سیکولرازم نے ’’آزادی نسواں ‘‘کے نام پر آزادی زناکی بھینٹ چڑھادیاہے اور انسانیت کے نام پر اس سیکولرمغربی تہذیب نے قتل و غارت گری اور خون کی ہولی کے بازارگرم کیے ہیں۔تمام مذاہب وحی کے مقدس ذریعے سے اس زمین پر نازل ہوئے لیکن بعد میں آنے والوں نے کل مذاہب میں اپنی پسندوناپسند اور اور اپنے طبقے کی برتری سے مذاہب کی مقدس تعلیمات کو آلودہ کردیااورتوحیدکی جگہ شرک کواور فکرآخرت کی جگہ ہوس نفس کومذاہب کی تعلیمات داخل کردیا۔آخرمیں خالق کائنات نے اپنے آخری نبیﷺ اور آخری کتاب نازل فرمائی اورتمام گزشتہ مذاہب کی تعلیمات کاخاصہ و خلاصہ اس کتاب قرآن مجیدمیں نازل فرمادیااور اس پر عمل کرنے کے لیے آخری نبیﷺ کی اطاعت کی شرط عائد کردی۔اب یہ کل انسانیت کو دعوت ایمان و عمل ہے کہ اس آخری دین کی ٹھنڈی چھاؤں میںاپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو آسودگی و راحت سے آراستہ کریں اور دنیاو آخرت میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت حاصل کر لیں۔

(یو این این)

**********************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 682