donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aakhir Kaun Tha Aurangzeb Alamgir


ظالم وجابر حکمراںیا تاریخ کے ظلم کا شکار


آخر کون تھا اورنگ زیب عالمگیر؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    اورنگ زیب عالم گیر کون تھا؟ کیا اس نے واقعی ہندووں پر مظالم ڈھائے تھے یا وہ بدنام ہوکرتاریخ کے ظلم کا شکار ہوگیا؟ آخر کیا سبب ہے کہ اسے سنگھ پریوار ایک سخت گیر او رشدت پسند مسلم بادشاہ کے طور پر پیش کرتا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے ایک طبقے میں اس کے تئیں انتہائی عقیدت پائی جاتی ہے اور اس کے نام کے ساتھ ’رحمۃ اللہ علیہ‘ لگایا جاتا ہے؟ بھارت پر ایک طویل مدت تک حکومت کرنے والا اور ملک کی سرحد کو ایران تک پہنچانے والا اورنگ زیب آج تاریخ کی ایک متنازعہ شخصیت بن چکا ہے اور ایک طبقے میں اس کے خلاف نفرت کا ایسا جذبہ پیدا کردیا گیا ہے کہ اس کے نام پر سڑک کا نام بھی گوارا نہیں ہے۔ حالانکہ اس مغل حکمراں کی نام پر سیاست کرنے کے بجائے اس کی شخصیت کو تاریخی حوالوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

کون ہے اورنگ زیب عالم گیر؟

    ابو مظفر محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر (4 نومبر 1618 - 3 مارچ 1707) جسے عام طور پر اورنگ زیب یا عالمگیر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ہندوستان پر راج کرنے والا چھٹا مغل حکمران تھا۔ اس کی حکومت 1658 سے لے کر 1707 میں تک رہی اور اس کی موت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوا۔ اورنگزیب نے برصغیر پر آدھی صدی سے زیادہ وقت تک حکومت کیا اور تب سے اب تک اس ملک پر کسی بھی حکمراں نے اتنی طویل حکمرانی نہیں کی ۔ وہ اکبر کے بعد سب سے زیادہ وقت تک حکومت کرنے والا مغل حکمران تھا۔ اپنی زندگی میں اس نے جنوبی ہندکو مغل سلطنت کا حصہ بنایا اور اسے آسام سے افغانستان تک وسیع کیا مگر اس کی موت کے بعد سلطنت کا دائرہ سمٹنے لگا۔اورنگزیب کی حکومت میں مغل سلطنت کی توسیع نکتہ عروج پر پہنچی۔ اس نے مغل سلطنت کا رقبہ ساڑھے بارہ لاکھ مربع میل میں پھیلایا اور 15 کروڑ لوگوں پر حکومت کی جو اس وقت دنیا کی آبادی کا پچیس فیصد تھا۔اونگ زیب کے دور میں بھارت کی سرحد جس قدر وسیع وعریض تھی ،کبھی نہیں رہی۔موجودہ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان اس کی عظیم سلطنت کا حصہ تھے۔

اورنگ زیب کی زندگی

    اورنگزیب کی پیدائش گجرات میں ہوئی تھی اور وہ شاہ جہاں و ممتاز کی چھٹی اولاد اور تیسرا بیٹا تھا۔اورنگ زیب کی پیدائش کے وقت شاہجہاں گجرات کا صوبیدار تھا۔ جون 1626 میں جب اس کے والد کی طرف سے کی گئی بغاوت ناکام ہو گئی تو اورنگ زیب اور اس کے بھائی دارا شکوہ کو اس کے دادا جہانگیر کے لاہور والے دربار میں یرغمال رکھا گیا۔ 26 فروری 1628 کو جب شاہ جہاں کو مغل شہنشاہ قرار دیا گیا تب اورنگزیب آگرہ قلعہ میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لئے واپس لوٹا۔ یہیں پر اورنگ زیب نے عربی اور فارسی کی رسمی تعلیم حاصل کی اور اس کی تربیت ہوئی۔ اس کے اساتذہ میں عہد کے نامور عالم دین ملاجیون بھی شامل تھے۔

اورنگ زیب کی سیاسی زندگی

    مغلوں کی روایت کے مطابق، شاہ جہاں نے 1634 میں شہزادہ اورنگزیب کو دکن کا صوبیدار مقرر کیا اور پھر دوسرے کئی صوبوں کا گورنر بھی بنایا گیا۔ اسی دوران اس نے اپنے بیٹے دارا شکوہ کو مغل دربار کا کام کاج سونپنا شروع کیا۔بادشاہ اسی شہزادے کو اپنا جانشیں بنانا چاہتا تھا جو اورنگ زیب کو پسند نہیں تھا۔ 1652 میں شاہجہاں بیمار پڑا اور ایسا لگنے لگا کہ شاہ جہاں کی موت ہونے والی ہے۔ اس بیچ دارا شکوہ، شاہ جہاں اور اورنگزیب میں اقتدار کے لئے کشمش شروع ہوگئی۔ 1659 میں اورنگزیب نے شاہ جہاں کو قید کرنے کے بعد اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔ دارا شکوہ کو پھانسی دے دی گئی جو کہ تخت وتاج کا دعویدار تھا۔اورنگ زیب نے اگر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی تو اس میں کچھ نیا نہیں تھا۔ بادشاہوں کی تاریخ میں اس قسم کے واقعات عام ہیں۔ خود شاہجہاں نے بھی اپنے باپ جہانگیرکے خلاف بغاوت کی تھی اور جہانگیر نے اکبر کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا۔اورنگ زیب کے خلاف اس کی بیٹی نے بھی سازش رچی تھی مگر یہ بغاوت کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔

 ظالم یا مظلوم؟

    مغل سلطنت کا سب سے طاقتور بادشاہ اورنگزیب تاریخ کے صفحات میں درج ایک ایسا حکمران ہے جس کی حکومت کے قصے صدیوں بعد ایک بار پھر فضائوں میں گونج رہے ہیں۔اورنگزیب نے اپنی سلطنت میں رہنے والے غیرمسلموں پر جزیہ لگایا۔ ا س پر الزام ہے کہ اس نے غیرمسلموں کو بھی شریعت کا پابند کرنے کی کوشش کی اور کئی ہندو مذہبی مقامات کو تباہ کیا نیز سکھ گورو تیغ بہادر کا قتل کروا دیا۔اسی کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی سادہ زندگی جیتا تھا اور قرآن کی کتابت اور ٹوپی بن کر روزگار حاصل کرتا تھا۔ حالانکہ مؤرخ عرفان حبیب کہتے ہیں کہ ٹوپی سل کر گزارا کرنے والی بات غلط ہے البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مستعد تھا کام بہت کرتا تھا۔ سرکاری کاغذات ہمیشہ خود دیکھتا تھا۔اس دور کے جو کاغذات ہمیں ملتے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کام بہت کرتا تھا۔‘‘

    اورنگ زیب پر مندروں کے منہدم کرنے کا الزام بھی کبھی ثابت نہیں ہوسکا۔ اس کے برخلاف ایسے مندروں کی ایک طویل فہرست ہے جنھیں اس نے زمین عطیہ کیا تھا۔ اس کے بت شکن ہونے کی بات کی تردید کرتے ہوئے عرفان حبیب کہتے ہیں کہ  ’’اس نے اپنے بیٹے کو ایک خط میں لکھا ہے کہ جب ایلورا سے گزرو تو ایلورا ضرور دیکھو۔ ا یلورا آپ جانتے ہیں ، وہاں مورتیاں ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے جو کہا ہے اس کے لئے اس نے ایک فارسی لفظ استعمال کیا ہے’’مظہر الٰہی‘‘ ۔جس کا مطلب انگریزی میں Devine ہے۔یعنی ایک مسلمان اپنے بیٹے سے کہہ رہا ہ کہ جا کے بتوں کو دیکھو، تو آج کل کے جو طالبان وغیرہ ہیں جنہوں نے مہاتما بدھ کی اتنی بڑی مورتی جلا دی۔ وہ تو کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کوئی مسلمان کہے گا کہ اپنے بیٹے سے کہ جاکرایلورا ضرور دیکھو۔‘‘

    اورنگ زیب نے ہندووں پر ’’جزیہ‘‘لاگو کیا تھا مگر اس کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس کے عہد میں مسلمانوں پر بھی کئی قسم کے ٹیکس نافذ تھے۔ اسی طرح اس نے سکھ گرو تیغ بہادر کا قتل کرایا تھا جس کا سبب بھی سیاسی تھا۔ اپنی حکومت کے لئے خطرہ بننے والے لوگوں کا قتل حکمرانوں کی طرف سے ہوتا رہا ہے۔ اورنگ زیب نے اسی لئے اپنے بھائی داراشکوہ کا قتل بھی کرایا لہٰذا گرو تیغ بہادر کے قتل کا سبب سیاسی تھا ،نہ کہ مذہبی۔

 کیا تاریخ بدل سکتی ہے؟

    آج کل اورنگ زیب روڈ کا بدلنے کے لئے سنگھ پریوار کی طرف سے عجیب وغریب دلیلیں دی جارہی ہیں جس پر عرفان حبیب کہتے ہیں کہ نئی دہلی لٹین زون علاقہ جب بن کر تیار ہوا تھا تب یہاں کی سڑکوں چوکوں اور عمارتوں کے نام انگریز افسروں اور حکمرانوں نہیں بلکہ بھارتی حکمرانوں کے نام پر بھی رکھے گئے تھے۔268 سے 232 قبل مسیح موریہ خاندان کے حکمران اشوک موریہ کے نام پر سڑک کا نام رکھا گیا۔ 12 ویں صدی کے ہندو حکمران پرتھوی راج چوہان، 1325 ء سے 1351ء تک حکومت کرنے والے تغلق خاندان کے محمد بن تغلق اور 1540 ء سے 1545 ء کے درمیان محض 5 سال حکومت کرنے والے شیر شاہ سوری تک کے نام پر لٹینس زون میں سڑکوں کے نام رکھے گئے۔ 1526 ء میں بابر سے شکست کھانے والے لودھی خاندان کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کے نام پر بھی سڑک کا نام رکھا گیا۔مؤرخ عرفان حبیب بتاتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا اور حکمرانوں کے نام پر روڈ کے نام رکھے۔ تاریخ تبدیل نہیں ہوتی نام تبدیل کرنے سے۔

    عرفان حبیب کے برخلاف  سنگھ پریوار کے لوگوں کی اپنی دلیلیں ہیں۔آر ایس ایس کے مفکر سندیپ مہاپاتر بتاتے ہیں کہ ’’اورنگ زیب نے اپنے دور اقتدار میں بہت سے لوگوں کی ہتیا کی، بہت سے لوگوں کو بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا، بہت سے مندروں کو توڑا جیسا کہ میں نے کہا تو تاریخ گواہ ہے کہ اورنگ زیب کس طرح کا حکمران تھا۔ اورنگ زیب ایک کمیونل حکمران تھااگر یہ سچ ہے تو یہ کہاں کا اصول ہے کہ اس کے نام پہ بھارت جو کہ ایک سیکولر اسٹیٹ ہے، سیکولر نیشن ہے اس کے نام پہ اور دہلی جو بھارت کی راجدھانی ہے وہاں پہ ایک راستے کا نام ہو۔‘‘ جب کہ صحافی پون کھیڑا بتاتے ہیں کہ’’ یہ جو آر ایس ایس اور سنگھ پریوار اور بی جے پی کے لوگ ہیں یا اس ذہنیت کے لوگ ہیں یہ گزشتہ 200 سالوں کی تاریخ کی بات کیوں نہیں کرتے جب انگریزوں کی حکومت تھی اور جہاں ان کا کوئی رول نہیں تھا۔ایسے ایک شخص کا نام بتا دیجئے جو سنگھ پریوار کا حصہ رہا ہو اور انگریزوں سے جنگ لڑی ہو۔ مکمل برطانوی حکومت کو بھول یہ براہ راست مسلمانوں پر کیوں جاتے ہیں کیونکہ اس سے انھیں سیاسی فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ آج وہ پولرائز کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بہت سالوں سے کوشش کر رہیں ہے کہ اورنگ زیب کو پرانا ولن بتائیں اور اس کو بنیاد بنا کر یہ سماج کو تقسیم کرتے رہیں ۔

  آرایس ایس کے مفکر راکیش سنہا بتاتے ہیں کہ اورنگ زیب کو اگر یاد کیا جائے گا تو ظلم کے لئے کیا جائے گا، سیکولرزم کو تباہ کرنے کے لئے کیا جائے گا، اور سب سے بڑی بات ہے اس نے بھارتی زندگی کو تباہ کرنے کا کام کیا ہے۔ صرف چار مندر توڑ تا تو اسے معاف کر دیا جاتا، صرف یاتریوں پر ٹیکس لگاتا تو معاف کر دیا جاتا، وہ پورے ہندوستان کو تبدیل کرنا چاہتا تھا لیکن بھارت میں اتنی طاقت تھی، ہندو سماج میں اتنی طاقت تھی کہ اورنگزیب ایسا نہیں کر پایا۔

 سینئر صحافی پون کھیڑا بتاتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ شردھالووں پر اس نے ٹیکس لگائے تھے۔ کب لگائے؟ اس نے بادشاہ بننے کے  21 سال بعد مسلمانوں پر کتنے ٹیکس لگائے تھے؟اور ہندوؤں پر کتنے ٹیکس لگائے تھے؟ تو کیا آپ اس کو کہیں گے اینٹی ہندو؟اس سوال کا جواب نہ میرے پاس جواب ہے اور نہ ہی شاید ان لوگوں کے پاس جواب ہونگے۔ لیکن اس طرح کی سیاست کر نا کہ آج کے مسلمانوں کو آپ کو کوئی میسج دینا چاہ رہے ہیں وہ مجھے بالکل منظور نہیں ہے۔ اگر اورنگزیب ظالم حکمران تھا اس نے اگر ہندوؤں کا قتل کیا، بہت سے لوگوں کو مارا تو اشوک نے کیا کیا۔ اشوک نے بددھست بنایا ہندوؤں کو ۔پھر اشوک روڈ کا نام کیوں نہیں بدلتے۔ بی جے پی کا دفتر اشوک روڈ پر ہے، کیوں اس کا نام تبدیل نہیںکرتے ہیں؟

 سینئر صحافی پون کھیڈا بتاتے ہیں کہ اورنگ زیب کی تاریخ اس وقت کے تناظر میں دیکھی جائے اورنگزیب اپنے بھائیوں سے لڑ رہا تھا۔اس نے اسلام کا سہارا لیا اور بولا کہ اگر داراشکوہ آ جاتا ہے تو اسلام خطرے میںپڑجائے گا۔ اس نے حکومت حاصل کرنے کے لئے سارے ہتھکنڈے اپنائے اور حکومت اسے ملی۔ حکومت ملنے کے بعد اس نے اسلامی لاء کو لاگو کیا تو وہ بالکل اسلامی لیڈر تھا، اس میں کوئی شک کی بات نہیں تھی اور اس میں کوئی بحث کرتا بھی نہیں ہے۔میں پھر کہوں گا کہ تاریخ کو اس وقت کے حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہئے، نہ کہ آج کے حالات کے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 933