donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustan Ke Dil Par Raj Karne Wali Pahli Khatoon Hukmaran Razia Sultana


ہندوستان کے دل پر راج کرنے والی پہلی

 

خاتون حکمراںرضیہ سلطانہ کی تاراج نشانیاں


غوث سیوانی، نئی دہلی


     وہ مردوں کے سماج کو ٹکر دینے کا حوصلہ رکھتی تھی۔ وہ خود کو مردوں سے کم تر نہیں سمجھتی تھی۔ وہ علم وحکمت میں لاثانی تھی اور میدان جنگ میں تلوار چلانے کا ہنر بھی جانتی تھی۔ وہ صرف ظاہری شکل وصورت میں ہی بے مثال نہیں تھی بلکہ کردار کی عظمت بھی اس کے اندر تھی۔ وہ اپنے بھائیوں سے ہر معاملے میں برتر تھی لہٰذا کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ کسی سے دب کر رہے ۔ اس کی انھیں خوبیوں نے اسے ہندوستان پر حکومت کرنے کا حق دیا تھا اوررضیہ نے اس ملک کی اولین خاتون حکمراں بن کر ایک تاریخ رقم کی۔ اس سے پہلے اس ملک میں عورت کی حکمرانی کا کوئی سراغ نہیں ملتا اور اس کے بعد بھی کوئی عورت ہندوستان کی سلطنت پر قبضہ نہیں کرپائی۔ شاید اس کے لئے مردوں کی احساس برتری والی نفسیات اورخواتین کو دباکر رکھنے کا مزاج ذمہ دار رہا ہے۔ حالانکہ مغل بادشاہ کی ملکہ نورجہاں نے پردے کے پیچھے سے اقتدار چلایا اور جنوبی ہند میں چاند بی بی نے جو کارنامے انجام دیئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں مگر رضیہ سلطانہ کی تاریخ بے مثل وبے مثال ہے۔ اس نے سماجی بندشوں کی پروا کئے بغیرمردوںکے دبدبہ والے سماج سے ٹکرانے کا بیڑا اٹھایا ۔ اس کے عزم وحوصلہ کو توڑنے اور اس کے قدموں کو محل کی چہاردیواریوں میں قید رکھنے کے لئے مذہب کا بھی سہارا لیا گیا مگر وہ ہمت وولولہ کا کوہ گراں تھی جس نے کبھی جھکنا نہیں سیکھا تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ وہ اس سلطان التتمش کی سچی جانشیں ہے جس نے جنگوں میں لازوال کارنامے انجام دیئے تھے اور دشمنوں کو دھول چٹانے کا کام کیا تھا۔

 رضیہ کے دور کی سیاست  

    رضیہ سلطانہ، سلطان شمس الدین التتمش کی بیٹی تھی جسے اس نے اپنا جانشیں مقرر کیا تھا۔ اپنے آخری دنوں میں التتمش اپنی جانشینی کے سوال کو لے کر فکر مند تھا۔ التتمش کے سب سے بڑے بیٹے ناصرالدین محمود جو اپنے والد کے نمائندہ کے طور پر بنگال پر حکومت کر رہا تھا، 1229 ئ( اپریل) میں انتقال کر گیاتھا۔یہی شہزادہ قابل اور حکومت کے کام کاج سنبھالنے کے لائق تھا۔  سلطان کے باقی زندہ بیٹے آرام پسند ، عیاش اور بزدل تھے۔ وہ حکومت کے کام کے لائق نہیں تھے لہٰذا  التتمش نے اپنی موت سے قبل اپنی بیٹی رضیہ کو اپنا جانشین مقرر کیا جو اپنے بھائیوں کے برخلاف انتہائی قابل ،ذی شعور ا وردور اندیش تھی۔سلطان التتمش کی موت کے بعد امراء نے رضیہ کے بجائے اس کے ناکارہ بھائی رکن الدین کو تخت پر بٹھا دیا مگر وہ چھ مہینے سے زیادہ حکومت نہیں کرسکا اور رضیہ نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لیا۔رضیہ کے بجائے رکن الدین کو تخت پر بٹھانے کا سبب صرف اور صرف یہ تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی اور امراء کو یہ پسند نہیں تھا کہ ایک لڑکی تخت سلطنت پر بیٹھے۔علماء بھی اس کے خلاف تھے اور عورت کی حکمرانی کو ناپسند کرتے تھے۔ اس کا سبب دین کے احکام سے زیادہ سماجی رواج تھا، جس کے تحت عورت گھر میں قید رہنے اور مردوں کی ماتحت بننے کے لئے پیدا ہوئی تھی۔ کسی عالم کو یہ نظر نہیں آیا کہ قرآن میں ملکہ سبا بلقیس کی حکمرانی کی تعریف کی گئی ہے۔ اگر عورت کی حکمرانی ناجائز تھی تو قرآن نے ملکہ سبا کی تعریف کیوں کی؟ویسے بھی اسلام نے خلافت کا نظام رائج کیا تھا جو بادشاہت میں بدل گیا مگر علماء وقت کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا اور کسی نے یہ آواز نہیں اٹھائی کہ اسلامی طریقہ حکومت خلافت ہے نہ کہ ملوکیت۔رضیہ کو اپنے دور اقتدار میں جن مسائل سے بنردآزما ہونا پڑا،ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ عورت کیسے حکمراں ہوسکتی ہے؟بہرحال رکن الدین کی حکمرانی بہت مختصر وقت کے لئے تھی اور وہ بھی برائے نام تھی کیونکہ حکومت کے کام کاج اس کی ماں سنبھالتی تھی۔ اس کے بعد تخت سلطنت کا کوئی دوسرامرد دعویدار نہ ہونے کے سبب ایک خاتون کو حکومت کی باگ ڈور دینی پڑی اور رضیہ دہلی کی حکمران بن گئی۔رضیہ سلطانہ نے ’’جلالۃ الدین‘‘ کا لقب اختیار کیا جسے ، تاریخ میں عام طور پر ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے 1236 سے 1240 تک ہندوستان پر حکومت کی۔ ترکی الاصل رضیہ کو دیگر شہزادوں اور شہزادیوں کی طرح فوج کی قیادت اور انتظامیہ کے کاموں کی مشق کرائی گئی تھی ، تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کا استعمال کیا جا سکے۔ التتمش، پہلا اور آخری ایسا حکمران تھا، جس نے اپنے بعد کسی عورت کو جانشین مقرر کیا۔

رضیہ کی حکومت

    حکومت کے کاموں میں رضیہ کی دلچسپی اپنے والد کے وقت سے ہی تھی۔ تخت سنبھالنے کے بعد رضیہ نے پرانی روایتوں کے برعکس مردوں کی طرح چغے اور پگڑی پہننا شروع کیا۔رضیہ جنگوں میں بھی پوری مستعدی کے ساتھ شامل ہوتی اور جوانمردی کے ساتھ لڑتی۔ رضیہ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور پالیسیوں کے سبب فوج اور عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی تھی اور وہ دہلی کی سب سے طاقتور حکمران بن گئی تھی۔اس نے اپنا مشیر ایک حبشی سردار یاقوت کو بنا رکھا تھا جسے اس کے ترک امراء پسند نہیں کرتے تھے ۔ان دونوں کے تعلقات کو لے کر سلطنت میں افواہیں بھی گرم تھیں جس پر رضیہ نے زیادہ توجہ نہ دی اور یہ افواہیں اس کے لئے قاتل ثابت ہوئیں۔ اس کے امراء یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے رہتے ہوئے سلطانہ ایک حبشی کو حکومت میں اعلیٰ مقام ومرتبہ دے لہٰذا ان کے اندر حسد ورقابت کی آگ بھی سلگنے لگی۔اسی دوران بھٹنڈا کے گورنر ملک اختیار الدین التونیہ نے رضیہ کی طرف پیغام نکاح بھیجا جسے اس نے نامنظور کردیا۔اس پر التونیہ نے کچھ دوسرے طاقت ورامراء کو اپنے ساتھ ملایا اور سلطانہ کے خلاف بغاوت کردی۔رضیہ اور التونیہ کے درمیان جنگ ہوئی جس میں یاقوت مارا گیا اور رضیہ کو قیدی بنا لیا گیا۔ مرنے کے خوف سے رضیہ نے التونیہ سے شادی کرنا قبول کرلیا۔اس دوران موقع پاکر رضیہ کے ایک بھائی نے تخت پر قبضہ کرلیا۔ رضیہ اور ملک التونیہ نے مل کر جنگ کی مگر وہ شکست کھاگئے اور دہلی چھوڑ کر بھاگ گئے۔دلی کے باہر کیتھل کے مقام پرجاٹوں نے انھیں گھیر لیا اوران کی فوج نے بھی ساتھ چھوڑدیا۔اس جدوجہد میں 14 اکتوبر 1240 کو دونوں مارے گئے۔

 کیسی تھی رضیہ؟

    رضیہ سلطانہ نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت تک بھارت میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک عورت ملک کی بادشاہ بن سکتی ہے مگروہ بن گئی اور اپنے انصاف پسند وباتدبیرباپ کی ہی طرح رضیہ نے ملک میں بڑے ہی شاندار طریقے سے حکومت چلایا۔اس نے اپنے دور میں عوام کے لئے فلاحی کام کئے اور امن وامان قائم رکھا۔ وہ کسی بھی مسئلے میں جلد فیصلہ لیتی تھی اور مجرموں کو سخت سزائیں دیا کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رضیہ کو محبت کی کہانیاں سے نفرت تھی۔ وہ اس قسم کی کہانیوں کو فضول سمجھتی تھی کہاکرتی تھی کہ جب عورت کو گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا ہے تو اسے محبت سوجھتی ہے۔اس نے حکم دے رکھا تھا کہ اس کے سامنے کبھی بھی محبت کی کہانی نہ سنائی جائے،اس کا کہنا تھا کہ میں بزدل اور نکمی نہیں بننا چاہتی۔وہ مذہبی تھی اور اسلام کے احکام پر عمل کرنا پسند کرتی تھی۔ وہ ایسا لباس پہنتی تھی جس میں اس کا پورا جسم چھپا رہے سوائے چہرے کے۔حالانکہ بادشاہ بننے سے قبل اس کا چہرہ بھی  چھپا رہتا تھا۔یہ بات اسے معلوم تھی کہ شادی کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس لئے اس نے شادی نہیں کی تھی۔جنگ میں شکست کے بعدملک التونیہ سے اس نے مجبوراً شادی کی۔

رضیہ کی قبر

     رضیہ سلطانہ کی قبر پر شدید تنازعہ ہے۔ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی قبر کہاں ہے؟ سلطانہ اور اس کے حبشی درباری یاقوت کی قبر کا دعوی تین مختلف جگہوں پر کیا جاتا ہے۔ پرانی دلی میں ایک چھوٹے سے احاطے میں دوقبریں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رضیہ اور یاقوت کی قبریں ہیں۔سرسیداحمد خان کی کتاب ’’آثارالصنادید‘‘میں ’’مقبرہ رضیہ سلطان بیگم‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹاسا مضمون یوں ہے:

    ’’شہر شاہجہاں آباد میں بلبلی خانے کے محلے میں ترکمان دروازے کے پاس ایک ٹوٹی سی چار دیواری اور پھوٹی سی قبر رضیہ سلطان بیگم بنت سلطان شمس الدین التمش کی ہے جو خود بھی چند مدت تخت پر بیٹھی 638 ہجری مطابق 1240 عیسوی معز الدین بہرام شاہ کے وقت میں قتل ہوئی جب یہ مقبرہ بنا مگر اب بجز نشان کے اور کچھ نہیں۔‘‘

    ظاہر ہے کہ جب سرسید کے زمانے میں ہی اس مقبرے کا نام ونشان مٹ گیا تھا تو آج اس کی حالت کیا ہوگی سمجھا جاسکتا ہے۔رضیہ کی قبر تک پہنچنے کے لئے تنگ وتاریک گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور آس پاس اس قدر غلاظت رہتی ہے کہ آنے والے ناک بند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس مختصر سے احاطے کے آس پاس اونچی اونچی عمارتیں ہیں اور لوگوں نے اپنے ایئرکنڈیشنڈ اور کولر اسی سمت میں لگا رکھے ہیں۔تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے اکادکا لوگ ادھر آجاتے ہیں اوریہاں کی بدحالی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ جگہ اے ایس آئی کے زیرنگرانی ہے اور اس قبر سے ہندوستان کی تاریخ کا اہم باب وابستہ ہے مگر حکومت کی طرف سے کبھی ایسی کوشش نہیں ہوئی کہ اس طرف سیاحوں کو راغب کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 574