donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tareekhi Paare
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustan Ki Jange Azadi Aur Tahreek Khelafat


ہندوستان کی جنگ آزادی اورتحریک خلافت


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ہندوستان کی جنگ آزادی کے ساتھ ساتھ تحریک خلافت بھی چلتی رہی ۔خواہ اس تحریک کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ ملی ہو مگر اس سے ملک کی تحریک آزادی میں مدد ضرور ملی۔ مسئلہ خلافت اگرچہ خالص دینی معاملہ تھا مگر اس میں وہ غیرمسلم حضرات بھی مددگاربنے جو جنگ آزادی میں شریک تھے۔اس طرح یہ تحریک ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت بھی بن گئی تھی۔ ہندوستان میں تحریک خلافت اس وقت شروع ہوئی جب یہاںکے مسلمانوں نے محسوس کرلیا کہ اب برطانیہ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جب پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ ہواتو لوگوں کو سمجھ میں آنے لگا تھا کہ اب ترکی کی خیر نہیں۔ کیونکہ اس نے اس جنگ میں جرمنی کا ساتھ دیا تھااور وہ شکست کھانے والے گروہ میں تھا۔ برطانیہ اور ا سکے حواریوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ شکست کھانے والے ممالک کی بند بانٹ ہوگی اور ان پر پابندیاں عائد کی جائیں گی اور ترکی ا سلئے بھی سرفہرست تھا کہ وہ ایک مسلم ملک تھا اور دارالخلافہ ہونے کی حیثیت سے اس پر مخالفین کی نظر تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ جسے خلافت کہاجاتا ہے وہ دراصل ملوکیت تھی۔ ترکی نے بار بار مغرب کوشکست سے ہم کنار کیا تھا اور صدیوں تک اس نے مشرق کے شہ دروازے کی نگہبانی کی تھی۔ مغربی ملکوں کو اس کا دیا ہوا زخم بار بار ٹیس دیتا تھا اور اب تو وہ موقع تھا جب انھیں لگتا تھا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آچکا ہے۔ برطانیہ دنیا پر راج کررہا تھا اور اس کی سلطنت دنیا میں بے مثل تھی۔ اسی کے ساتھ دنیا کے سیاسی افق پر امریکہ کا سورج بھی طلوع ہونے لگا تھا اور دونوں میں زبردست اتحاد تھا۔ یہی وہ حالات تھے جنھوں نے ترکی کے لئے مشکل حالات پیدا کردیئے تھے۔ ترکی اور خلافت عثمانیہ کے خیر خواہ دونوں ہی ان حالات سے پریشان تھے اور اسی کا نتیجہ تھی ہندوستان میں خلافت تحریک۔ جسے یہاں کے کروڑوں مسلمانوں کی حمایت حاصل تھی اور برادران وطن بھی اس تحریک میں ان کا ساتھ دے رہے تھے۔

تحریک خلافت کا پس منظر

    ۱۹۱۹ء کے آس پاس یہاں کے مسلمانوں نے اس کا آغاز کیا جس میں سب سے پیش پیش تھے مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی۔ اسے انڈین نیشنل کانگریس اور اس کے ہندو لیڈروں نے بھی حمایت دی اور دونوں کے جلسے اکثر ایک ہی پنڈال میں ہوا کرتے تھے۔ مہاتما گاندھی اور پنڈت موتی لعل نہرو اس کے سرگرم حامیوںمیں شامل تھے۔ خلافت تحریک ایک خالص مذہبی تحریک تھی اور اس کا مقصد تھا خلافت عثمانیہ کا تحفظ۔ خلافت کا مطلب تھا اسلامی طرز حکومت اور مسلمانوں کی اجتماعی لیڈر شپ۔ عام مسلمان تو بکھرائو کا شکار تھے اور ان کی حقیقتاً کوئی لیڈر شپ نہیں تھی مگر ایک علامتی خلیفہ ترکی میں موجود تھا جو اس بات کی علامت تھا کہ مسلمان متحد ہیں یا ان کا ایک مرکز ہے۔ انگریزوں کویہ بھی گوارا نہ تھا کہ مسلمانوں کی کوئی علامتی لیڈر شپ رہے اور وہ ترکی کی خلافت کو ختم کرکے اس کے علاقوں کو تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ابن سعود کو پیدا کردیا تھا جو خطہ عرب میں ان کے مفادات کا نگہبان تھا۔ عرب اور عراق تک اس کی حکومت قائم تھی جس کے خلاف پہلے عرب قوم پرستی کی تحریک شروع کی گئی جس کے پس پشت مسلم قوم پرستی کو ختم کرنے کا پلان تھا اور اس میں برطانیہ و اس کے حواری کامیاب بھی ہوئے۔ مغربی ملکوں کے منشا کو تمام مسلمانوں نے بھانپ لیا تھا ااور اس کے خلاف انھوں نے تحریک خلافت شروع کردی تھی۔ یوں تو سنٹرل ایشیا میں بھی مسلمانوں کی طرف سے ترکی کے بندر بانٹ اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے خلاف آواز اٹھ رہی تھی مگر ہندوستان میں اس کے خلاف زبردست تحریک شروع ہوچکی تھی۔ ان دونوں علاقوںکے مسلمانوں سے خود آخری عثمانی تاجدار خلیفہ عبدالحمید دوئم کو بھی بہت امید تھی، جس کا اظہار انھوں نے اپنی ایک ڈائری میں کیا ہے:

    ’’وہ ایشیا میں پندرہ کروڑ مسلمانوں پر حکومت کرتے تھے، یہ لوگ خلافت عثمانیہ کے حامی تھے۔ مجھے اس صورتحال کی خبر تھی۔ میں نے وسط ایشیا اور دوسرے ملکوں کے مسلمانوںکے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کے لئے بہت سے معزز اصحاب، شیوخ طریقت اور درویش بھیجے۔ ان لوگوں نے اسلامی اخوت کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے بڑا کام کیا۔ شیخ سلیمان آفندی بخاری ان میں سے ایک تھے۔ ہندوستانی مسلمان بھی دولت عثمانیہ کے ساتھ گہرا جذباتی رشتہ رکھتے تھے۔ ہم پر جب بھی کوئی افتاد پڑتی ہے بے چین ہوجاتے ہیں۔ہمارے ساتھ انگریزوںکا جو طرز عمل تھا اس سے سخت نالاں تھے۔ انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انگریز ی حکومت ، دولت عثمانیہ کے ساتھ امن وا مان سے رہے۔ مسلمانوں کی اس ہمدردی سے ہمیں آزمائش کی گھڑیوں میں تقویت ملتی تھی۔‘‘
    خلیفہ کی یہ یاد داشت ۱۸مارچ ۱۹۱۷ء کی تحریر کردہ ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان خلافت کمیٹی کے قیام سے پہلے بھی خلافت عثمانیہ کے حامی تھے اور اسے قائم رکھنا چاہتے تھے۔ حالانکہ ۱۹۱۹ ء اور ۱۹۲۴ء کے دوران یہ تحریک زیادہ زوروں پر تھی۔

خلافت کے لیڈران

    خلافت تحریک میں کانگریس کے لوگوں کی شمولیت رہتی تھی اور دونوں کے لیڈران اتحاد کے ساتھ کندھے سے کندھاملا کر ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ دونوں ہی انگریزوں کے مخالف تھے اور دونوں کی لڑائی انگریزوں کے ساتھ تھی۔ عثمانی خلافت ہندوستان کی آزادی کی حامی تھی اور اس نے مولانا محمود حسن کی حمایت کی تھی جو آزادی کے لئے لڑ رہے تھے۔ خلافت کمیٹی کا صدر دفتر لکھنو میں تھا اور اس تحریک میں اس وقت کے تمام بڑے مسلم لیڈران اور علماء شامل تھے۔ آکسفورڈکے تعلیم یافتہ صحافی مولانا محمد علی جوہرؔ نے تو اس کے لئے چار سال جیل میں گزارے تھے۔ان کے ساتھ ان کے بھائی مولانا شوکت علی بھی تھے اور جب وہ جیل میں تھے تو ان کی غیر موجودگی میں اس تحریک کی قیادت کے لئے بیگم محمد علی جوہر سامنے آگئی تھیں۔ خلافت تحریک کے قائدین میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری،(سابق صدر انڈین نیشنل کانگریس) مولانا حسرت موہانی، رئیس المہاجرین بیرسٹر جان محمد جونیجو، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خاں اور شوکت علی صدیقی سمیت پورے ملک سے ہزاروں افراد شامل تھے۔البتہ اس کمیٹی کے ممبران کی تعداد تیس تھی جن میں دہلی، ممبئی ، کلکتہ، علی گڑھ، لکھنو، گورکھپور، مظفر پور، پٹنہ سمیت ملک کے کئی خطوںکے علمائ، دانشور، صحافی اور لیڈران شامل تھے۔ خلافت کمیٹی کی تحریک اور جلسوں میں گاندھی جی بھی شامل رہتے تھے اور اسے ہندو۔مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر پیش کیا کرتے تھے مگر رفتہ رفتہ کئی حلقوں سے اس کی مخالفت شروع ہوگئی۔ مسلمانوں میں مسلم لیگ تو ہندووں میں ہندو مہا سبھا نے اس کی مخالفت کی کہ ایک خالص اسلامی ایشو پر کانگریس کا ساتھ لینے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب مولانا محمد علی جوہرؔ نے مسلم لیگ جوائن کرلی۔ حالانکہ تب تک مسلم لیگ کا مقصد مسلمانوںکے حقوق کی بات کرناتھا اور پاکستان کی قرار داد سامنے نہیں آئی تھی۔ خلافت اور ترک موالات کی تحریک ایک ساتھ چل رہی تھی اور اسی کے بطن سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ یہ تحریکیں اس قدر طاقتور تھیں کی انگریزوں کو پہلی بار احساس کرایا کہ ہندوستانی اس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

    خلافت تحریک کے زور کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں میں ایک اور تنظیم قائم ہوئی جس کا نام تھا مجلس احرار اسلام۔ اسے سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے قائم کیا تھا جن کی پشت پر چودھری افضل الحق تھے مگر اسی کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد اور حکیم اجمل خان جیسے کانگریسی لیڈروں کی بھی حمایت حاصل تھی جو گاندھی جی کے سخت حامیوں میں تھے۔

قیام خلافت کی تحریکیں

    مسلمانوں کی زوردار تحریک کے باوجود انگریزوں پر کوئی اثر نہیں ہوا اورخلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا ، لیکن اس کے بعد بھی مسلمانوں کی طرف سے اس کے د وبارہ قیام کی کوششیں ہوتی رہیں مگر یہ سب کچھ اثر دار طریقے سے نہیں ہوا ۔ بعد کے دور میں تو مسلمانوں  کو یہ یاد بھی نہیں رہا کہ اسلام میں خلافت کا کوئی تصور بھی ہے اور کبھی ان کا کوئی خلیفہ بھی ہوا کرتا تھا۔البتہ علماء اور اسلامی حمیت رکھنے والے لوگوں کا ایک طبقہ جو اسلامی تحریکوں سے وابستہ ہے اسے یاد رکھے ہوئے ہے اور کچھ مسلم تنظیموں کے ایجنڈے میں خلافت کا قیام بھی شامل ہے۔ حالانکہ اس قسم کی تنظیمیں اپنا کوئی اثر نہیں رکھتیں اور جو کچھ اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں وہ اکثر اسلام مخالف طاقتوں کی سازشوں کا شکار رہتی ہیں۔ مثلاً مصر کی اخوان المسلمین کے قیام کا ایک مقصد تھا خلافت کا قیام۔ اسے مصر میں عوامی حمایت ملی اور اس نے اپنی حکومت بھی قائم کرلی مگر پھر جلد ہی مغربی ممالک کی پشت پناہی سے اس کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا۔ اب اس کے لیڈران جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور کئی کو موت کی سزا دی جاچکی ہے۔

قیام خلافت کے امکانات

    افغانستان میں طالبان نے خلافت کا نعرہ بلند کیا تھا مگر ان کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے عالمی طاقتیں افغانستان میں آگئیں جو اب تک یہیں ہیں اور طالبان کی مسلح تحریک بھی جاری ہے۔ یونہی پاکستان میں بھی خلافت کی تحریک کچھ اسلامی تنظیموں کے ایجنڈے میں ہے مثلاً جماعت اسلامی پاکستان وغیرہ۔ بھارت میں بھی جماعت اسلامی ہند اور اس کی کچھ ذیلی تنظیمیں قیام ِخلافت کا نظریہ رکھتی ہیں مگر ان کے پاس وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی دور دور تک اس کے امکانات ہیں کہ وہ کبھی اسے عملی جامہ پہناسکیں۔ ان دنوں مغربی ممالک میں بھی کچھ جذباتی مسلمان خلافت کے قیام کی باتیں کرتے ہیں اور ایسے لوگوں نے تحریک بھی شروع کی ہے مگر اب تک کہیں کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔ ویسے اب حالات ایسے نہیں ہیں کہ خلافت کا قیام عہد حاضر میںممکن ہو لیکن اگر مسلمان اس معاملے میں کوئی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں تو ایک طویل جدوجہد اس کے کچھ امکانات پیدا کرسکتی ہے۔مگر اس کے لئے نہ صرف مسلمانوں کے اندر اسلامی بیداری کی ضرورت ہے بلکہ تعلیم اور حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے۔خود مسلمانوں کے مختلف طبقات اس تعلق سے الگ الگ فکر رکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 644