donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aabadi Me Izafe Ka Bahana Musalman Par Nishana


 آبادی میں اضافے کا بہانہ، مسلمان پر نشانہ


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    کیا واقعی ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے؟ کیا مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے؟ کیا آنے والے دنوں میں مسلمان اس ملک میں اکثریت میں آجائیں گے؟کیا ہندو وں کی آبادی میں کمی کا رجحان ملک کی سیاست کو ایک الگ راستے پر ڈال سکتا ہے؟یہ سوالات ان دنوں اٹھنے لگے ہیں اوران پر سیاست بھی تیزہوگئی ہے۔ بھارت کی آبادی کے تازہ اعداد وشمار کے سامنے آنے کے بعد سے جہاں ایک طرف مسلمانوں کو بے نقطہ گالیاں سنائی جارہی ہیں، وہیں ہندووں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی ہونے لگی ہے کہ کچھ دن میںمسلمان ملک پر غالب آجائیں گے اور اسے ایک اسلامی ملک بنالیںگے۔ حالانکہ سچ پوچھا جائے تو یہ سب اعداد وشمار کے کھیل ہیں ورنہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ماضی کے مقابلے کم ہوئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس قدر ہندووں کی آبادی میں اضافے کی شرح گری ہے ،اس قدر مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی نہیں آئی ہے۔فی الحال اعداد اور الفاظ کی بازیگری سے ملک کے اکثریتی طبقے ہندووں کے اندر مسلمانوں کے خلاف دہشت پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور جس وقت یہ اعداد جاری کئے گئے ہیں ،اس پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ بہار میں اسمبلی کے انتخابات ہیں اور سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کو لگتا ہے کہ اس کے اثرات کم از کم ۵۰ سیٹوں پر پڑ سکتے ہیں۔اس ملک میں ماضی میں بھی مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کا ہوّا کھڑا کیا جاتا رہا ہے اور اسے بہانہ بناکر ہندو ووٹوں کو ایک خاص پارٹی کے حق میں کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ بھگوا وادیوں کی طرف سے حکومت کو یہ بھی مشورہ دیا جاتا رہا ہے کہ مسلمانوں کی نسبندی کرائی جائے اور انھیں کم بچے پیدا کرنے پر مجبور کیا جائے تو دوسرا فارمولہ ہندووں کے لئے لایا گیا کہ سبھی ہندو عورتیں بارہ بارہ بچے پیدا کریں تاکہ مسلمانوں سے آبادی کی سطح پر مقابلہ کیا جاسکے۔ حالانکہ اس قسم کی باتیں صرف مسلمانوں کو اکسانے اور ہندووں کو متحد کرنے کے لئے ہوتی ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اعداد وشمار واضح پیغام دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں ماضی کے مقابلے کمی آئی ہے۔

اضافے کی شرح میں کمی

    بھارت میں گزشتہ 10 سالوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ہندو، مسلم ہی نہیں، عیسائی، سکھ، بودھ اور جین، ان سبھی فرقوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح میں کمی آئی ہے۔بھارت میں مردم شماری ہر دس سال میں ہوتی ہے۔ سال 2011 میں ہوئی مردم شماری کے مطابق ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ کی شرح 16.76 فیصد رہی جبکہ 10 سال پہلے ہوئی مردم شماری میں یہ شرح 19.92 فیصد پائی گئی تھی۔مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی بات کی جائے تو اس میں زیادہ بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 29.5 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی جو اب گر کر 24.6 فیصد ہو گئی ہے۔ گویا ہندو آبادی میں اضافے کی شرح میں لگ بھگ چار فیصد کی گراوٹ آئی ہے مگر مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح میں تقریباًپانچ فیصد کی کمی آئی ہے۔ گویا مسلمان ،ہندووں کے مقابلے میںزیادہ فیملی پلاننگ پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی شرح اب بھی ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ کی شرح سے زیادہ ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی شرح میں ہندوؤں کے مقابلے میں مزید کمی آئی ہے۔وہیں، عیسائیوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح 15.5 فیصد، سکھوں کی 8.4 فیصد، بدھ مت کے پیروکاروں کی 6.1 فیصد اور جینوں کی 5.4 فیصد ہے۔

کس کی کتنی آبادی؟

    مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہندوؤں کی آبادی 96.63 کروڑ ہے جو کہ کل آبادی کا 79.8 فیصد ہے۔ وہیں مسلمانوں کی آبادی 17.22 کروڑ ہے جو کہ آبادی کا 14.23 فیصد ہے۔عیسائیوں کی آبادی 2.78 کروڑ ہے جو کہ کل آبادی کا 2.3 فیصد ۔سکھوں کی آبادی 2.08 کروڑ (2.16 فیصد) اور بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادی 0.84 کروڑ (0.7 فیصد) ہے۔وہیں 29 لاکھ لوگوں نے مردم شماری میں اپنے مذہب کا ذکر نہیں کیا۔گزشتہ ایک دہائی میں ملک کی آبادی 17.7 فیصد کی شرح سے بڑھی ہے۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق 2001 سے 2011 کے درمیان مسلمانوں کی آبادی 0.8 فیصد بڑھی ہیں تو ہندوؤں کی آبادی میں 0.7 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔سال 2001 میں ہوئی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی 102کروڑ تھی۔ اس میں ہندوؤں کی آبادی 82.75 کروڑ (8045 فیصد) اور مسلمانوں کی آبادی 13.8 کروڑ (13.4 فیصد) تھی۔ 2011 میں بھارت کی آبادی 121.09 کروڑ تھی۔سال 2001 سے 2011 کے درمیان کی دہائی میں مسلم کمیونٹی کی آبادی میں 24.6 فیصد اضافہ ہوا اور ان کی آبادی 17.22 کروڑ ہو گئی، وہیں ہندوؤں کی آبادی اسی مدت میں 16.8 فیصد بڑھ کر 96.63 کروڑ ہو گئی۔

ذات برادری کے اعداد و شمار ابھی نہیں

     مرکزی حکومت پر مسلسل دبائو ہے کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر بھی ملک کی آبادی کے اعدادوشمار جاری کرے مگر وہ ایسا کرتے ہوئے کترا رہی ہے۔ حالانکہ اس بنیاد پر مردم شماری ہوچکی ہے اور تفصیلات حکومت کے پاس ہیں۔فی الحال حکومت نے ذات پات کی بنیاد پرمردم شماری کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں اور کب کرے گی، اس بارے میں اس نے کوئی جانکاری بھی نہیں دی ہے۔حالانکہ پسماندہ طبقات کی سیاست کرنے والی راشٹریہ جنتا دل، جے ڈی یو اور ڈی ایم کے مرکزی حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ تفصیلات بتائی جائیں اور ملک کے عوام کو جانکاری دی جائے کہ اس ملک میں کس ذات برادری کے لوگوں کی کتنی آبادی ہے۔

اعدادوشمار پر سیاست

    ملک میں مردم شماری کے اعداد و شمار سامنے آنے کے ساتھ اس پر سیاست تیز ہو گئی ہے۔ گورکھپور سے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ نے ان اعداد و شمار پر سیاست چھیڑتے ہوئے مرکزی حکومت سے مسلمانوں کی آبادی پر روک لگانے کی اپیل کی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے وہ تشویش کا موضوع ہے۔ اس پر مرکزی حکومت کو قدم اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔انھوں نے اسی بہانے کامن سول کوڈ کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ اگر ملک میں تمام شہریوں کے لئے یکساں قانون نافذ کیا جائے تو آبادی میں اضافے کی شرح کو روکا جاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں کے بعض حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اگر ملک میں مسلمان کی آبادی چودہ فیصد سے زیادہ ہے تو پارلیمنٹ کے اندر ان کی نمائندگی محض چار فیصد کیوں ہے؟ انھیں برابری کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ جن برادریوں کی آبادی چار چار فیصد ہے اس کے افراد قانون ساز اداروں میں زیادہ کیوں ہیں؟

مسلم آبادی میں کمی کیسے آئے؟

    اس وقت ہندوستان دنیا کی کثیر آبادی والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پہلا نمبر ہمارے پڑوسی ملک چین کا ہے۔ چین نے آبادی پر سختی سے کنٹرول کیا ہے جس کے سبب یہاں کئی قسم کے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں مگر آبادی بہرحال کنٹرول میں ہے۔ ہمار ے ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ لوگوں کو زبردستی نسبندی پر مجبور کیا جائے۔بھارت اپنے شہریوں کو فیملی پلاننگ کی جانب مائل کرتا ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ بھارت میں عام رجحان یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور معاشی طور پر مضبوط خاندانوں میں کم بچے پیدا ہوتے ہیں جب کہ ان پڑھ، کم خواندہ، سماجی اور معاشی طور پرپسماندہ طبقات میں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں۔  وہ بچوں کی تعلیم وتربیت اور اچھی زندگی پرپیشگی طور پر نہیں سوچتے ہیں جب کہ پڑھے لکھے لوگوں کو مستقبل کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ ایک عام مثال یہ سامنے رکھی جاسکتی ہے ،بڑے شہروں کی پاش کالونیوں میں کم بچے پیدا ہوتے ہیں اور جھونپڑپٹیوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح شہری خاندانوں کے مقابلے دیہی خاندانوں میں زیادہ بچے دیکھے گئے ہیں۔اس پورے تجزیے کا نچوڑ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں اگر ہندووں سے کچھ زیادہ بچے  پیدا ہوتے ہیں تو اس کا سبب ان کے اندر تعلیم کی کمی، معاشی پسماندگی اور اچھی سماجی زندگی کا فقدان ہے۔مسلمان معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں لہٰذا اپنے بچوں کو زیادہ آگے تک نہیں پڑھا پاتے اور جو بچے پڑھنے میں اچھے ہوتے ہیں انھیں بھی وہ تعلیم کے لئے مناسب ماحول نہیں فراہم کر پاتے ہیں۔ حکومت کے اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندووں کے مقابلے مسلمان طلبہ میں ڈراپ آئوٹ ریٹ زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں آبادی کا تعلق عوام کی تعلیمی اور معاشی کنڈیشنس سے ہے لہٰذا اگر مسلمانوں کی آبادی میں کمی لانی ہے تو انھیں اچھی تعلیم ملنی چاہئے، ان کی معاشی حالت کو بہتر کرنا چاہئے۔ ہندووں کے پسماندہ طبقات میں بھی زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور سکھوں ،عیسائیوں میں جو سب سے کم بچے پیدا ہوتے ہیں تو اس کا سبب ان کا تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط ہونا ہے۔  

کس ریاست میں کتنے مسلمان؟

    حکومت نے مردم شماری -2011 کے مذہبی اعداد و شمار جاری کئے۔ ملک میں 2001 سے 2011 تک مسلمانوں کی آبادی میں 24.6 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جبکہ اس ایک دہائی میں ہندوؤں کی آبادی میں 16.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو۔یہ اعداد وشمار ریاستوں کی سطح پر مختلف ہیں۔ سب سے زیادہ مسلم آبادی کا تناسب ریاست جموں وکشمیر میں ہے۔ یہاں سب سے زیادہ 68.3فیصد مسلم ہیں۔حالانکہ مرکز کے کنٹرول والے لکشدیپ میں یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے۔ راجدھانی دلی میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا تناسب بڑھا ہے کہ جب کہ منی پور واحد ایسی ریاست ہے جہاں مسلم آبادی کے اضافے کی شرح میں سب سے زیادہ کمی آئی ہے۔

یوپی اور بہارمیں مسلمان

     اتر پردیش اور بہار میں مسلمانوں کی آبادی میں 10 سال میں اضافہ ہوا تو ضرور لیکن بہار میں جہاں 27.95 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا وہیں، اتر پردیش میں 25.19 فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا ۔سال 2001 میں بہار میں مسلمانوں کی تعداد 1 کروڑ 37 لاکھ 22 ہزار 048 تھی جو 2011 میں 1 کروڑ 75 لاکھ 57 ہزار 809 ہو گئی۔ اتر پردیش میں یہ تعداد 2001 میں 3 کروڑ 07 لاکھ 40 ہزار 158 تھی جبکہ 2011 میں یہ 3 کروڑ 84 لاکھ 83 ہزار 967 ہو گئی۔بہار میں مسلمانوں کی آبادی میں  10 سالوں میں محض 0.4 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا، جبکہ ملک کی سطح پر یہ ترقی کی شرح 0.8 کے اعداد و شمار پر جا پہنچی ہے۔بہار کی کل آبادی میں مسلمانوں کا فیصد 16.5 سے 16.9 پر پہنچا۔وہیں، ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی ریاست کی آبادی کا 19 فیصد ہے۔ ریاست میں کل 20 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی والے اضلاع کی تعداد 21 ہے۔2011 کی رپورٹ کے مطابق یوپی کی راجدھانی لکھنؤ کے شہری علاقے میں مسلم آبادی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پہلی بار یہاںہندوؤں کی آبادی میںکمی آئی ہے۔ مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد کے فیصد کے معاملے میں لکشدیپ ، جموں و کشمیر، مغربی بنگال اور کیرالہ کے بعد اتر پردیش کا مقام ہے۔

کہاں کتنی مسلم آبادی؟

     حالیہ مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق آندھراپردیش میں مسلمان کل آبادی کا لگ بھگ دس فیصدہیں اور گجرات میں بھی ان کا تناسب قریب قریب یہی ہے۔ آسام میں وہ 34.22، مغربی بنگال میں27مہاراشٹر میں 11.54تمل ناڈو میں  5.86 پنجاب میں 1.93ناگا لینڈ میں 2.47فیصد ہیں۔ہماچل پردیش میں 2.2اوردلی میں لگ بھگ 13فیصد تک مسلمانوں کی آبادی ہے۔جھارکھنڈ  14.4اوڈیشا2.2، کرناٹک12.9 لکشدیپ 96.9کیرل  26.6چھتیس گڑھ2.0 راجستھان  9.1، منی پور8.4 ، تریپورہ 8.6میگھالیہ 4.4فیصد مسلمانوں کی آبادی ہے۔مدھیہ پردیش میں 2001 میںمسلمانوں کی آبادی 38 لاکھ 41 ہزار 449 تھی۔ اب 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق مدھیہ پردیش میں 47 لاکھ 74 ہزار 695 مسلم ہیں۔ ہریانہ میں مسلم آبادی میںگزشتہ ایک دہائی کے دوران 1.2 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی سات فیصد ہے۔

 زیادہ مسلم آبادی والی ریاستیں

    جن ریاستوں میں مسلم آبادی زیادہ تیزی سے بڑھی ہے ان میں راجدھانی دلی بھی شامل ہے۔دہلی میں مسلم آبادی بڑھنے کی شرح 1.1فیصددرج کی گئی ہے، جو قومی اوسط (0.8فیصد) سے تقریبا ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ اس معاملے میں آسام سب سے آگے ہے، وہاں 2001 سے 2011 کے دوران مسلم آبادی 3.3 فیصد کی رفتار سے بڑھی۔ یہاں ایسے اضلاع کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جہاں مسلمانوں کی گھنی آبادی ہے۔ ایسے اضلاع میں بارپیٹا، دھبڑی، کریم گنج، ہیلاکنڈی، گوال پاڑہ، ناگائوں ، بون گائی گائوں، موری گائوں اور درانگ شامل ہیں۔ مغربی بنگال بھی کثیر مسلم آبادی والی ریاست ہے اور یہاں بھی کئی اضلاع میں مسلمانوں کی گھنی آبادی ہے۔ ایسے اضلاع میں مرشدآباد، مالدہ، دیناج پور، مدنی پور،۲۴پرگنہ وغیرہ شامل ہیں۔ کیرل بھی کثیر مسلم آبادی والی ریاست ہے مگر یہاں آبادی میں اضافے کا تناسب بہت سست ہے۔سمجھا جاتا ہے کہ اس کا سبب یہاں کے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی صورت حال کا بہتر ہونا ہے۔آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں زیادہ اضافے کا سبب پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے  گھس پیٹھ کو قرار دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسلمانوںکی تعلیم اور معیشت میں اچھی حالت نہیں ہے جس کی وجہ سے آبادی بڑھی ہے ۔اسی طرح مغربی بنگال میں بھی ان کی حالت زیادہ خراب ہے جس کا ذکر سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی کیا گیا تھا۔

..............................

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 487