donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aakhir Deeni Madarson Ke Khelaf Kiyon Hota Ja raha Hai Musalmano Ka Aik Tabqa


آخردینی مدرسوں کے خلاف کیوں ہوتا جارہا ہے

مسلمانوں کا ایک طبقہ؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں یا برائی اور ہم جنس پرستی کے اڈے؟ یہ مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیداری پیدا کر رہے ہیں یا مسلم نوجوانوںکے اخلاق وکردار کو خراب کر رہے ہیں؟ جی ہاں پہلے تو دینی مدرسوں پر دہشت گردی کا الزامات لگتے تھے مگر اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے اپنے بیان سے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ انھوں نے مدرسوں کو برائیوں کا اڈہ اور ہم جنس پرستی کا گڑھ قرار دیا ہے جس پر مسلمانوں کے مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید ہورہی ہے تو اسلام مخالفین کے حلقوں میں گھی کے چراغ جلائے جارہے ہیں۔ فرقہ پرستوں کی طرف سے بار بار مدرسوں کے خلاف بھرم پھیلانے اور جھوٹے پرچار کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے مگر اس بار انھیں زبان درازی کا موقع خود مسلمانوں کے ایک بڑے ادارے کے ذمہ دار پروفیسر نے فراہم کردیا ہے۔ان کے اوپر مدرسوں کو ’’برائی اور ہم جنس پرستی کے اڈے‘‘ کہنے کا الزام لگا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مدرسوں کو پوری طرح بند کردینا چاہئے۔ حالانکہ یہ بات جب میڈیا میں آئی تو ان کے خلاف نارضگی پھیل گئی اور وہ اپنے بیان سے پھرگئے۔مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس میں ان کے خلاف بھاری ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ مسلم یونیورسٹی کے ہسٹری ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر وسیم راجہ پر الزام لگا ہے کہ انہوں نے واٹس ایپ پر ایک ٹی وی چینل کو میسیج بھیجا تھا۔جس میں لکھا تھا کہ مولانا لوگ غلط سرگرمیوں میں لگے ہوئے ہیں اور مسلم نوجوانوں کا مستقبل تبھی بدلے گا، جب ملک کے تمام مدرسے بند کر دیے جائیں۔ چیٹ کے ا سکرین گریبس میں راجہ یہ کہتے نظر آتے ہیں، ہم مدرسوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم جنس پرستی کا بول بالا ہے اور مولانا لوگ اس میں شامل ہیں۔

    یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے راجہ کے تبصروں پر سخت تنقید کی ہے۔ریسرچ اسکالر شاہ عالم ترک نے کہاکہ میں گروپ میں بات چیت کر رہا تھا، تبھی راجہ نے ایسی باتیں کہیں۔میں نے انہیں کہا کہ اپنے خیالات رکھنا آپ کاآئینی حق ہے، مگر آپ حقائق جانے بغیر اس طرح کی توہین آمیز باتیں نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے ہماری کمیونٹی کمزور ہوگی، مضبوط نہیں ہوگی۔دیگر اسٹوڈنٹس نے بھی اسی طرح کی مخالفت کی ہے۔ ایک نے کہا، 'آپ جیسے لوگ یونیورسٹی کا نام بدنام کر رہے ہیں۔ بولنے سے پہلے سوچئے۔ AMUTA سیکرٹری مصطفی زیدی نے کہا کہ پروفیسر کو بولنے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ،اس طرح کے بیان ناراضگی پیدا کر سکتے ہیں۔انہیں ایسا کہنا ہی نہیں چاہیے تھا۔اس وقت  مسلمانوں کے مختلف حلقوں کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ پروفیسر وسیم راجہ کو یونیورسٹی سے ہٹایا جائے جنھوں نے اپنے غیرذمہ دارانہ بیان سے مسلمانوں کی ناک کٹا دی ہے۔ اے ایم یو کے ایک ذمہ دار راحت ابرار نے کہا کہ وائس چانسلر ابھی باہر ہیں اور ان کے واپس لوٹنے کے بعد ہی یہ طے کیا جائے گا کہ اس معاملے میں کیا کارروائی کی جائے۔ غور طلب ہے کہ پروفیسروسیم راجہ جو کہ گزشتہ 3 دہائیوں سے یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں، تنازعہ بڑھتا دیکھ اپنے بیان سے مکر گئے ہیں۔  انہوں نے اس طرح کے میسیج بھیجنے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے کہاکہ ، میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے۔ میں کئی سارک کانفرنسوں میں حصہ لے چکا ہوں اور ہمیشہ کمیونٹی کے تنظیم نو کی بات کی ہے۔ کیا مدرسے ہماری کمیونٹی میں نہیں آتے؟ اس کا مطلب یہ ہے میں نے ایسا کچھ نہیںکہا ہے۔ میرا فون ہیک کر لیا گیا تھا۔اب میں نے گروپ کو بندکر دیا ہے۔
    ہندوستانی مسلمان انتہائی پسماندہ ہیں اور تعلیمی میدان میں تو ان کی حالت قابل رحم ہے۔ ایسے میں دینی مدرسوں کا کردار اہم ہوجاتا ہے جو غریب بچوں کو مفت تعلیم دینے کا کام کر رہے ہیں۔ ان طلبہ میں سے کچھ یونیورسیٹیوں تک پہنچتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں۔ عام مسلمان بچوں کی بہت کم تعداد ان مدرسوں تک پہنچتی ہے مگر جو بچے مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں وہ زندگی کا شعور دوسروں سے زیادہ حاصل کرلیتے ہیں۔یہی مساجد ومکاتب میں پڑھاتے ہیں اور اسلام کی زندگی کا ثبوت ہیں۔ اسی لئے مدرسوں کو اسلام کا قلعہ کہاجاتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مدرسوں میں کسی قسم کی خرابی نہیں ہوسکتی، جہاں انسان ہوتے ہیں وہاں اچھائیاں اور برائیاں ہوتی ہیں مگر جس قسم کے گندے الزامات مسلم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی طرف سے لگائے گئے ہیں وہ کسی بھی باغیرت مسلمان کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ کسی ایک فرد کی جانب سے اس قسم کی حرکت سرزد ہوجائے مگر رہائشی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں کی طرف سے اس قسم کی جو باتیں سننے میں آتی رہتی ہیں، اس کے مقابلے میں یہ بہت معمولی ہے۔ ہم جنس پرستی میڈیکل سائنس کا ایک مکمل موضوع ہے  جس پر غور فکر کی ضرورت ہے مگر اس قسم کے معاملات جن اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں یا اداروں میں سامنے آچکے ہیں انھیں کبھی بند کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ اسے کسی فرد واحد کا معاملہ مانا گیا۔ پھر مدرسوں کے بارے میں اس قسم کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں؟ آرایس ایس میں بڑی تعداد کنواروں کی ہے اور بارہا اس قسم کے معاملات ان کے متعلق میڈیا میں آتے ہیں مگر کیا کبھی اس پر پابندی کی بات پروفیسر صاحب نے کی ہے؟ خود علی گڑھ یونیورسٹی میں اس قسم کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں تو کیا اس کے سبب اس ادارے کو بند کردینا چاہئے؟سچائی تو یہ ہے کہ دینی مدرسوں کے بارے میں گھٹیا باتیں کرنا ذہنی گھٹیاپن کی علامت تو ہوسکتی ہے کسی تعمیری فکر کی نشانی نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 450