donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aakhir Hijab Par Kiyon Feda Hain Maghrabi Khatoon


آخر حجاب پرکیوں فدا ہیں مغربی خواتین؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مغربی ممالک میں بہت تیزی کے ساتھ حجاب کا استعمال بڑھ رہا ہے اور اسے اپنانے والی خواتین میں بیشتر نومسلم ہیں۔ انھیں لگتاہے کہ اپنے جسم کو گھورتی نگاہوں سے بچانے کا بہتر طریقہ حجاب اور ساتر لباس پہننا ہے۔ حجاب قرآن اور سیرت نبوی کے احکام کا حصہ ہے۔ اسلام نے جہاں خواتین کو حکم دیا کہ وہ اپنے بدن کو ڈھکے رکھیں وہیں مردوں کو حکم دیا گیاکہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور خواتین کونہ تاڑیں۔ قرآن اور سیرت نبوی کے احکام میں آج بھی جذب وکشش ہے اور اس کی دلیل ہے ساری دنیا میں اسلام کے بڑھتے قدم۔دنیا کو احساس ہورہا ہے کہ اس کے مسائل کا حل صرف اسلام پیش کرسکتا ہے اور اسے روحانی سکون بھی اسی کے دامن میں مل سکتا ہے۔اسلام دین فطرت ہے اور انسان اپنی فطرت کی طرف لوٹ رہا ہے۔ آج تیزی سے دنیابھر میں اسلام کی اشاعت ہو رہی ہے۔ خاص طور پر یوروپ میں اسلام کے بڑھتے قدم سے دنیا انگشت بدنداں ہے۔ یوروپ میں جو لوگ اسلام کے دامن میں پناہ لے رہے ہیں ان میں بیشتر خواتین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر خواتین اتنی بڑی تعداد میں اسلام کیوں قبول کرتی ہیں؟ انھیں کون سی چیز اسلام کی طرف کھینچ لاتی ہے؟ جو آزادی مغربی سماج نے دی ہے اس میں مزید انھیں کس اضافے کی امید ہے؟ جو حقوق انھیں مغربی دنیا نے دیئے ہیں اس سے زیادہ اور کیا چاہئے؟

اشاعت اسلام میں حجاب کا رول

    مغربی دنیا میں اسلام کے تعلق سے بحث چلتی رہتی ہے۔ یہاں کے لوگ خاص طور پر عورتوں کے حقوق اور اسلام کے حوالے سے باتیں کرتے ہیں جو یقینی طور پر اکثر اوقات منفی ہوتی ہیں۔مغرب میں آزادی نسواں کے علمبردار پردے کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور اسے پچھڑے پن اور قدامت پرستی کی علامت قرار دیتے رہے ہیں۔ یہاں اسلام کو ایک رجعت پسند مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،جہاں آج بھی صدیوں پرانے قوانین رائج کرنے کی بات ہوتی ہے۔ ان کا اسلام کے بارے میں عموماً تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ خواتین کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کا حق نہیں دیتا۔ اتنی ساری غلط فہمیوں کے باوجود اسلام کا پھیلنا اور باالخصوص عورتوں میں اس کی مقبولیت یوروپ کے سماجی ماہرین کے لئے حیرت انگیز ہے۔ یوروپ میں یہ سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ عورتیں اسلام کیوں قبول کرتی ہیں؟ آخر انھیں یوروپ کے قوانین میں کس کمی کا احساس ہوتا ہے جس کی تکمیل کے لئے وہ اسلام کا سہارا لیتی ہیں؟ ان سوالوں کاجواب، اسلام قبول کرنے والی خواتین نے الگ الگ دیا ہے۔برطانیہ کے وزیراعظم کی کرسی پر ایک مدت تک براجمان رہنے والے ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ، جنھوں نے خود بھی اسلام قبول کرلیا ہے اور اب پردے میں رہتی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ مغرب جو جنسی تلذذ اور سرمایہ داری کے ذریعے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ،وہ دیرپا خوشی نہیں ہے۔ واضح ہوکہ وہ ایک ٹی وی اینکر تھیں اور ایک اخبار میں کالم لکھا کرتی تھیں مگر 2010ء میں اسلام قبول کرکے انھوں نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ انھوں نے قبول اسلام کے بعد بھی کالم نویسی کا سلسلہ جاری رکھا اور اس میں اپنے تاثرات اسلام کے تعلق سے پیش کرتی رہیں۔ وہ پردے کو عورت کے تحفظ کا ذریعہ مانتی ہیں۔ واضح ہوکہ انگلینڈ میں اسلام قبول کرنے والی عورتوں میں حجاب کا چلن بڑھ رہا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ وہ خود کو پردے میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ یہاں ایسے بھی معاملے سامنے آئے جب کسی غیر مسلم عورت نے حجاب کا استعمال کیا اور پھر وہ اس کی کشش میں اس طرح گرفتارہوئی کہ اس نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا دامن تھام لیا۔

عورت کی عفت کا ضامن پردہ

    فرانس کی ماریہ پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے اپنے میدان میں بہت سارے تجربے حاصل کئے ہیں ۔ اسی کے ساتھ مغرب کے سماج کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ میں مریضوں کی خدمت کرتی رہی مگر عجیب بات ہے کہ مردوں کے لئے میری اہمیت میرے کام سے زیادہ میری خوبصورتی رکھتی تھی۔  اسپتال میں داخل ہوتی تو محسوس کرتی کہ لوگ میری ٹانگوں کو گھور رہے ہیں تو کوئی میرے گریبان کو جھانک رہا ہے۔ میں نے مسلم عورتوں کو پردے میں دیکھا تھا اور پھر میں نے پورے جسم کا لبا س پہننے کا فیصلہ کیا۔ اس لباس میں مجھے حیرت ہوئی کیونکہ اب نہ تو لوگ میری ٹانگوں کو دیکھ سکتے تھے اور نہ ہی میرے گریبان کی طرف نظر کر سکتے تھے۔ پھر میں نے اسلام اور عورتوں کے حقوق کا مطالعہ کیا تو متاثر ہوئی اور اسلام قبول کرلیا۔ مجھے احساس ہوا کہ پردہ کوئی قید نہیں بلکہ نجات ہے۔ یہ عورتوں کو بری نظروں سے محفوظ رکھتا ہے اور لوگ اسے احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

پردے کی پابند نومسلم خواتین

    پچھلے دنوںبی بی سی نے خواتین کے قبول اسلام پر ایک ڈاکومنٹری فلم نشر کی ہے جس کا ٹائٹل ہےMake me a Muslim .اس فلم میں اس سوال کا جواب ڈھنڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خواتین بڑی تعداد میں کیوں اسلام قبول کررہی ہیں؟ اس فلم میں جن نومسلم خواتین سے بات کی گئی ہے، وہ تمام برطانوی اور سفید فام ہیں۔ فلم کی اینکر فاطمہ خود ایک نومسلم ہیں اور ساترلباس کے ساتھ ساتھ حجاب کا بھی استعمال کرتی ہیں جب کہ پروڈیوسر شاہانہ بخاری روایتی مسلمان ہیں اورسر پر اسکارف نہیں رکھتیں۔فاطمہ کا کہنا ہے کہ جس روحانی سکون کا کوئی تصور کرسکتا ہے، اس سے زیادہ میں نے محسوس کیا ہے۔ وہ قرآن کا مطالعہ کرتی ہیں اور پنجگانہ نماز بھی ادا کرتی ہیں۔ بی بی سی کی مذکورہ ڈاکومنٹری فلم میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش ہوئی کہ آخر خواتین اسلام کی طرف اس قدر زیادہ میلان کیوں رکھتی ہیں اور اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے حالات کیسے ہیں؟خدیجہ نامی ایک نومسلم دوشیزہ نے بتایا کہ اس نے قرآن کریم کا مطالعہ کرکے اسلام کو سمجھا اور پھر قبول کرلیا۔ وہ اب باحجاب رہتی ہیں اور ان کا واڈروب جسم کو چھپانے والے ساتر لباس سے بھرا ہو ہے۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ آپ کو باحجاب دیکھ کر آپ کے دوست اور جاننے والے چونک پڑتے ہیں کہ ارے تم نے یہ کیا پہن لیا مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ ہمارا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی نومسلم سے شادی کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔مطالعے کے دوران پایا گیا کہ جن خواتین نے اسلام قبول کیا انھیں اسلام کے مختلف چہروں نے متاثر کیا تھا۔ سب کے اسلام قبول کرنے کی وجوہات الگ الگ ہیں مگر یہ سبھی عورتیں مغربی معاشرے کی فحاشی اور ننگے پن کو ناپسند کرتی تھیں۔ یہ سبھی عورتیں خود کو جنس بازار بنانے پر آمادہ نہ تھیں۔ جبکہ مغرب میں عموماً عورت کو اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

حجاب پر پابندی، بے حجابی کی اجازت

    فرانس میں اسلام کی اشاعت بہت تیزی سے ہورہی ہے مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلام کے بڑھتے قدم سے خود یہاں کی حکومت بھی خائف ہے اور وہ اس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے گھبراہٹ میں ہی پردے پر پابندی کا قانون بھی پاس کردیا۔ یہ قانون ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز ہے اور جب اس پر بات چیت چل رہی تھی تو ساری دنیا میں اس کی مخالفت شروع ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ خود امریکہ اور یوروپی ملکوں نے بھی اسے آدمی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قراردیا تھا۔ آدمی کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کا حق حاصل ہے اور اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ جس طرح سے آج کی جمہورت میں ایک آدمی کم سے کم کپڑوں میں رہنے کی آزادی رکھتا ہے، اسی طرح اسے اپنے پورے بدن کو ڈھانپنے کی بھی آزادی ہے۔ اس پر کسی قسم کا قدغن آدمی کی انفرادی آزادی پر روک کے مترادف ہے۔ بہرحال لاکھ مخالفتوں کے باوجود فرانس میں اسلاموفوبیا نے وقتی طور پر جیت حاصل کرلی اور حجاب پر پابندی کا قانون پاس ہوگیا۔ اس دستور کے مطابق کسی بھی عوامی مقام پر چہرے کو ڈھکنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پابندی نے دنیا کے جمہوریت پسندوں میں بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

    فرانس میں جو قانون خواتین سے ان کا چہرہ ڈھکنے کا حق چھینتا ہے اس پر احتجاج اورمظاہرے کا بھی سلسلہ چلا اور انوکھے انداز میں خواتین نے اس قانون کو توڑا۔ اس قانون کے بنتے ہی یہاں ان خواتین کی لائن لگ گئی جو قانون توڑ کر جرمانہ بھرنا چاہتی تھیں۔ ان میں مسلمانوں کے علاوہ وہ عورتیں بھی تھیں جو اسے جمہوری دستور کے منافی مانتی ہیں۔

    فرانس میں اسلام قبول کرنے والی عورتوں میں بڑی تعداد ان کی ہے جو فحاشی اور بے حیائی سے عاجز آچکی ہیں۔ یہ خواتین پہلے نیم برہنہ رہتی تھیں اور مردوں کی گندی نظروں کا مرکز بنتی تھیں ، مگر جب انھوں نے اسلامی لباس اختیار کیا اور حجاب کو اپنا یا تو انھیں احساس ہوا کہ اسلامی اخلاقیات کے کیا فائدے ہیں۔ اب جب حکومت کی طرف سے قانون بنا کر انھیں نیم برہنہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہی ہیں اور حکومت کے اس اقدام کے خلاف آواز اٹھارہی ہیں۔          

حجاب کو عذاب نہ بنائیں

    اخلاقی خرابی، بدنظری، خواتین سے چھیڑ چھاڑ اور ریپ کی بڑھتی وارداتوں کے خلاف حجاب ایک ہتھیار ہے۔ یہ مردوں کو نسوانیت کے احترام پر مائل کرتا ہے مگر پردے کے نام پر غیر ضروری پابندی خواتین کے لئے مسائل کھڑے کرتی ہے۔افغانستان، سعودی عربیہ اور ہندوستان وپاکستان کے بعض طبقوں میں پردے کے نام پر جس قسم کا لباس لازم کیا جاتا ہے، وہ اسلام کے حکم حجاب سے بھی آگے کا ہے۔ اس قسم کے پردے کی موجودگی میں خواتین کے لئے کام کاج تو دور راستہ چلنا تک مشکل ہے۔ آج کل پردے کے نام پر کچھ زیادہ ہی سختی برتی جاتی ہے۔ آنکھوں پر جالیاں، ہاتھ میں دستانے اور پیر میں موزے پہنا دیئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عہد نبوی کی خواتین بھی ایسا پردہ نہیں کرتی تھیں۔ وہ مسجدوں میں نمازباجماعت ادا کرنے کے لئے جایاکرتی تھیں۔ بارگاہ نبوی میں حاضری دیتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پہچانتے تھے اور ان کا نام لے کر پکارتے تھے۔ یہ تب ہی ممکن تھا جب ان کے چہرے کھلے ہوئے ہوں۔خواتین جنگوں میں رضاکارانہ طور پرشریک ہوتی تھیں اور نہ صرف فوج کے اندر سول خدمات انجام دیتی تھیں بلکہ وہ باقاعدہ تلوار بازی بھی کرتی تھیں۔ کیا یہ سعودی اور افغان برقع میں ممکن ہے ؟ ازواج مطہرات میں سے بعض تجارت اور بعض صنعت وحرفت کا پیشہ رکھتی تھیں اور روزگار کماتی تھیں، کیا یہ سب مروجہ پردے میں ہوسکتا ہے؟ اسی کے ساتھ باندی خواتین کا ایک طبقہ بھی عہد نبوی میں موجود تھا جسے کام کاج کے پیش نظر سر، گردن، دونوں بازو اور گھٹنے کے نیچے کی ٹانگ کھولنے کی اجازت تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے عورت کو جس پردہ کا حکم دیا ہے وہ فطری پردہ ہے اور یہ ایسا لباس ہے جو جسم کو ڈھک دے، نہ کہ اس کے لئے سوہان روح بن جائے۔ آج یہ حالت ہے کہ بعض مسلمان اپنی بچیوں کوخودساختہ پردہ میں رکھنے کے لئے حصول علم کے فریضہ تک سے محروم رکھ دیتے ہیں جو افسوسناک ہے اورشریعت کے حکم حجاب کے مقصود اصلی کے خلاف ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ و رسول کے حکم اور سماجی وتہذیبی روایتوں کے فرق کو سمجھا جائے اورحجاب کو خواتین کے لئے عذاب نہ بنایا جائے۔      


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 516