donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aasa Ram Case Me Gawahon Ki Maut


 آسارام کیس میں گواہوں کی موت


آخرحکومت لاچار کیوں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ریپ کیس کے ملزم جعلی سنت آسارام اپنے کیس کے گواہوں کو راستے سے ہٹا رہا ہے؟ کیا اس کی سازش کے تحت ہی گواہوں پر حملے ہورہے ہیں؟ کیا اس کے غنڈوں کے آگے حکومت لاچار ہے؟ کیا بھارت میں کسی غریب مظلوم انسان کو امیر اور بارسوخ ظالم کے سامنے انصاف ملنا مشکل ہے؟جس طرح سے آسا رام کی شکار لڑکیوں کی حمایت میں آنے والے گواہوں کی یکے بعد دیگرے موت ہورہی ہے اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ ان مظلوم لڑکیوں کو کبھی انصاف نہیں مل سکتا ،کیونکہ حکومت اورپولس بھی ظالم کے ساتھ ہی ہیں؟ یہ سوال اس وقت اہم ہوجاتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ آسارام کیس میں ایک اور اہم گواہ کو قتل کردیا گیا۔ جی ہاں آسارام باپو ریپ کیس کے اہم گواہ کرپال سنگھ کی موت ہو گئی ہے۔ گزشتہ ۱۰ جولائی کو شاہجہاں پور (اترپردیش) میں نامعلوم حملہ آوروں نے اسے گولی مار دی تھی، جس کے بعد بریلی کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں اس کا علاج چل رہا تھا اور ایک دن بعد وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی آسارام ریپ کیس سے جڑے گواہوں کی موت کی تعداد 3 ہو گئی ہے۔ ابھی تک 9 گواہوں پر جان لیوا حملہ ہو چکا ہے۔

کرپال سنگھ کی موت اور کئی سوال

    رات قریب آٹھ بجے کرپال سنگھ موٹر سائیکل سے گھر جا رہا تھاکہ ، شاہ جہاں پور میں گوال ٹولی کے پاس موٹر سائیکل سوار بدمعاشوں نے اسے گولی مار دی۔گولی اس کی پیٹھ میں لگی اور وہ وہیں گر گیا۔ گولی کی آواز سے مچی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ آور وہاں سے فرار ہو گئے۔ لوگوں نے کرپال کو ڈسٹرکٹ اسپتال پہنچایا، مگر حالات سنگین ہونے کی وجہ سے اسے بریلی ریفر کر دیا گیا۔ بریلی میں ایک پرائیویٹ اسپتال میں اس کا علاج چل رہا تھا، جہاں سنیچر کی رات اس نے دم توڑ دیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق گولی ریڑھ کی ہڈی میں لگی تھی۔بریلی کے سرکل آفیسر مکل دویدی نے کہا کہ قاتلوں کو پکڑنے کے لئے پولیس نے خصوصی ٹیموں کی تشکیل کی ہے۔ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ کو دیے بیان میں کرپال نے الزام لگایا تھا کہ آسارام سے وابستہ لوگ پچھلے کچھ دنوں سے اسے دھمکی دے رہے تھے۔ آسارام پر ریپ کا الزام لگانے والی لڑکی کے والد نے بھی اس واردات کو آسارام کے گرگوں کی کرتوت قرار دیا ہے۔ غور طلب ہے کہ 35 سال کے کرپال سنگھ متاثرہ لڑکی کے والد کے ساتھ کام کرتا تھا۔وہ آسارام کے ساتھ بھی کام کرچکا تھا اور اس کا خادم رہ چکا تھا۔

گواہوں پر حملے ہوتے رہے ہیں

    آسارام کیس سے جڑے ہوئے لوگوں کی موت اور ان پر حملے کوئی نئے نہیں ہیں ۔ اس سے پہلے بھی متعدد گواہ نشانے پر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آسارام کے بھکتوں نے پولس پر بھی حملے کئے تھے۔ اسی سال جنوری میں مظفر نگرمیں ایک دوسرے گواہ کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھاجوکہ اسارام کے آشرم میں باورچی کا کام کرتا تھا اور سرکاری گواہ بن گیا تھا۔اس سے پہلے گجرات میں آسارام کے سابق معاون امرت پرجاپتی کا بھی قتل ہوچکا ہے۔ آسارام معاملے میں اب تک نو گواہوں پر حملے ہو چکے ہیں۔جن میں سے چار کی موت ہوچکی ہے اور  کچھ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ راہل سچان، گپتا اور مہندر چاولہ سمیت ۹گواہوں پر حملہ کیا گیا۔مانا جا رہا ہے کہ یہ حملے کیس کو کمزور کرنے کے لئے کئے گئے ہیں۔واضح ہوکہ آسارام اپنے آشرم میں ایک  طالبہ کی آبروریزی کا ملزم ہے۔ وہ ستمبر 2013 سے جودھپور جیل میں بند ہے۔ اس کے علاوہ گجرات کے سورت میں بھی دو بہنوں سے آبروریزی کا آسارام اور اس کے بیٹے نارائن سائیں پر الزام ہے۔نارئن سائیں کو ضمانت مل چکی ہے مگر آسارام کو اب تک ضمانت نہیں مل پائی ہے ۔ نارائن سائیں اور آسارام کے لوگ کئی حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں مگر اب تک حکومت اور پولس کا رویہ اس معاملے میں سخت نہیں نظر آیا۔  

آسارام کو بچانے کی کوشش

    آسارام کو بچانے کی کوشش میں بہت سے لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔جن سے کچھ لوگوں کو اب تک پولس گرفتار بھی کرچکی ہے۔ ان میں شاہ جہاں پور کے ایک اسکول کا پرنسپل بھی شامل ہے ،جس نے ریپ کی شکار ایک لڑکی کا فرضی عمر سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔سرکل آفیسر راجیشور سنگھ کا کہنا ہے کہ سرٹیفکیٹ چند ماہ پہلے جاری کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ لڑکی بالغ ہے۔ اس بات کی شکایت لڑکی کے والد نے پولس میں درج کرائی تھی۔لڑکی کے والد کا دعوی ہے کہ پرنسپل نے فرضی سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے کیونکہ ان کی لڑکی اب بھی نابالغ ہے۔ اس معاملے میں تحقیقات چل رہی ہے اورا یج سرٹیفکیٹ فرضی پایا گیا ہے جب کہ ملزم پرنسپل سنت کرپال کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیاتھا۔غور طلب ہے کہ آسارام پر 16 سال کی لڑکی پر جنسی حملہ کرنے کا الزام ہے۔ 1 ستمبر، 2013 سے وہ جیل میں ہے۔وہ لڑکی کو بالغ ثابت کرنا چاہتا ہے تاکہ کیس میں یہ ثابت کیا جاسکے کہ جو کچھ ہوا لڑکی کی مرضی سے ہوا۔ جودھپور کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران آسارام نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ شکار بالغ ہے۔اس کا کہنا تھا کہ میڈیا کا یہ دعوی کہ لڑکی نابالغ ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ بعد میں آسارام صحت سے متعلق وجوہات کی بنیاد پر ضمانت لینے سپریم کورٹ بھی گیا لیکن اس کی صحت مستحکم پائے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست مسترد کر دی۔

آسارام کے وکیلوں کی گھٹیا حرکت

     آسارام کی پیروی کر رہے سینئر وکیل رام جیٹھ ملانی نے بارہا عدالت کے سامنے حاضر ہوکر اس کی ضمانت کی وکالت کی مگر اب تک عدالت نے ضمانت نہیں دی ہے۔معروف وکیل اور بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ رام جیٹھ ملانی نے آسارام کی ضمانت کے لئے دلیل دیتے ہوئے کورٹ میں کہا تھا کہ ریپ کی شکار لڑکی ایسی ’’سنگین بیماری‘‘ میں مبتلا ہے، جو ایک عورت کو مرد کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ ان کے اس بیان پر لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا تھا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر لوگوں نے جیٹھ ملانی کو زبردست طریقے سے تنقید اور ملامت کا نشانہ بنایا تھا۔بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین نے ٹویٹ کیا تھاکہ لڑکی کو ’بیماری‘ ہے جو اسے مردوں کے پاس کھینچ لاتی ہے اوراس مرد اس کاریپ کر یہ بیماری ٹھیک کر رہے ہیں؟ اوپن میگزین کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر راہل پڈتا نے ٹویٹ کیا، ’’ میرے پاس جیٹھ ملانی کے لئے ایک علاج ہے، لیکن میں اسے یہاں شیئر نہیں کر سکتا،شاید کوئی سچ میں ان کے ساتھ ایسا کر ڈالے گا۔‘‘غور طلب ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لڑکی کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے اور بہکاوے میں آکر اس نے آسارام پر سنگین الزام لگائے ہیں۔

    آسارام کی ضمانت کے لئے بی جے پی لیڈر اور قانون داں سبرامنیم سوامی بھی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔وہ جودھپور سیشن کورٹ میں اس سلسلے میں وکیل کی حیثیت سے پیش ہوچکے ہیں۔جیٹھ ملانی کی دلیلوں سے الگ سوامی نے کہا تھا کہ ٓاسارام کے خلاف غیر مذہبی طاقتوں نے جھوٹے الزام لگائے ہیں اور انہیں کمزورثبوتوں کی بنیاد پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ تب پراسیکیوٹرز کے وکیل پی سی سولنکی نے آسارام کی ضمانت کی مخالفت کی تھی اور عدالت سے جرم واقع ہونے کے حالات پر نظر ڈالنے کی اپیل کی تھی۔

کیا آسارام کو سزا ملے گی؟

    آسارام کے خلاف پولس چارج شیٹ داخل کرچکی ہے۔راجستھان پولیس نے قریب 140 گواہوں سے پوچھ گچھ کی اور ان کے بیانات کی بنیاد پر یہ چارج شیٹ تیار کی۔بدھ کو اسے جودھپور کورٹ میں پیش کیا گیا۔اس میں کئی دفعات کے تحت الزام لگائے گئے ہیں جن مین سے اگر کوئی ایک بھی ثابت کیا جاسکا تو انھیں کئی سال کی سز اہوجائیگی۔

دفعہ 376 (2): عصمت دری، 10 سال سے عمر قید تک کی سزا

دفعہ 370: رہن بنانا، 7 سال تک کی سزا

دفعہ 506: دھمکانا، 7 سال تک کی سزا اور جرمانہ

26 :نابالغ لڑکی کا استحصال، 3 سال تک کی سزا

5 F / 6 : 10 سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا

    آسارام کے خلاف سخت دفعات تو لگائی گئی ہیں مگر گواہوں کو تحفظ دینے میں پولس ناکام رہی ہے جس کے سبب اسے سزادلانا آسان کام نہیں ہے۔ ایک ایک کر چار گواہوں کو اب تک موت کے گھات اتارا جاچکا ہے اور کل ۹ پر حملے ہوئے ہیں یا زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ ایسے میں دوسرے لوگ جو گواہ کے طور پر سامنے آسکتے تھے، اب ا نھیں اپنی جان کا خوف پیدا ہوچکا ہے اور وہ آگے نہیں آسکتے ہیں۔ متاثرہ لڑکیوں اور ان کے گھر والوں کی جانیں بھی خطرے میں ہیں اور اگلا نشانہ ان میں سے کون ہوگا؟ یہ نہیں کہا جاسکتا۔ آسارام اگرچہ زانی ہے اور اسی کیس میں وہ جیل میں بند ہے مگر اب جس طرح سے وہ اپنے کیس کے گواہوں کو راستے سے ہٹاتا جارہا ہے، اس سے تو لگتا ہے کہ وہ شاطر غنڈہ بھی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کے زانی بیٹے نارائن سائیں کو ضمانت مل بھی چکی ہے۔ آسارام ایسا شخص ہے جس کے تعلقات سرکار اور پولس میں اعلیٰ سطح پر ہیں۔ اس کے سینکڑون کی تعداد میں آشرم ہیں جن کے لئے کانگریس اور بی جے پی دونوں سرکاروں نے جگہیں فراہم کی ہیں اور دونوں پارٹیوں کے نیتائوں کی حاضری اس کی چوکھٹ پر ہوتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے والوں میں شامل ہیں۔ایسے میں اگر وہ سنگین جرائم کے الزام سے بری ہوجائے اور پھر دوبارہ بابا بن کر انھیں حرکتوں کا ارتکاب کرے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 496