donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aurangzeb Ke Bahane Tareekh Ke Bhagwa Karan Ka Khel


اورنگ زیب کے بہانے تاریخ کے بھگواکرن کا کھیل


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    کیا اب بابر روڈ کا نام ناتھو رام گوڈسے روڈ ہوگا؟ کیا اب جہانگیر روڈ کا نام ویرساورکر روڈ ہوگا؟ کیا اب اکبر اور شاہجہاں سے منسوب سڑکوں کو آرایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے لیڈروں کے نام سے منسوب کیا جائے گا؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ جہان ایک طرف اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرکے ہندتووادیوں کے ایک دیرینہ مطالبے کو پورا کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف اب ہندو مہاسبھا کی طرف سے مطالبہ اٹھنے لگا ہے کہ بابرروڈ کا نام ناتھو رام گوڈسے روڈ کیا جائے۔ نیز مغل بادشاہوں کے نام سے منسوب تمام سڑکوں کو ہندتووادی لیڈروں کے نام سے منسوب کیا جائے۔حالانکہ اورنگ زیب روڈ کانام تبدیل کرنے پر جہاں بھگواپریوار گھی کے چراغ جلا رہا ہے وہیں ملک کے سیکولر اور انصاف پسند طبقے کی طرف سے اس کے خلاف آواز بھی اٹھ رہی ہے۔یہ معاملہ اب کورٹ میں بھی پہنچ چکا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ کورٹ جلد ہی اس سلسلے میں اپنی رائے دے گا۔سیکولر حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک سڑک کا نام تبدیل کرنے کا نہیں ہے بلکہ ملک کی تاریخ کو بھگوا سیاہی سے لکھنے کا ہے۔ اورنگ زیب ایک تاریخی شخصیت کا نام ہے جس کے کردار کی تشریح مورخین کرسکتے ہیں مگر جس طرح سے بھگوا وادیوں کی طرف سے تاریخ کو تبدیل کرنے کا کام بھیڑ کر رہی ہے وہ تشویش کی بات ہے۔اس پورے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ کانگریس جیسی پارٹی تاریخ کے بھگوا کرن پر خاموش ہے اور عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال ہندتووادیوںکا ساتھ دے رہے ہیں۔روڈ کا نام بدلنے پر سب سے پہلے انھون نے ہی ٹویٹ کر مبارک باد پیش کی۔ اب سوال اٹھ رہا ہے کہ وہ سنگھ پریوار کے نظریات سے متفق ہیں یا تاریخ کے علم سے بے بہرہ ہیں؟

 کجریوال بھی بھگواوادیوں کے ساتھ  

    نئی دہلی این ڈی ایم سی ایریا کے تحت آنے والے اورنگ زیب روڈکو سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے نام سے منسوب کرنے کی رسم بھی ادا ہوگئی۔یہ تجویز این ڈی ایم سی کے اجلاس میں پاس ہو گئی۔ حالانکہ اس بات کی مخالفت ہورہی ہے کہ اورنگ زیب روڈ کا نام ہی کیوں بدلا گیا؟ شیاماپرساد مکھرجی روڈ کا نام بھی بدل سکتا تھا، دین دیال اپادھیائے روڈ کا نام بھی تبدیل کیا جاسکتا تھا اور کچھ دوسری سڑکیں بھی تھیں۔ایم پی اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کرکے اروند کیجریوال کو کہا ہے کہ آپ اورنگزیب کے بارے میں حقیقت پڑھیں۔ وہیں انہوں نے دوسرا ٹویٹ کر سوال اٹھایا کہ بی جے پی لیڈروں نے یہ تجویز پیش کی اور دہلی کی عام آدمی پارٹی کی حکومت نے اسے لاگو کیا ، یہ دونوں کیا پیغام دے رہے ہیں؟غور طلب ہے کہ اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام روڈ رکھے جانے پر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ کیجریوال نے ٹویٹ کر این ڈی ایم سی کو مبارک باد دی تھی۔ یہ تجویز بی جے پی ایم پی میناکشی لیکھی، مہیش گری اور عام آدمی پارٹی کے ٹریڈ ونگ کے رہنما وپن روہیلا کی طرف سے لائی گئی تھا۔ اس بارے میں ممبر پارلیمنٹ مہیش گری پہلے ہی خط لکھ چکے ہیں۔

بابر روڈ کا نام ناتھورام گوڈسے روڈ؟

    اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرنے کے اعلان کے بعد سے اس مسئلے کو لے کر سیاست شروع ہو گئی ہے۔ ہندو مہاسبھا کا مطالبہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے نام پر جن بھی سڑکوں کے نام ہیں، انھیں بدلا جائے۔ اس نے بابرروڈ کا نام بدل کر ناتھو رام گوڈسے روڈکرنے کی مانگ کی ہے۔ وہ گاندھی کے بجائے گوڈسے کو ہیرو مانتا ہے۔ہندو مہاسبھا کے قومی جنرل سکریٹری منا کمار شرما نے کہا کہ ہم نے ہوم منسٹر راج ناتھ سنگھ کو خط بھیج کر سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کی مانگ ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ بھارتی ثقافت اور ہندو مندروں کو نقصان کرنے والے غیر ملکی بابر، اور تلوار کے دم پر ہندوؤں کا مذہب تبدیل کروانے والے ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں، فیروز شاہ، تغلق، لودھی وغیرہ کے نام پر رکھی سڑکوں کا نام بدلا جائے ۔ہندو مہاسبھا کا کہنا ہے کہ ان سڑکوں کا نام ویر ساورکر، دھرم ویر رائے، مدن موہن مالویہ، مہارانا پرتاپ، شیواجی، ماسٹر گووند سنگھ، بھائی پرمانند، ناتھو رام گوڈسے کے نام پر رکھا جائے۔اب سوال یہ ہے کہ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کیا اس مطالبے کی بھی حمایت کریںگے۔

حکومت کا غیرقانونی قدم

     اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر کے اے پی جے عبدالکلام روڈ کرنے کو جسٹس راجندر سچر کے ساتھ ہی سینئر کالم نگار کلدیپ نیر نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ساتھ ہی اسے بھارتی آئین کی روح کے خلاف بتاتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ ان دونوں کے ساتھ ہی دہلی ہائی کورٹ کے سینئر وکیل این ڈی پنچولی نے سٹیزین فار ڈیموکریسی (CFD کے) کے ذریعے جاری مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ قانون کے حساب سے اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔مشترکہ بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ بی جے پی طویل مدت سے اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسے ناکامی ہاتھ لگ رہی تھی اور اب اسے بدل دیا گیا۔(CFD کے) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کے حساب سے اورنگزیب روڈ کا نام تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ادارے نے بتایا کہ جب انہیں اس بات کا پتہ چلا کہ این ڈی ایم سی (نئی دہلی میونسپل) نے روڈ کا نام تبدیل کر کے اے پی جے عبدالکلام روڈ کر دیا ہے تو انہیں بہت حیرانی ہوئی کیونکہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔ مثال دیتے ہوئے ادارے نے بتایا کہ سال 2014 میں بھی پارٹی نے این ڈی ایم سی سڑک کا نام تبدیل کر کے گورو تیغ بہادر روڈ کر دینے کی بات کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ ادارے نے بتایا کہ 17 دسمبر 2014 کو اس وقت منسٹر آف اسٹیٹ فار ہوم ہری بھائی چودھری نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پالیسی کے مطابق کسی تاریخی شخص کے نام پر رکھے گئے سڑک کے نام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ CFD کے نے معاملے سے منسلک اہلکاروں کو نوٹس بھیج کر فیصلے کو تبدیل کرنے کی اپیل کی ہے۔

عوامی اعتراض

    بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی نے دہلی کی اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر کے سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے نام پر کئے جانے کے فیصلے کو غلط روایت کا آغاز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغل حکمران اورنگزیب اور بھارت رتن عبدالکلام، دونوں ہی اپنے اپنے وقت کی خاص اہمیت رکھنے والی پروفائل ہیں۔ایسے میں ایک شخص کے نام کو ہٹا کر دوسرے کے نام پر سڑک کا نام دینا تنگ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسی سوچ سے ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرنے پر احتجاج کرنے والوں نے آن لائن پٹیشن سے این ڈی ایم سی کے اس فیصلے کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ درخواست گزار یوسف سعید نے اس پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے اس فیصلے کا موازنہ 1992 میں ایودھیا کی بابری مسجد انہدام سے کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس سڑک کا نام تبدیل کرنا غلط اور بدقسمتی کی بات ہے ۔ 1992 میں بابری مسجد کا انہدام بھی لوگوں کاہی مطالبہ تھا اور اس کا نتیجہ ہم سب نے دیکھا تھا۔احتجاج کا ایک انوکھا طریقہ اوکھلا (نئی دہلی)کے سابق ایم ایل اے آصف محمد خان نے اختیار کیا اور جمنا کے کنارے واقع تین کیلو میٹر لمبی کالندی کنج روڈ کا نام اورنگ زیب روڈ رکھ دیا ہے۔ انھوں نے یہاں سائن بورڈ بھی لگادیئے ہیں۔مسلم تنظیموں نے اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر کے سابق صدر مرحوم اے پی جے عبدالکلام کے نام پر رکھنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس سے تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر شہروں،سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کا چلن چل سکتا ہے۔جماعت اسلامی ہند کی سیاسی ونگ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر اور آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ کے رکن سید قاسم رسول الیاس نے کہا’’یہ ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔یہ سلسلہ یہیں نہیں رکنے والا ہے۔ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ مولاناعطاالرحمن قاسمی نے کہا کہ کلام اگر زندہ ہوتے تو اس قدم کو وہ خود پسند نہیں کرتے۔

کورٹ کی مدد

    اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کے خلاف اب معاملہ کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔شاہد علی نام کے ایک وکیل نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کہا ہے کہ این ڈی ایم سی کو اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کر اے پی جے عبدالکلام روڈ رکھنے  سے روکا جائے۔ وکلاء کی جانب سے کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم سی کا یہ فیصلہ تاریخی معلومات کی غیر موجودگی میں لیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ این ڈی ایم سی کو اس بابت نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکا جائے جو اس معاملے میں قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ کلام کے نام پر نئے روڈ کا نام رکھنے کی بجائے وہ اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کررہی ہے۔ اصول کے مطابق موجودہ سڑکوں کے جو نام ہیں، انھیں بدلا نہیں جاسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 546