donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aurat Ko Talaq Nahi Haqe Warasat Chahiye


عورت کو طلاق نہیں، حق ِوراثت حصہ چاہئے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مسلمان خواتین کی ’’مظلومیت ‘‘ان دنوں میں میڈیا میں زیربحث ہے اور انھیں ان کا ’’حق‘‘ دلانے کے لئے بی جے پی کی سرکار بھی کوشاں نظر آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیاہندو خواتین کو ان کے حقوق مل چکے ہیں؟ کیا ملک کے ہندو اپنی خواتین کو حق وراثت دیتے ہیں؟ کیا اس معاملے میں ہندو اور مسلم خواتین کی یکساں حالت نہیں ہے؟ اگر ہاں تو خواتین کو حق وراثت دینے کی جدوجہد کیوں نہیں کی جاتی؟ اسے یقینی بنانے کے لئے کوشش کیوں نہیں ہوتی؟ ہم جانتے ہیں کہ باپ کی متروکہ جائیداد میں بیٹی کا حصہ بنتا ہے۔ شوہر کی موت پر بھی اس کی بیوی کو اس کی جائیداد میں حق وراثت ہے اور عالمی تاریخ شاہد ہے کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے مذہب اسلام نے قدم اٹھایا تھا۔ اسلام سے قبل عورت کو وراثت میں حق نہیں ملتاتھا بلکہ وہ خود ’’مال‘‘ کی طرح وارثوں میں تقسیم کی جاتی تھی مگر اسلام نے اسے حق وراثت دیا اور اس کا اثر دنیا کے مختلف ملکوں اور تہذیبوں پر پڑا اور خواتین کو وراثت میں حق دیا جانے لگا۔ بھارت میں بھی ہندو خواتین کو اب حق وراثت حاصل ہے جو یقینا اسلامی قانون کی برکت سے ہی ممکن ہواہے۔ قانون اپنی جگہ پر مگر ایک زمینی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو ہوں یا مسلمان،وہ تب تک خواتین کو وراثت میں حق نہیں دیتے جب تک کہ عورتیں مقدمے بازی کے لئے اتارو نہ ہوجائیں۔ باپ کی موت کے بعد جس طرح بیٹے کا اس کے متروکہ مال میں حصہ بنتا ہے ۔اسی طرح بیٹی کا بھی بنتا ہے مگر یہ عام بات ہے کہ بیٹے آپس میں جائیداد بانٹ لیتے ہیں اور بہنوں کو حصہ نہیں دیتے۔ اس معاملے میں ہندو، مسلمان کی کوئی قید نہیں، سبھی طبقوں میں یہ بددیانتی عام ہے۔ اس بے ایمانی میں عوام وخواص برابر کے شریک ہیں اور اگر سروے کیا جائے توتحفظ شریعت کی آواز اٹھانے والے کئی مولوی، مولانا بھی مل جائیںگے، جنھوں نے اپنی بہن یا پھوپی کا حق وراثت دبا رکھا ہوگا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ جو تحفظ شریعت کے بڑے بڑے دعوے کرتا ہے، اس کے ممبران میں بھی ایسے کئی لوگ مل جائیںگے جنھوں نے اپنی رشتہ دارخواتین کا حق وراثت انھیں نہیں دیا ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ اس کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کبھی تحریک کیوں نہیں چلاتا اور حکومت ہند قانون بناکر  اسے یقینی کیوں نہیں بناتی؟یہاں خواتین کی مظلومیت کسی کو کیوں نہیں دکھائی دیتی؟

کچھ سوال مسلمانوں سے

    ’’تین طلاق ‘‘اور ’’کامن سول کوڈ‘‘ کے حوالے سے اس وقت’’ تحفظ شریعت‘‘ کے عنوان سے مسلم تنظمیں تحریک کے راستے پر ہیںمگر خواتین کے حق کے معاملے میں خاموشی کیوں ہے؟اس وقت میں مسلمانوں سے مخاطب ہوں جو ایک طرف تو تحفظ شریعت کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف شریعت کے اصولوں کی دھجیاں بھی وہی اڑارہے ہیں۔ بات صرف حق وراثت تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی سطح پر لڑکیوں کے ساتھ بھید بھائو ہمارے معاشرے میں عام ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کی نظر میں خواتین کا رتبہ مردوں سے کم ہے؟ کیا اسلام صنفی بھید بھائو کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا اسلام نے خواتین کو وراثت میں حصہ دار نہیں بنایا ہے؟ کیا قرآن کریم نے انھیں ورثے میں حصہ دینے کا حکم نہیں دیا ہے؟ کیا بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا ہے؟ کیااسلام نے کہیں کہا ہے کہ لڑکیوں کی پرورش اور ان کی تعلیم کم تر درجے میں کرو اور لڑکوں کی اچھے طریقے سے کرو؟ کیا لڑکیوں کو کمانے اور سماج میں قابل احترام مقام حاصل کرنے سے اسلام نے منع کیا ہے؟ کیا لڑکیوں کو گھروں میں بند رہنے کا حکم ہے اور لڑکوں کو ہر قسم کی آزادی دی گئی ہے؟ اگر اسلام نے خواتین کے ساتھ بھید بھائو کا حکم نہیں دیا تو مسلم معاشرے میں ان کے ساتھ بھید بھائو کیوں کیا جاتا ہے؟ انھیں لڑکوں سے کم تر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ انھیں معمولی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے جب کہ لڑکوں کے لئے اچھے اور مہنگے اسکولوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ آج کتنے مسلمان ہیں جو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہیں؟ آج کتنے مسلمان ہیں جو انھیں اپنے لئے شوہرکے انتخاب کرنے کا موقع دیتے ہیں؟ آج کتنے مسلمان ہیں جو ان کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کے ساتھ کرتے ہیں؟ جب بیٹوں کو کسی کریئر میں آگے بڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے تو بیٹیوں سے یہ حق کیوں چھینا جاتا ہے؟ جو حقوق اسلام نے اسے دیئے ہیں، ان سے محروم کرکے مسلم معاشرہ زیادتی نہیں کر رہا ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ جو علماء اسلامی تعلیمات کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں مرد وعورت میں کوئی بھید بھائو نہیں ہے ،وہی اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ سوتیلا برتائو کرتے ہیں؟ آخر آج کے مسلمانوں کا معاشرہ اس معاشرے کی تقلید کیوں نہیں کرتا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا؟ بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ احادیث کی کتابوں میں بعض ایسی موضوع روایتیں بھی شامل کی گئی ہیں جو خواتین کے احترام کی نفی کرتی ہیں۔ علماء حدیث نے ان کی شناخت بھی کرلی ہے مگر آج بھی یہ صحیح روایتوں کی طرح ہی پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں اور گمراہی کا سبب بن رہی ہیں۔ 

وراثت سے محرومی

    اسلام اللہ کا اتارا ہوا دین ہے جو عین فطرت انسانی کے مطابق ہے۔ اس کی نظر میں اللہ کے تمام بندے یکساں ہیں وہ مرد ہوں یا خواتین۔ یہ عرب سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلا اور جس علاقے میں پہنچا وہاں کے معاشرتی قوانین سے اسے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہوئی۔ دنیا کے ہر علاقے کا سماجی ڈھانچہ الگ تھا، لہٰذا وہاں کے سماجی ڈھانچے میں اسے ڈھالنا شروع کیا گیا۔ وقت اور حالات نے بھی اس پر اثر ڈالا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن و احادیث کی کتابوں میں تو ایک اسلام رہا مگر سماجی زندگی میں ایک الگ طرح کا اسلام رائج ہوگیا۔ قرآن کریم نے مردوں کی طرح خواتین کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا ہے مگر برصغیر میں لڑکیوں کو وراثت سے محروم کرنے کا سلسلہ چل پڑا۔ اسلام نے انھیں اپنے لئے شوہر کے انتخاب کا حق رکھا ہے یعنی ان کی مرضی کے بغیر ان کی شادی نہیں ہوسکتی مگر اس معاملے میں ان کی پسند اور ناپسند کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس کا بڑا سبب یہاں کے سماجی دستور تھے جو اسلام کے پہلے سے چلے آتے تھے۔ بھارت کی قدیم کتابوں میں عورت کو بھی ایک منقولہ جائیداد کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کا مالک مرد کو بتایا گیا ہے۔ اسی لئے آج بھی یہاں شوہر کو ’’سوامی‘‘ کہا جاتا ہے،جس کا مطلب ہوتا ہے ’’مالک‘‘۔ہندووں کی شادی میں آج بھی ’’کنیادان‘‘ کا رواج ہے ،اس کا لفظی ترجمہ ہوتا ہے ’’لڑکی کا عطیہ ‘‘ گویا وہ کوئی مال منقولہ ہے جس کا عطیہ کیا جارہاہے۔یہاں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اگر ایک بار عورت کی ڈولی باپ کے گھر سے نکل گئی تونکل گئی، اب شوہر کے گھر سے اس کی ارتھی ہی نکلنی چاہئے۔یعنی باپ کے گھر پر بیٹے کا تو اختیار رہا مگر بیٹی کا کوئی اختیار نہیں رہا۔یہاں بیوہ خواتین کو شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جلانے کا رواج بھی صدیوں رہا ہے۔ اس قسم کے عورت مخالف سماجی ضابطوں نے بر صغیر میں مسلمانوں کو بھی متاثر کیا۔ یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت چونکہ ہندو سے ہی تبدیلی مذہب کر کے اسلام میں داخل ہوئی تھی لہٰذا وہ بہت سی خرابیاں لے کر اسلام کے دائرے میں آئی اور انھیں باقی بھی رکھا۔ ایسی ہی خرابیوں میں خواتین کی حق تلفی بھی شامل تھی۔ وراثت سے لڑکیوں کو محروم رکھنے کا رواج ہمارے ہاں اس قدر چل پڑا ہے کہ اچھے خاصے مذہبی گھرانے بھی ایسا کرتے ہوئے خوف خدا محسوس نہیں کرتے اور انھیں احساس نہیں ہوتا کہ آخرت میں ان سے بازپرس ہوگی۔ حقوق اللہ میں کوئی کمی اللہ معاف کردے تو کردے مگر حقوق العباد تلف کرنے کا جرم وہ معاف نہیں فرماتا۔ آج ہم کامن سول کوڈ کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ اس سے ہمارے شرعی حقوق میں مداخلت ہوگی مگر بیٹیوں، بہنوں کو وراثت سے محروم کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچتے کہ ہم خود شرعی حقوق کی پامالی کر رہے ہیں۔ 

پردہ کے نام پہ خواتین پر پابندیاں

    اسلام میں پردہ کا حکم ہے مگر برقع پہننے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ پردہ کا مطلب ایسا لباس ہے جو جسم کو چھپادے اور دیکھنے والوں کو دعوتِ نظارہ نہ دے۔ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں پردہ کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ عہد نبوی کے معاشرے میں نہیں تھا۔ ہم نے آنکھ کھولتے ہی جس قسم کا پردہ دیکھا وہی ہمارے دل ودماغ میں بس گیا اور ہمیں محسوس ہونے لگا کہ یہی اسلامی پردہ ہے۔ علماء کا ایک طبقہ بھی سماجی روایات سے متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔بھارت میں سیاہ برقعے کا چلن نہ جانے کب شروع ہوا اور پھر اس میں سختی کا یہ عالم کہ آنکھوں کے سامنے جالیاں لگنے لگیں، ہاتھوں پر دستانے اور پیروں کو چھپانے کے لئے موزے پہنائے جانے لگے۔ افغانستان میں اس سے بھی خطرناک برقع ایجاد کیا گیا جو سر سے پیر تک اس طرح ڈھکا ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کا دم گھٹنے لگے۔عہد نبوی میں مسلمان خواتین جنگوں میں شریک ہوتی تھیں، تلواریں چلاتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں، تلواروں کی جھنکاروں کے بیچ مجاہدین تک اسلحے پہنچاتیں، انھیں پانی پلاتیں۔ وہ کھیتوں اور باغوں میں کام کرتی تھیں اور مسجدوں میں باجماعت نمازوں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ ان کے لئے مسجد میں کوئی الگ جگہ نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی پردے کا الگ اہتمام کیا جاتا تھا۔ بس ان کی صفیں مردوں کی صفوں کے پیچھے ہوتی تھیں۔ امہات المومنین میں سے بعض خود کفیل تھیں اور اپنا ذریعۂ معاش رکھتی تھیں۔ ذرا تصور کیجئے اگر ہندوستانی یا افغان برقع میں وہ مستور ہوتیں تو کیا یہ تمام کام کرپانا ممکن تھا؟ پردے کے نام پر ہم نے ان کے اوپر غیر فطری پردہ لاد دیا ہے جو ان کے روز مرہ کاموں میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، اور بقیہ سماج سے انھیں بالکل الگ تھلگ کردیا ہے جس کے سبب وہ خود کو کمزور محسوس کرتی ہیں اور مردانہ سماج کی جانب سے جاری ناانصافیوں کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتی ہیں۔قرآن کریم میں ایسا حکم نہیں ہے کہ عام مسلم خواتین اپنا چہرہ پوشیدہ رکھیں،البتہ اگر کوئی عورت ڈھکنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے۔ احادیث کی کتابوں میں ایسی بہت سی روایتیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد نبوی کی عورتوں کو اختیار تھا کہ وہ اپنا چہرہ کھول کر رکھیں یا ڈھک لیں۔ البتہ امہات المومنین کے لئے قرآن میں خصوصی پردے کا حکم ہے۔اس دور میں باندیوں کے لئے مزید چھوٹ تھی جو اپنے دونوں بازو، سر اور دونوں ٹانگوں کو گھٹنے کے نیچے سے بے پردہ رکھ سکتی تھیں۔آج یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ بے پردہ عورت کے سبب شہوت انگیزی ہوتی ہے، حالانکہ اگر یہ دلیل درست ہے تو عہد نبوی میں تمام خواتین کو مکمل پردے کا حکم دیا جاتا۔اس میں باندی اور آزاد کی کوئی قید نہ ہوتی۔

خواتین کو بااختیار بنانے کا مخالف ہے اسلام؟

     اسلام نے روزگار کا حصول مردوں پر لازم کیا ہے۔ خواتین کے لئے یہ اختیار ہے کہ وہ کمائیں یا نہ کمائیں۔ اگر وہ کماتی ہیں تو بھی گھر کا خرچ چلانے کی ذمہ داری ان کے اوپر نہیں ہے بلکہ مردوں پر ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اپنا کاروبار تھا،جسے وہ خود کنٹرول کیا کرتی تھیں۔ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ماتحت تجارت کیا کرتے تھے۔یونہی حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا بھی کماتی تھیں اور اس میں سے بیشتر حصہ صدقہ کردیا کرتی تھیں۔ ان کی سخاوت کے سبب اللہ کے رسول نے انھیں ’’لمبی ہاتھ والی‘‘ کہا ہے۔ حضرت زینب ،کچے چمڑے کو قابل استعمال بناتی تھیں اور اسے فروخت کیا کرتی تھیں۔ عام طور پر دیکھاجا تا ہے کہ جو خواتین کام کرتی ہیں اور خود کفیل ہوتی ہیںوہ مظالم کی کم شکار ہوتی ہیں۔ ان کے بااختیار ہونے سے آدھاسماج بااختیار ہوگا۔ وہ اگر معاشی طور پر کمزور ہونگی تو ہمیشہ دوسروں کی محتاج ہونگی،اپنے خاندان پر بوجھ ہونگی اور اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھاسکیں گی۔ آج کے مسلم معاشرے نے ان سے باختیار اور خود کفیل ہونے کا حق بھی چھین لیا ہے، جو یقینا اللہ کے دین پر زیادتی ہے۔انھیں شادی سے پہلے باپ اور بھائی کا دست نگر رہنا پڑتا ہے اور شادی کے بعد شوہر کا محتاج۔ جب وہ بڑھاپے کو پہنچتی ہیں تواپنے بچوںکے اوپر انحصار کرتی ہیں ۔ عدم تحفظ کا احساس ان کی روح میں بسا ہوتا ہے ۔ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھاجاتا ہے کہ شوہر طلاق کے صرف تین بول کہہ کر اسے سڑک پر پہنچا دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم اس کا گھر میںبرتن مانجنا قبول کرلیتے ہیں، جھاڑو ،پوچھا کرانے  میں کوئی برائی نہیں سمجھتے، خدمت کے وہ تمام کام جو ہم نوکروں سے کرانا پسند کرتے ہیں، وہی خواتین سے بھی کراتے ہیں اور اس میں کوئی برائی نہیں مانتے تو اس کا حاکم بن کر حکم چلانا کیوں برا مانتے ہیں؟ ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ، تاجر بننا یا کسی جائز طریقے سے روزگار کمانا کیوں ناپسند کرتے ہیں؟ کہیں اسلام کے نام پر ہم اس کے شرعی اور دستوری حق سے، اسے محروم تو نہیں کر رہے ہیں؟جب اللہ نے اسے صلاحیتیں دینے میں کنجوسی نہیں کی ہے تو ہم اسے استعمال کرنے کا حق دینے میں کیوں بخالت سے کام لے رہے ہیں؟اس معاملے میں ایک اور بات قابل غور ہے کہ دنیا میں کسی بھی طبقے کے خلاف جب مظالم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو اس کے اندر ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ مغرب میں جوخواتین کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی اس کا سبب بھی ان کا استحصال تھا۔ اگر ہم بھی اسی طرح اپنی خواتین کو دباتے رہے اور انھیں بنیادی اسلامی حقوق سے اسلام کے نام پر محروم کرتے رہے تو پھر اس کے ردعمل کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔


email: ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 824