donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Bail,Bachhre Ke Zabiha Par Pabandi Aur Reservation Ka Khatma


بیل، بچھڑے کے ذبیحے پر پابندی اور ریرزویشن کا خاتمہ


مہاراشٹر کے مسلمانوں کے سر پر سنگھ پریوار کا ہتھوڑا


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مہاراشٹر کے پسماندہ مسلمانوں کو ملنے والے ریزرویشن کا خاتمہ اور بیل، بچھڑے کے ذبیحے پر پابندی! یہ دونوں فیصلے مہاراشٹر کی بی جے پی۔شیوسینا سرکار کی طرف سے ریاست کے مسلمانوں کو ملنے والے ’’تحفے‘‘ ہیں۔ حالانکہ یہ ابھی ابتدائے عشق ہے ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟یہاں کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں کو ووٹ دیا تھااور شاید اسی کا انتقام ہیں حکومت کے مذکورہ بالا فیصلے۔ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ‘‘کا نعرہ محض فریب ہے؟ بی جے پی مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنا نہیں چاہتی؟ مسلمانوں کے ساتھ وزیر اعظم کا راہ ورسم بڑھانامحض دھوکہ دینے کی کوشش ہے؟ مہاراشٹر میں مسلمانوں کے تعلیمی ریزرویشن کے خاتمے کا کیا مطلب ہے؟ کیا سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو اسی مقام تک پہنچا دیا جائے جس مقام پر صدیوں تک دلتوں کو رکھا گیا؟ مہاراشٹر کے تعلیمی اداروں میں ملنے والے مسلم ریزرویشن کا خاتمہ مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ایک کوشش ہے؟ کانگریس سرکار کی طرف سے ستائے جانے والے مسلمان اب بی جے پی کے رحم وکرم پر جینے کو مجبور کیوں ہیں؟ اب مہاراشٹر میں مسلمانوں کو تعلیمی اداروں اورسرکاری ملازمتوں میں 5 فیصد ریزرویشن نہیں ملے گا۔مہاراشٹر کی بی جے پی۔شیوسینا حکومت کی ایک تجویز کے مطابق، ایسی بندوبست کرنے والے آرڈیننس کی مدت گزشتہ 23 دسمبر کو ہی ختم ہو گئی۔واضح رہے کہ مہاراشٹر کی پچھلی کانگریس این سی پی حکومت نے انتخابات سے ٹھیک پہلے مسلمانوں کو سرکاری نوکری میں 5 فیصد ریزرویشن کا آرڈیننس پاس کیا تھا۔گزشتہ سال جون میں مہاراشٹر کی پچھلی حکومت نے مراٹھوں کو 16 اور پسماندہ برادریوں کے مسلمانوں کو 5 فیصد ریزرویشن کی منظوری دی تھی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب چار ماہ بعد 15 اکتوبر کو ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے تھے۔۱۴ نومبر 2014 کو مہاراشٹرہائی کورٹ نے ملازمت اور تعلیم میں مراٹھا ریزرویشن نافذ کرنے کے فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ کورٹ نے مسلمانوں کو ملازمتوں میں پانچ فیصد ریزرویشن کے فیصلے پر بھی اسٹے لگا دیا تھا اور صرف تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے ریزرویشن کی اجازت دی تھی ۔مہاراشٹر حکومت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئی مگر ملک کی سب اونچی عدالت نے معاملے میں دخل دینے سے انکار کر دیا اور بمبئی ہائی کورٹ میں ہی سماعت کرنے کی ہدایت دی تھی۔مہاراشٹر کی فڈنویس حکومت نے مسلم ریزرویشن منسوخ کئے جانے سے متعلق سرکاری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممبئی ہائی کورٹ نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے سے متعلق جو فیصلہ دیاتھا، اس کے سبب سابقہ سرکار کے ذریعہ جاری آرڈیننس قانونی جگہ نہیں لے سکا، اس لئے مسلم ریزرویشن سے متعلق جاری حکم منسوخ کیا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ حکومت نے گائے،بیل اور بچھڑے کے ذبیحے پر بھی پابندی عائد کردی جس کا مقصد جانوروں کی حفاظت کم اور گوشت کے کاروبارسے وابستہ مسلمانوں کی کمر توڑنا زیادہ ہے۔ مسلمانوں میں یہ وہ طبقہ ہے جو زمانے سے خود کفیل ہے، لہٰذا اسے پسماندہ کرنے کی سازش کے طور پر حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔

ریزرویشن پر سیاست تیز

    مہاراشٹر اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مسلمانوں کا ریزرویشن منسوخ کئے جانے سے متعلق آواز بھی اٹھی مگر سرکار نے اس پر توجہ نہیں دی۔ تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی سرکار کے خلاف تنقید یں کیںاور کہا کہ اقلیتوں کیلئے ریزرویشن کے کوٹہ کی تنسیخ کے فیصلہ نے بی جے پی کے فرقہ پرستانہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔ کانگریس نے کہا کہ مسلم ریزرویشن پر بی جے پی کے فیصلہ نے ظاہر کردیا ہیکہ وہ ایک ’خفیہ ایجنڈہ‘ پر کام کررہی ہے۔ این سی پی نے کہا کہ بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو مستحکم بنانے کیلئے یہ ہتھکنڈہ اختیار کررہی ہے اور بی جے پی لیڈران اقلیتی طبقہ کے کل سماجی مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رادھا کرشنا وکھے پاٹل نے کہا کہ مسلم ریزورویشن سے متعلق فیصلہ جس سے سابق کانگریس حکومت اور بمبئی ہائیکورٹ نے اتفاق کیا تھا، اسے منسوخ کیا جانا بدبختانہ ہے۔ اس فیصلہ نے ان فرقہ پرست طاقتوں کا اصلی چہرہ بے نقاب کردیا ہے جن کے اشارے پر یہ فیصلہ لیاگیا ہے۔این سی پی لیڈر اور مہاراشٹرکے سابق کابینی وزیر جتیندر اوہاد نے کہا کہ اس فیصلہ کا پیغام بالکل واضح ہیکہ بی جے پی سرکار اس مسئلہ کواکثریتی ووٹوں کی شیرازہ بندی کیلئے استعمال کررہی ہے اور یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ صرف ان ہی لوگوں پر توجہ دیگی جنھوں نے اسے ووٹ دیئے ہیں۔ مسلمانوں نے گذشتہ 60 سال کے دوران کبھی بھی اس فرقہ پرست جماعت کو ووٹ نہیں دیا چنانچہ وہ مسلمانوں کے تلخ سماجی حقائق کو سمجھنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ جتیندر اوہاد نے مزید کہا کہ تین اہم کمیٹیوں سچر، رنگاناتھ مشرا اور محمودالرحمن نے اپنی رپورٹوں میں واضح طور پر کہا ہیکہ مسلمانوں کے معاشی، سماجی اور تعلیمی حالات دلتوں سے بھی زیادہ خراب ہیں۔اس سلسلے میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی طرف سے آواز اٹھائی جارہی ہے اور اس کے منتخب ممبران سے لے کر مرکزی لیڈران تک صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ شیو سینا کے اخبار’’سامنا‘‘میں یہ طنز بھی کیا گیا ہے کہ جن مسلمانوں کو ریزرویشن چاہئے وہ پاکستان جائیں۔ کسی حکمراں پارٹی کی جانب سے اس قسم کا لب ولہجہ سماجی تقسیم کی جانب بھی اشارہ ہے۔

مسلمانوں میں بے چینی کی لہر

    مسلمانوں کو ملنے والے ریزرویشن کے خاتمے اور گوشت کے کاروبار پر لگام کسنے کی کوشش سے عام مسلمانوں میںبے چینی ہے اور مہاراشٹر سرکار کے ان فیصلوں پر شدید نکتہ چینیاں کی جا رہی ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں رینگتی نہیں دکھائی دیتی ہے۔مسلمانوں کی تنظیمیں تحریک کے راستے پر ہیں مگر سرکار کی طرف سے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ سابق ریاستی حکومت کے ذریعے مسلمانوں کو دئے گئے پانچ فیصد ریزرویشن کو موجودہ بی جے پی شیوسینا حکومت کے ذریعے ختم کئے جانے کے فیصلے کوجمعیۃ علماء ہند(مہاراشٹر) نے مسلم دشمنی پر مبنی فیصلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ موجودہ حکومت مسلم دشمنی میں کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اوراسے ریاست کے مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ حکومت آر ایس ایس کی مرضی سے کام کررہی ہے اور حکومت کا یہ رویہ جمہوریت کا نہیں بلکہ ڈکٹیٹر شپ کا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی مہاراشٹراکائی کے صدر مولانا ندیم صدیقی اور ریاستی جنرل سکریٹری مولانا محمد ذاکر قاسمی کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جمعیۃعلماء ہند،مہاراشٹر کے مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے جانے کے مطالبے کو لے کر گزشتہ کئی ماہ سے ریاست کے مختلف مقامات پر احتجاج اور مظاہرے کیے، جس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس نے ۳فروری کو جمعیۃعلماء کے ایک کثیر رکنی وفد کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ مسلمانوں کو ہر قیمت پر ریزوریشن دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ کی اس یقین دہانی کے بعد ۲مارچ کو مسلمانوں کے ریزرویشن کورد کرنے کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ حکومت نے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا ہے۔ جمعیۃ علماء کے ذمہ داران کے مطابق حکومت کا رویہ ابتداسے ہی ٹال مٹول کا رہا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی تھی کہ حکومت کسی بھی صورت میں مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دینا چاہتی ہے۔ دوسری جانب سے مراٹھا ریزوریشن کے معاملے میں ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک میں منہ کی کھانے کے بعد بھی حکومت نے اسے ناگپور میں صوتی ووٹوں سے منظور کرلیا تھا جبکہ اس کا کوئی آئینی جواز بھی نہیں ہے۔غور طلب ہے کہ فڈنویس حکومت کے فیصلے سے مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر مسلمانون میں بے چینی دیکھی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو احساس ہو رہا ہے کہ انھیں اس ملک میں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔   

مسلمانوں کے زخموں پرنجمہ ببت اللہ کی نمک پاشی

    جہاں ایک طرف مسلم ریزرویشن کے خاتمے نے مسلمانوں کے دلوں کو اندر تک لہو لہان کردیا ہے وہیں دوسری طرف نجمہ ہبت اللہ نے اپنے ایک بیان کے ذریعے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم سماج کو کسی ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اس قابل بنایا جائے کہ اسے کسی طرح کے ریزرویشن کی ضرورت ہی نہیں ہو۔ انہوں نے صاف کیا کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں مل سکتا۔مرکزی وزیر نے کہا کہ مسلم سماج کے بچوں میں ہنر ہے جسے فروغ دینے کی ضرورت ہے، وہی کام ہماری حکومت کر رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ووٹ بینک کی سیاست کا کھیل کھیلتے ہوئے پچھلی کانگریس این سی پی حکومت نے انتخابات سے عین دو مہینے پہلے مسلمانوںکو ریزرویشن دینے کی تجویز منظور کی تھی۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ پچھلی حکومت اگر واقعی مسلمانوں کو ریزرویشن دینا چاہتی، تو 15 سال کیوں نہیں دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلم سماج کے نوجوانوں کو قابل بنائیں، تاکہ وہ بیرون ملک جا کر نوکری کر سکیں، ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کر سکیں۔ مسلم ریزرویشن کے بارے میں اور سوال پوچھنے پر انہوں نے یہ کہتے ہوئے پلہ جھاڑ لیا کہ یہ کورٹ کا معاملہ ہے، اس لئے اس سے زیادہ وہ اور کچھ نہیں بولیں گی۔مرکزی وزیر کے بیان پر مسلمانوں کی طرف سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

کیا مسلمانوں کا ہندوستان پر کوئی حق نہیں؟

    بھارت میں مسلمانوں کو آزادی کئے بعد سے ہی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور انھیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کا کام کانگریس کی سرکاریں کر تی رہی ہیں مگر بی جے پی کی طرف سے بار بار ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کی بات کہی جاتی رہی ہے مگر اس نے بھی مسلم دشمنی کا وہی رویہ جاری رکھا ہے جو کانگریس کے دور حکومت میں تھا۔ جہاں ایک طرف مہاراشٹر میں مسلم ریزرویشن ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے وہین دوسری طرف مرکز میں جب سے مودی سرکار آئی ہے گجرات میں ان پولس افسران کے اچھے دن آگئے ہیں جو مسلمانوں کے فرضی انکائونٹر کے الزام میں جیلوں میں قید تھے۔ عشرت جہاں، سہراب الدین شیخ اور دوسرے معصوموں کے قتل کے الزام میں ،لوث افسران کو مودی سرکار میں نہ صرف جیل سے رہائی مل رہی ہے بلکہ ان کا استقبال ہیرو کے طور پر کیا جارہا ہے اور انھیں دوبارہ نوکری پر بحال کیا جارہا ہے۔ حالانکہ فرضی انکائونٹر میں بی جے پی کے صدر امت شاہ پر بھی کیس چل رہا ہے مگر پہلے انھیں کی رہائی ہوئی ہے اور ضمانت پر جیل سے باہر آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی ’’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کی اصلیت ہے؟ اور یہی اچھے دن کے وعدے کی سچائی ہے؟ آج مسلمان خود کو ملک میں ڈھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں اور موجودہ سرکار ،کسی بھی طرح ان کے لئے کانگریس کی سرکاروں سے الگ نہیں لگتی ہے۔


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 480