donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Common Civil Code Hindustan Ke Mizaj Ke Khelaf Hai


کامن سول کوڈ ہندوستان کے مزاج کے خلاف ہے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

Email:ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook


    نریندر مودی سرکار کامن سول کوڈ نافذ کرنے کا پلان بنارہی ہے؟ کیا اب ایک ملک میں ایک ہی قانون نافذ ہوگا؟ کیا اب تمام پرسنل قوانین ختم کردیئے جائیں گے؟ کیا اب ہر شخص کو اس کی مرضی ، اس کے مذہبی، سماجی اور روایتی قانون کے ساتھ جینے کا حق نہیں دیا جائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر پورے ملک کو ایک قانون پر مجبور کیا گیا تو جینی سنتوں کو ننگا رہنے سے روکا جائے گا یا ملک کے ہرشخص کو ننگا رہنے کا حق دیا جائے گا؟ سکھوں سے کرپان رکھنے کا حق چھینا جائے گا یا ملک کے تمام شہریوں کو یہ حق دیا جائے گا؟ دفعہ 341سے مذہب کی بندش ختم کی جائیگی اور ایس سی/ ایس ٹی ریزرویشن کا فائدہ ہندووں کی طرح مسلمانوں کو بھی ملے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہندوستان جیسے ملک میںکامن سول کوڈ نافذ کیا گیا تو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ، عیسائی، پارسی، جینی ، بدھسٹ بلکہ خود ہندو بھی اس کی زد میں آجائیں گے۔ کیا سرکار چاہے گی کہ کیرل کے ہندووں کو یوپی کے ہندووںکے طریقے سے جینے پر مجبور کیا جائے؟ کیا یہ درست ہوگا کہ جنوب کے لوگوں کو شمال یا شمال کے عوام کو جنوب کے لوگوں کے طریقے پر رکھا جائے اور انھیں اپنے ان تمام سماجی اور روایتی اصول و ضوابط کو چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جن پر وہ صدیوں سے عمل کرتے آرہے ہیں؟ کیا ہندوستان کے آدیباسیوں کو سرکار ڈنڈے کے زور پر مجبور کرے گی کہ وہ اپنے طریقے کو چھوڑ کر اس کے بنائے ہوئے ضابطے پر عمل کریں؟ کیا اسے نہیں لگتا کہ یہ پورے ملک پر ظلم ہوگا اور اس سے ہمارے ملک کا شیرازہ بکھرجائے گا؟ اس کا نفاذ ایک مشکل یہ نہیں ناممکن امر ہے جو خود سرکار کے سامنے سینکڑوں حل نہ ہونے والے سوالات کھڑے کردے گا ۔ اگر آر ایس ایس مرکزی سرکار کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کامن سول کوڈ کا نفاذ کرے تو یہ اس کی وطن دوستی نہیں ہوگی جس کا وہ دعویٰ کرتا آیا ہے۔ 

    کامن سول کوڈ کیا ہے؟

    بھارت مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ملک ہے۔ یہاں بہت سے مذاہب کے ماننے والے رہتے سہتے ہیں۔ سبھی کے اپنے روایتی اصول اور ضابطے ہیں۔ یہاں اگر ایک طرف مسلم پرسنل لاء ہے تو دوسری طرف ہندو کوڈ بل بھی ہے۔ یہاں اگر عیسائیوں کے اپنے مذہبی دستور ہیں تو سکھوں اور بدھسٹوں کے بھی اپنے کچھ طریقے ہیں۔ یہاں کے آدیباسی پرانے زمانے سے کچھ ضابطوں کی پیروی کرتے آئے ہیں تو پارسیوں کے بھی کچھ الگ طریقے آج کے ماڈرن دور میں جاری ہیں۔ یہیں تک محدود نہیں بلکہ خود ہندووں میں بہت سے ضابطے الگ الگ ہیں۔ ملک کے بعض علاقے کے ہندووں میں یہ دستور ہے کہ نہ صرف مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے بلکہ عورتیں بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرسکتی ہیں۔یہ تمام حقائق اپنی جگہ پر مگر ملک کے دستور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ سرکار پورے ملک کے لئے ایسا قانون لائے گی جو تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے ایک ہی قانون نافذ کرے گی اور اسی کو کامن سول کوڈ کا نام دیا گیاہے۔ 

کامن سول کوڈ، کانگریس کا شوشہ

    ملک کا جو دستور بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر کی قیادت میں بنایا گیا تھا اسی میں یہ بات رکھی گئی تھی۔ تب کانگریس کی مرکز میں سرکار تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ملک کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔ سرکار کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ مناسب وقت پر تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے سب کے لئے ایک ہی دستور نافذ کیا جائے گا مگر آج تک یہ ممکن نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے پوچھا بھی تھا کہ جب ہمارے دستور میں کامن سول کوڈ کا وعدہ کیا گیا ہے تو اب تک اس کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا؟ کورٹ کا سوال اپنی جگہ پر مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں مختلف مذاہب اور طریقے کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں تو اس قسم کی دفعہ ہی کیوں آئین کے اندر رکھی گئی؟ آج اگر بی جے پی سرکاراسے بہانہ بناکر عوام کے ایک بڑے طبقے کو ذہنی طور پر دہشت زدہ کر رہی ہے تو کیا اس کے لئے خود کانگریس ذمہ دار نہیں ہے؟ کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں اور منتریوں کی طرف سے یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ ہندو کوڈ بل کو ہی وسیع کر کے اسے پورے ملک کے عوام پر لاگو کیا جائے گا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک کے اقلیتی طبقات سرکار کی نظر میں کس طرح کھٹکتے رہے ہیں کہ انھیں اپنی مذہبی حقوق سے محروم کر کے ہندو کوڈ بل نافذ کرنے کی بات کہی جاتی رہی ہے۔ 

وزیراعظم کیوں چاہتے ہیں کامن سول کوڈ؟

    حالیہ ایام میں جہاں ’’تین طلاق ‘‘ کی قانونی اور شرعی حیثیت پر بحث چل رہی ہے، وہیں دوسری طرف مرکزی سرکار نے عوام سے کامن سول کوڈ کے نفاذ پر رائے مانگی ہے۔ اس وقت ملک کے سامنے ڈھیر سارے بنیادی مسائل ہیں مگر انھیں چھوڑ کر کامن سول کوڈ پر بحث کیوں کی جارہی ہے؟ اس کا سبب واضح ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ عام انتخابات سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ’’ آئین کے آرٹیکل 44 میں صاف لکھا ہے کہ سرکار ملک میں کامن سول کوڈ لاگو کرنے کے لئے تمام کوششیں کرے گی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں سرکار کی ناکامی پر کمنٹ کیا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گوا جیسے اقلیت اکثریتی ریاست میں کامن سول کوڈ کامیابی سے لاگو ہے اور وہاں کے شہری اس کے ضابطوں کے ذریعے تحفظ پارہے ہیں۔‘‘وزیراعظم مودی نے وزیراعظم، بننے سے پہلے کہا تھا کہ ’’ آج کے نئے دور میں اس بات کی ضرورت ہے کہ خواتین کو برابری ، آزادی اور فیصلہ لینے کا حق بھی ملے۔ ان کے جذبات کی اَن دیکھی کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ باقی چیزوں میں جب ہم زمانے کے ساتھ قدم تال کر رہے ہیں تو ایسے اہم معاملوں میں بھی اکیسویں صدی کی مہک محسوس ہونی چاہئے۔ میں چاہتا ہوں کہ سماج کے سارے دانشمند اور رہنما اس بات پر بحث و مباحثہ کریں۔ ‘‘ بی جے پی جن ایشوز کو بار بار دہراتی رہی ہے ان میں ایک کامن سول کوڈ کا بھی مسئلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمان نہیں چاہتے کہ ان کے مسلم پرسنل لاء کو ختم کیا جائے اور انھیں مذہب کے عائلی دستور پر عمل سے روکا جائے۔ کامن سول کوڈ کو لانے کی کوشش عوام کے ایک بڑے طبقے میں ہیجان پیدا کرسکتا ہے ۔
گرو گولوالکر کامن سول کوڈ کے خلاف تھے

    سنگھ پریوار کے ایجنڈے کا حصہ رہاہے کہ کامن سول کوڈ کا نفاذ۔ حالانکہ ایسا لگتا ہے کہ سنگھ نے اپنے ایجنڈے میں محض مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے اسے رکھا ہواہے، ورنہ آر ایس ایس کے سابق سربراہ گروگولوالکر اس کے سخت خلاف تھے۔ وہ ہندو کوڈ بل کو بھی غیرضروری مانتے تھے۔ انھوں نے 1972میں ’’مدرلینڈ ‘‘نامی ایک اخبار کو انٹرویو  دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ میراخیال ہے کہ قانونی یکسانیت قوموں کی تباہی کا پیغام ہے۔ فطرت یکسانیت کو قبول نہیں کرتی۔ میںمتنوع طریقۂ زندگی کے تحفظ کے حق میں ہوں۔ پھر بھی دھیان اس بات کا کر نا چاہئے کہ یہ تغیرات قوم کے اتحاد میں مددگار ہوں۔ قومی اتحاد کی راہ میں وہ روڑا نہ بنیں۔‘‘

    گروجی کے اس نظریے کے برخلاف سنگھ پریوار اور اس کی سرکارقانونی یکسانیت کی بات کر رہے ہیںجو حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ جیسا لگتا ہے۔ سنگھ کے موجودہ چیف موہن بھاگوت نے اپنے ایک بیان میں پچھلے دنوں کہا تھا کہ بھارت میں بسنے والے سب لوگ ہندو ہیں۔ غیر ہندو نظریات کو انھوں نے اسی میں ضم کرنے کی بات کہی تھی جس کا واضح مقصد تھا، اسلام اور عیسائیت کو ہضم کرنا۔آرایس ایس کے مطابق سکھ اور بدھسٹ اصل میں ہندو ہی ہیں اور اسی لئے انھیں آر ایس ایس کی ممبر شپ مل جاتی ہے مگر مسلمان اور عیسائیوں کے لئے اس کا دروازہ بند ہے۔ اس کی دیرینہ کوشش رہی ہے کہ ان دونوں کو ان کے مذاہب سے دور کرکے ہندوتو کا حصہ بنا لیا جائے مگر اب تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ ہندوستانی مسلمان اگرچہ اسلامی تعلیمات اور تہذیب سے کوسوں دور ہیں اور مقامی رسم ورواج سے متاثر ہیں مگر باوجود اس کے ان کے اندر مسلمان ہونے کا احساس باقی ہے۔

ہندو کوڈ بل کی بات کیوں نہیں؟

    بھارت میں جس طرح سے مسلم پرسنل لاء ہے، اسی طرح یہاں ہندوکوڈ بل بھی ہے مگر کچھ لوگوں کی آنکھ میں صرف مسلم پرسنل لاء ہی کھٹکتا ہے ہندو کوڈ بل نہیں کھٹکتا۔ کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ ہندو کوڈ بل کو ختم کیا جائے گا، ہربار حملہ مسلم پرسنل لاء پر ہی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بات صرف مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کیوں کی جاتی ہے؟ ہندووں کو ان کے حق سے محروم کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا اس کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی طور پر پریشان کرنا ہے یا ہندووں کو یہ بتانا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں اسپیشل حیثیت حاصل ہے؟ حالانکہ بھارت میںصرف مسلم پرسنل لاء ہی نہیں ہے جو مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق دینے کی بات کرتا ہے، اس ملک میں دوسرے طبقوں کے بھی پرسنل قوانین ہیں بلکہ ہمارے آئین کی روح ہی ہے ’’کثرت میں وحدت‘‘  اور اسی لئے ملک کا آئین سب کو اپنے مذہب اور دستور کے مطابق جینے کی آزادی دیتا ہے۔ یہ بات دستور میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ 

مسلم پرسنل لاء کیا ہے؟

    ملک میں جب بھی کامن سول کوڈ کی بات آتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اس بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سادہ لوح مسلمان اسے ہمدردی سمجھتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کی حفاظت کر کے انھوں نے اسلام کی حفاظت کرلی ہے، حالانکہ سچ پوچھا جائے تو آئین ہند میں مسلم پرسنل لاء کی بات انگریزوں کے بنائے قانون میں رکھی گئی تھی جس میں اسلامی قوانین کے جانکار سیدامیر علی کا مشورہ شامل کیا گیا تھا۔ اصل میں اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی رہنمائی کے لئے دستور بنا دیئے ہیں مگر ان تمام دستوروں سے محروم کر کے صرف نکاح، طلاق، وراثت ، ہبہ اور وقف جیسے چند قوانین پر ہی مسلمانوں کو عمل کرنے کی چھوٹ مسلم پرسنل لاء میں دی گئی ہے اور ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ تمہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی ہے۔ ضرورت تو ا س بات کی تھی کہ جب آئین کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہے تو مسلمانوں کو ہر معاملے میں اسلام پر عمل کرنے کی چھوٹ ملتی مگر ایسا ہوا نہیں۔یہی سبب ہے کہ بار بار کورٹ کی جانب سے اس میں مداخلت کی بات سامنے آتی ہے ۔ 

مسلمانوں بھی اپنے گریبان میں جھانکیں

    بھارت کے مسلمانوں کے لئے بھی کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر انھیں غور کرنا چاہئے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے جب کامن سول کوڈ کی بات ہو تو انھیں شدید رد عمل کا اظہار نہیں کرناچایئے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے مخالفین کو انھیں پریشان کرنے کا بہانہ مل جائے گا اور انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی کوشش ہوگی۔ سول کوڈ سے سکھوں، بدھسٹوں، پارسیوں، جینیوں اور خود ہندووں کے بڑے طبقے کو پریشانی ہوگی لہٰذا اسے لاگو کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر اس سے صرف مسلمانوں کو پریشانی ہوتی تو اب تک یہ نافذ ہوچکا ہوتا۔ آدیباسی جو ہمیشہ سے اپنے طریقے سے جیتے رہے ہیں اور انھیں اس کی دستوری آزادی حاصل ہے وہ بھی ا سکے خلاف جائیں گے اور آج اگر آدھے ملک میں نکسل ازم ہے تو اس کے بعد پورے ملک میں یہ پھیل جائے گا اور اس بات کا احساس سرکار میں بیٹھے لوگوں کو بھی ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خود بھی کچھ مسائل پر غور کرنا چاہئے اور دوسرے مسلم ملکوں اور دوسرے ملکوں کے علماء سے سبق لینا چاہئے۔ ہمارے کئی مسائل صرف اس لئے ہمیں مشکلوں میں مبتلا کرتے ہیں کیوں کہ ہم نہ تو پوری طرح سے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی ملکی قانون کو لاگو کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اکثر مشکلات پیدا کرتا ہے اور آج بھی کامن سول کوڈ کے نفاذ کے لئے اسی کو بہانہ بنایا جارہاہے۔ایک مجلس کی تین طلاق کو ہمارے ملک میں ایک مانا جاتا ہے ، اس کے بعد پورے خاندان اور بچوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ مطلقہ کو پوری زندگی کا نفقہ کون اٹھائے؟ یہ سوال بھی اہم ہوجاتا ہے۔ اس کا باپ رہا نہیں، بھائی اس کے لئے تیار نہیں ، سابق شوہر سے لینا اس کا حق نہیں، ایسے میں ا سکے سامنے سوائے اس کے راستہ نہیں رہ جاتا کہ خود کشی کرلے یا بھیک مانگتی پھرے۔ظاہر ہے کہ یہ حالات ہی خواتین کو کورٹ تک لے جاتے ہیں۔ کاش ہم خود ہی ان مسائل کا کوئی حل شریعت کی روشنی میں نکال پاتے۔مسلم مطلقہ کے سامنے جو بے سمتی بھارت میں ہے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے۔ یونہی ایک سے زیادہ شادی کا مسئلہ بھی ہے۔ بھارت میں مسلمان ایک سے زیادہ شادی ،جب چاہے ،جیسے چاہے کرسکتا ہے، مگر وہ ایسا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے اسے کورٹ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اسلام نے بھی ایک سے زیادہ شادی کی اجازت شرطوں کے ساتھ دی ہے مگر جو مسلمان ایساکرتے ہیں انھیں شرطیں یاد نہیں رہتیں صرف اسلام کی اجازت یاد رہتی ہے۔ اگر ان حالات کو ہم خود تبدیل کریں اور اپنے مسائل کا حل نکال سکیں تو حکومت کو کامن سول کوڈ کا بہانہ نہیں ملے گا۔ ہمیں خود بھی وقت اور حالات کو سمجھنا چاہئے اور’’ آبیل مجھے مار‘‘ والی کیفیت سے بچنا چاہئے۔


 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 586