donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Dahshat Gardi Ke Khelaf Jang Me MadarsoN Ka Taawun


دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدرسوں کا تعاون


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    مسلمانوں کو شدت پسند بننے سے روکنے کے لئے مدرسوں میں طلبہ کی تربیت کا پروگرام بنا رہی ہے مرکزی وزرات داخلہ۔ اس کا ماننا ہے کہ اگر طلبہ کو جدید علوم وفنون سے آراستہ کیا جائے تو انھیں انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تربیت اور اسکل ڈیولپمنٹ کے لئے حکومت کی طرف سے اقدام کئے جارہے ہیں اور پہلے مرحلے میں جن مدرسوں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش یا بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں سے نہیں ہیں بلکہ بہار سے ہیں جہاں حال ہی میں بھاجپا کواسمبلی الیکشن میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔حالانکہ مدرسوں کی جدید کاری کے پروگرام گزشتہ یوپی اے سرکار میں بھی چلتے رہے ہیں مگر موجودہ سرکار میں اس کی رفتار سست ہوگئی تھی اور مدرسوں کو ملنے والے فنڈ میں بھی کمی کی خبریں میڈیا میں آئی تھیں، مگر باوجود اس کے مرکزی سرکار کی طرف سے یہ کوشش شروع کی گئی ہے کہ مدرسوں کے طلبہ کے لئے اسکل ڈیولپمنٹ کے پروگرام چلائے جائیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ ماضی میں ایڈیٹر نئی دنیا شاہد صدیقی نے مدرسوں کو جدید علوم وفنون سے جوڑنے کی پہل کی تھی اور اپنے ایم پی فنڈ سے مدرسوں کو بڑی تعداد میں کمپیوٹر وغیرہ فراہم کیا تھا لیکن اب مرکزی حکومت کی طرف سے طلبہ کی تربیت کی پہل ہورہی ہے جسے خوش آئند قدم مانا جارہاہے۔وزارت برائے اقلیتی امور کے تحت چلنے والی مولانا آزاد نیشنل اسکل اکیڈمی کی طرف سے بھی مدرسوں کو کمپیوٹر فراہم کئے جاتے ہیں نیز کئی سرکاری دارے مدرسوں کے طلبہ کو نظر میں رکھ کر تعلیمی وتربیتی کورس چلاتے ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ جانکاری کی کمی ہے۔ اہل مدارس ان اسکیموں سے کم ہی فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ مدرسوں کے فارغین کو بھی روزگار کی ضرورت ہے اوریہ اچھی بات ہے کہ ان کے لئے کمپوٹر کورس ہی نہیں بلکہ دوسری قسم کے کورسیز بھی چلانے چاہئیں جن سے انھیں روزگار مل سکے۔ ایک مسجد کا امام مسجد کی امامت پر منحصر رہنے کے بجائے باقی اوقات میں کچھ اور کام کرلے،یہ بہتر ہے۔ ویسے بھی روزگار سے جڑے ہوئے کورسیز سے تمام فارغین مدارس کا مسجدوں اور مدرسوں پر انحصار ختم ہوگا اور سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں انھیں روزگار کے مواقع ملیںگے۔ حالانکہ اسی بیچ جہاں راجستھان سے سینکڑوں مدرسوں کے رجسٹریشن کینسل ہونے کی خبر آئی ،وہیں اترپردیش مدرسہ بورڈ کی غلطی سے یہاں لاکھوں طلبہ کے مستبقل پر سوالیہ نشان بھی لگا۔ اسی بیچ یہ خبر بھی آئی کہ مغربی بنگال ہائی کورٹ نے مدرسہ سروس کمیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ ایسے میں ان اساتذہ کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے جن کی بحالی کمیشن کے ذریعے ہوئی تھی۔

مدرسوں میں اسکل ڈیولپمنٹ کے پروگرام

    مدرسوں کے جدید کاری کی خبریں نئی نہیں ہیں مگر اب مرکزی حکومت نے مدرسوں کے طلبہ کے لئے اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام کی شروعات کی ہے۔ طلبہ کے اسکل ڈیولپمنٹ کے لئے ابتدائی مرحلوں میں چار مدرسوں کو منتخب کیا گیا ہے جن میں سے تین بہار میں ہیں اور صرف ایک بی جے پی کے اقتدار والی ریاست مہاراشٹر میں ہے۔ یہ مدرسے ہیں ادارہ شرعیہ،پٹنہ، انجمن اسلامیہ موتیہاری،اسلامیہ انجمن رفیق المسلمین ،بتیا اور دارالمدرسہ، حسینی مسجد(ممبئی،مہاراشٹر)۔ان مدرسوں میں تقریباً بارہ سو طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ یہ پروگرام وزرات داخلہ اور وزارت اقلیتی امور کی طرف سے مشترکہ طور پر چلائے جارہے ہیں۔غور طلب ہے کہ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ نے چند مہینے قبل کہا تھا کہ ان کی وزارت کے پاس 37000کروڑ کا بجٹ ہے جس میں سے 2000کروڑ روپئے اقلیتوں کی تعلیم وتربیت پر خرچ کئے جائیںگے تاکہ وہ روزگار کی مسابقت میں آگے آسکیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے طلبہ کو اسکالرشپ فراہم کی جارہی ہے تاکہ وہ تکنیکی تعلیم حاصل کرسکیں۔ یہاں تک سول سروسیز کی تیاری کرنے والے طلبہ کو بھی مدد پہنچائی جارہی ہے۔

انگریزی سیکھنے کی چاہت

    حالیہ دنوں میں مدرسوں کے طلبہ کے اندر انگلش اور کمپیوٹر سیکھنے کا ذوق بڑھا ہے اور اس کے پیچھے ملک وبیرون ملک روزگار پانے کی منشا بھی ہے، جس کے لئے انگریزی کی زیادہ ضرورت ہے۔ ان کی سوچ ہے کہ انگریزی سیکھنے کے بعد کہیں نہ کہیں تو نوکری مل ہی جائے گی۔ چاہے ملک ہو یا بیرون ملک۔گوپال گنج (بہار) کے رہنے والے محمد دلشاد عالم نے مدرسہ سے مولوی تک پڑھائی کی ہے۔ اب انگریزی سیکھ رہے ہیں۔ دلشاد کو ملائیشیا یا دوسرے ملکوں میں کام کے لئے جانا ہے۔ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست بھی ہیں جو  انگریزی کے لئے موبائل ایپ اور کتابوں کا سہارا لے رہے ہیں۔نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھ انگریزی سکھانے کے نام پر شہر ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی انگلش سکھانے کی کلاسیز چل رہی ہیںجن میں بڑی تعداد میں مدرسوں کے طلبہ بھی شریک ہورہے ہیں۔بہار کے گوپال گنج ضلع میں انگلش سکھانے والی ایک انسٹی ٹیوٹ چلانے والے عرفان کا کہنا ہے کہ پہلے اس علاقے میں کوئی انگریزی کی طرف توجہ نہیں دیتاتھا لیکن گزشتہ کچھ برسوں میں یہ رجحان بڑھا ہے۔ اس کی اہم وجہ بیرون ملک روزگار کی چاہت ہے۔ ان کے مطابق انگریزی سیکھنے والوں میں مدرسوں کے طلبہ بھی شامل ہیں۔

اترپردیش میں مدرسوں کے طلبہ پریشان

    ریاستی حکومتوں کی طرف سے وقت وقت پر کئی ایسے اقدام سامنے آتے رہتے ہیں جن کے سبب اہل مدارس کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اب اتر پردیش سے بھی ایسی ہی باتیں سامنے آرہی ہیں جس کے سبب مدرسوں میں پڑھنے والے تقریباًڈیڑھ لاکھ طالب علموں کے مستقبل پر بڑا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ ان طالب علموں کی آگے کی تعلیم کا سلسلہ کیسے چلے گا؟ اس سوال کا جواب اہم ہوگیا ہے۔مدرسہ بورڈ کے قریب ڈیڑھ لاکھ طالب علموں کی مارکشیٹس میں خرابی کی وجہ سے انہیں آگے کی تعلیم کے لئے کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل پا رہا ہے۔ واضح ہوکہ مارکشیٹس میں غلط تاریخ پیدائش اور نام چھپنے کی وجہ سے طالب علموں کو داخلہ نہیں مل پا رہا ہے۔اب انھیں ٹھیک کرانے کے لئے مدارس کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔طالب علموں کے سامنے جو بڑی دقت ہے وہ یہ ہے کہ مدرسہ بورڈ نے صرف 40 ہزار طالب علموں کی مارکشیٹس میں غلطی تسلیم کی ہے اور رجسٹرار محمد طارق کوانھیں درست کرنے کا ذمہ دیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ مدرسہ تعلیم سسٹم کے تحت منشی، مولوی، عالم، کامل اور فاضل کے امتحانات میں چار لاکھ سے زیادہ طالب علموں نے داخلہ لیا تھا۔ ان طالب علموں کے فارم کو اپ لوڈ کرنے کی ذمہ داری ایک نجی ادارے کو دی گئی تھی۔ امتحان میں تقریبا 3.75 لاکھ طالب علم شریک ہوئے تھے، جن میں سے 50 ہزار طالب علموں کو ایڈمٹ کارڈ ہی مہیا نہیں کرایا گیا۔ یہی نہیں بہت سی خامیوں کی وجہ سے ہزاروں طالب علم امتحان میں شامل نہیں ہو پائے۔ وہیں جب امتحان کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو اس میں 50 فیصد مارکشیٹس میں رکاوٹ سامنے آئی، جس کی وجہ سے ان طالب علموں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

راجستھان میں مدرسوں کا رجسٹریشن منسوخ

    راجستھان مدرسہ بورڈ کی جانب سے ریاست میں مدرسوں کے سلسلے میں تیار ڈاٹا کی بنیاد پر سینکڑوں مدرسوں کا رجسٹریشن کینسل کردیا گیا ہے۔محکمہ برائے اقلیتی امور کی دی گئی تجاویز میں کم طالب علم ہونے کی وجہ سے ریاست کے 732 مدرسوں پر گاج گری ہے۔حالانکہ مدرسوں کے ذمہ داروں کی طرف سے کہا جارہاہے کہ مدرسہ بورڈ نے جو گائیڈ لائن طے کی تھی انہیں طاق پر رکھ کر کارروائی کی گئی ہے۔بورڈ نے کہا ہے کہ نامزدگی نہ ہونے یا فنکشنل نہیں ہونے کی وجہ سے 732 مدارس کے اندراج کو منسوخ کیا گیا ہے۔جسمانی توثیقی کے دوران پردیش بھر کے چار ہزار کے قریب مدرسوں میں سے 148 مدرسے تو موقع پر ملے ہی نہیں جبکہ 507 مدرسے ایسے تھے جہاں پر طالب علموں کی تعداد صفر تھی۔ 228 مدرسے ایسے تھے جہاں طالب علموں کی تعداد 20 سے کم تھی۔ ایسے میں 655 مدرسوں پر کارروائی کی جانی تھی لیکن کارروائی 732 مدرسوں پر کی گئی ہے۔ اب ان مدرسوں سے مدرسہ پیرا ٹیچرس تو خارج ہوہی جائیں گے، ساتھ ہی ان مدرسوں کو غذائی سہولت سمیت مدرسہ بورڈ کی طرف دی جا رہیں تمام طرح کی مدد بند کر دی جائے گی۔

مدرسہ سروس کمیشن غیرقانونی

    کلکتہ ہائی کورٹ نے مغربی بنگال میں تعلیم کے میدان میں طرف زیادہ شفافیت کے پیش نظر مغربی بنگال مدرسہ سروس کمیشن کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے اپنے ایک حکم میں کہا کہ مدرسہ کے اساتذہ کو مقرر کرنے کا حق مینجمنٹ کمیٹی کو ہے۔عدالت نے ساتھ ہی 2008 میں مقرر شدہ مدرسہ اساتذہ کے مستقبل پر فیصلہ لینے کا حکم بھی مینجمنٹ کمیٹی کو دیا ہے۔غور طلب ہے کہ سابقہ بایاں محاذ حکومت نے ریاست میں اقتدار میں آنے کے بعد مدرسہ سروس کمیشن تشکیل دیا تھا۔واضح ہوکہ اب تک کمیشن کے ذریعے ہزاروں اساتذہ کی بحالیاں ہوچکی ہیں مگر اب سوال اٹھ رہا ہے کہ جب کمیشن ہی غیرقانونی ہے تو اس کے ذریعے کی گئی بحالیاں کیسے قانونی ہوسکتی ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 507