donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Dahshat Zadah Hindustani Musalman Aur Masale Ka Qanuni Hal


دہشت زدہ ہندوستانی مسلمان اور مسئلے کا قانونی حل


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا آپ جانتے ہیں کہ اب تک کتنے بے قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیااور ان کی زندگی برباد کرنے والوں کوکوئی سزا نہیں ملی؟ کیا آپ کومعلوم ہے کی کتنے مسلم نوجوانوں کو فرضی انکائونٹرس میں مارڈالا گیا اور فی الحال  کتنے اپنی ناکردہ گناہی کی سزا ہندوستانی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے کاٹ رہے ہیں؟شاید نہیں جانتے ہوں مگر اب تک اس طرح کے جو بھی واقعات سامنے آئے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر گجرات میں نریندر مودی کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے جو فرضی انکائونٹرس ہوئے تھے ان کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں اور ملزمین جیلوں سے رہا ہوکر داد عیش دے رہے ہیں۔ کوئی قومی لیڈر بن چکا ہے تو کوئی انتخاب میں قسمت آزمائی کرنے کو پر تول رہا ہے۔ کسی کی پرانے عہدے پر بحالی ہوچکی ہے تو کسی کو ترقی دے کر خونریزی کا انعام دے دیا گیا ہے۔ ایک طرف معصوم عشرت جہاں ، کوثر بی کا لہو آج بھی انصاف کی دہائی دے رہا ہے تودوسری طرف انسانی لاشوں پر کامیابی کے جھنڈے لہرانے والے مکار سیاست داں آج بھی قہقہے لگارہے ہیں۔اکشر دھام مندر پر حملہ کے الزام میں جھوٹے پھنسائے گئے مسلمان گیارہ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار کر آزاد ہوچکے ہیں اور مالیگائوں بم دھماکوں کاالزام جھیلنے والے کئی بے قصور لوگ اس داغِ رسوائی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں تب انھیں کورٹ سے کلین چٹ ملی ہے۔ آج تک ان مظلوں کو انصاف نہیں ملا مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے ظالموں کے خلاف منظم جنگ بھی نہیں لڑی۔ پورے ملک میں مسلمان سرکاری دہشت گردی کے نشانے پر رہے مگر اس کے خلاف ہندوستانی مسلمان جنگ کے لئے آگے نہیں آئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کے خلاف مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنا چاہئے بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اس کے خلاف مسلمانوں کو قانونی لڑائی لڑنی چاہئے تھی۔ ہم یہ سوچے بیٹھے رہے کہ جس کے سربلا آئی ہے وہ جانے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ یکے بعد دیگرے ہزاروں مسلمان اس کی زد میں آچکے ہیں۔ ملک بھر میں مسلمان ،حکومتوں کے سافٹ ٹارگیٹ بنے اور جہاں کہیں بھی کوئی واقعہ ہوا مسلمان کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہمارا مسلمان ہونا ہی ہمیں مجرم ثابت کرتا ہے۔ یہ سب کچھ صرف بی جے پی کی سرکار میں نہیں ہوا بلکہ کانگریس کی سرکاریں اس کام میں پیش پیش رہیں۔ ویسے بی ایس پی، سی پی آئی ایم، ترنمول کانگریس ، جنتادل (یو)اور راشٹریہ جنتادل کی سرکاروں نے مسلمانوں کو پکڑ پکر کو جیلوں میں ڈالنے میں کوئی دریغ نہیں کیا۔ دہشت گردی اور مسلمان ایک دوسرے کے ہم معنیٰ قرار پائے۔ جن مسلمانوں کو جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا اور پھر کورٹ نے انھیں بری کیا،ان کی ایک طویل فہرست ہے مگر یہاں ہم صرف چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔   

پھانسی کے پھندے سے رہائی

    گجرات کے اکشر دھام مندرپر ۲۰۰۲ میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اور اس الزام میں پولس نے یہاں مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔ ملزمین میں سے کچھ کو نچلی عدالتوں نے عمر قید تو کچھ کو پھانسی کی سزا سنادی مگر جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو پتہ چلا کہ ان معصوم مسلمانوں کو پولس نے جھوٹا پھنسایا تھا۔ آخر کار یہ معصوم لوگ گیارہ سال جیل میں گزار کر موت کے پھندے سے بچے۔ پولس نے جو مظالم ڈھائے ان کا ذکر ہی دل کو دہلادینے والا ہے۔ مفتی عبدالقیوم جنھیں نچلی عدالتوں نے پھانسی کی سزا سنائی تھی،نے اپنی آپ بیتی کو ایک کتاب کی شکل دی ہے جسے پڑھ کو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

 مالیگائوں کے معصوم

      مہاراشٹر کے مالیگاؤں میں 2006 میں ہوئے چار دھماکوں کے معاملے میں تمام 9 ملزمان کو ممبئی کی ایک عدالت بری کرچکی ہے۔ ان ملزمان میں سے ایک ملزم شبیر احمد کی پہلے ہی موت ہو چکی ہے۔ بچے ہوئے تمام ملزم پہلے ہی پانچ سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ بعد میں انہیں ضمانت ملی تھی۔ واضح رہے کہ 2006 کے دھماکے کے معاملے میں 13 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا، لیکن 9 لوگوں کو ہی گرفتار کیا جا سکا تھا اور چار ملزم آج تک فرار ہیں۔ ان ملزمان کو سیمی سے منسلک بتایا گیا تھا۔ ستمبر 2006 میں یہاں کل 4 بم دھماکے ہوئے تھے۔جن مین31 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور 312 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اے ٹی ایس کی جانچ پر سوال اٹھنے پر معاملہ سی بی آئی کو دے دیا گیاتھا۔ بعد میں اس معاملے میں ’’ابھینو بھارت‘‘ نامی ایک ہندوادی تنظیم کا نام سامنے آیا۔

کچھ اور معصوم مجرم

    ملک کے مختلف حصوں میں 6 دسمبر 1993 کو راجدھانی ایکسپریس ٹرینوں میں ہوئے سیریل بم دھماکے کے ملزمان میں سے  چار لوگوں کو سپریم کورٹ نے ثبوتوں کی عدم موجودگی میں بری کر دیا ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ چاروں ملزمان کے خلاف استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لیے ملزمان کو ثبوتوں کی عدم موجودگی میں بری کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں کل 16 افرادکی  گرفتاری ہوئی تھی۔

    آگرہ کی ضلع عدالت نے سال 2000 کے آگرہ دھماکے کے ملزم گلزار احمد وانی کو 16 سال بعد گزشتہ 18 اپریل کو بری کر دیا۔ ایڈیشنل سیشس جج (1) اجیت سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزم کے خلاف استغاثہ کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکی۔ اس سال 14 اگست کو آگرہ، بارہ بنکی، کانپور اور لکھنؤ میں دھماکے ہوئے تھے۔ پولیس نے کشمیر رہائشی گلزار کو اس کا ماسٹر مائنڈ بتایا تھا۔

    اسی سال جنوری اور فروری میں اترپردیش میں کچھ مبینہ دہشت گرد مسلمان رہا ہو چکے ہیں۔ انہیں ناکردہ گناہی کی سزا ملی۔ جنوری 2016 کی 14 تاریخ کو 39 سال کے شیخ مختار حسین ملک سے غداری کے کیس سے بری ہوئے اور جیل سے رہا ہوئے۔ یوپی پولیس نے ان پر پہلے تو 23 جون، 2007 کو لکھنؤ میں دہشت گردانہ سازش رچنے کا الزام لگایا تھا اور پھر 2008 میں ملک مخالف نعرہ لگانے کا الزام لگا کر غداری کا کیس ٹھوک دیا تھا۔

    گزشتہ 4 فروری کو یوپی کے شاملی رہائشی محمد اقبال کو بھی عدالت نے دہشت گردی کی سازش کے الزام سے بری کر کے رہا کر دیا۔ بجنور کے نوشاد اور مغربی بنگال کے جلال الدین، محمد علی اکبر حسین اور نور اسلام کو پاکستان کی کسی دہشت گرد تنظیم کا رکن بتاتے ہوئے 23 جون، 2007 کو لکھنؤ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر دھماکہ خیز مواد کے ساتھ دہشت گرد انہ سازش کو انجام دینے کا الزام لگایا گیا مگر لکھنؤ کی ایک عدالت نے گزشتہ سال 29 اکتوبر کو ان ملزمان کو مستثنی قرار دیا اور کہا، پولیس کی پوری کارروائی، تصادم، ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کی کہانی فرضی، مصنوعی اور پلانٹ کی ہوئی ہے۔

    یہاں ہم نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ ایسی کہانیاں کم نہیں۔ اگر ایسی داستانیں جمع کی جائیں تو ایک دفتر تیار ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام وہ مظلوم لوگ ہیں جن کا سب کچھ پولس نے برباد کردیا اور آج کی ان کی زندگی دہشت گردی کے کلنک کے ساتھ گزر رہی ہے۔ 

معاوضہ کیوں نہیں؟

     جن مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر کورٹ سے رہا ہوجاتے ہیں اور بے قصور ثابت ہوتے ہیں مگر تب تک ان کا سب کچھ برباد ہوچکا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی تباہ ہوچکی ہوتی ہے۔ ان کی زمین جائیداد بک چکی ہوتی ہے اور ان کے بچے فٹ پاتھ پر آچکے ہوتے ہیں۔ جن معصوموں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزارنا پڑا انھیں کم از کم دس کروڑ معاوضہ ملنا چاہئے اور ان کی بازآبادکاری کا انتظام کیا جانا چاہئے۔ اسی کے ساتھ ان پولس افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے جوبے قصوروں کو پھنسانے کے لئے ذمہ دار ہیں۔عموماً مسلمانوں کو دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر دہشت زدہ کیا جاتا ہے اور ان کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ میڈیا ان کے خلاف ماحول تیار کرتا ہے اور بڑی بڑی کوریج دیتا ہے مگر جب دس ،پندرہ سال بعد وہ رہا کئے جاتے ہیں تو اخبارات کے کسی گوشے میںایک چھوٹی سی خبر آتی ہے۔ پولس انھیں پھنسا نے کے لئے داستانیں تیار کرتی ہے،اسکرپٹ لکھتی ہے مگر جیت آخرکار سچائی کی ہوتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اب تک سینکڑوں ایسے مسلمان رہا ہوچکے ہیں جن پر پولس نے سنگین الزام لگائے تھے اور انھیں دہشت گرد قرار دیا تھا مگر اس کی کہانی جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے پولس والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور بے قصورثابت ہونے والوں کو معاوضہ دیا جاجائے۔ حکومت کی طرف سے بار بار کہا جاتا ہے کہ اس کی لڑائی کسی خاص مذہب کے خلاف نہیں ہے مگر عموما اس لڑائی کا ایندھن مسلمان نوجوان ہی بنتے ہیں۔ 

مسلمان کیا کریں؟

    اگر کوئی شخص واقعی دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کے خلاف لازمی طور پر کارروائی ہونی چاہئے مگر کسی بے قصور کو دہشت گردی میں پھنسایا جانا خود ایک مجرمانہ عمل ہے ، اورہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میراخیال ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف قانونی ہے ۔ مسلمانوں نے اپنی سیاسی اہمیت گنوادی ہے لہٰذاکوئی بھی سیاسی پارٹی ان کے مسئلے کو اہمیت نہیں دیتی۔ ایسے میں مسلمانوں کو اپنے مسئلے کے حل کے لئے قانونی راستہ اپنانا چاہئے۔ جن مسلمانوں کو کورٹ نے رہا کیا ہے وہ  اس لئے ممکن ہوا کیونکہ انھوں نے قانونی لڑائی لڑی مگر مسلمانوں کے اندر کوئی اجتماعی سسٹم نہیں ہے جس کے تحت اس قسم کے مسائل کو دیکھا جائے۔ ہر کسی کو اپنی لڑائی خود لڑنی پڑی اور اس جنگ میں اس کی زمین جائیداد سب کچھ برباد ہوگئی اور گھر والے سڑکوں پر آگئے۔مسلمانوں کے اندر مرکزی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو بے قصور مسلمانوں کو قانونی مدد فراہم کرے۔ مسلمانوں کے اندر جو بھی جماعتیں ہیں وہ عملی طور پر بے اثر ہیں اور کسی کام کی نہیں ہیں۔ میری جانکاری کی حد تک جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند جیسے کچھ ادارے غریبوں کی قانونی امداد کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کام کو بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں پڑھے لکھے مسلمانوں کو سامنے آنا چاہئے اور علاقائی، ضلعی ، صوبائی اور مرکزی سطح پر مجتمع ہوکر قانونی امدادی گروپ بنانے چاہئیں۔ ظاہر ہے کہ آج کل عدالتی معاملات بہت مہنگے ہوگئے ہیں،ایسے میں اس کام کے لئے خطیر رقم کی ضرورت ہوگی مگر یہ کام مسلمانوں کے بوتے سے باہر نہیں،بس تھوڑا سا حوصلہ چاہئے۔ ان تنظیموں کی مدد سے ہم ان پولس والوں کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں جو بے قصوروں کو پھنسانے کے لئے جھوٹے گواہ اور ثبوت مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔   


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 524