donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Das Bachche Paida Karayo Phir Dilli Election Jeetna


دس بچے پیدا کرائو، پھر دلی الیکشن جیتنا


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    ہندو خواتین سے دس دس بچے پیدا کرانے والوں کی دلی الیکشن میں نہیں چلی اور وہ ہار گئے۔ یہاں ہندووں کی آبادی اسی فیصد سے زیادہ ہے اور دس بچے پیدا کئے بغیر ہندو اکثریت میں ہیں مگر انھوں نے ہی سنگھ پریوار کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب دس دس بچے کس کام کے جب وہ بی جے پی کو ووٹ دینے کے بجائے اس کی موت کا سامان کریں؟ مگر پھر بھی یہ بھگوا وادی ماننے کو تیار نہیں۔ کیا اب بھی انھیں لگتا ہے کہ اگر ہندو خواتین دس دس بچے پیدا کریں تو بی جے پی کی جیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ آخر وہ کون ہوتے ہیں اس بات کا حکم دینے والے کہ ہندو عورتیں کتنے بچے پیدا کریں گی؟حالانکہ ان کے ہاں بھی اختلاف رائے ہیں کہ ہندو عورتوں کو کتنے بچے پیدا کرنے چاہیئیں؟ چار یا دس ؟ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج تو چار کے قائل تھے  جن کے بیان کی سادھوی پراچی نے حمایت بھی کی تھی مگر وشو ہندو پریشد کے انٹرنیشنل ورکنگ صدر پروین توگڑیا کا ماننا ہے کہ چار بہت کم ہیں ،انھیں دس دس بچے پیدا کرنے چاہیئیں۔ ادھر سوامی وسودانند سرسوتی بھی ہندو خواتین کو دس بچے پیدا کرنے کی نصیحت کی ہے۔ جب کہ ایک دوسرے ہندو مذہبی رہنما رامانند آچاریہ تو ان لوگوں سے بھی دو جوتے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ بھگوان کرشن کو 16.108بیویاں تھیں اور ان کی ہر بیوی سے دس دس بچے تھے۔ حالانکہ ان مشوروں پر اترپردیش کے وزیر شہری ترقیات  اعظم خان نے کچھ سوال اٹھائے ہیں اور جواب جاننا چاہا ہے۔ ان کا سوال ہے کہ ایک ایک عورت سے دس دس بچے کیسے پیدا کرائے جاسکتے ہیں؟ اس کی صحت اس کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟ اتنے بچوں کے لئے تو چار عورتوں کی ضرورت ہے اور چار شادیاں کرنے کے لئے مسلمان ہونا لازمی ہے۔ملک کا قانون کسی ہندو کو اتنی شادیوں کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اگر چار شادیاں کرنی ہیں اور دس بچے پیدا کرنے ہیں توایسا کرنے والوں کو پہلے مسلمان ہونا پڑے گا۔ اعظم خان کا یہ بیان خواہ طنزیہ ہو مگر اس کے پیچھے پوشیدہ سنجیدہ مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا او ر عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنماپوپ بینڈکٹ ششم کے اس بیان کی بھی ان دیکھی نہیں کی جاسکتی جس میں انھوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ کون کتنے بچے پیدا کرے گا، اسے خود طے کرنا چاہئے۔ یہ طے کرنا کسی سرکار کا کام نہیں ہے ۔ البتہ اسی کے ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان خرگوش کی طرح بچے پیدا کرنے لگے۔ اصل میں بھگواوادیوں اور پوپ کے بیان میں واضح فرق ہے اور یہ صاف سمجھ میں آتا ہے کہ جہاں پوپ نے سوچ سمجھ کر بیان دیا ہے وہیں ہندتو وادیوں کی طرف سے جو بات کہی جارہی ہے وہ ایک غیر سنجیدہ اور غیر منطقی بات ہے۔ یہ فارمولہ ناقابل عمل ہے اور اس سے نہ صرف ان کی ذہنی سطح کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ یہ بیان برائے بیان ہے ۔ ہندتو کے ان ٹھیکیداروں کے بیانات خود اپنے آپ میں ہندوخواتین کی توہین کے مترادف ہیں مگر آج تک کسی نے ان کے خلاف عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا اور نہ ہی حکومت نے کسی قسم کی کارروائی کی۔

ہم دو ہمارے دس

    ہندو خواتین سے زیادہ بچے پیدا کرانے کی دوڑ میں اس وقت سب سے آگے پروین توگڑیا نظر آرہا ہے جس نے دس کی وکالت کی ہے۔ حالانکہ ساکشی مہاراج کو صرف چار کے بیان پر پارٹی نے وجہ بتائو نوٹس تھمادیا ہے۔ پروین توگڑیا نے لکھنو میں وشو ہندو پریشد کے ایک جلسے میں کہا کہ ہندووں کو اپنے مذہب کی حفاظت کے لئے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے چاہیئیں۔ اگر وہ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں تو اگلے ہزار سال تک ان کی آبادی میں کمی نہیں آئے گی اور وہ اکثریت میں رہیں گے۔ اس نے ہندووں کے اندر اقلیتوں کا خوف پیدا کرنے کے لئے کہا کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور ہندوں کا تبدیلی ٔ مذہب کراتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانون کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ہندووں کی آبادی میں کمی آرہی ہے۔ اس سلسلے میں اس کا کہنا تھا کہ اب تک کروڑوں ہندووں کا مذہب تبدیل کیا جاچکا ہے اور دوسروں کے مقابلے ہندووں کی آبادی میں اضافے کا تناسب کم ہوتا جارہا ہے۔ اس سے قبل بھی بریلی میں اس نے اسی قسم کی باتیں کہی تھیں جس کے سبب فساد ہوگیا تھا اور بنگلور میں بھی توگڑیا کے زہریلے بیانات سے اشتعال میں آکر اس کے جلسے میں شریک ہونے والوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کردیئے تھے۔ توگڑیا کا کہنا ہے کہ سرکار دوبچوں کا قانون لائے یا ہندووں کو دس بچے پیدا کرنے کی اجازت دے۔ اس کے بیان کی دوسرے ہندتو وادی بھی حمایت کرچکے ہیں۔

    لکھنو میں منعقدہ وشو ہندو پریشد کے جلسے میں رامانند آچاریہ رگھوآچاریہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ بھگوان کرشن کی 16,108بیویاں تھیں اور ہر بیوی سے انھیں دس دس بچے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھگوان  رام نے اپنے بھائی بھرت کو نصیحت کی تھی کہ دھرم کی رکھشا کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ اسی جلسے کے ایک مقرر کنیہا داس کا کہنا تھا کہ ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ کا نعرہ ہندو پریواروں کے لئے مناسب نہیں ہے۔ انھیں آٹھ، دس بچے پیدا کرنے چاہئیں۔ جب کہ رگھوآچاریہ نے ہندووں سے اپیل کی کہ وہ اپنے مذہب کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھالیں۔

دس بچے، دس کام

     بھگواوادیوں میں پہلے تو اسی کی لڑائی چل رہی ہے کہ ہندو عورتیں کتنے بچے پیدا کریں مگر جیوتش پیٹھ کے شنکر آچاریہ سوامی واسو دیوانند سرسوتی نہ صرف دس بچے پیدا کرنے کا حکم صادر فرمایا بلکہ ان دس بچوں کے میدان عمل بھی طے کردیئے۔ الہ آباد سنگم پر ماگھ میلہ میں انھوں نے کہا کہ دو بچوں والی سوچ درست نہیں ہے کیونکہ بہت سے لوگ صرف ایک بچے پر ہی بس کردیتے ہیں۔ ایک بچہ تو ٹھیک سے اپنے والدین کی دیکھ بھال بھی نہیں کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو دس بچے پیدا کریں ۔ ان میں سے پہلا بچہ آئی اے ایس بنے گا جب کہ دوسرا پی سی ایس آفیسر بنے گا۔ تیسرے بچے کو بزنس مین بننا چاہئے اور چوتھے کو سیکورٹی افواج میں جانا چاہئے۔ باقی بچوں کو کسان اور سادھو بنا دینا چاہئے۔ ان کے مطابق سرکار اس مسئلے کو نہیں سمجھ پارہی ہے کہ مستقبل میں ہندو اقلیت میں آجائینگے اور یہ ان کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔ شنکر آچاریہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کس ماہر اقتصادیات سے مشورے کے بعد کئے ہیں، ہمیں نہیں معلوم مگر یہ تجاویز اس لائق ہیں کہ مرکز کی بھگوا دی سرکار کے سامنے پیش کی جائیں اور ان پر عمل کے لئے اسے مجبور کیا جائے۔ سوال یہ بھی ہے کہ مرکزی سرکار کی نکیل تو سنگھ پریوار کے ہاتھ میں ہے اور جہاں وہ ایک طرف ملک کی تعلیمی پالیسی بدل رہی ہے وہیں اقتصادی پالیسی پر بھی اثرانداز ہونے میں مصروف ہے، ایسے میں اگر آبادی کے تعلق سے بھی وہ اپنے نظریات سرکار پر تھوپے تو اسے قبول کرنے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں آنا چاہئے۔ آج سرکار اگر ہر ہندو عورت کے لئے دس بچے پیدا کرنے کا قانون لائے تو اس کی اکثریت ہے اور وہ اسے آسانی سے پاس بھی کراسکتی ہے۔ شنکر آچاریہ کا مزید کہنا ہے کہ آج اگر بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اور نریندر مودی وزیر اعظم ہیں تو اس کا بس ایک سبب ہے کہ ملک میں ہندو اکثریت میں ہیں۔ انھیں ہندووں کے ووٹ نے اقتدار تک پہنچایا ہے لہٰذا اگر ہندو اکثریت میں نہ رہے تو وہ راج کیسے کریں گے؟انھوں نے دوارکا پیٹھ کے شنکر آچاریہ سوامی سوروپ آنند کے بیان سے اختلاف کیا جنھوں نے زیادہ بچے پیدا کرنے کے بیانوں کو ناپسند کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اگر ملک میں سب لوگ چار چار بچے پیدا کرنے لگیں تو بہت سے مسائل جنم لینے لگیںگے۔ ہمیں غریبی سے جڑے ہوئے مسائل پر توجہ دینا چاہئے نہ کہ زیادہ بچے پیدا کرنے پر۔

خود کیوں نہیں بچے پیدا کرتے یہ بھگوا وادی؟

    جہاں ایک طرف ہندتو وادیوں کی طرف سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے مشورے آئے دن سامنے آرہے ہیں اور نئی نئی تجویزیں وہ ہندووں کے سامنے پیش کر رہے ،وہیں ایک سچ یہ بھی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ان خواتین سے پوچھنے کو تیار نہیں ہے، جنھیں بچے پیدا کرنے ہیں۔ کیا ہندو عورتوں کی اپنی مرضی کا کوئی مطلب نہیں ہے جو ان سے پوچھے بغیر دس دس بچے پیدا کرنے کے فتوے جاری کئے جارہے ہیں؟  سوال یہ بھی کہ آج جو لوگ کثرت اولاد کے حکم نامے ہندو خواتین کے نام جاری کر رہے ہیں وہ خود کتنے بچے پیدا کرچکے ہیں اور کتنے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں؟ کیا انھوں نے بے روزگاراور غریب ہندو وںسے پوچھا کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرتے ہیں اور انھیں اپنے بچوں کی پرورش کے لئے کس تعاون کی ضرورت ہے؟ لطف کی بات یہ  ہے کہ جو لوگ زیادہ بچے پیدا کرانے میں لگے ہیں ان میں سے بیشتر غیر شادی شدہ ہیں اور اس بات سے قطعی ناواقف ہیں کہ آج کے دور میں بچے پیدا کرنے میں کیا کیا مسائل پیش آتے ہیں، نیز ان کی پرورش وپرداخت اور تعلیم وتربیت میں کن مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس قسم کے مشورے دینے سے پہلے انھیں خود بھی اس پر عمل کرلینا چاہئے تھا اور حالات کا اندازہ کرلینا چاہئے تھا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو شادیاں نہیں کرتے ہیں۔ سیاست دانوں میں اٹل بہاری واجپائی سے نریند رمودی تک کیا صورتحال ہے،آپ دیکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت سے لے کر ان کے معمولی ورکر تک کو یہ نصیحت دی جاتی ہے کہ گھر سنسار کی جھنجھٹ سے دور رہو اور شادی بیاہ نہ کرو۔ حالانکہ اس تجرد سے جو مسائل جنم لیتے ہیں وہ خود قابل توجہ ہیں۔ جب خود کو ہندو تو کا ٹھیکدار سمجھنے والے شادیاں نہیں کریں گے تو  باقی ہندووں کو کیا پیغام جائے گا؟ یہی لوگ ہیں جو پہلے کہتے رہے ہیں کہ مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں اور درجن کے حساب سے بچے پیدا کرتے ہیں مگر آج یہی اپنے پیروکاروں کو درجن کے حسا ب سے بچے پیدا کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ ان مسائل کے تناظر میں اعظم خاں کا طنزبھی کافی دلچسپ اور معنیٰ خیز ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

Comments


Login

You are Visitor Number : 453