donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Gandhi Ke Hindustam Me Jamhuriat Ka Qatl


یہ کس کا لہوہے کون مرا؟


گاندھی کے ہندوستان میں جمہوریت کا قتل


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بیف کے بہانے اترپردیش کے ہندو اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش جاری ہے۔ اخلاق کا قتل محض ایک افواہ پر ہوگیا مگر مستقبل میں بھی اس قسم کے خطرے بنے ہوئے ہیں۔سیاست دانوں کا اخلاق کے گائوں میں آنا جانا جاری ہے اور اس معاملے پر سیاست کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس قسم کے مزید قتل اور تشدد کی دھمکیاں بھی بھگواوادیوں کی طرف سے دی جارہی ہیں اور حکومت ان کے خلاف کسی قسم کا ایکشن لینے سے کترارہی ہے۔راہل گاندھی، اروندکجریوال، اسدالدین اویسی اور یوپی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے علاوہ مرکزی وزیر مہیش شرما بھی اخلاق مرحوم کے پسماندگان سے مل چکے ہیں۔آئے دن سیاسی لیڈروں کی طرف سے ایسے بیان آرہے ہیں جن سے لگتا ہے کہ وہ اس چنگاری کو ہوادینے کے درپے ہیں اور پوری ریاست کو آگ لگانا چاہتے ہیں۔ دراصل اترپردیش میں فرقہ پرستی کا بارود تیار ہے اور کوئی بھی چنگاری پوری ریاست کو آگ لگاسکتی ہے۔ کمیونل ماحول گرم کیا جارہا ہے۔ افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ صدیوں سے بھائی چارہ کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھرنے کی کوشش چل رہی ہے تاکہ 2017ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں سیاسی فصل کاٹی جاسکے۔ اس کی ریہرسل پنچایت انتخابات سے شروع ہورہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو اترپردیش کے ناکام ترین وزیر اعلیٰ ثابت ہورہے ہیں اور حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ ملائم سنگھ یادو کا بھگوا ٹولے سے یارانہ ہے جس کے سبب وہ فرقہ پرستوں کے خلاف کاروائی میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ایسے ہی حالات کا نتیجہ ہے، مغربی اترپردیش کے دادری (گوتم بدھ نگر) میں محمد اخلاق کا قتل۔قتل کا سبب صرف یہ افواہ تھی کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے اور اسی افواہ پر بھروسہ کرکے مندر کے مائک سے اعلان بھی کردیا گیا۔ بقرعید کے موقع پر ریاست میں کئی جگہوں پر فرقہ ورانہ دنگے کرانے کی کوشش ہوئی اور افواہیں پھیلائی گئیں۔کئی اضلاع میں حالات بگڑتے بگڑتے بچے۔ مستقبل میں حالات بگڑنے کا اندیشہ زیادہ ہے کیونکہ دسہرہ، دیوالی اور محرم کے ساتھ ساتھ یوپی میں پنچایت چنائو بھی ہیں۔ یہاں کسی بھی مقام پر گئو کشی، لوجہاد، تبدیلی مذہب ،فیس بک پوسٹ یا کسی اوربہانے سے دنگے کرائے جاسکتے ہیں۔

 جان لیواافواہ

    راجدھانی دلی کے قریب گوتم بدھ نگر ضلع (یوپی) کے دادری علاقے میں گائے کا گوشت کھانے کی افواہ کو لے کر 50 سال کے محمد اخلاق کا قتل کردیا گیا۔ جبکہ اس کے 22 سال کے بیٹے کو ادھ مرا کر چھوڑ دیا گیا۔ واقعہ کے بعد سے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی، جسے دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے چوکسی بڑھا دی ۔خبروں کے مطابق گاؤں میں ایسی افواہ اڑی تھی کہ محمد اخلاق کا خاندان اپنے گھر میں گائے کا گوشت رکھتاہے۔ اس معاملے میں اخلاق کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں مٹن رکھا ہوا تھا نہ کہ گائے کا گوشت۔ تاہم پولیس نے گوشت کی فارنسک جانچ کرائی جس سے ثابت ہوگیا کہ یہ بکرے کا گوشت تھا۔ پولیس کے مطابق یہ خاندان گزشتہ 35 سالوں سے اس گاؤں میں رہ رہا تھا۔ بیف سے متعلق افواہ کے بارے میں پولس کی تحقیقات چل رہی ہے۔ فی الحال اس معاملے میں کئی افراد کو گرفتار کیا گیا اور باقی ملزموں کی تلاش جاری ہے۔ اس معاملے میں چیف سکریٹری نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور یوپی سرکار نے متاثرہ کنبہ کو امداد کا اعلان کردیا ہے۔ گاؤں والوں کے مطابق، 16 ستمبر کو بسارا گاؤں میں ایک بچھڑا غائب ہو گیا تھا۔ مگر بقرعید کے بعد افواہ پھیل گئی کہ بچھڑے کے ٹکڑے اخلاق کے گھر کے پاس پائے گئے ہیں۔ افواہوں کے مطابق، اخلاق ایک پلیتھن میں بیف لے کر جا رہا تھا کہ تبھی کتے اس کے پیچھے پڑ گئے۔ اس کے بعد، اس نے وہ پلیتھن وہیں پھینک دی۔ایس ایس پی کرن  کے مطابق، ابتدائی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ مقامی مندرمیں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ اخلاق کا خاندان گائے کا گوشت کھاتا ہے۔ ایس ایس پی کے مطابق، ہمیں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ مندر میں گھسے اور مائیکروفون سے یہ اعلان کیا۔جب کہ اخلاق کی 20 سالہ بیٹی ساجدہ نے بتایا کہ، گاؤں کے 100 سے زیادہ لوگ گھر پہنچے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہم نے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے گھر کے دروازے توڑ ڈالے اور میرے والد اور بھائی کو پیٹنے لگے۔ وہ باپ کو باہر گھسیٹ کر لے گئے اور انہیں اینٹوں سے مارنے لگے۔غورطلب ہے کہ جب پولس نے دادری گائوں میں قتل اور دنگا کے ملزموں کی گرفتاری شروع کی تو اس کے خلاف گاؤں والوں نے توڑ پھوڑ کی۔ پولیس کی ایک وین سمیت کئی گاڑیاں توڑ دی گئیں۔ ایک موٹر سائیکل کو آگ لگا دی گئی۔ حالات پر قابو پانے کے لیے پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی۔ اس کے بعد میڈیا پر بھی مقامی لوگوں نے حملہ کیا۔ اروند کجریوال جب علاقے کے دورے پر آئے تو انھیں بھی بہت دیر تک مقامی لوگوں نے گائوں کے ا ندر جانے سے روکے رکھا۔

 امید کی کرن

    محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل سے اس کے اہل خانہ کو کس قدر تکلیف ہوئی ہوگی،یہ بتانے کی ضرورت نہیں مگر باجود اس کے پسماندگان کا بھروسہ قانون اور انصاف سے نہیں اٹھا ہے۔ حال ہی میں ہندوستانی ائرفورس میں کام کرنے والے ،اخلاق کے بیٹے سرتاج نے لوگوں سے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ایسا قطعی نہیں مانتے کہ سارے لوگ برے ہیں۔اس نے کہا، ’’میرا حکومت پر اعتماد ہے اور مجھے انصاف ملنا چاہئے۔ میرا اب بھی یقین ہے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا ہے۔‘‘سرتاج کا یہ بیان ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اس واقعے کے بہانے سے ملک کا ماحول خراب کر نے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی نے سرتاج کے اس بیان پر کہا کہ بھارت کا مسلمان سرتاج کی طرح سوچتا ہے۔دوسری طرف متنازعہ بیانات کے لئے مشہور وشو ہندو پریشد کی لیڈر سادھوی پراچی نے کہا کہ گوشت کھانے والوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہئے جیسا اخلاق کے ساتھ کیا گیا۔

 یوپی کے دنگے اور محمد اخلاق کا قتل

    اترپردیش میں فسادات کرانے کی تیاری زوروں پر ہے اور اس کے لئے افواہوں کا سہارا لیا جارہاہے نیز چھوٹی چھوٹی باتوں کو بہانہ بناکر تنائو پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔حال ہی میں مراد آباد اور بلند شہر اضلاع میں دوفرقوں کے بیچ ٹکرائو ہوگیا جسے قابو کرنے میں پولس وانتظامیہ کے چھکے چھوٹ گئے۔ بلند شہر کے دوش پور گائوں میں دو فرقوں کے افراد آمنے سامنے آگئے اور ان کے بیچ لاٹھی، ڈنڈے اور اینٹ پتھر چلے۔ اس سے قبل آگرہ سے خبر آئی تھی کہ شمس آباد علاقے میں صرف اس لئے ماحول خراب ہوگیا کہ کسی شخص نے فیس بک پر کچھ کمنٹ کردیا تھا۔ اس کمنٹ کو لے کر دوفرقوں کے لوگ آمنے سامنے آگئے اور تنائو بڑھ گیا۔ لوگوںنے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے اور فائرنگ کی۔ اترپردیش میں جس طرح سے فیس بک اور نیٹ ورکنگ سائٹس کا دنگے بھڑکانے اور افواہیں پھیلانے میں استعمال کیا جارہاہے اس سے خود وزیراعلیٰ اکھلیش یادو بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔آگرہ میں حالات کے بگڑنے سے قبل متھرا میں بھی ایک مسجد کے قریب دعوت کے لئے جانور ذبح کئے جانے کو لے کر حالات بگڑچکے ہیں۔اسی بیچ ایٹہ سے خبر آئی تھی کہ گایوں کے کٹے ہوئے 26سر پائے گئے ہیں۔ اس خبر نے ماحول میں اشتعال پھیلادیا تھا۔ ان تمام واقعات کے پس منظر میں محمد اخلاق کے قتل کی واردات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

دنگوں کا پلان

    اترپردیش میں حالات کس قدر خراب ہونے کے امکانات ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات اعظم خان نے حال ہی میں کھل کر بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ ریاست میں عنقریب دنگے کرانا چاہتی ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ مظفر نگر کے فسادات بی جے پی نے پہلے ہی پلان کئے گئے تھے اور 2017 میں بی جے پی اس سے بھی بڑا فساد کرانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ غور طلب ہے کہ ایک دن پہلے ہی یوپی بی جے پی کے ریاستی صدر لکشمی کانت واجپئی نے مظفر نگرفسادات کے لئے ایس پی کے رہنماؤں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ حالانکہ دوسری طرف اس دنگے کی جانچ کر رہے سہائے کمیشن کی رپورٹ کے بعض حصے میڈیا میں آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ان فسادات میں سماجوادی پارٹی اور بی جے پی دونوں کے نیتائوں کی شمولیت تھی۔

    بہر حال اب اترپردیش میں حالات جس طرح سے بگڑ رہے ہیں ،وہ یہاں رہنے والے سبھی لوگوں کے لئے تشویش کا باعث ہیں۔دنگوں کی آگ بھڑکانے میں سوشل میڈیا کا استعمال کیا جارہاہے جو مزید خطرناک بات ہے۔ جس طرح سے حالات بگڑ رہے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے سمجھا جاسکتا ہے کہ ریاست میں کبھی بھی، کہیں بھی، کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر مغربی اترپردیش خاص طور پر نشانے پر ہے جہاں اب تک سب سے زیادہ فرقہ وارانہ تنائو کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات کولگ بھگ 17مہینے باقی ہیں جب کہ پنچایت کے انتخابات جلدہی شروع ہونے والے ہیں۔ سمجھا جارہاہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں پنچایت الیکشن سے ہوا کا رخ پہچاننا چاہتی ہیں۔ ایسے میں دنگوں کا کھیل کس مقصد سے کھیلا جارہاہے کسی کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہئے۔

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 514