donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   HAM jins PARAST bhi INSAN hain


 مخنث اور ہم جنس پرست بھی انسان ہیں


ان کے ساتھ بھید بھائو کیوں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    وہ تالیاں پیٹ پیٹ کر بھیک مانگنے پہ مجبور کیوں ہیں؟ وہ شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش کے وقت نیگ مانگنے کیوں آتے ہیں؟ وہ خود تماشہ بن کر اپنا روزگار کیوں کماتے ہیں؟ وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کے بجائے اپنے جیسوں کے ساتھ کیوں رہنے پر مجبور ہیں؟ انھیں ان کے والدین اور گھر والے قبول کیوں نہیں کرتے؟ انھیں باعث شرم و عار کیوں سمجھا جاتا ہے؟کیا ہجڑے بھی اسی خالق کی مخلوق نہیں ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے؟ کیا یہ اللہ کا احسان نہیں ہے کہ اس نے ہماری جنسی شناخت کو مجہول نہیں رکھا؟ حالانکہ وہ چاہتا تو ہمیں بھی ان جیسا بنا سکتا تھا اور انھیں ہمارے جیسا بنا سکتا تھا؟کیاوہ ہم جنس پرست انسان نہیں ہیں جن کی جنسی شناخت تو واضح ہے مگر غیر متوازن  ہارمونس کی وجہ سے وہ الگ جنسی رجحان رکھتے ہیں ؟ کیا ان دونوں طبقے کے لوگوں کو معزز طریقے سے زندگی جینے کا حق نہیں ہے؟ شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اس میں سے ایک طبقے کے مسئلے کو سمجھا اور اسے انصاف دلانے کی پہل کی ہے۔ ملک کی سب سے اونچی عدالت نے ہجڑوں کے تعلق سے ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے مانا کہ وہ سماجی اعتبار سے پسماندہ ہیں اور انھیں ریزرویشن ملنا چاہئے ۔ اسی کے ساتھ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ انھیں تیسری صنف کی پہچان بھی ملنی چاہئے۔ اب تک تو یہ ہوتا آیا تھا کہ جب کسی ہجڑے کا کوئی معاملہ کسی سرکاری دفتر میںجاتا اسے عورت اور مرد کی شناخت میں الجھا دیا جاتا تھا۔ گویا انسانی شناخت سے بڑی ہے عورت اور مرد کی شناخت۔ مدھیہ پردیش میں ایک مخنث شبنم موسی نے اسمبلی الیکشن میں جیت حاصل کرلی تھی مگر کورٹ میں جب یہ معاملہ گیا تو اس کی ممبر شپ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ اس نے اپنی صنف غلط بتائی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ عورت لکھیں تو غلط اور مرد لکھیں تو غلط، ایسے میں وہ لکھیں کیا؟اسی پہچان کی الجھن میں نہ تو ان کا الیکشن ووٹنگ کارڈ بن سکتا تھا اور نہ کسی قسم کا سرکاری کام ہوسکتا تھا۔ ایسے بچوں کا اسکولوں میں داخلہ بھی مشکل تھا یہی سبب ہے کہ پسماندہ رہ جاتے تھے مگر کورٹ نے انھیں تیسری صنف مان لیا ہے جس کی صنفی پہچان غیر واضح ہے۔ اب انھیں شناخت کے نام پر الجھایا نہیں جاسکے گا اور اسکولوں کالجوں اور سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن بھی حاصل ہوگا۔

بھید بھائو کا عذاب

    ہجڑوں کے تعلق سے ہمارے ملک میں بھید بھائو کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور جس کے گھر میں ان کی پیدائش ہوجاتی ہے وہ انھیں پالنے کے بجائے کہیں ٹھکانے لگا دینا مناسب جانتا ہے۔ عموماً یہ لوگ اپنے خاندان والوں کے ساتھ نہیں رہتے بلکہ اپنے جیسے ہی لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں اور ناچ گاکریا بھیک مانگ کر روزگار حاصل کرتے ہیں جو خود سماج کے چہرے پر ایک کوڑھ کی طرح ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہمارا سماج انھیں اپنے جیسا انسان سمجھے اور کسی کے گھر میں اگر ایسا بچہ پیدا ہوجائے تو وہ اسی طرح اس کی پرورش کرے جس طرح سے وہ دوسرے بچوں کی کرتا ہے۔ وہ جیسے ہیں اللہ کی مخلوق ہیں ،انھیں اسی روپ میں قبول کرنا چاہئے اور ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور ان کے سینے میں بھی دل ہے جو ہماری طرح احساس رکھتا ہے۔ جیسے ہم دردوغم اور خوشی محسوس کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں،پھر ان کا دل دکھانایا ان کی صنف کی توہین کرنا خدا کی صفت تخلیق کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا۔حالانکہ تاریخ میں ایسے ہجڑوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو پیدائش سے ایسے نہیں ہوتے تھے بلکہ انھیں محلوں کی نگرانی اور زنان خانے میں آمد ورفت کی غرض سے خصی کیا جاتا تھا اور انھیں’ خواجہ سر‘ا کا نام دیا جاتا تھا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے ایسا کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ ظاہر ہے یہ ایک ظالمانہ روایت تھی جسے ختم ہوجانا چاہئے تھا۔

ہم جنس پرستوں کا مسئلہ

    مخنثوں کے علاوہ ایک طبقہ ہم جنس پرستوں کا بھی ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ سماج کے بگڑے ہوئے لوگ ہیں اور جنسی اعتبار سے آوارہ ہیں مگر اسے میڈیکل سائنس کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا تصور بالکل غلط ہے کیونکہ جدید سائنس یہ مانتی ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والے سات فیصد سے زیادہ بچے ہارمونس کے عدم توازن کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا جنسی میلان اپنے ہم جنس میں ہوتا ہے۔ یعنی مردوں کے اندر کبھی مردانہ ہارمونس کی کمی ہوجاتی ہے اور کبھی عورتوں کے اندر مردانہ ہارمونس کی زیادتی ہوجاتی ہے۔ اس مسئلے کو اس طرح سمجھنا چاہئے کہ اکثر انسان اپنے داہنے ہاتھ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں مگر بعض لو گ اپنے بائیں ہاتھ کے استعمال میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں اور انھیں اسی میں طاقت زیادہ ملتی۔ یہ رجحان انسانی ڈی این اے کا حصہ ہوتا ہے لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بری صحبت میں پڑکر خراب ہوگئے ہیں کیونکہ یہ پیدائشی طور پر ایسے ہوتے ہیں۔ پیدائشی ہم جنس پرستوں کے بارے میں دوسرے لوگ اندازہ نہیں لگا سکتے مگر وہ اپنے ہم جنسوں میں ہی جنسی کشش محسوس کرتے ہیں۔ البتہ کچھ لوگوں میں بہت زیادہ گڑبڑی کی صورت میں دوسرے اسے محسوس بھی کرنے لگتے ہیں۔ یعنی عورتوں کا انداز مردانہ ہوجاتا ہے اور وہ مردوں جیسے برتائو کرنے لگتی ہیں یونہی مردوں کا انداز عورتوں جیسا ہوجاتا ہے اور وہ عورتوں کا لباس پہننا پسند کرنے لگتے ہیں اور ویسا ہی سلوک بھی کرتے ہیں۔ اس دنیا میں پیدا ہونے والے افراد میں ہم جنس پرستوں کا فیصد سات سے لے کر دس تک ہوتا ہے۔ گویا بھارت کی آبادی اگر سوا ارب ہے تو ایسے لوگوں کی تعداد کم از کم تیرہ کروڑ تو ہوگی ہی، مگر چونکہ یہ لوگ دوسروں جیسی ہی زندگی گذارتے ہیں لہٰذا کوئی ان کی شناخت نہیں کرسکتا۔ ایسے لوگوں میں ہمارے ملک کے بڑے بڑے سیاستداں، فلم اسٹارس ، مذہبی رہنما اور سلیبریٹی شامل ہیں۔ مثلاً ملائم سنگھ یادو، امر سنگھ،سابق مرکزی وزیر راجیو شکلا،یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی ویر بہادر سنگھ، ممتا بنرجی، بابارام دیو، بال کرشن، اداکار انل کپور اور فلم ڈائرکٹر کرن جوہر وغیرہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایسے ہی ہیں۔ جرنلسٹ صہیب الیاسی کی بیو انجو الیاسی کی موت کے سلسلے میں یہ خبر آئی تھی کہ وہ اپنے کسی دوست میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے سبب ان کی بیوی نے خودکشی کرلی اور حال ہی میں ’’ایمس‘‘کی ایک ڈاکٹر کی خودکشی کی خبر بھی میڈیا میں چھائی رہی جس نے اپنے ’’گے‘‘ شوہر کے دوسرے مردوں سے تعلقات کے سبب نیند کی گولیاں کھاکر جان دیدی تھی۔

بھارت کی تاریخ میں ہم جنس پرستی

    بھارت کی تاریخ میں ایسی بہت سی شخصیتیں گذری ہیں جو ہم جنس پرست تھیں اور اسی شوق میں کئی لڑائیاں بھی لڑی گئیں۔ ملک میں کئی انقلابات آئے۔ عہد وسطیٰ میں یہ شوق عام تھا اور بڑے بڑے بادشاہ بھی اس میں ملوث ہوتے تھے۔ عہد سلطنت میں سب سے لمبی مدت تک حکومت کرنے والے سلطان علاء الدین خلجی کی جان جانے کا سبب یہی ہم جنس پرستانہ محبت تھی جس نے اپنے ’’گے پارٹنر‘‘ ملک کافور کو اپنا وزیر اعظم اور فوج کا سپہ سالار بنادیا تھامگر اس کے بیٹے قطب الدین مبارک شاہ نے تو حد ہی کردی کہ اس نے اپنے معشوق خسرو خاں کے سامنے خود سپردی کردی اور اس نے نہ صرف اس کی حکومت ختم کردی بلکہ اس کے گھر کے بچے بچے کو قتل کرکے دلی کا بادشاہ بن گیا۔ اس کی حکومت لگ بھگ دو مہینے تک چلی۔ یونہی دکن کا ایک بادشا ہ خوبصورت لڑکوں کو اغوا کر الیتا تھا اور اس کے سبب اسے جنگ بھی لڑنی پڑی۔ تاریخ میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جو ہم جنسی سے متعلق ہیں۔ ظاہر ہے یہ تمام لوگ خرابیٔ کردارکے شکار نہ تھے بلکہ پیدائشی طور پر ہم جنس پرست تھے اور وہ اپنے فطری رجحان کو نہیں بدل سکتے تھے۔ دنیا کے ادب میں بھی ہم جنس پرستی کے موضوع پر اچھا خاصا مواد موجود ہے اور فارسی و اردو لٹریچر میں تو یہ اور بھی پرکشش موضوع رہا ہے۔میرؔ نے تو یہاں تک کہہ دیا:

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
پھر اسی عطاّر کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

عہد حاضر میں ہم جنس پرستی

     ہم جنس پرستانہ تعلقات کو مغربی ملکوں نے قانونی طور پر جائز مان لیا ہے مگر بھارت میں ابھی تک یہ غیرقانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے ابھی کچھ مہینے قبل اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ حکومت چاہے تو اسے جائز ٹھہرانے کے لئے قانون لاسکتی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے دہلی ہائی کورٹ نے اسے جرم ماننے سے انکار کیا تھا۔ ویسے دنیا کے کسی بھی مذہب میں اسے صحیح نہیں ٹھہرایا گیا ہے اور قدیم ایام سے سماج اس کی مخالفت کرتا رہا ہے مگر آج کل جہاں بہت سی پرانی رسموں کو چھوڑا جارہا ہے اور مذہبی دستور سے اوپر اٹھ کر قانون بن رہے ہیں ،اسی کے پیش نظر اسے قانونی طور پر جرم نہ ماننے کی وکالت بھی کی جارہی ہے۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے جرم کے دائرے سے باہر نکالنے کے لئے قانون میں ترمیم کریں گی۔ آج کل اسے دو بالغوں کا نجی معاملہ مانا جا رہا ہے اور ممکن ہے مستقبل قریب میں اسے آئینی طور پر جرم نہ مانا جائے۔اس وقت ساری دنیا میں اس کی حمایت میں انجمنیں سرگرم ہیں، اخبارات ورسائل نکل رہے ہیں اور سینکڑوں ویب سائٹس بیداری لانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ اسے جنسی اقلیت کے حقوق کی لڑائی ماناجا رہا ہے۔ سماج کے پڑھے لکھے اور اعلیٰ طبقات کے لوگ نیز میڈیا بھی یہ ماننے لگا ہے کہ ہم جنس پرست جنسی اقلیت ہیں اور انھیں اسی طرح ان کا حق ملنا چاہئے جس طرح سے مذہبی، لسانی  اور ثقافتی اقلیتوں کو حقوق ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مسئلے کو دنیا میڈیکل سائنس کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ہجڑوں کا معاملہ اس بھی اہم ہے جو خودکو چھپانا چاہیں تو بھی نہیں چھپا سکتے۔ قدرت نے انھیں جیسا بنایا ہے،وہ اس کی مرضی اور منشا ہے مگر ہمیں ان کے ساتھ برابرتائو نہیں کرنا چاہئے اور یہ جیسے ہیں اسی صورت میں قبول کرنا چاہئے۔  


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 579