donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindu Yuva Wahini Dekh Rahi Hai Yogi Ko Wazeer Aazam Banane Ka Khwab


ہندویوا واہنی دیکھ رہی ہے

 

یوگی کو وزیراعظم بنانے کا خواب؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    یوپی والے یوگی کی، ہندویوا واہنی نے مودی کے گجرات میں ایک احتجاجی پروگرام کااہتمام کیا۔ اس نے مویشیوں کی فروخت پر پابندی کے خلاف کیرل میں احتجاجی بیف پارٹی کے خلاف گجرات میں ایک احتجاجی پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔اس دوران واہنی کے کارکنوں نے وڈودرا میں کانگریس کے آفس پر حملہ کر دیااورڈانڈیا مارکیٹ میں کانگریس کے آفس کے باہر کانگریس پارٹی کا پتلا جلایا نیزآفس پر پتھر بازی بھی کی۔ واہنی کا یہ احتجاج، اگرچہ ایک عام سا احتجاجی پروگرام تھا جس سے کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا مگر اس پروگرام نے بتادیا کہ واہنی کی پہنچ گجرات تک ہوچکی ہے اور وہ یہاں بھی، اپنے دست وبازو پھیلانے میں مصروف ہے۔ نریندر مودی جب تک گجرات کے وزیراعلیٰ تھے انھوں نے ہندووادی تنظیموں پر قابو رکھا ہوا تھا ،یہاں تک کہ وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل کابھی ناطقہ بند تھا۔پروین توگڑیا ،خواہ پورے ملک میں آتش پارے بکھیرتے پھریں مگر مودی کے گجرات میں انھیں دم مارنے کی اجازت نہ تھی۔ اب مودی، دہلی میں ہیں اور گجرات میں ہندووادی اپنا کھیل کھیلنے کے لئے آزاد ہیں۔ یہی سبب ہے کہ گجرات میں نہ صرف وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل بلکہ ہندو یوا واہنی بھی اپنے دست وبازو پھیلانے کے لئے آزاد ہے۔بات صرف اتنی نہیں ہے کہ ہندو یوا واہنی ملک کی بہت سی ہندووادی جماعتوں کی طرح ایک جماعت ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ تنظیم بھی ویسے ہی عزائم رکھتی ہے، جیسے عزائم کے ساتھ آرایس ایس نے اپنا آغاز کیا تھا اور فرقہ وارانہ ومنافرت انگیز سوچ ،خواہ کسی بھی تنظیم کی بھی ہو ملک کے لئے بہرحال خطرناک ہے۔ واہنی ان دنوں یوپی میں جو کچھ کر رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسے اگر پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو یہ ملک کے لئے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ وزیراعظم مودی کی کرسی کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس کے کارکن پہلے تو یوگی آدتیہ ناتھ کو یوپی کا سی ایم بنانے کے لئے کوشاں تھے مگر اب ان کی نگاہیں دلی پر ٹکی ہوئی ہیں۔ خود وزیراعظم مودی بھی یوگی کو سی ایم بنانے کے حق میں نہیں تھے مگر آرایس ایس کے حکم کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ ویسے واہنی، آرایس ایس کے لئے بھی کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ چاہتا ہے کہ یوگی، واہنی کو تحلیل کردیں۔ 

اب واہنی کا رول کیا ہوگا؟

    اس وقت یوگی کے لئے اپنی ہی قائم کردہ ہندو یوا واہنی کو ختم کرنے کا ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے۔واہنی اگر زندہ رہی تو یوگی کے لئے راستہ ہموار کرنے کا کام کرے گی مگر آرایس ایس کے خلاف ایک متوازن قوت کے طور پر بھی ابھر سکتی ہے اور اس کا اندیشہ سنگھ پریوار کو ہے۔بہرحال اب سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا یوپی کا وزیراعلیٰ بننے کے بعد یوگی اس تنظیم کو ختم کردینگے یااسے مزید توسیع دے کر وزیراعظم بننے کے لئے استعمال کریںگے؟ کیا یہ تنظیم مستقبل میں آر ایس ایس جیسی ایک بڑی جماعت بن جائے گی اور بھگوا سیاست کے مرکز میں آجائے گی یا پھر آرایس ایس اسے ختم کر، آنے والے خطرے پر قابو پالے گا؟ یوگی آدتیہ ناتھ کے یوپی کا وزیراعلیٰ بننے کے بعد اس قسم کے سوال اٹھنے، اس لئے بھی لازم ہیں کہ تنظیم کا استعمال یوگی نے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنے کے لئے دبائو بنانے کے مقصد سے کیا تھا۔ یوگی کی قائم کردہ اس جماعت کی آج اتنی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ اترپردیش میں اب اس کی جانب بڑی تعداد میں نوجوان مائل ہورہے ہیں اور اس کی ممبرشپ حاصل کرنے کے خواہش مندروز بروز بڑھ رہے ہیں۔ اس قسم کی خبریں بھی آرہی ہیں کہ بہار سمیت، دوسرے صوبوں میں بھی ہندو یوا واہنی کے طلب گار بڑھ رہے ہیں اور اس کی شاخیں قائم ہورہی ہیں۔ یوگی کے راج گدی پر بیٹھنے کے بعد واہنی کا حوصلہ بھی ساتویں آسمان پر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خود یوگی کے لئے اب اس کی کیا اہمیت بچی ہے، جبکہ وہ یوپی کے اولین سیاسی عہدہ پر فائز ہو چکے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اب تنظیم پورے ملک میں پھیل کر ہندتو کے نام پر وہی سب کرے گی جو وہ پروانچل میں کرتی رہی ہے یا پھر اس کے انداز میں بدلائو آئے گا؟ یہ سوال اس لئے بھی اٹھ رہے ہیں کیونکہ ماضی میں واہنی قانون کو ہاتھ میں لیتی رہی ہے۔

واہنی اور بدامنی

    ان دنوں ہندو یوا واہنی ایک قانون سے بالاترخودسر جماعت بنتی جارہی ہے۔ وہ وہی سب کرتی نظر آرہی ہے جو دیگر ہندووادی جماعتیں کرتی رہی ہیں۔اس کے تمام ایشوز وہی ہیں جو دوسری بھگوا تنظیموں کے ہوتے ہیںمثلاً گورکھشا، لوجہاد، گھر واپسی اور امن وامان کو تحلیل کرکے مذہب کے نام پر بدامنی پھیلانا وغیرہ۔ گزشتہ دنوںمیرٹھ کے شاستری نگر علاقے میں ہندویوا واہنی کے کارکنوں نے گھر میں گھس کر ایک پریمی جوڑے کے ساتھ بدسلوکی کی۔ ایک مسلم نوجوان کی، ہندو لڑکی سے محبت ،واہنی کے کارکنوں کو ناگوار گزری۔ اس لئے انہوں نے گھر میں گھس کر نہ صرف نوجوان کے ساتھ بدسلوکی ، بلکہ پریمی جوڑے کوگھسیٹتے ہوئے پولیس تھانے تک لے کر گئے۔ اس کے بعد پولیس پر، کارکنوں نے ،پریمی جوڑے کے خلاف ، کارروائی کرنے کے لیے دباؤ بھی بنایا۔ ہندویوا واہنی پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی تنظیم ہے اورخودیوگی بھی مغربی یوپی میں’’ لو جہاد‘‘ کو بڑا مسئلہ بتا چکے ہیں۔ اب اس مسئلے پر انھیں کی تنظیم قانون شکنی کر رہی ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ ہندو یوا واہنی نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ مطلقہ مسلم عورتیں اگر اسلام ترک کرکے ہندو بن جائیں تو واہنی کے کارکن ان سے شادی کرنے اور انھیں انصاف دلانے کے لئے تیار ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک بھی مسلم عورت اس کے لئے راضی نہیں ہوئی مگر واہنی کو اشتعال انگیزی کے لئے بیان دینا تھا سو دے دیا۔ حال ہی میں رپورٹ آئی ہے کہ مہاراشٹر میں قتل جنین کے سبب لڑکیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے مگر کسی ہندو وادی تنظیم کو اس پر فکر نہیں ہے۔ہندو عورتوں کی بدحالی کی بھی انھیں فکر نہیں، بس مسلمان عورت کی فکر میں دبلے ہوئے جارہے ہیں۔ ہندو یوا واہنی یوپی میں کیسے خودسر ہورہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرٹھ میں ہندویوا واہنی کے ضلع صدر نیرج شرما کے اعزاز میں کچھ ایسے پوسٹر لگائے گئے ، جن میں لکھا گیا تھا کہ ’’اگر پردیش میں رہنا ہے تو یوگی-یوگی کہنا ہے ‘‘ اس پوسٹر میں بہت سے دوسرے لوگوں کے نام بھی ہیں، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صوبے میں رہنے کے لئے’’یوگی-یوگی ‘‘کہنا لازمی ہے؟یہ پوسٹر جہاں ایک طرف ہندویوا واہنی کے طریقہ کار پر سوال کھڑے کر رہے ہیں، وہیں صوبے کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی تصویر پر بھی سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔کانگریس لیڈر ستیہ دیو ترپاٹھی نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندویوا واہنی کا مقصد لوگوں میں پھوٹ ڈالنا ہے جس طرح وہ پردیش میں کام کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ سنگھ کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں، جو کہ صوبہ اور ملک کے لئے خطرناک ہے۔ 

 کیوں قائم ہوئی تھی واہنی؟

    اتر پردیش کے پوروانچل علاقہ میں یوگی آدتیہ ناتھ پر جتنی بحث ہوتی رہی ہے، کسی دوسرے نیتا کے بارے میں نہیں رہی۔ اس سے کہیں زیادہ چرچا ،ان کی تنظیم ہندو یوا واہینی کا رہا ہے کیونکہ اکثر وبیشتر تنظیم کے لوگوں پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا الزام لگا ہے اور اس کے ورکر کئی بار جیل بھی گئے ہیں ۔ سال 2002 میں گورکھپور کے اس وقت کے ممبرپارلیمنٹ اور اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے جب اس کی تاسیس کی تھی تو اسے انہوں نے ایک ثقافتی تنظیم بتایا تھا۔ اس وقت اس تنظیم کا کام تھا، دیہاتوں اور شہروں میں جا کر مبینہ طور پر ملک مخالف اور ہندو مخالف سرگرمیوں کو روکنا لیکن بہت سے لوگ اس کے پیچھے کچھ اور ہی مقصد مانتے ہیں۔ گورکھپور کے سینئر صحافی جگدیش لال بتاتے ہیں کہ ،اس کے پیچھے یوگی جی کی سیاسی سوچ تھی۔ اس کے ذریعہ انہوں نے سیاسی نیٹ ورکنگ کی۔ 20-22 سال کے جوشیلے نوجوان ،ایک خاص نظریہ کو لے کر لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں ایک قیادت کے تابع لا رہے تھے اور اس مہم میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔واضح ہوکہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندویوا واہنی کا قیام، سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے تحت کیا تھا۔ اس کے ذریعے وہ سیاسی نشانے لگاتے رہے ہیں۔ وہ پہلے کم ووٹوں سے جیتتے تھے مگر اس کا قیام کرتے ہی یوگی کی، جیت کا فاصلہ بڑا ہوتا چلا گیااور، 2014 کا لوک سبھا انتخاب یوگی آدتیہ ناتھ نے 3 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جیتا۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے واہنی کو گورکھپور کے دائرے سے باہر نکال کر پورے پوروانچل میں پھیلایا۔اس کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ اس کی بنیاد پر یوگی آدتیہ ناتھ بی جے پی کے اندر دباؤ بناتے رہے اور اپنی باتیں منواتے رہے۔2002 کے انتخابات میں گورکھپور شہر سے یوگی نے ہندویوا واہنی کا امیدوار اتار کر بی جے پی کے امیدوار کو ہروا دیا تھا۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے 1998 میں پہلا لوک سبھا انتخاب 26 ہزار ووٹ سے جیت لیا تھا لیکن 1999 میں ہوئے دوسرے انتخاب میں ان کی جیت کا فرق محض سات ہزار ووٹوں تک سمٹ کر رہ گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندو یوا واہنی بنانے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ بعد کے دور میں دیکھا گیا کہ یوگی کا دبدبہ کس طرح بڑھا اور ان کے ووٹوں کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا۔ ان کے گرو مہنت اویدھ ناتھ، ہندو مہاسبھا سے جو کام لیتے تھے، وہی کام یوگی نے واہنی سے لیا اور اب وہ اسے وزیراعظم بننے کے لئے زینہ کے طور پر استعمال میں لاسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 947