donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustani Musalman Aalame Islam Ki Qayadat Kar Sakte Hain Magear


ہندوستانی مسلمان عالم اسلام کی قیادت کرسکتے ہیں

مگر۔۔


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت ،دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہوگا اور عالم اسلام کی قیادت ہندوستانی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوگی؟ یہ سوال بے حد اہم ہے اور مسلمانوں کے لئے خوش کن بھی ہے، مگر اس سوال کے پیچھے محض شیخ چلی کا خواب نہیں ہے بلکہ کچھ زمینی سچائیاں بھی ہیں۔ عالمی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ عنقریب دنیا کا سب سے بڑا مذہب اسلام ہوگا اوربھارت دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہوگا۔ اس وقت انڈونیشیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے،اس کے بعد پاکستان، بھارت اور پھربنگلہ دیش کا نمبر آتا ہے۔ عرب ممالک جہاں سے اسلام کی ابتدا ہوئی ،وہ آبادی ہی نہیں تعلیم کے مقابلے میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق عنقریب بھارت سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک ہوجائے گا اس کے بعد انڈونیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کا نمبر آئے گا۔2015کے اخیر میں پیو ریسرچ فورم کی ایک مختصر رپورٹ آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2020اور 2030کے درمیان بھارت سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک بن سکتا ہے۔اس سے قبل ایک رپورٹ آچکی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ 2050 تک ہندوستان دنیا کی سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک بن جائے گا اگرچہ بھارت میں ہندو ہی اکثریت میںہوں گے، لیکن مسلم آبادی کے معاملے میں انڈیا ،سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کو شکست دے دے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس وقت تک دنیا میں تیسری سب سے بڑی آبادی ہندوؤں کی ہو جائے گی۔ ابھی دنیا میں تیسری بڑی آبادی ان لوگوں کی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 2050 تک دنیا بھر میں ہندو آبادی 34 فیصد بڑھ جائے گی۔ ہندوؤں کی آبادی تیسرے نمبر پر آکر پوری دنیا کی آبادی کا 14.9 فیصد ہو جائے گی۔ اندازے کے مطابق، دنیا کی کل آبادی میں مسلم آبادی زیادہ تیزی سے بڑھے گی جبکہ ہندوؤں اور عیسائیوں کی آبادی بڑھنے کی رفتار عام رہے گی۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ بھارت میں ہندو اکثریت بنی رہے گی لیکن یہ سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک بھی بن جائے گا۔ اس صورت میں یہ انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ پیوریسرچ کی رپورٹ کے مطابق اگلی چار دہائیوں میں اسلام کسی بھی دوسرے بڑے مذہب کے مقابلے میں تیز رفتار سے بڑھے گا۔

ہندوستانی مسلمان کے ہاتھ میں قیادت؟

    اس وقت مسلمانوں کا کوئی عالمی قائد نہیں ہے اور نہ ہی کسی ملک میں ان کا کوئی قومی رہنما ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں منقسم ہیں۔ مسلم ملکوں کی ایک تنظیم رابطہ عالم اسلامی ضرور ہے مگر یہ غیرموثر ہے اور اس کے ممبربیشتر مسلم ملکوں میں غیرجمہوری حکومتیں ہیں جن کی قیادت مغرب نواز حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ مسلم ملکوں کا منفی پہلویہ بھی ہے کہ یہاں عوام میں تعلیمی شرح کم ہے اور جنھیں خواندہ سمجھا جاتا ہے وہ بھی معمولی پڑھے لگے ہیں۔ ان ممالک کے حکمراں دولت مند ہیں مگر سائنس اور تیکنالوجی نیز تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے معاملے میں یہ ممالک بہت پیچھے ہیں۔ مستقبل قریب میں ان ملکوں میں تعلیم کے بڑھنے کے آثار نہیں ہیں۔اس کے برعکس بھارت ان ملکوں میں شامل ہے جس کی اقتصادی ترقی ہورہی ہے اور یہاں کے لوگ تعلیم میں بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر تعلیم کا رجحان اگرچہ ہندووں کے مقابلے میں کم ہے مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کے مقابلے میں پھر بھی بہتر ہے۔ ایسے میں عنقریب سب سے زیادہ مسلمان ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ، محقق اور دانشور بھارت سے ہی نکلیںگے۔بھارت میں مدرسوں کے تعلیمی سسٹم میں بھی بدلائو آرہاہے کہ لہٰذا عصری علوم سے آگاہ علماء دین بھی بھارتی مدرسوں سے ہی فارغ ہونگے ۔ جب کہ فی الحال عرب ملکوں میں اس کے امکانات دور دور تک نہیں ہیں۔ انڈونیشیا اور ملیشیا کے مسلمان بھی تعلیم میں آگے بڑھ رہے ہیں اور پاکستان وبنگلہ دیش کے مسلمان بھی مگر ہندوستانی مسلمان زیادہ چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ آبادی کے معاملے میں بھی ان ملکوں سے آگے نکل جائیں گے۔ ایسے میں ان کے ہاتھ میں مسلم دنیا کی قیادت آسکتی ہے۔ موجودہ وقت میں دنیا پر چھانے کے لئے طاقت اور پیسے سے زیادہ ضروری ہے تعلیم۔ عرب ملکوں کے پاس پیسے کی کمی نہیں ، وہ امریکہ اور یوروپ کو بھی قرض دے رہے ہیںمگر وہ اس لئے دنیا کو متاثر نہیں کر پارہے ہیں کہ ان کے پاس تعلیم اور سائنس وتیکنالوجی کی کمی ہے۔جب کہ یہودی کم آبادی کے باجود دنیا کو متاثر کر رہے ہیں۔بھارت کے مسلمان آنے والے وقتوں میں ان شعبوں میں چھاسکتے ہیں اور دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ میں آئے یا نہ آئے مگر عالم اسلام پر وہی چھائے نظر آئیںگے۔ بھارت اور دنیا کے دوسرے خطوں کے مسلمانوں میں ایک بڑا فرق ہے کہ بھارت میں آج بھی مسلمان اعتدال کا نظریہ رکھتے ہیں اور جس زمانے میں ساری دنیا میں مسلمانوں کے اندر شدت پسندی بڑھی ہے،وہاں بھارتی مسلمان آج بھی اعتدال کے راستے پر ہیں اور صوفیہ کے پیغام ہم آہنگی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اخوت ومحبت یہاں کے مسلمانوں کے ڈی این اے میں شامل ہے کیونکہ انھیں اسلام ،صوفیہ کے ذریعہ ملا ہے۔ یہاں آج بھی سعودی عرب والا اسلام عام مسلمانوں کے ذہنوں پر حاوی نہیں ہوا ہے۔جس نظریے نے شام، عراق،افغانستان، پاکستان اور افریقی ملکوں میں آگ لگا رکھا ہے،وہ آج بھی ہندوستان کے عام مسلمان سے دور ہے۔ آج دنیا کو ایسے ہی نظریے کی ضرورت ہے جو ’’جیو اور جینے دو ‘‘کے اصول کے مطابق ہو۔   

  مسلم آبادی کا رجحان

    امریکی تحقیقاتی ادارے ’پیو ریسرچ‘ کے مطابق یورپ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ساڑھے 4کروڑ ہے، جن میں سے تقریباً 2 کروڑ یورپی یونین کے ممالک میں آباد ہیں۔ صرف جرمنی اور فرانس میں ہی مسلمانوں کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے۔ مغربی یورپ میں فرانس وہ ملک ہے کہ جہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے۔ یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2030ء تک مسلمانوں کی آبادی یورپ کی کل آبادی کے 10 فیصد سے بھی زائد ہوچکی ہوگی۔ یورپ کے بڑے شہروں کے نواحی علاقے خاص طور پر مسلم آبادی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔یورپی ممالک میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ مسلمان مغربی ممالک کی اقدار اور روایات سے ہم آہنگ نہیں ہورہے اور خصوصاً نوجوان نسل شدت پسندی کی طرف مائل ہورہی ہے۔ پیو ریسرچ کے مطابق جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد 47 لاکھ 60 ہزار، فرانس میں 47 لاکھ 10 ہزار، برطانیہ میں 29 لاکھ 60ہزار اور اٹلی میں 22 لاکھ 20ہزار ہے۔ یورپ کے درجنوں دیگر ممالک میں بھی مسلمانوں کی آبادی لاکھوں میں ہے۔ 2012میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق دنیامیں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی آبادی درج ذیل شرح پر ہے:

عیسائیت 2.2 بلین

(31.50فیصد)
اسلام 1.6 بلین

( 22.32فیصد)

کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے / سیکولر / ملحد 1.1بلین) 15.35فیصد)

ہندومت 1 بلین

(.95 13فیصد)
یہودیت 14 ملین
بہائی 7.0 ملین
زرتشت 2.6 ملین

ہندوستان میںمسلم آبادی کا ہوّا

     ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کے اکثریت میں آنے کے فی الحال امکانات نہیں ہیں مگر یہاں مسلم آبادی کو ایک ہوّا کی طرح پیش کیا گیا ہے۔کسی عام آدمی سے پوچھئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کتنی آبادی ہے تو آپ کو اس سوال کے عجیب و غریب جواب ملیں گے۔کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ اکثریت ہیں، تو کچھ لوگ کہیں گے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جن کے پاس تھوڑی زیادہ معلومات ہوگی، وہ دور کی سوچ رکھنے والے ہوں گے وہ کہیں گے کہ وہ بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ایک دن ان کی آبادی ملک میں سب سے زیادہ ہو جائے گی۔حالانکہ اعداد و شمار سے یہ بات صاف ہے کہ مسلمان ہندوستان میں اقلیت ہیںلیکن سال 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر ان اعداد و شمار کو جس طرح سے پیش کیا گیا ہے اس سے بھارت کے ایک طبقے کی اس سوچ (جو غلط معلومات پر مبنی ہے) کو شاید تقویت ملے کہ مسلمان جلد ہی اس ملک میں اکثریت میںہو جائیں گے۔ آر ایس ایس کے سکریٹری برائے رابطہ عامہ ارون کمار نے ایک موقع پر کہا تھا کہ آبادی کا کردار تبدیل کرنے سے سیاسی منظرنامے اور ممالک کی حدود کو تبدیل کیا جاتا ہے۔بھارت نے 1952 میں آبادی کی پالیسی کا اعلان کیا لیکن پالیسی بناتے وقت مجموعی طور پر غور نہیں ہوا۔ اس لئے آبادی میں اضافہ سے عدم توازن بڑھتا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں آبادی میں عدم توازن کی بنیادی وجہ ہندووں اور مسلمانوں کی افزائش نسل کی شرح میں بھاری عدم یکسانیت اورغیر ملکی دراندازی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کی سلامتی، اتحاد اور سالمیت اور ثقافتی شناخت خطرے میں ہے۔‘‘یہ کہنا درست نہیں کہ ہندوستان میں مسلمان اکثریت میں آجائیںگے مگر یہ ضرور سچ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اگر تعلیم کی طرف توجہ دیں تو دنیا میں اہم کردار میں نظر آئینگے۔ خاص طور پر وہ عالم اسلام میں چھاتے ہوئے دکھائی دیں گے اور مسلم دنیا کی علمی قیادت ان کے ہاتھ میں ہوگی۔

۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 535