donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustani Musalmano Ko Dahshatgardi Se Nafrat Kiyon Hai


ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی سے نفرت کیوں ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    حالیہ ایام میںبعض تفتیشی ایجنسیوں نے حیدرآباد سے کچھ مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان نوجوانوں کا دہشت گردی کی طرف رجحان ہے یا انھیں سافٹ ٹارگیٹ بنایا گیا ہے؟ کیا ایک وقت آئے گا جب ان کی کورٹ سے رہائی ہوگی اور انھیں بے قصور قرارد یا جائے گا، جس طرح ماضی میں ہوتا رہاہے؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ اب تک ملک بھر میں جن مسلمانوں کو اس قسم کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے وہ بے قصور ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں کے خون میں ہی امن پسندی شامل ہے۔ ادھرملک بھر کے علماء بھی دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہوئے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ گزشتہ سال بھر کے اندر علماء کے تقریبا سبھی طبقوں کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی گئی اوراس کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی مخالف کانفرنسیں بھی کی گئیں۔بڑے بڑے اسلامی اداروں نے دہشت گردی اور تشدد کے خلاف فتوے جاری کئے۔ ایسا کرنے والوں میں ہندوستان اور بیرون ہند کے ادارے ااور علماء شامل ہیں۔ ہندوستان میں جمعیۃ علماء ہند، جمعیت اہل حدیث، رضا اکیڈمی، علماء ومشائخ بورڈ،جماعت اسلامی ہند، مسلم پرسنل لاء بورڈ،دارالعلوم دیوبند،درگاہ اجمیر شریف ، درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء اور درگاہ اعلیٰ حضرت (بریلی)سمیت نامور اداروں کی طرف سے دہشت گردجماعتوں کے خلاف اپیلیں جاری کی گئیں یا فتوے صادر ہوئے۔ پاکستان کے معروف عالم دین ڈاکٹر طاہرالقادری نے دہشت گردی کے خلاف ایک فتوے کو کتابی شکل میں شائع کرایا اور یہاں کے علماء نے اس فتوے کی تائید کی تو مصر، شام، عراق اور ایران کے ساتھ ساتھ یوروپ کے علماء کی طرف سے بھی تشدد کے خلاف اپیلیں جاری ہوئیں اور فتوے صادر ہوئے۔ جامعہ ازہر مصر کے مفتیوں نے کھل کر دہشت گردی اور تشدد کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایس اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو اسلام کی دشمن بتایا۔ سعودی عرب پر اکثر وبیشتر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام لگتا رہاہے مگر اب سعودی بادشاہت ہی نہیں بلکہ یہاں کے علماء بھی کھل کر میدان میں آچکے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف لوہا لے رہے ہیں۔

دہشت گردی کی زد میں ہے دنیا

    عراق اورشام میں دہشت گردی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے اور امن وامان کو نگلتا جارہاہے۔ یمن میں بدامنی ہے اور تشدد کی آگ سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لینے کو تیار ہے۔ لیبیا میں آئے دن دہشت گردانہ حملے ہورہے ہیں اور مصر میں تشدد کا آتش فشاں پھٹنے کو تیار ہے۔افغانستان اور پاکستان دنیا کے خطرناک ترین خطے بن چکے ہیں جہاں کب دہشت گردانہ حملہ ہوجائے، کہناممکن نہیں۔ سنٹرل ایشیا سے افریقی ممالک تک اور چین سے یوروپ وامریکہ تک کے عوام خوف ودہشت میں جی رہے ہیں کہ نہ جانے کب وہ ان حملوں کی لپیٹ میں آجائیں۔ ۱۱/۹ کے بعد سے دنیا بدل چکی ہے اور وہ ممالک بھی دہشت گردی کی زد میں ہیں جنھوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اپنے مقصد میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا کے لئے یہ حیرت کی بات ہے کہ بھارت ایک پرامن ملک ہے اور دہشت گردی کی گندگی سے پاک ہے۔ القاعدہ کہتا ہے کہ وہ بھارت میں اپنا نیٹ ورک بڑھائے گا تو بھارت کے وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اس کی کوششوں کو ناکام بنادینگے۔ملک بھر میں دہشت گردانہ نیٹ ورک کے پھیلائو کی باتیں اٹھتی ہیں تو وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان دہشت گردی سے دور ہیں، امن پسند ہیں اور ان کا آئی ایس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ملک کے وزیرداخلہ بھی بار بار مسلمانوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بات سے انکار کرتے ہیں۔ دنیا انگشت بدنداں ہے کہ جہاں ایک طرف یوروپ وامریکہ تک تشدد اور دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں، وہیں ہندوستانی مسلمان امن وامان کے ساتھ رہ رہے ہیں اور دنیا کو محبت وانسانیت کا پیغام دے رہے ہیں۔آخر کیا سبب ہے کہ ملک کے مسلمان ان ساری ناانصافیوں کو بھول جاتے ہیں جو ان کے ساتھ آزاد ہندوستان میں ہوتی رہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے کبھی مسلح جدوجہد کی طرف نہیں جاتے بلکہ ہمیشہ پر امن راستہ اپناتے ہیں؟ آخر کس مٹی سے بنا ہے ان کا خمیر کہ ظلم وزیادتی کے زہرہلاہل کو بھی قند سمجھ کر پی جاتے ہیں؟     

دہشت گردی سے پریشان عالم اسلام 

     اس وقت ساری دنیا دہشت گردی سے پریشان ہے اور مسلم دنیا خاص طور پر نشانے پر ہے۔جہاںایک طرف مسلمانوں پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام لگتا ہے تودوسری طرف دہشت گردوں کے حملوں کا شکار بھی سب سے زیادہ وہی ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں مسلمان ہی دوسری اقوام کے طعنے سنتے ہیں اور انھیں کو شک وشبہے کی نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے۔اگر وہ ہوائی جہازوں میں سفر کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی خصوصی جانچ کی جاتی ہے اور طیاروں میں ان پر نظر رکھی جاتی ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ شاہ رخ اورسلمان خان تک کوامریکی ایئر پورٹ پر روک لیا جاتا ہے اور ان کی خصوصی جانچ کی جاتی ہے۔ ان حالات سے پریشان  سعودی عرب نے دہشت گردی پر کنٹرول کے لئے امریکہ اور شریک ممالک کے اتحاد والے ’’نیٹو ‘‘کی طرح ہی مسلمان ممالک کی ایک فوج تیار کرنے کی تجویز دی ہے۔ برطانوی اخبار ’’دی انڈیپینڈنٹ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ فوج کسی خاص ملک کے خلاف نہیں لڑے گی بلکہ اسے دہشت گردی اور Isis جیسی دہشت گرد تنظیموں سے ٹکر لینے کے لئے قائم کیا جائے گا۔ خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کو اس تجویز کا ایک خاکہ تیار کرنے کا کام سونپا گیا ہے، جس میں 34 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہوں گے۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں ہوئے تین دنوں تک چلنے والی جوائنٹ آرمی ایکسرسائز میں موجود تھے۔ شمالی سعودی عرب میں ہوئے اس مشق میں 21 ممالک کی فوج نے حصہ لیا تھا، جس میں انہیں دہشت گردی سے لڑنے کے لئے تیار کیا گیا اور حملوں کے دوران لڑنے کے بہتر طور طریقے سکھائے گئے تھے۔

حکومت دہشت گردی کے خلاف کتنی سنجیدہ ؟

    یہ سچائی ہے کہ جہاں عالم اسلام سمیت ساری دنیا دہشت گردی کے عفریت سے پریشان ہے وہیں بھارت اس مصیبت سے دور ہے۔ بھارت کی حکومت دہشت گردی کے تعلق سے جس قدر سنجیدہ ہے اس سے زیادہ یہاں کے مسلمان سنجیدہ ہیں۔ مسلمانوں کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جو اس کی حمایت میں ہو۔ سبھی طبقے دہشت گردی اور تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ بھارت کی پالیسی بھی بقائے باہم کی رہی ہے۔ پچھلے دنوں دہشت گردی کو انسانیت کا دشمن قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اسے مذہب سے الگ کئے جانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ ٹکڑوں میںبنٹ کر اس برائی سے اثر دار طریقے سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ پی ایم مودی نے کہا کہ اچھی اور بری دہشت گردی میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔دہشت گردی کی کوئی ذات، رنگ، عقیدہ اور مذہب نہیں ۔ مودی نے کہا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے انسانیت میں یقین رکھنے والے ہرشخص کو متحد ہونا ہوگا۔ ہمیں دہشت گردی سے مذہب کو الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جامع انداز میں نمٹنا چاہئے۔ جہاں ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی دہشت گردی کے خلاف مذہب سے اوپر اٹھ کر لڑنے کی بات کر رہے ہیں وہیں خبر ہے کہ مالیگائوں بم دھماکہ اور سمجھوتہ اکسپریس دھماکہ کو انجام دینے والے دہشت گردوں سوامی اسیمانند،کرنل پروہت، ساھوی پرگیہ سنگھ وغیرہ کو چھوڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اب حکومت نے ایک نئی تھیوری تلاش کی ہے کہ یہ حملے لشکر طیبہ نے انجام دیئے تھے اور جن لوگوں کو اس معاملے میں ملزم گردانا گیا ہے وہ اصل میں ’’معصوم‘‘ ہیں۔حکومت کے اس طریقہ کار کے سبب سوال اٹھنے لگے ہیں کہ وزیراعظم کے قول وفعل میں تضادہے۔

محبت کا دھاگہ اس ملک کو جوڑے ہوئے ہے

    بھارت کے مسلمان اپنے وطن سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح یہاں رہنے والے دوسرے طبقے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کو اسلام صوفیہ کرام کے ذریعے ملا ہے جو امن ومحبت کے پیامی تھے۔ صوفیہ نے بلاتفریق مذہب بھائی چارہ کا پیام دیا۔ یہاں کے مسلمان جانتے ہیں کہ دہشت گردی سے جو نقصان ہوگا وہ کسی ایک طبقے کا نہیں ہوگا بلکہ انسانیت کا ہوگا۔ بھارت کو جو محبت واخوت کا دھاگہ باندھے ہوئے ہے اس کا سرا یہاں کی مٹی میں پیوست ہے۔اس کی ایک مثال حال ہی میں دیکھنے کو ملی جب ملک کے امن اور چین کے لئے کاشی کے بنکروں نے ایک بڑی چادر بنی۔ یہ چادر خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے آستانے کے لئے تیار کی گئی تھی اور اپنے اندر دیش بھکتی اور عدم تشدد کے کئی سبق رکھتی ہے۔ 20 فٹ طویل اور 11 فٹ چوڑی ترنگی چادر بتاتی ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کو اپنے وطن سے کس قدر پیار ہے۔ اس میں خاص کرزری، گوٹہ اور ستارہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ریشمی دھاگوں سے ہندوستان کا نقشہ اور کعبہ کی شکل کو بنایا گیا ہے۔ اس چادر کو بنانے میں خاص طور پر تین مسلم خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے۔قومی بنکر ایکشن کمیٹی کے صدر سرفراز احمد نے کہاکہ اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جنہوں نے ملک کے لئے جان دی، ان کی قربانی کو سب یاد رکھیں۔ بھارت میں امن اور سالمیت بنی رہے۔

بھارت کے مسلمان امن پسند ہیں

    بھارت کے مسلمان امن پسند ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ آج تک ان کے بیچ تشدد نے جگہ نہیں بنائی۔ یہاں آزادی کے بعد سے بہت سے مسلم کش فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کو یک طرفہ طور پرجانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا۔خواتین کی عصمت ریزیاں ہوئیں اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ فسادیوں کو سزا نہیں ہوئی بلکہ وہ ایم پی، ایم ایل اے اور منتری بن گئے۔ بابری مسجد پر قبضہ کرکے نماز پر پابندی عائد کردی گئی اور اسے پوجا پاٹ کے لئے کھول دیا گیا اور پھر اسے شہید بھی کردیا گیا۔اسی پر بس نہیں بلکہ ملک بھر کی ہزاروں تاریخی مساجد پر دعویٰ بھی ٹھونک دیا گیا۔مسلمانوںسے تعلیم اور سرکاری نوکریوں کے مواقع چھین لئے گئے اور انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا سو الگ،مگر اس کے باوجود انھوں نے تشدد کا راستہ نہیںاختیار کیا کیونکہ صلح جوئی اور امن پسندی ان کے خون میں شامل ہے۔ہندوستان کے مسلمان سعودی بادشاہوں کے اسلام کو نہیں ،خواجہ معین الدین چشتی کے اسلام کو مانتے ہیں۔ مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان پر اگر مظالم ہوئے تو اس کے سیاسی اسباب تھے، اس کا جواب تشدد سے پورے ملک کو کیوں دیا جائے؟ ملک کا نقصان ، خود ان کا اپنا نقصان ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی کچھ دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں  اور چند لوگوں کا میلان تشدد کی جانب ہوا مگر ایک طویل وعریض ملک ،جہاں ایک ارب سے زیادہ لوگ رہتے سہتے ہیں،اس کے لئے یہ معمولی بات ہے۔ حالانکہ تشدد کی طرف چند نوعمر اور خام عقل نوجوانوں کا مائل ہوناکوئی بڑا واقعہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ وہ نوعمر تھے جو وقتی جذبات کی رو میں بہہ گئے تھے۔ بھارت امن کا گہوارہ ہے اور انشاء اللہ رہے گا مگر حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ انصاف کی فضا قائم کرے اور ’’راج دھرم‘‘ نبھائے۔ اب تک جن مسلمانوں کا دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا وہ خرابی بسیار کے بعد کورٹ سے رہا ہوگئے ہیں اور ہمیں یقین ہے جن حال ہی میں حیدر آباد سے جن نوجوانوں کے آئی ایس آئی ایس سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے وہ بھی جلد ہی چھوٹ جائینگے کیونکہ ہندوستان مسلمان امن پسند ہیں ۔ انھیں محض تعصب کے سبب پھنسایا جاتا ہے۔

(یو این این )  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 562