donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindutv Ki Dahshat Ki Alamat Bajrang Dal Par Pabandi Kiyon Nahi


ہندتو کی دہشت کی علامت بجرنگ دل پر پابندی کیوں نہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بجرنگ دل سماجی تنظیم ہے یا بھگوا انتہا پسند جماعت؟ وہ اسپتالوں میں خون دیتی ہے یا بے گناہوں کی جانیں لینے کا کام کرتی ہے؟ اس کے ممبران قانون کی مدد کرتے ہیں یا ملک میں لاقانونیت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس قسم کے سوالات عام طور پر پوچھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس تنظیم پر دسمبر۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کے انہدام کے الزام میں پابندی بھی لگ چکی ہے اور اس کے ممبران کو کئی بار دہشت گردانہ سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار بھی کیا جاتا رہاہے مگر باوجود اس کے حکومت نے اسے دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا اور مستقل پابندی نہیں لگائی، اس کی وجہ صاف تھی کہ کانگریس حکومتوں کے اندر بھی آرایس ایس کے ہمدرد بیٹھے رہے ہیں جو بھگواوادیوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘ میں وکاس پاٹھک کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جو بجرنگ دل کے بارے میں ہے۔اس مضمون کا عنوان ہے"The musclmen of Hindtva"انھوں نے اپنے مضمون میں اس تنظیم کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجرنگ دل ان دنوں ایک بار پھر رام مندر کی تعمیر کے نام پر سرگرم نظر آرہاہے۔حال ہی میں اس نے اشوک سنگھل کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک پروگرام کا اہتمام کیا جس میں موہن بھاگوت نے کہا کہ اشوک سنگھل کو بہترین خراج عقیدت ہوگا رام مندر تعمیر کرنا۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ بجرنگ دل کے قیام کا مقصد ہندوتو کا فروغ تھا کیونکہ اسے رام رتھ یاترا کا تحفظ تھا۔اس کے ارکان کئی تشدد کے واقعات میں ملوث پائے گئے مگر پھر بھی بجرنگ دل والے اسے ایک سماجی تنظیم ہی بتاتے رہے۔

بجرنگ دل کی دہشت گردی

    بجرنگ دل ایک شدت پسند تنظیم ہے جس کی حقیقت سے حکومت اور عوام سب واقف ہیں مگر اس پر ’’سیمی‘‘ کی طرح پابندی نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ حکومت اور اقتدار میں سیمی کے ہمدردر نہیں ہیں مگر بجرنگ دل کے خیرخواہ موجود ہیں۔اس سچائی کو وکاس پاٹھک جیسے حقیقت پسند لوگ محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں سے دھرم اور ہندو راشٹر کی دہائی دینے والی تمام بنیاد پرست ہندوتوادی تنظیموں کا دہشت گرد چہرہ عوام کے سامنے آئینے کی طرح صاف ہو گیا ہے، اور ساتھ ہی لوگ ان کی حب الوطنی کی حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔ چند سال قبل کانپور میں بجرنگ دل کے دو کارکن راجیو مشرا اور بھوپندر سنگھ ٹائم بم بناتے وقت شدید دھماکے میں مارے گئے۔ واقعہ کے مقام پر پہنچی پولیس اور پورے ملک کے انٹیلی جنس کے نظام کو موقع سے جو ساز و سامان (ہینڈگرینیڈ، ٹائمر ڈیوائس، گھڑیاں اور بارود، علاقے کا نقشہ) بجرنگ دل کے پاس ملے اس سے وہ بھونچکے رہ گئے۔ ایک پولیس افسر کے مطابق کانپور بم دھماکے میں جتنا دھماکہ خیزمواد پایا گیا ، وہ نصف کانپور کو تباہ کر سکتا تھا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، جس سے ان  بنیاد پرستوں کے دہشت گرد چہرے بے نقاب ہوئے ہوں۔ پہلی بار جون 2006 میں مہاراشٹر کے ناندیڑ کاواقعہ کچھ ایسا ہی تھا جب محکمہ آب پاشی کے ریٹائرڈ ملازم جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے منسلک تھے، لکشمن راجکونڈوار ، ان کا بیٹا نریش اور بجرنگ دل کے مقامی رہنما ہمانشو وینکٹیش بم دھماکے میںمارے گئے تھے۔ تب بھی پولیس کو علاقے کی مساجد کے نقشے اور علاقے کے مسلمانوں کی طرف سے پہنا جانے والے لباس اور جعلی داڑھی وغیرہ ملے تھے۔ اس کے بعد ستمبر 2006 کو ممبئی کے مالیگاؤں میں ہندو دہشت گردی کا مسئلہ زوردار طریقے سے بحث میں آیا تھا۔ پھر فروری 2007 میں ناندیڑ کے شاستری نگر علاقے میں ایک دوسرا دھماکہ ہوا تھا۔ اس میں بھی ہندوادی تنظیموں کے دو لوگ مارے گئے تھے۔

دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مثالیں

    ابتدائی جانچ پڑتال کے مطابق اترپردیش کے کانپور، مہاراشٹر کے ناندیڑ اور 2001 میں اورنگ آباد کے گنیش مندر کے پاس بم دھماکوں میں یکسانیت دکھائی دیتی ہے۔ تمام جگہوں کے دھماکوں میں پائپ بم پائے گئے تھے۔ ساتھ ہی جانچ پڑتال کے بعد یہ بھی پتہ چلا کہ اپریل 2006 میں دہلی کی جامع مسجد اور اکتوبر 2007 میں اجمیر شریف درگاہ میں دھماکے سمیت کچھ دھماکے سیمی اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے منسلک دھماکوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ اس سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے اندر ہونے والے ان دہشت گردانہ واقعات کے پیچھے کن دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ تھا اور یقینی طور پر اب بھی ہم لوگوں کا یہ سوچنا انتہائی معصومیت بھرا ہوگا کہ یہ دہشت گرد کارروائیاں ہمیشہ مسلم بنیاد پرست تنظیموں کے ہاتھوں ہی کی جاتی ہیں۔

قیام کا مقصد کیا تھا؟

    وکاس پاٹھک نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’اکتوبر 1984 میں بجرنگ دل کی تاسیس وشوہندو پریشدکی پہل پر ہوئی۔ یہی وہ دور تھا جب وی ایچ پی کی جانب سے رام جنم بھومی تحریک کو منظم کیا جا رہا تھا۔ رام رتھ یاتراکو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہندو نوجوانوں کو بجرنگ دل کے نام سے منظم کیا گیا‘‘ جب کہ وشوہندو پریشد کا قیام ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کے آرایس ایس چیف گولوالکر کی پہل پر ہوا تھا۔ غور طلب ہے کہ اس میں بودھ مذہبی رہنما دلائی لامہ بھی موجود تھے۔ تب سے لے کر اب تک بجرنگ دل اور وشو ہند وپریشد کے کارکنوں کے گھناؤنے کارنامے لوگوں کے سامنے آتے رہے ہیں۔ چاہے دسمبر 1992 میں بابری مسجد انہدام کا معاملہ ہو یا 2002 میں گجرات سانحہ ! اڑیسہ کا کندھمال واقعہ ہویا گائے کے تحفظ کے نام پر پورے ملک میں خلفشار پھیلانے کی کوشش ہرجگہ بجرنگ دل کے لوگ فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کرتے نظر آئے۔ یہی نہیں انھیں غیرانسانی اور غیر قانونی واقعات کو انجام دینے میں ریاستی حکومتیں مکمل تعاون دیتی دکھائی دیتی ہیں۔ 2002 میں گجرات سانحہ اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ اس نفرت کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے میں گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی شرکت اب پرانی بات ہوچکی ہے۔

اخلاقیات کا مذاق

    ان فاشسٹ تنظیموں کے نظریات کا پتہ تو گولوالکر کی کتاب’’we or our nationhood defined‘‘ سے ہی چل جاتا ہے جس میں انھوںنے لکھا ہے کہ '' --- وہی لوگ محب وطن ہیں جو ہندو نسل اور قوم کو سربلند کرنے کی خواہش اپنے کے دل میں رکھتے ہیں، اور اسی کے تحت فعال ہوتے ہیں اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے مصروف رہتے ہیں، دیگر تمام یا تو غدار ہیں یا قومی مقصد کے دشمن ہیں یا اگر تھوڑی مہذب زبان استعمال ہو تو بیوقوف ہیں۔‘‘

     بڑی بڑی باتیں کرنے والے ان بنیاد پرستوں کا دور دور تک اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ بچوں کے اندر انساینیت کادروبھرنے کے بجائے زہر گھولنے کا انھوں نے بیڑا اٹھا رکھا ہے۔انھیں بچوں کے مستقبل کی اتنی فکر ستانے لگی ہے کہ انہوں نے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ثانوی تعلیم کے طالب علموں کے لئے نئی کتابیں تیار کی ہیں۔ یہ کتابیں طالب علموں کی فکر سے زیادہ کسی اور تشویش پر مبنی لگتی ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے خلاف تبصرے بھی ہیں۔ آخر چودہ ، پندرہ سال کے بچے جب ان کی تربیت سے گزر کر تیار ہوں گے تو کیا کریں گے؟ سوال یہ ہے کہ آخر مرکز اورریاستی حکومتیں ایسے مذہب کے ٹھیکیداروں ، گلی کے غنڈوں کو قتل عام کرنے کے لئے کھلا کیوںچھوڑتی ہیں اور خاموش تماشائی کیوںبنی رہتی ہیں؟

آج بھی جاری ہے بجرنگ دل کی دہشت

    بجرنگ دل کی سماج مخالف سرگرمیاں آج بھی ویسے ہی جاری ہیں جس طرح رام مندر آندولن کے دنوں میں تھیں۔ اس وقت ایسی خبریں عام طور پر آرہی ہیں کہ گائے کو بچانے کے نام پر لاقانونیت پھیلائی جارہی ہے۔ حال ہی میں بجرنگ دل نے اعلان کیا کہ وہ گائے کے تحفظ کے لئے تحریک چلائے گی اور اس نے کئی شہروں میں اس کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لیا۔ جانوروں سے بھرے ہوئے تڑکوں کو پکڑا اور انھیں ہانک دیا۔تاجروں کو مارا پیٹا اور پولس نے بھی ان انتہا پسندوں کا ساتھ دیا۔ ’’لوجہاد ‘‘کے نام پر نوجوان جوڑوں کی پٹائی عام بات ہے۔ شاہ رخ خان کی فلم "دلوالے" کی بجرنگ دل نے مخالفت کی ۔ انھوں نے مہاراشٹر گجرات کے علاوہ مدھیہ پردیش میں بھی بڑے پیمانے پر مخالفت کی اور سنیماہال والوں کو مجبور کیا کہ اسے نہ دکھائیں۔ایک تازہ واقعہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے گوالیارمیں بجرنگ دل کے کارکنوں نے میونسپل چیرمین کو مسلم ٹوپی اور برقع پیش کیا ۔ ان کا قصور یہ تھا کہ چیرمین منالال کشواہا مسلمانوں کی ایک ریلی میں شامل ہوئے تھے۔ اسی بات سے خفا ہوکر بجرنگ دل کے کارکنوں نے انہیں ٹوپی اور برقع پیش کیا۔ بجرنگ دل کے دو عہدیدار مننالال سے ملاقات کرنے کے لئے ان کے کمرے میں پہنچے تھے۔ اس دوران نئے سال کا گفٹ بتاتے ہوئے ایک پیکٹ انھیں پیش کیا۔ اسی میں مسلم ٹوپی اور برقع رکھا ہوا تھا۔دراصل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کملیش تیواری کے تبصرے کو لے کر گزشتہ دنوں مسلمانوں نے ایک ریلی نکالی تھی۔اس ریلی میں مننالال بھی شامل ہوئے تھے اور انہوں نے مخالفت کے لئے ہاتھ میں سیاہ پرچم تھام رکھا تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 433