donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Iqra Ka Paigham Kiyon Bhool Gaye Ahle Islam


اقرا ء کا پیغام، کیوں بھول گئے اہلِ اسلام ؟


 تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    بھارت سرکار کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہندوستانی مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسرے اہل مذاہب کے مقابلے پچھڑے ہوئے ہیں مگر دوسری بہت سی رپورٹیں کہتی ہیں کہ یہ صورت حال صرف بھارت کی نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہے۔ مسلم ملکوں میں شرح خواندگی کم ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان تو خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں یونیورسٹیاں، کالج اور تعلیمی ادارے بہت کم ہیں، اور جو ہیں ان کا معیار تعلیم سطحی ہے۔ عرب ملکوں میں تیل کی شکل میں سیال سونا نکلا جو قدرت کی طرف سے ایک تحفہ تھا مگر یہاں کے عام مسلمانوں کا اس سے کچھ خاص بھلا نہیں ہوا ۔ اس دولت کا استعمال تعلیم اور تحقیق کے میدان کم ہی استعمال ہوا۔ یوروپ اور امریکہ میں بھی جو ناخواندہ افراد ہیں وہ مسلم ملکوں کے مہاجرین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے کیوں نہیں بڑھنے کی کوشش کرتے؟ جب کہ قرآن کی بہ طور نزول پہلی آیت ’’اقرائ‘‘ ہے جس میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دنیا میں صرف اسلام ایسا مذہب ہے جو کہتا ہے کہ ’’ہر مسلمان مردوعورت پر تعلیم کا حصول فرض ہے‘‘ مگر مسلمان مرد خود جاہل رہتا ہے اور اپنے بیٹوں کو کچھ تعلیم دلادے تو دلادے مگر بیٹیوں کو جاہل رکھنا، وہ باعث فخر سمجھتا ہے۔قرآن کریم بار بار غور وفکر کی دعوت دیتا ہے مگر مسلمان سائنس سے کوسوں دور رہتا ہے وہ تحقیق کی فیلڈ میں  کام کرنے سے گریز کرتا ہے۔ مسلم محلوں میں کم عمر بچے موٹر بائکس کے ساتھ مٹرگشتیوں میں مصروف نظر آئینگے، کرکٹ بلوں کے ساتھ سچن اور سورو بننے کی کوشش کرتے دکھائی دینگے مگر تعلیم میں مسابقت کی کوشش کم ہی مسلم بچے کرتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ حکومت پر تو ہم الزام لگاتے ہیں کہ مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں سے محروم رکھتی ہے مگر جب ہم تعلیم سے ہی دور ہونگے تو مقابلہ میں کیسے آگے آئینگے؟

 سرکاری اعدادوشمار کیا کہتے ہیں؟

    آزاد ہندوستان میں جتنے بھی سروے ہوئے اور جتنی تحقیقی رپورٹس آئیں ان میں مسلمان کوئی اچھی حالت میں دکھائی نہیں دیئے۔ ہر رپورٹ کہتی ہے کہ وہ تعلیم ہی نہیں اقتصادی میدان میں بھی دن بہ دن پسماندہ ہورہے ہیں۔ مردم شماری 2011ء کی رپورٹ کا ایک حصہ حال ہی میں مرکزی سرکار نے جاری کیا ہے جس کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں  سب سے زیادہ ناخواندہ مسلمان ہیں اور گریجویٹ سطح کی تعلیم میں بھی وہ سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں۔ہندوؤں کی کل آبادی کا 36.40 فیصد حصہ ناخواندہ ہے۔ وہیں سکھ، بدھ مت اور عیسائی جیسی اقلیتی کمیونٹیز میں ناخواندگی کی شرح بالترتیب 32.5، 28.2 اور 25.6 فیصد ہے۔ اگر پورے ملک کی بات کریں تو کل آبادی کا 36.90 فیصد حصہ ناخواندہ ہے۔ عیسائی کمیونٹی کی کل آبادی کا 74.30 فیصد حصہ پڑھا لکھا ہے، وہیں، بدھ مت، سکھ، ہندو اور مسلم کمیونٹی کی کل آبادی کا بالترتیب 71.8، 67.5، 63.6 اور 57.3 حصہ پڑھا لکھا ہے۔ ملک میں تمام مذاہب کو ملا کر دیکھا جائے تو کل آبادی کا محض 5.63 فیصد حصہ ایسا ہے جو گریجویشن یا اس سے زیادہ کی تعلیم حاصل کر پایا ہے جس میں 61.60 فیصد مرد اور 38.40 فیصد خواتین شامل ہیں۔ تمام مذاہب کے 7 سے 16 سال کی عمر کو دیکھیں تو 11.7 فیصد حصہ ناخواندہ ہے، 36.67 فیصد نے پرائمری سے نیچے تک کی تعلیم حاصل کی ہے، 26.62 فیصد نے پرائمری تک کی تعلیم حاصل کی ہیں، 15.56 فیصد نے مڈل اسکول تک کی تعلیم حاصل کی ہے اور 5.69 فیصد نے دسویں تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ تمام مذاہب کا 17 سے 18 سال تک کی عمر کا 11.73 فیصد حصہ ناخواندہ ہے، 4.62 فیصد پرائمری سے نیچے تک تعلیم یافتہ ہیں، 14.35 فیصد پرائمری تک تعلیم یافتہ ہیں، 18.59 فیصد مڈل اسکول تک تعلیم یافتہ ہیں، 31.97 فیصد نے دسویں تک کی تعلیم حاصل کی ہے اور 14.99 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے 12 ویں تک تعلیم حاصل کی ہے۔ وہیں، تمام مذاہب کے 19 سے 24 سال تک کی عمر کی بات کریں تو 16.25 فیصد ناخواندہ ہیں، 4.20 فیصد خود خواندہ ہیں، 5.73 فیصد پرائمری سے نیچے تک تعلیم یافتہ ہیں، 14.93 فیصد نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے، 19.66 فیصد مڈل تک پڑھے ہیں، 11.58 فیصد نے دسویں تک تعلیم حاصل کی ہے، 16.84 فیصد نے 12 ویں تک تعلیم حاصل کی ہے، 0.20 فیصد نے نان ٹیک ڈپلوما کورس کیا ہے، 1.56 فیصد ایسے ہیں جنہوں نے ٹیکنیکل ڈپلومہ کورس کیا ہے اور 10.91 فیصد نے گریجویشن یا اس سے زیادہ کی تعلیم حاصل کی ہے۔

بنگال کے مسلمانوں کی حالت

    اوپر ہم نے جس رپورٹ کا ذکر کیا وہ حکومت ہند کی ہے اور مردم شماری کے اعداد کی بنیاد پر شائع کی گئی ہے مگر ایک دوسری رپورٹ چند مہینے قبل آئی تھی اس میں انکشاف کیا گیا تھا مغربی بنگال کے مسلمانوں کی حالت باقی ملک کے مسلمانوں سے زیادہ خراب ہے۔ یہاں کے مسلمان آج بھی بدترین زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ آج بھی وہ انتہائی غربت میں گزارہ کر رہے ہیں۔ ان کے پاس روزگار نہیں ہے اور ان کے بچے اسکول نہیں جاتے ۔ان حقائق کا انکشاف ایک سروے رپورٹ میں ہوا تھا جو ماہر اقتصادیات نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے کیا ہے۔ ماضی میں آئی مختلف سرکاری اور غیرسرکاری رپورٹیں بھی بتاتی رہی ہیں کہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی اور سماجی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ سچر کمیٹی نے بھی مانا تھا کہ ملک کے دیگر خطوں کے مقابلے مغربی بنگال کے مسلمان زیادہ پسماندہ ہیں مگر امرتیہ سین کی رپورٹ نے مزید حقائق کو اجاگر کیا ہے۔ سیاسی طور پر انتہائی اہم ہونے کے بعد بھی مغربی بنگال میں مسلمانوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی حالت کو لے کر جو سروے کرایا گیا، اسے خود نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے عام کیا۔سروے رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال کے دیہی علاقوں میں رہنے والے 80 فیصد مسلم خاندانوں کی ماہانہ آمدنی 5000 روپے ہے۔ یعنی یہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کھڑی ہے۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک خاندان میں صرف دو یا چار افراد نہیں ہوتے بلکہ درجن بھر سے زیادہ افرادہوتے ہیں۔ بنگال کے دیہی علاقوں میں رہنے والے 38.3 فیصد مسلم خاندان ایسے ہیں، جن کی آمدنی 2500 روپے فی مہینہ ہے۔صرف 3.8 فیصد خاندان ہی ایسے ہیں، جو ہر ماہ 15000 روپے مہینہ کما پاتے ہیں۔1.54 فیصد مسلم خاندانوں کے پاس ہی سرکاری بینک کھاتے ہیں۔13.24 فیصد مسلم بالغوں کے پاس ووٹر شناختی کارڈ ہی نہیں ہیں۔اقتصادی حالت کے ساتھ ساتھ تعلیمی حالت بھی بدتر ہے ۔مغربی بنگال میں اوسطا 1 لاکھ کی آبادی پر 10.06 سکنڈری اور ہائر سکنڈری اسکول ہیں لیکن مدنی پور، مرشدآباد، مالدہ ایسے اقلیتی اکثریتی ضلعے ہیں جہاں پر ایک لاکھ کی آبادی پر بالترتیب 6.2، 7.2 اور 8.5 فیصد اسکول ہیں۔6 سے 14 سال کی عمر کے درمیان کے 14.5 فیصد مسلم بچے اسکول تک نہیں جاپاتے ہیں۔ جن میں سے ایک تہائی کو زندگی میں کچھ کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی کمی محسوس ہوتی ہے اور انہیں اسکول جانے سے مستقبل میں کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں دکھائی دیتا ہے۔ ان 15 فیصد میں سے 9.1 فیصد نے کبھی اسکول میں داخلہ ہی نہیں لیا ہے جبکہ 5.4 فیصد ایسے ہیں جو تعلیم درمیان میں چھوڑ چکے ہیں۔ریاست کے 82.1 فیصد مسلمان کسی بھی قسم کی معلومات لینے کے لیے مقامی تعلیم یافتہ شخص یا پھر سیاستدانوں پر انحصار کرتے ہیں۔ یہاں کی مسلمان آبادی میں ریڈیو، اخبار یا پھر ٹی وی کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی روایت ہی تیار نہیں ہو سکی ہے۔ مغربی بنگال میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں SNAP، گائیڈنس گلڈ اور پرتچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کرائے گئے سروے کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔

کب ملے گا مسلمانوں کو ان کا حق؟

    مسلمان تعلیم میں پچھڑے ہیں لہٰذا سرکاری نوکریوں میں بھی وہ جگہ نہیں بنا پاتے ہیں۔2015 میں ریاستی حکومت کی ملازمتوں میں مسلمانوں کی شرکت 5.47 فیصد رہی۔جب کہ-11 2010 میں مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں مسلمانوں کی شرکت 10 فیصد رہی۔ بنگال کے اعداد و شمار قومی اوسط سے بھی کم ہیں۔اگر اسی رفتار سے مسلمانوں کی نمائندگی بڑھی تو انھیں اپنی آبادی کے مطابق تناسب پانے میں تقریبا 60 سالوں کا وقت لگے گا۔یہاں قارئین کو یہ یاد دلادینا برمحل ہوگا کہ کلکتہ جیسے شہروں میں بھی مسلمانوں کی حالت کچھ خاص اچھی نہیں ہے۔ 2007 میں کولکتہ پولیس میں مسلمانوں کی شرکت 9.1 فیصدتھی جو اب بڑھ کر 9.4 فیصد ہو ئی ہے، یعنی بہت معمولی اضافہ۔تاہم اہم عہدوں پر مسلمانوں کی موجودگی انتہائی کم ہے۔ مثلا سب انسپکٹر رینک کے پولیس افسران میں مسلمانوں کی شرکت 7 فیصد ہے۔وہیں سارجنٹ رینک کی ملازمتوں میں ان کی حصہ داری محض 2 فیصد ہے۔کولکتہ میونسپل کارپوریشن میں مسلمانوں کی حصہ داری 4.7 فیصد ہے۔ 2007 میں یہ 4.4 فیصد تھی۔ ظاہر ہے کہ نوکریوں میں یہ کمی تعلیم میں پسماندگی کے سبب ہے۔

مسلمان بچے اسکول کم جاتے ہیں

    اوپر ہم نے دو رپورٹس کا ذکر کیا جن میں ایک سرکاری ہے اور دوسری غیرسرکاری مگر ایک دوسری سرکاری رپورٹ کے مطابق مسلمان ابتدائی تعلیم میں بھی پچھڑ رہے ہیں اور یہ پسماندگی بہار واترپردیش میں زیادہ ہے جہاں غیر بی جے پی سرکار ہے، اس کے برعکس گجرات میں مسلمان بچے زیادہ اسکول جاتے ہیں۔ ماضی میں سرکار نے ایک رپورٹ جاری کی تھی ، جس میں بتایا گیا تھا کہ قومی سطح پر مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ان کا پرائمری اور اپر پرائمری میں داخلہ کم نہیںہے مگر بعض ریاستوں میں یہ تناسب کم ہے جس میں بہار اور اترپردیش بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں 18صوبوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ قومی سطح پر پرائمری میں مسلمان بچوں کے داخلے کا تناسب 13.34فیصد ہے جو ان کی آبادی سے زیادہ ہے یونہی اپر پرائمری میں داخلے کا تناسب 12.52ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 2011ء کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق  13.34فیصد ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قومی سطح پر پرائمری اسکولوں کے داخلے میں وہ معمولی طور پر بہتر ہیں مگر اپر اپرائمری میں ان کا تناسب کم ہے۔ ان کی اپنی آبادی کے لحاظ سے اور زیادہ ہونا چاہئے تھا۔حالانکہ 2001-13ء کے مقابلے میں دیکھا جائے تو تناسب میں کمی آئی ہے۔ ابتدائی سطح پر مسلمانوں کی تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ خراب صورتحال اترپردیش کی ہے۔ یہاں بہت تیزی کے ساتھ مسلم طلباء کے پرائمری میں داخلے میں کمی آئی ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے اور ان کا آبادی میں تناسب 18.5ہے مگر 2013.14میں پرائمری سطح پر ان کا داخلہ صرف 14.71فیصد ہوا۔ اتنی خراب صورتحال کسی اور صوبے کی نہیں ہے۔ یونہی اپر پرائمری سطح پر وہ اس سے بھی کم 11.82فیصد رہے جو یقینا قابل تشویش ہے۔ 

    اتر پردیش کی طرح بہار میں بھی مسلمانوں کا تعلیم کی طرف رجحان کم ہوا ہے اور یہاں بھی وہ پرئمری اور اپر پرائمری سطح پر تعلیم میں پچھڑے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی 16.53 ہے، جبکہ 2013.14میں ان کا پرائمری میں داخلے کا تناسب 15.53رہا۔ یوپی اور بہار کے مقابلے گجرات کے مسلمان بہتر معیار زندگی کے حامل ہیں اور ان میں تعلیم کا رجحان بھی اچھا ہے، اس بات کا اظہار اس رپورٹ کے ذریعے بھی ہورہا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی 9.06فیصد ہے اور اس سرکاری رپورٹ کے مطابق یہان پرائمری سطح پر داخلے میں ان کا تناسب 8.81فیصد ہے جب کہ اپر پرائمری سطح پر یہ 8.67فیصد ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہاں کوئی بھی مسلمان بچہ تعلیم سے محروم نہیں رہتا مگر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ مودی کے گجرات میں مسلمانوں کی تعلیمی حالات ملائم سنگھ کے اترپردیش اور نتیش کمار کے بہار سے بہتر ہے۔ 

تعلیم میں پسماندگی کیوں؟ 

    بھارت کے مسلمان صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ روزگار کے مواقع اوردیگر سطحوں پر بھی دوسروں کے مقابلے پیچھے ہیںجس کا اظہار سچر کمیٹی کی رپورٹ میں واضح اور تفصیلی طور پر ہوا ہے۔ اس ہمہ گیر پسماندگی کے اسباب بھی ڈھیڑ سارے ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ان کی اقتصادی پسماندگی بھی ہے۔ جو لوگ دو وقت کی روٹیوں کے لئے سوچنے پر مجبور ہوں وہ تعلیم کی طرف کیا توجہ دے سکتے ہیں؟ معیار زندگی کو بہتر بنانے کا خیال انسان کو تب آتا ہے جب اس کے پیٹ میں دانے ہوں ورنہ خالی پیٹ تو توجہ کے ساتھ اپنے اللہ کو بھی یاد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ملک کا قانون بھی ان کے ساتھ بھید بھائو کرتا ہے۔ ایس سی اور ایس ٹی درجے میں ہندووں ،سکھوں اور بدھسٹوں کوتو ریزرویشن ملتا ہے مگر مسلمانوں کو نہیں ملتا۔ اس طرح مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے حصے سے محروم رہ جاتا ہے۔اس سلسلے میں خود مسلمانوں کو بھی کم ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتاجو بعض اوقات دولت کمانے کے باوجود تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ ایسے مسلمان امیروں کی کمی نہیں جن کے بچے تعلیم میں پھسڈی ہیں۔ دوسری طرف ہمارے بیچ ایسی جماعتیں بھی ہیں جو نوجوانوں سے اسکول ،کالج چھڑا کر ’’چلوں‘‘ میں جانے کو کہتی ہیں۔   

    گزشتہ دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ نے بہت پتے کی بات کہی کہ مسلمان اپنے سوشل حالات کے لئے خود ہی مجرم ہیں۔ وہ اپنی آدھی آبادی یعنی عورتوں کا کوئی استعمال نہیں کرتے ہیں، انہوں نے خواتین کوگھروں میں غلام بنا کر رکھا ہواہے۔ اپنا سعودی عرب کا تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں بھی یہی حالات ہیں، عورتوں کو گھروں میں قید رکھا جاتا ہے۔ یہی حالات تمام مسلم ممالک کے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلم ملک پسماندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان رمضان کو چھٹی کا مہینہ مانتے ہوئے ان دنوں میں کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔ عام دنوں میں وہ ڈھائی گھنٹے کام نہیں کرتے۔ جمعہ کے دن تو بہت سارا وقت محض رسمی نماز پر خرچ کر دیتے ہیں۔ تعلیم کو تو انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 774