donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Islam Me Mosawat To Musalmano Me Oonch Neech Kiyon


اسلام میں مساوات تو مسلمان میں اونچ نیچ کیوں ؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا واقعی اسلام میں برابری ہے؟ کیا سچ مچ اسلام اونچ نیچ کے خلاف ہے؟ کیا یہاں شاہ وگدا کا فرق بے معنی ہے؟ ہمیں بھی اسلام کے درس مساوات میں کوئی شک نہیں مگر اس وقت یہ سوال اٹھانے کا خاص مقصد یہ ہے کہ ’’اسلام مساوات کا مذہب ہے، یہاں کوئی کسی سے کمتر نہیں، تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘ اس قسم کے دعووں کو اکثرجھٹلاتا رہاہے مسلمانوں کا عمل وکردار۔ مساوات کا سبق قرآن وسیرت میں ضرورموجود ہے مگر عام مسلم معاشرے میں عملی شکل میں اسے کم دیکھا گیا ہے۔ مسلم معاشرہ تقریباً ہر دور میں ناہمواریوں کا شکار رہاہے اور اسلام کے نام لیوا کبھی طبقاتی کشمکش سے پوری طرح آزاد نہیں ہوپائے۔ یہ کشمکش بھارت میں کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہندو سے تبدیلی مذہب کرکے اسلام کے دامن سے وابستہ ہوئی۔ اس کی ایک مثال حالیہ دنوں میںمظفرنگر (یوپی)کے بڈھانہ میں دیکھنے کو ملی۔ کچھ مہینے پہلے بڈھانہ کے کھیڈامستان گاؤں میں جب مہرالدین کی موت ہوئی تو ان کی بیوہ اصغری کو غم منانے کے لئے بھی پورا وقت نہیں ملا۔ مہرالدین کے بھتیجے احمد نے بتایا کہ، ہم انہیں دفن کرنے کے لئے جگہ تلاش کرنے میں لگے ہیں۔ نزدیکی قبرستان قریشیوں کے لئے ہے اور وہاں ہمارے لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حالانکہ مہرالدین کی لاش کو قریشیوں کے قبرستان میں جگہ مل گئی مگر اس کے لئے ان کے خاندان کو معاوضہ دینا پڑا۔مہرالدین کا خاندان ان سینکڑون خاندانوں میں سے ایک ہے جو مظفرنگر کے دنگوں کے دوران نقل مکانی کرکے دوسرے علاقوں میں چلے گئے تھے۔وہ دھوبی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا انھیں قریشیوں کے قبرستان میں جگہ نہیں مل سکتی تھی اور فسادزدگان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے جسم وجان کے ساتھ نقل مکانی کرسکتے ہیں مگر اپنا خاندانی قبرستان نہیں لاسکتے تھے۔ آج جو لوگ فسادات میں برباد ہوکر نئے علاقوں کی طرف آئے ہیں انھیں اجنبی کی طرح دیکھا جاتا ہے اور ان کے خاندان میں کسی کی موت ہونے پر مسلم قبرستانوں میں دفن کی جگہ نہیں ملتی ہے۔ شہروں سے لے کر گائوں تک سیفی، انصاری، قریشی، عباسی، شیخ اور پٹھان میں منقسم مسلمانوں کے الگ الگ قبرستان ہیں جہاں دیگر مسلم کمیونٹیز کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو لوگ فسادات یا کسی دوسرے سبب سے ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں ان کے مردوں کو دفن کے لئے دو گز زمین بھی میسر نہیں ہے۔ انھیں قبر کے لئے زمین خریدنی پڑتی ہے۔ بڈھانا کے رہائشی عبدالکمال نے بتایاکہ ، میرے باپ دادا، شاہجہاں کے وقت میں موجودہ پاکستان سے آکر پانی پت میں آباد ہوگئے تھے۔پھر یہاں آگئے۔ ہم شیخ ہیں اور ہمارے پاس کاریگری کا بہترین ہنر ہے، لیکن قریشی ہمیں اپنے میں سے ایک نہیں مانتے۔ قبرستان کا رکھوالا ہمیں کہتا ہے کہ ہم اپنی قبروں کے لئے زمین خریدیں۔ ہم جب قبر کھودتے ہیں تو ہمیں وہاں پہلے سے موجود کوئی قبر ملتی ہے۔ ان کے گھر سے ایک کلو میٹر دور شہر کا قبرستان ہے، جہاں سیفی اپنے مردوں کو دفناتے ہیں۔ بڈھانا میں کاروبار کرنے والے سمین سیفی نے کہا کہ، '2013کے بعد بڈھانا آنے والے لوگ مختلف مسلم مختلف برادریوں سے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مزدور ہیں۔ وہ ہمارے جیسے سیفی یا انصاری نہیں ہیں۔ ان کے لئے الگ قبرستان ہونا ٹھیک رہے گا۔ ہم اپنی برادری کے ساتھ دفن کو لے کر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

قبرستان ایک سیاسی ایشو

     اتر پردیش میں قبرستان ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ سماج وادی پارٹی نے 2012 میں اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد مسلم قبرستانوں کی گھیرابندی کا اپنا انتخابی وعدہ پورا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کی بی جے پی کے ایم پی سنجیو بالیان نے مخالفت کی حالانکہ وہ اپنے پارلیمانی علاقے کے فنڈ سے ہندوؤں کے لئے شمشان بنوا رہے ہیں۔ریاست کے قبرستانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ان پر قبضے کی کوشش ہوتی ہے اور پھر اسے لے کر فسادات ہوتے ہیں۔ اس قسم کا مسئلہ دوسری ریاستوں سے بھی سامنے آیا ہے لہٰذا اترپردیش کے علاوہ بھی کئی ریاستوں میں قبرستانوں کی گھیرابندی کا کام چل رہاہے۔ قابل توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ قبرستان خواہ برادریوں کے نام پر منقسم ہوں مگرجب قبرستانوں کے سوال پر دنگے ہوتے ہیں توکسی ایک برادری کے مسلمان نہیں، سبھی طبقوں کے مسلمان نشانے پر ہوتے ہیں۔

 
کہاں ہے اسلامی مساوات؟

    اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہب اسلام میں اونچ نیچ اور رنگ ونسل کا کوئی بھید بھائو نہیں۔یہاں کسی عربی کو عمجی پر یا گورے کو کالے پر فضیلت نہیں کیونکہ فضیلت کا معیار اسلام کی نظر میں صرف ’’تقویٰ ‘‘ہے مگر اسی کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں نے قرآن کو محض طاق کی زینت بنائے رکھا اور اسے عملاًاپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش نہیں کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم معاشرہ کہیں سے بھی اسلام کے نظریہ مساوات کا آئینہ دار نظر نہیں آتا۔ بھارت میں ہندووں کے اندر جتنی برادریاں اور ذاتیںہیں،ان سے کم مسلمانوں میں نہیں۔ شیخ، سید، مغل، پٹھان، انصاری، منصوری،سیفی، قریشی، راعی، سلمانی، حواری، حلال خور، لال بیگی، بکھو، نٹ، میراثی، ڈفالی، کولہیا، لشکر، منڈل، چودھری، پنجابی وغیرہ وغیرہ برادریوں کے علاوہ بھی درجنوں برادریاں اور ذاتیں مسلمانوں میں موجود ہیںجو ایک دوسرے میں شادی بیاہ تک نہیں کرتیں اور سب کے قبرستان بھی الگ الگ ہیں،ایسے میں ہمارا یہ دعویٰ کہ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے اور اس کی نظر میں تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں،انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ مسئلہ اس وقت مزید سنگینی اختیار کرلیتا ہے جب کوئی شخص اسلام کی اصل تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوجاتا ہے اور اسے موجودہ مسلم معاشرے کی سچائیوں سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے تو اسے دھچکا سا لگتا ہے۔برادریوں اور ذاتوں کے اختلافات سے الگ  صنفی اختلافات بھی ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مسلم معاشرے میں خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں جب کہ قرآن کریم میں بار بار اس فرق کو مسترد کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں میں مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات بھی ہیں جو اس قدر شدید ہیں کہ ایک فرقہ دوسرے کو مسلمان تک نہیں مانتا اور بعض جگہوں پر اس قدر شدت دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ مسلکی اختلاف کے سبب قبرستان میں مردے تک دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ابھی زیادہ مدت نہیں ہوئی جب راجستھان سے خبر آئی تھی کہ ایک فرقہ کے مسلمانوں نے دوسرے فرقہ کے مردے کو قبر سے نکال کر پھینک دیا۔ شاید ایسے ہی حالات کے لئے اقبالؔ نے کہا تھا:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں


اسلام کا درس مساوات

    اسلام کی نظر میں ہر فرد کے جان و مال اور عزت وآبرو کو یکساں احترام حاصل ہے۔ اعلیٰ خاندان ،زمین وجائیداد یا مالدار ہونا اسلام کی نظر میں فضیلت کی بات نہیں۔کسی خاص علاقے یا کسی خاص رنگ ونسل کا حامل ہونا بھی اس کی نظر میں شرافت ونجابت کی بات نہیں۔ اسلام اس بات کا بھی قائل نہیں کہ کسی شخص کو اس لئے حقیر سمجھا جائے کہ وہ غریب اور نادار ہے یا سماجی اعتبار سے کمزور ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا ،اسے اسلامی مساوات کے احکام کامظہر کہا جاسکتا ہے۔ اس خطبہ کے وقت وہاں مسلمانوں کا عظیم اجتماع تھا۔ جس میں غریب بھی تھے اور امیر بھی، سرمایہ دار بھی تھے اور مزدور بھی، زمیندار بھی تھے اور کسان بھی۔ بااثر سرکاری عہدے دار بھی تھے اور عام شہری بھی۔ سوالاکھ افراد پر مشتمل ،یہ مجمع مسلم معاشرے کا ایک نمائندہ مجمع تھا۔ ایسے میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ’’خبردار تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لئے اسی طرح واجب الاحترام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے میں اور اس شہر میں تمہارے لئے قالِ احترام ہے۔‘‘

    حجۃ الوداع کے ایک دوسرے خطبے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ’’لوگو! بے شک تمہارا ربّ ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے، ہاں عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیںمگر تقویٰ کے سبب سے۔‘‘ 

    ’’عنقریب میں تمہیں خبردوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں امن میں رہیں، مہاجر وہ ہے جوگناہوں اور خطاؤں کو چھوڑ دے اور مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔‘‘

    ان احکاموں کی موجودگی میں بھی مسلم معاشرہ نابرابری کا شکار ہوتو انتہائی افسوسناک بات ہے۔ قرآن کریم میں بار بار انسانی مساوات کی بات کہی گئی ہے اور ہر قسم کی نابرابری کو مسترد کیا گیا ہے۔جس مذہب کی بنیاد ہی مساوات ومواخات پر ہو اس کے ماننے والے نہ بستی میں برابر ہوں اور نہ ہی قبرستان میں،اس سے بری بات کیا ہوسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 599