donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Jab Laloo Aur Nitish Sath Aa Sakte Hain To Maya Aur Mulayam Kiyon Nahi


نوشتۂ دیوار پڑھیں مایا اور ملائم، ورنہ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں


جب لالو اور نتیش ساتھ آسکتے ہیں تو مایا اور ملائم کیوں نہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    دلی میں الیکشن ہوچکا اس کے بعد اب بہار میں انتخابات ہیں مگر اترپردیش کا الیکشن بھی زیادہ دور نہیں ہے۔ اسی کی تیاری کے طور پر بی جے پی نے دنگے کرانے کی سازشیں شروع کردی ہیں۔ کہیں ’’گھرواپسی‘‘ تو کہیں ۲۰۲۱ء تک ملک کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے خالی کرادینے کے پلان کا اعلان۔ کہیں ہندو عورتوں سے دس دس بچے پیدا کرانے کا فتویٰ تو کہیں معمولی اختلاف کو ہوا دے کر دنگے میں تبدیل کرنے کی کوشش، اسی ممکنہ الیکشن کی تیاری کا حصہ ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اتر پردیش میں مایا اور ملائم ساتھ آئینگے یا ان کا صفایا ہوجائے گا؟ کیا وقت کی نزاکت کو سمجھیں گی دونوں پارٹیاں یا اپنی تقدیر پر اپنے ہاتھوں خود سوالیہ نشان لگا بیٹیھیں گی؟ یوپی میں اب اس کے علاوہ کیا راستہ ہے کہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ایک ساتھ آئیں یا پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے میدان خالی چھوڑ دیں اور اسے اقتدار میں آنے دیں۔ حال ہی میں ملائم سنگھ یادو کے بھائی اور راجیہ سبھا ممبر را م گوپال یادو نے ایک بیان دیا ہے کہ اگر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ساتھ آگئیں تو بھاجپا ہوا ہوجائیگی۔ ان کے اس بیان کے بعد بی جے پی مخالفین کو یوپی میں امید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے مگر مایاوتی کے مزاج کو سمجھنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ حالانکہ وہ اگر سماج وادی پارٹی کے خلاف ضد کو نہیں چھوڑتی ہیں تو پھر سیاسی خود کشی کرلیں گی اور ان کی پارٹی کا نام ونشان تک مٹ جائے گا۔ سیاست میں  دوستی اور دشمنی مستقل نہیں رہتی ہے۔ کل کا دوست آج ،دشمن بن جاتا ہے اور کل کا دشمن آج دوست بن جاتا ہے۔ یہاںنہ تو دوستی کو استقلال ہے اور نہ دشمنی سدا کے لئے ہوتی ہے۔ دوستوں اور دشمنوں کی فہرست میں وقت اور حالات کے ساتھ بدلائو آتا رہتا ہے۔ اس بات کو سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی دونوں کو سمجھنی ہوگی اور سماج وادی پارٹی حالات کے مطابق کچھ نرمی دکھا رہی ہے مگر مایا وتی کے نرم ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ دونوں پارٹیاں ماضی میں کچھ دن کے لئے ساتھ رہ چکی ہیں اور کسی برے تجربے کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا ہوچکی ہیں مگر آج کے سیاسی حالات کا تقاضہ ہے کہ وہ ایک بار پھر ساتھ آئیں اور بی جے پی کے خلاف متحد ہوکر عوام کے سامنے جائیں، جیسا کہ بہار میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور ساتھ آئے ہیں۔ رام گوپال یادو کا ماننا ہے کہ اترپردیش میں اب بھی دلت ووٹ مایاوتی کے ساتھ ہے اور اس ووٹ کی اپنی اہمیت ہے۔ البتہ انھیں اس بات کا یقین نہیں دکھائی دیتا کہ بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی ساتھ آئیںگی اور آئندہ اسمبلی انتخابات سے پہلے پہلے ان کا کسی قسم کا اتحاد ممکن ہے۔ رام گوپال یادو کے مطابق مایاوتی کے مزاج سے وہ اچھی طرح واقف نہیں ہیں ، اسے ستیش مشرا ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق سیاست میں کوئی دوست نہیں ہوتا اور کوئی دشمن نہیں ہوتا مگر مایاوتی سے اتحاد کے سلسلے میں گفتگو کرپانا ممکن نہیں ہے۔

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا

    سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد ماضی میں رہ چکا ہے اور دونوں پارٹیاں شدید اختلاف کے بعد ایک دوسرے سے الگ ہوئی تھیں۔ تب آنجہانی کانشی رام با حیات تھے۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب بی جے پی کی مقبولیت عروج پر تھی اور وہ اترپردیش پر قبضہ کرنے کے لئے بے چین نظر آرہی تھی تب ۱۹۹۳ء میں دونوں پارٹیوں کا اتحاد قائم ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں کی انانیت اور سیاسی مفاد کے ٹکرائو کے سبب انھیں ایک دوسرے سے الگ ہونا پڑا۔ تب سے دونوں پارٹیوں کے بیچ سیاسی طور پر دوری رہی ہے اور وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگی رہی ہیں۔ ایک پارٹی اگر سرکار میں رہی ہے تو دوسری اپوزیشن میں آئی ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف الیکشن لڑتی رہی ہیں بلکہ انھوں نے ایک دوسرے کو سیاسی طور پر زیر کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ دونوں کی سرکاروں نے ایک دوسرے کے فیصلے بدلے اور نیچا بھی دکھایا۔ ان تمام سچائیوں کے باوجود آج حالات کا تقاضہ ہے کہ ان کی دوری ختم ہو اور ایک دوسرے کے قریب آئیں اور اگر سیکولرازم نہیں تو کم از کم اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے وہ ساتھ آئیں۔

بی جے پی کی نظر اترپردیش پر

    اترپردیش اس ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور بی جے پی کو مرکز میں اقتدار تک پہنچانے میں سب سے بڑا رول اسی ریاست نے نبھایا ہے۔ ماضی میں کانگریس کوبھی اقتدار تک اسی ریاست نے پہنچایا تھا اور جب تیسرے مورچے کی سرکار بنی تھی تب سماجوادی پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں اسی ریاست نے دی تھیں جس کے سبب ملائم سنگھ یادومرکز میں وزیر دفاع بنے تھے۔ پچھلی سرکار کو باہر سے حمایت ملائم سنگھ اور مایاوتی دونوں نے دیا تھا اور اس طرح یوپی کے سبب ہی یوپی اے سرکار دس سال تک چلتی رہی تھی۔ بی جے پی کی پیدائش اسی صوبے میں ہوئی اور سب سے پہلے اس نے اقتدار یہیں پایا تھا۔ اجودھیا ایشو کا سب سے زیادہ زور یہیں دیکھنے کو ملا اور آج بھی بی جے پی اترپردیش میں اپنا پورا زور لگا رہی ہے تاکہ مسقتبل میں یہاں اقتدار حاصل کرسکے۔ بی جے پی کے جتنے زبان دراز نیتا ہیں وہ لفظوں کے بان یہیں چھوڑ رہے ہیں اور ماحول میں اشتعال پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ماحول میں نفرت کا زہر گھولا جائے اور ہندتو کے نام پر ووٹ حاصل کئے جائیں۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ جس چیز سے تقویت مل رہی ہے وہ ہے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے بیچ نفرت کی دیوار اور دونوں کی ایک دوسرے سے دوری۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کا سبب دونوں پارٹیوں کے بیچ ووٹوں کی تقسیم بھی رہی ہے۔ آج اس بات کو پورا ملک محسوس کررہا ہے اور دونوں پارٹیوں کے نیتائوں کو بھی اس کی سمجھ ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس نے لوک سبھاالیکشن میں اپنا کھاتا نہیں کھولا ہے اور سماج وادی پارٹی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھا گیا کہ وہ اتنی کم سیٹیں جیت پائی ہے۔ ایسے میں اگر دونوں کا اختلاف جاری رہا اور وہ ایک دوسرے سے الگ رہیں تو مستقبل میں ان کا حشر اور بھی خراب ہوسکتا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی نے کونسل کے الیکشن میں آر ایل ڈی کو حمایت دی ہے اور اس طرح سے اس نے ظاہر کردیا ہے کہ چودھری اجیت سنگھ کے لئے وہ نرم گوشہ رکھتی ہے مگر موجودہ حالات کی نزاکت ہے کہ دل کو کچھ اور بڑا کیا جائے اور صرف دو پارٹیاں ہی نہیں بلکہ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، آر ایل ڈی، کانگریس کے ساتھ ساتھ چھوٹی علاقائی پارٹیوں کو بھی ساتھ لے کر چلاجائے تاکہ ووٹ تقسیم سے بچ جائیں اور بی جے پی کو کم سے کم سیٹوں پر محدود کیا جاسکے۔اس وقت وہ یوپی ودھان سبھا الیکشن جیتنے کے خواب دیکھ رہی ہے اور اس کی تمام تیاریاں اسی کے پیش نظر ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی یہاں کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ ودھان سبھا الیکشن ہی نہیں بلکہ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن کی طرف ابھی سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ دس سال تک وزیر اعظم رہنا چاہتے ہیں جو یوپی کی مدد کے بغیر کبھی پورا نہیں ہوگا۔

سب سے زیادہ نقصان میں بی ایس پی؟

    اترپردیش میں سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ نقصان بی ایس پی کو پہنچ رہا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں ہم نے دیکھا کہ مسلمان اور یادو ووٹ سماج وادی پارٹی کے ساتھ چلا گیا اور باقی ووٹ بی جے پی کے ساتھ گیا۔ یہاں تک کہ دلتوں کے ایک طبقے کا ماننا تھا کہ لوک سبھا میں بی جے پی اور ودھان سبھا میں بی ایس پی کو ووٹ دیںگے لہٰذا اس نے بی جے پی کو ووٹ کیا۔ برہمن ووٹرس عام طور پر بی ایس پی کے برہمن امیدواروں کی حمایت کرتے تھے لہٰذا وہ بڑی تعداد میں برہمنوں کو ٹکٹ دیتی تھی مگر لوک سبھا الیکشن کے نتیجوں نے ثابت کیا کہ برہمن بی ایس پی کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ جاچکے ہیں۔ گویا موجودہ سیاسی حالات میں ایس پی سے زیادہ نقصان بی ایس پی کا ہورہا ہے۔ اگر بی ایس پی ان حالات میں ودھان سبھا الیکشن لڑے گی تو چند سیٹوں پر سمٹ جائیگی کیونکہ اس کے ساتھ صرف دلت ووٹ رہے گا۔ اسی طرح  سماج وادی پارٹی بھی یادو اور مسلم ووٹ کی بنیاد پر زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکے گی مگر دونوں پارٹیوں کا اتحاد ہوگیا تو ان کی سیٹیں تین سو سے اوپر جاسکتی ہیں اور وہ بی جے پی کو دھول چٹاسکتی ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح بہار میں لالو اور نتیش نے اپنی پرانی سیاسی رنجشوں کو بھلا دیا ہے، اسی طرح ملائم سنگھ اور مایاوتی بھی پرانی باتوں کو فراموش کرکے ایک پلیٹ فارم پر آئیں۔ یوپی کے سیکولر ووٹروں کو ان کے اتحاد کا انتظار ہے۔ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں ان کا جو نقصان ہونا تھا سو ہوچکا مگر مستقبل میں ایسا نہ ہو اور وہ مزید کچھ گنوانے سے بچ جائیں اس کے لئے انھیں ساتھ آنا چاہئے۔ آج رام گوپال یادو کی طرف سے جو باتیں کہی جارہی ہیں اسی قسم کی باتیں لالو پرساد یادو بھی کہہ چکے ہیں اور مگر بہوجن سماج پارٹی کی طرف سے اس قسم کے امکان سے انکار کیا جاچکا ہے۔ حالانکہ اگر اتحاد نہیں ہوا تو آئندہ انتخابات بہوجن سماج پارٹی کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیںگے کیونکہ صرف دلت ووٹوں کو ساتھ لے کر وہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں انجام دے سکتی۔ بچوں جیسی ضد سیاست میں نہیں چل سکتی لہٰذا مایاوتی کو ذرا دل بڑا کر کے سوچنا پڑے گا۔ حالانکہ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر مایا اور ملائم ساتھ آگئے تو کتنی دور تک چل سکیں گے؟


       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 502