donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Jamhuriyat Ka Raqs Mastana, BJP Ko Kar Sakta Hai Begana


جمہوریت کا رقصِ مستانہ، بی جے پی کوکر سکتا ہے بیگانہ


دلی کے بعد،بہار، بنگال اور اترپردیش میں نکل سکتا ہے بی جے پی کا جنازہ


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

    دلی میں ذلت آمیز شکست کے بعد بی جے پی اپنے زخموں کو چاٹ رہی ہے۔ یہاں کے نتائج نے پورے ملک کو راہ دکھائی ہے اور ان لوگوں کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے جو اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے، جو ملک کی مشترکہ تہذیب کی جگہ ہزاروں سال پرانی وحشی تہذیب کو لانا چاہتے تھے، جو ہندو عورتوں کو دس دس بچے پیدا کرنے کی نصیحت کر رہے تھے اور جو بھارت کو مسلمانوں اور عیسائیوں سے خالی کرانے کے نعرے لگا رہے تھے۔کجریوال نے دلی کی گدی سنبھال لی اور اپنے ایجنڈوں پر عمل بھی شروع کردیا مگر دلی کے بعد اب ملک میں کیا ہوگا؟ کیا اب مودی کا وجے رتھ دلی کے دلدل میں ہی پھنسا رہ جائے گا یا ان کی ٹیم خود احتسابی کرکے آنے والے انتخابات میں اپنی حالت کو سدھارے گی؟ کیا دلی کی ہار مودی اینڈ کمپنی کی ہار ہے؟ کیا اس شرمناک شکست کا مطلب ہے امت شاہ کی حکمت عملی کی ہار؟ کیا اس شکست کا مطلب یہ ہے کہ اب مودی لہر کا خاتمہ ہوچکاہے اور بی جے کے وعدوں کی سچائی عوام کے سامنے آچکی ہے؟کیا کرن بیدی کو بی جے پی میں لانے سے اس کا نقصان ہوا ہے؟ کیا اب شہری ووٹر بی جے پی سے ناراض ہونے لگا ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اب اروند کجریوال کی سیاست کا راستہ باقی ملک کے لئے کھل گیا ہے؟ دلی ودھان سبھا کے نتائج آچکے ہیں اور تمام اوپینین پول واکزٹ پول کو غلط ثابت کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کا صفایا کردیا ہے؟ بی جے پی کو اتنی سیٹیں بھی نہیں مل پائی ہیں کہ وہ اسمبلی میں اپوزیشن کا مقام پانے کے لئے دعویٰ ٹھونک سکے۔جیسا رزلٹ ابھی سامنے آیا ہے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہ سوال بھی بار بار پوچھا جارہا ہے کہ کیا اب اس کا اثر بہار کے انتخابات پر پڑے گا جہاں آئندہ کچھ مہینوں میں الیکشن ہونے والے ہیں؟ کیا اس کے بعد اتر پریش اور مغربی بنگال کے الیکشن پر اس کا اثر پڑے گا؟ یوپی میں جہاں وہ سماج وادی پارٹی سے اقتدار چھیننے کے لئے ابھی سے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے اور مغربی بنگال میں اسے زمین کی تلاش ہے۔ بی جے پی کی شرمناک ہار سے پورے سنگھ پریوار میں مایوسی کی لہر ہے اور ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والوں کو احساس ہونے لگا ہے کہ عوامی فلاح کے کام ہی کسی پارٹی کو جتاسکتے ہیں اور ہندتو کے نعرے زیادہ دن نہیں چل سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دلی کا رزلٹ بہت دور تک اثر انداز ہوگا اور آگے بی جے پی کی راہ مشکل ہوجائے گی۔ اب تک وہ ان ریاستوں میں جیتی تھی جہاں انٹی کامبینسی فیکٹر کام کر رہا تھا اور پہلے سے موجود سرکار کے خلاف عوام میں ناراضگی تھی۔ ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ ایسی ہی ریاستیں تھیں مگر دلی میں اسے جس ماحول کا سامنا کرنا پڑا وہ الگ تھا۔ دلی کے نتیجوں نے جہاں پورے ملک میں بی جے پی مخالف طاقتوں کو نئی قوت فراہم کی ہے اورانھیں اتحاد کے راستے کی طرف بڑھایا ہے، وہیں دوسری طرف جو اب تک مودی ناقابل تسخیر دکھائی دیتے تھے، وہ بھی قابل تسخیر نظر آنے لگے ہیں۔ دلی میں پورے ملک کے لوگ رہتے ہیں جو الگ الگ مذہب، زبان اور تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور سب نے یکسان طور پر بی جے پی کے خلاف ووٹ کیا ہے جس کا مطلب ہے ہے کہ سبھی طبقات میں اس کے خلاف مایوسی کی لہر ہے۔ اسے صرف دلی نہیں بلکہ پورے ملک کی رائے ماننا چاہئے۔ انھیں لوگوں نے صرف چند مہینے قبل دلی کی تمام لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی کو جتایا تھا مگر آج اسی کے خلاف کھڑے نظر آرہے ہیں۔ اس بارے میں خود بی جے پی کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔  

یہ بی جے پی نہیں سنگھ پریوار کی شکست ہے؟

    آر ایس ایس بند کمرے میں مٹینگیں کر رہا ہے اور دلی کی ہار پرسوچ وچار کر رہا ہے۔خود بی جے پی کے لیڈران بھی خوداحتسابی میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی دلی میں شکست کے بہت سے اسباب ہیں جن پر خود اسے بہت سوچ وچار کی ضرورت ہے۔ ان میں ایک سبب تو یہ ہے کہ اس نے ضرورت سے زیادہ مودی لہر پر بھروسہ کرلیا تھا حالانکہ مودی کی حمایت میں ماحول تیار کرنے کا کام میڈیا ایک ایک طبقہ کر رہا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے مودی سے جو عوام کو زبردست امیدیں تھیں وہ اب ٹوٹنے لگی ہیں۔ انھوں نے لوک سبھا الیکشن میں بڑے بڑے وعدے کئے تھے مگر اب تک کوئی بھی وعدہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں مودی ایک غریب چائے والے کے طور پر سامنے آئے تھے اور ان کا یہ روپ عوام کو بھایا تھا مگر اب لوگوں کو لگنے لگا ہے کہ ان کی چائے عوام کے لئے نہیں ہے بلکہ اس تک صرف امریکی صدر کی ہی پہنچ ہوسکتی۔ جن لوگوں کو ترقی کا نعرہ دینے والے مودی کی ضرورت تھی انھوں نے جب مودی کو نولکھا سوٹ میں دیکھا تو انھیں مایوسی ہوئی۔اس پر عام آدمی پارٹی کے ایک سنگر نیتا کا طنز تھا کہ ’’تیرے نولکھیا پریدھانوں کو عام آدمی کا معمولی مفلر نگل گیا۔‘‘مودی کو لوک سبھا الیکشن میں جو ووٹ ترقی کے نام پر ملا تھا اس بار اسے ان سے دور کرنے میں ان لوگوں کے بیانات بھی اہم رہے جنھوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنے کے لئے نفرت آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دیئے تھے۔ کسی نے ہندو عورتوں کو دس بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیا تو کسی نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو گھر واپسی کا پیغام دے دیا ۔ پروین توگڑیا جیسے لوگ اگراشتعال انگیزیاں کرتے رہے تو مودی کو چاہئے تھا کہ انھیں روکتے مگر وشوہند وپریشد پر کنٹرول تو دور انھوں نے اپنی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ اور منتریوں کو بھی اشتعال انگیزیوں سے نہیں روکا۔ ان نیتائوں کے نفرت انگیز بیانات مودی کی ترقی کے وعدوں پر بھاری پڑے ہیں۔ عوام نے مودی کو کرارا جواب دیا کہ جہاںجہاں انھوں نے ریلیاں کیں وہ سیٹیں بھی بی جے پی نہیں جیت سکی۔ حد یہ کہ جو بی جے پی کی روایتی سیٹیں تھیں اور جہاں وہ ہمیشہ سے جیت حاصل کرتی رہی تھی وہاں بھی اسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بی جے پی کے ووٹ فیصد میں زیادہ کمی نہیں آئی ہے مگر ’’آپ‘‘ کی جیت کا سبب بن گیا کانگریس کے ووٹ کا اس کی طرف منتقل ہوجانا۔  

ظلمت کی کرن

    بی جے پی میں باہری لوگوں کو پارٹی پر مسلط کرنے کی روایت نہیں رہی ہے مگر دلی میں ایسا ہی ہوا۔سابق آئی پی ایس کرن بیدی کو بی جے پی نے کجریوال کے جواب کے طور پر سامنے کیا تھا اور اسے لگتا تھا کہ عوام کے سامنے اس نے ایک بہترین متبادل پیش کیا ہے مگر وہ عوام کی نظر میں کجریوال کا متبادل نہیں بن سکیں۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’’پانچ جنیہ‘‘نے لکھا ہے کہ دلی میں ہار کا ایک بڑا سبب کرن بیدی کو پارٹی میں لانا بھی بنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس بات میں کچھ سچائی ہو۔وہ پارٹی کی نیا کیا پار لگاتیں جب کہ خود ہی پار نہیں اتر پائیں۔ وہ وزیر اعلیٰ بننے آئی تھیں مگر ایم ایل اے بھی نہ بن سکیں۔کرن بیدی ذرا تاخیر سے دلی کے سیاسی منظر نامے پر ابھریں اور جلد غروب ہوگئیں۔ انھیں نہ عوام نے قبول کیا اور نہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں نے اپنایا۔ اگر کرن بیدی پارٹی میں نہ آتیں تو ہوسکتا تھا بی جے پی کو دوچار سیٹیں اور مل جاتیں کیونکہ ان کے آنے کے بعد پارٹی کے پرانے لیڈروں اور ورکروں میں اس بات کا غصہ تھا کہ انھیں حاشیے پر ڈالا جارہا ہے اور ان کا حق غصب کیا جارہا ہے۔ اگر انھوں نے بھی اپنے امیدواروں کو ہرانے کا کام کیا ہو تو اس میں کوئی حیرت نہیں ہونی چایئے۔ خبر یہاں تک تھی کہ دلی میں بی جے پی کے صدر ستیش اپادھیائے بھی اس بات سے ناراض تھے کہ کرن بیدی کو پارٹی میں لایا گیا اور انھیں وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار بنایا گیا۔ حالانکہ اروند کجریوال کی طرف سے ان پر بجلی کمپنیوں کے ساتھ ساٹھ گانٹھ کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ شاید یہی سبب تھا کہ انھیں پارٹی نے ٹکٹ تک نہیں دیا۔

پانچ سال،کجریوال ہی کجریوال

     اروندکجریوال ایک زمینی آدمی ہیں اور وہ تحریک سے نکل کر آئے ہیں لہٰذا حالات کو زیادہ اچھے ڈھنگ سے سمجھتے ہیں۔وہ گزشتہ سال بھر پہلے کے الیکشن میں اتفاقی طور پر جیت گئے ہوں مگر اس بار انھوں نے بہت محنت کی ہے اور حکمت عملی بناکر جنگ لڑی ہے۔ جہاں انھوں نے ٹکٹ بانٹنے میں اس بات کا خیال رکھا کہ کونسا امیدوار جیت سکتا ہے اور کس کے اندر پیسے خرچ کرنے کی صلاحیت ہے، وہیں انھوں نے رائج الوقت پارٹیوں کے ٹرینڈ کو بھی اپنایا اور جو ایک الگ طرح کی سیاست کی بات کر رہے تھے، اس سے دور ہوتے دکھائی دیئے۔ کجریوال نے اپنی ۴۹ دن کی سرکار میں جو کام کیا تھا وہ عوام کو یاد رہا جس میں سب سے اہم بجلی کابل کم کرنے کا کام ہے۔ جس سے غریب اور متوسط کلاس کے لوگوں کو فائدہ پہنچاتھا۔ حالانکہ انھوں نے پانی مفت کرنے کا کام بھی کیا تھا مگر اس سے فائدہ ان لوگوں کو زیادہ پہنچا تھا جو پاش کالونیوں میں رہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے انتخابی مشور میں کہا تھا کہ وہ دلی کومفت وائی فائی دے گی اور اس اعلان نے نوجوان طبقے کا دل جیت لیا جو اکثر اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ پر لگا رہتا ہے اور اس کے لئے انٹرنیٹ اسی طرح ہے جیسے انسان کو زندہ رہنے کے لئے کھانا پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ دلی میں آج تک ’’آپ‘‘ کا کوئی باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے اور کئی کمیٹیاں ہونے کے باوجود، وہ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں پیچھے ہے۔ اس کے پاس جہاندیدہ لیڈر ہیں اور نہ ہی تنظیمی کام کرنے والے افراد ہیں مگر یہ اروند کجریوال کی مقبولیت ہے کہ انھوں نے مودی لہر کا مقابلہ بہت خوش اسلوبی سے کرلیا۔ اس وقت عام آدمی پارٹی کو جیت ضرور حاصل ہوگئی ہے مگر اسی کے ساتھ اب کجیریوال کا اصل امتحان بھی شروع ہوگیا ہے۔ جس طرح سے لوک سبھا الیکشن کے بعد نریندر مودی سے عوام کو امیدیں بندھ گئی تھیں اسی طرح اب کجریوال سے امیدیں بندھ گئی ہیں۔ عوام کو کام چاہئے اور اگر وہ بھی کام چھوڑ کر مودی کی طرح نولکھا سوٹ پہننے لگے تو انھیں بھی عوام مسترد کردیںگے۔  مرکز میں اگر مودی سرکار کا ہنی مون ختم ہوگیا ہے اور امتحان شروع ہوگیا ہے تو راجدھانی میں بھی کجریوال کے امتحان کی شروعات ہوچکی ہے۔آج عوام کام کے لئے اگرچہ پانچ سال کا وقت دیتے ہیں مگر ہنی مون کے لئے وہ ایک رات بھی نہیں دیتے، اس لئے کجریوال کی ابتدا ہی امتحان سے ہوئی ہے۔  

کانگریس کے تابو ت میں آخری کیل

     دلی ودھان سبھا الیکشن کانگریس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے اور نہ صرف وہ کھاتا کھولنے میں ناکام رہی بلکہ اس کے ووٹ کی شرح میں بھی گراوٹ آئی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ وہ دس فیصد بھی ووٹ نہیں حاصل کرسکی ہے۔ یہاں انتخابات کی تمام ذمہ داری اجے ماکن کے کندھوں پر تھی جنھوں نے صرف رجحان دیکھ کر ہی پارٹی جنرل سکریٹری کے عہدے سے اپنا استعفیٰ پیش کردیا تھا۔اروند لولی نے بھی پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ جیسے ہی رجحانوں میں پارٹی صفر ہوئی پارٹی دفتر کے سامنے ’’چاپلوسو کچھ شرم کرو،کانگریس پر کچھ رحم کرو‘‘  کے نعرے لگنے لگے۔اسی کے ساتھ ’’پرینکا لائو اور کانگریس بچائو‘‘ کی آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ گزشتہ اسمبلی میں کانگریس کے آٹھ ممبران تھے مگر اب اس کا نام ونشان مٹ چکا ہے۔ بیشتر سیٹوں پر اس کی ضمانتیں ضبط ہوئی ہیں ۔ یہاں تک کہ جہاں سونیا گاندھی نے ریلیاں کیں اور راہل گاندھی نے روڈ شو کئے وہاں بھی اسے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ کانگریس کا ووٹ پوری طرح عام آدمی پارٹی کی طرف منتقل ہوگیا اور عوام کی نظر میں ’’آپ‘‘ کانگریس کا متبادل بن کرراجدھانی میں ابھری۔کانگریس کے لئے یہی بڑی کامیابی رہی کہ اس نے ۹سیٹوں پر اپنی ضمانت بچانے میں کامیابی حاصل کرلی۔

مسلم ووٹ کدھرگیا؟

    دلی کے مصطفیٰ آباد مسلم اکثریتی حلقے سے بی جے پی کو کامیابی ملی ہے جہاں مسلم ووٹ بڑی تعداد میں کانگریس کی طرف گیا۔ جن تین سیٹوں پر بی جے پی کو جیت ملی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ پورے ملک میں وہیں خاص طور پر بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے جہاں بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہوتا ہے۔حالانکہ دلی کے مسلمانوں نے اس بار کھل کر عام آدمی پارٹی کا ساتھ دیا اور انھوں نے کانگریس کو پوری طرح مسترد کردیا مگر کانگریس کو جو تھوڑا سا ووٹ ملا ہے وہ انھیں علاقوں میں ملا ہے جہاں مسلمان آبادی زیادہ ہے۔ اس کا سبب شاید یہ تھا کہ یہاں پہلے سے کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ہوئے امیدوار تھے اور ان کے ساتھ ووٹروں کا ایک طبقہ تھا۔ کچھ سیٹوں پر مسلم ووٹ کی تقسیم کا سبب بنا عام آدمی پارٹی کی طرف سے کمزور امیدوار کا ہونا۔ مثال کے طور پر اوکھلا میں اس نے امانت اللہ کو ٹکٹ دیا تھا جن کے مقابلے میں کانگریس کے آصف محمد خاں تھے۔ امانت اللہ سے خود ان کی پارٹی کے لوگ بھی خوش نہیں تھے اور مخالفت کر رہے تھے مگر باوجود اس کے وہ جیت گئے۔ آصف کو بھی اچھے خاصے ووٹ ملے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلم ووٹ کا کچھ حصہ کانگریس کو گیا ہے۔ اسی طرح مٹیامحل کی سیٹ پر بھی ہوا ہے جہاں سے ہر بار شعیب اقبال جیت جاتے تھے اور اس بار بھی انھوں نے اچھے خاصے ووٹ لئے مگر جیت نہیں سکے۔ یہاں بھی مسلم ووٹ دونوں طرف گیا ہے۔

    بہر حال اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ دلی کا پیغام باقی ملک میں کیا کام کرتا ہے؟ آئندہ چند مہینوں میں اب بہار میں الیکشن ہونے والا ہے جہاں پرانے رقیب لالو اور نتیش اب متحد ہوچکے ہیں۔ اسی طرح مغربی بنگال میں بھی اس کے بعد الیکشن ہونے والا ہے جہاں بی جے پی کے ووٹ بینک میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور کمیونسٹ و کانگریس خاتمے کی جانب بڑ ھ رہے ہیں۔ یہاں بی جے پی اپنا کھاتا کھولنے میں بھی کامیاب نہیں ہوپاتی تھی مگر اب وہ اپوزیشن کی جگہ لینے کی کوشش میں ہے جو بنگال کی پر امن دھرتی کے لئے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ اترپردیش کی باری بنگال کے بعد آئے گی جہاں اب تک ملائم اور مایاوتی نوشتۂ دیوار پڑھنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 501