donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Khane Peene Ki Aadaten Aur Desh Bhakti


کھانے پینے کی عادتیں اور دیش بھکتی


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا گوشت کھانے والے ملک کے غدار ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ہے تو مودی سرکار کو کیا کہیں گے جس کے دور میں بھارت دنیا کا سب سے بڑا گوشت اکپسپورٹر ملک ہے؟ کیا کھانے پینے کی عادتوں سے بھی کسی کی دیش بھکتی طے کی جاسکتی ہے؟ یقینا آپ کہیں گے نہیں،مگر آر ایس ایس کی منطق یہ ہے کہ کھانے پینے کی عادتیں بتاتی ہیں کہ دیش بھکت کون ہے اور غداروطن کون؟ کون ہندوستان اور ہندو کا دوست ہے اور کون دشمن؟ یہ ویج اور نان ویج کھانے کی عادتوں سے طے ہوتا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ اس فارمولے کی زد میں خود آرایس ایس کے بڑے لیڈران بھی آرہے ہیں اور وہ بھی ہندوستان اور ہندو مخالف قرار پاتے ہیں۔اس فارمولے کے ایجاد کے بعداب آرایس ایس خود اپنی چھری سے حلال ہوتا نظر آتا ہے اور اس کے ہمدرد بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آرایس ایس کے ترجمان کہے جانے والے ’’آرگنائزر‘‘میگزین نے ان تمام سرکاری اداروں کو ملک اور ہندو مخالف قرار دیاہے جن کی کینٹین کے کھانے میں گوشت پیش کیا جاتا ہے ، حالانکہ آرایس ایس کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ آرایس ایس کے کئی چیف گوشت خور رہ چکے ہیں اور اگر گوشت خوری ہندو اور ہندوستان مخالفت کے ہم معنیٰ ہے تو موجودہ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت سمیت کئی سابق آرایس ایس لیڈران بھی ہندو اور ہندوستان مخالف قرار پاتے ہیں۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ   آر ایس ایس کے ترجمان ’’آرگنائزر‘‘ کے ایک مضمون میں آئی آئی ٹی رڑکی کے کینٹین میں نان ویج فوڈ پیش کرنے سبب اسے ’’ہندو مخالف‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس مضمون نے آر ایس ایس کو الجھن میں ڈال دیا ہے کیونکہ سنگھ کے کئی اعلیٰ لیڈران اور سرسنگھ چالک نان ویج فوڈ کے شوقین رہے ہیں۔ آر ایس ایس پر تحقیق کرنے والے اور اس تنظیم پر 42 کتابیں لکھ چکے دلیپ دیودھر نے کہا، '2009 میں سرسنگھ چالک بننے تک موہن بھاگوت نان ویج کھانے کا لطف لیا کرتے تھے۔ میں نے بالاصاحب دیورس کو بھی آر ایس ایس کے سربراہ بننے تک چکن اور مٹن سب کے سامنے کھاتے دیکھا ہے۔ بہت سے آر ایس ایس پرچارک نان ویج کھانا کھاتے رہے ہیں۔ اس میں ہندو مخالف ہونے جیسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔

اب ’’آرگنائزر‘‘ آرایس ایس کا ترجمان نہیں رہا

    ویج اور نان ویج کا تنازعہ یہاں تک بڑھا کہ’’ آرگنائزر‘‘ کے ایڈیٹر پرفل کیتکرنے یہاں تک کہہ دیا کہ ان کا میگزین آرایس ایس سے تاثر ضرور لیتا ہے مگر ا سکا ترجمان نہیں ہے۔ کیتکر نے کہا، پہلی بات یہ کہ ہمارا میگزین آر ایس ایس کا مائوتھ پیس نہیں ہے۔ یہ آر ایس ایس سے اثر لینے والا اشاعتی ادارہ ہے۔ ہم نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریے کے خلاف بھی کئی بار لکھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ مضمون سندیپ سنگھ نے لکھا تھا، جو آئی آئی ٹی سے متعلق ہیں۔ وہ ہمارا لکھا ہوا اداریہ نہیں تھا۔ ہم ان کے خیالات کی حمایت نہیں کرتے ہیں، لیکن ہم اسے لکھنے کی ان کی آزادی کے حق میں ہیں۔انھوں نے مانا کہ سنگھ کے مضمون پر آر ایس ایس کے کئی لوگوں نے تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، اگلے شمارے میں ہم ان کے خیالات بھی شائع کریں گے۔دیودھر نے کہا کہ آر ایس ایس نے کبھی بھی میٹ یا نان ویج فوڈ پر پابندی لگانے کی بات نہیں کہی ہے۔ دیودھر نے کہا، آر ایس ایس میں نان ویج فوڈ کھانے پر کوئی روک نہیں ہے۔اگرچہ ہیڈکوارٹر میں یا سنگھ کی تقریبات میں آپ نان ویج کا استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ باقی وقت میں آپ اپنی پسند کا کھانا ریستوران یا اپنے گھر پر کھائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر نان ویج کھانے میں مچھلی، چکن اور مٹن تک کا معاملہ ہو تو سنگھ کو کوئی دقت نہیں ہے، دقت بیف سے ہے۔

آرایس ایس میں نان ویج کی روایت

    آر ایس ایس کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے جانکار اور متعدد کتابوں کے مصنف دیودھر نے انکشاف کیا کہ آر ایس ایس کے کئی سابق سربراہ گوشت خور تھے۔ اب ’’آرگنائزر‘‘ کے ایڈیٹر کے سامنے بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ دیودھر نے اپنا تجربہ بھی بیان کیا ہے کہ انھوں نے آرایس ایس کے کئی اہم لیڈران کو گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک بار تو سنگھ کے سابق سربراہ ایم ایس گولوالکر نے سینئر پرچارکوں موروپنت پنگلے اور پاڈورنگ شِرساگر سے کیٹرنگ کی ان کی عادات پر مذاق کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ آج کا مینو کیا تھا،مچھلی یا مرغا؟ دیودھر نے کہا کہ تب سے انہوں نے کافی سنگھ پرچارکوں کو گوشت خور دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرگنائزر والے مضمون میں جو بات کہی گئی، اس کی سنگھ میں کچھ ہی لوگ حمایت کرتے ہیں، 'جو ایسے بے مطلب کے مسئلے اٹھا کر وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کو دقت میں ڈالنا چاہتے ہیں۔آر ایس ایس کے سینئرلیڈر ایم جی وید نے آرگنائزر کے مضمون پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، لیکن مانا کہ سنگھ میں نان ویج کھانے پر کوئی روک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ،گوشت خوری کرنے والے بھی ہندوستانی ہیں۔

کون کون ملک دشمن؟

    آرایس ایس ان دنوں دیش بھکتی کے نئے معیار قائم کرنے میں مصروف ہے ۔جہاں اس نے گوشت خوری کو دیش بھکتی کے خلاف قراردیا ہے وہیں اس سے قبل ایک مضمون کے ذریعے ان طلبہ کو بھی ہندو اور ہندوستان مخالف قرار دیا جاچکا ہے جو پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ میں آر ایس ایس کے پسندیدہ گجیندر چوہان کو بھیجنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ گجیندر چوہان کی مخالفت کرنے والوں اور ان کا استعفیٰ مانگنے والوں میں سلمان خان اور سلیم خان سے لے کر انوپم کھیر تک شامل ہیں جو کہ بی جے پی ممبر پارلیمنٹ کرن کھیر کے شوہر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انوپم کھیر ملک مخالف ہیں؟ کیا سلمان اور سلیم دیش بھکت نہیں ہیں جن کے گھر سے نریندر مودی کی اردو ویب سائٹ لانچ ہوتی ہے؟

اب احتجاج کا حق بھی نہیں

     ’’آرگنائزر‘‘ نے FTII کے چیرمین گجیندر چوہان کو عہدے سے ہٹانے کے لئے انسٹی ٹیوٹ کے طالب علموں کی طرف سے چلائی جا رہی تحریک کی مذمت کرنے کے بعد IIT پر بھی نشانہ باندھا ہے۔ اپنے مضمون میں FTII طالب علموں کو ہندو مخالف بتانے کے والے آرگنائزر نے اب IIT اور IIM جیسے اداروں کو بھی ملک اور ہندو مخالف قرار دیا ہے۔تقرریاں کرنے کے حکومت کے حق کو صحیح ٹھہراتے ہوئے ’’آرگنائزر‘‘ میں شائع مضمون میں کہا ہے کہ بغیر موقع دیے مسترد کرنے کے بجائے چوہان کو اپنی قابلیت ثابت کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ مضمون میں کہا گیا ہے، کسی دوسری بات سے زیادہ گجیندر چوہان کو ان نظریات کے لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مہابھارت میں یدھشٹھر کے طور پر چوہان کی شاندار اداکاری کو یاد کرتے ہوئے مضمون میں کہا گیا ہے، 'اس ملک میں ہر کسی کو آئین میں ملے اتھارٹی کے تحت اپنا خیال اور نظریہ رکھنے کا حق ہے، جب تک کہ ایسا کرنا قومی مفادات کے خلاف نہ ہو۔آرگنائزر کے مطابق، 'مزدوروں کو زیادہ اجرت اور کام کاج کے لئے بہتر ماحول کے مطالبہ کرنے کا حق ہے لیکن ان میں سے کسی کو یہ طے کرنے کا حق نہیں ہے کہ صنعتی کمپنی کا کون منیجنگ ڈائریکٹر ہو اور کون چیف ایگزیکٹو آفیسر ہو۔ ورنہ جمہوریت انارکی میں تبدیل ہو جائے گی جس سے ملک میں کسی کا بھلا نہیں ہو سکتا۔

    احتجاجی طالب علموں پر طنز کرتے ہوئے مضمون میں کہا گیا ہے کہ، پونے کے فلم اور ٹیلی ویژن کے ادارے نے ملک میں واحد ایسے ادارے کا درجہ حاصل کیا ہے جہاں طالب علموں کے پاس حکومت کی طرف سے مقرر ادارے کے سربراہ کی تقرری کو ویٹو کرنے کا حق ہے۔ یہ منفرد تعلیمی ادارہ ہے جہاں کسی شخص کے امتحان میں بیٹھنے سے پہلے ہی امتحان کے نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ کیا لوگوں یا طالب علموں کو اس تقرری کو سرے سے مسترد کر دینا چاہئے جس کے لئے منتخب شخص کو اپنی قابلیت ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔اگر کوئی شخص توقعات پر کھرا اترنے میں ناکام رہتا ہے تو ہر کسی کو حکومت سے اس شخص کو باہر کا دروازہ دکھانے کی کوشش کرنے کا حق ہے۔

آئی آئی ٹی ہندومخالف؟

    ’’ آرگنائزر‘‘کے ایک مضمون میں الزام لگایا گیاہے کہ آئی آئی ٹی جیسے معروف ادارے کو بھارت مخالف اور ہندو مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنایا جا رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں پر اب بھی بائیں بازو کے نظریات اور کانگریس کا قبضہ ہے۔ دونوں ہی پارٹیاں گورنروں اور ڈائریکٹرز کے ذریعے نظریاتی کنٹرول کرنے میں ماہر ہیں۔ مضمون میں کہا گیاہے کہ کچھ آئی آئی ایم کی طرف سے حکومت کے فیصلے کی مخالفت کے پیچھے سیاسی مقصد تھے۔ اس سے پہلے ایک مضمون میں گجیندر چوہان کوایف ٹی آئی آئی کا صدر بنائے جانے کی مخالفت کو ہندو مخالف قرار دیا گیاتھا۔مضمون میں مختلف موضوعات پر وزارتوں کی مخالفت کرنے کے لئے سائنسی اور آئی آئی ٹی بمبئی کے سابق صدر انل کاکوڈکر، آئی آئی ایم احمد آباد کے صدر اے ایم نائیک کی بھی تنقید کی گئی ہے۔مضمون میں دعوی کیا گیا کہ یو پی اے کے دور اقتدار میں ہی مقدس نگری ہریدوارمیں واقع آئی آئی ٹی روڑکی میں گوشت کھانے کی ابتدا ہوئی۔اسی کے ساتھ ہی اڈیشہ کے این آئی ٹی راورکیلا میں طالب علموں کو کمیونٹی ہال میں پوجاسے روکا گیا۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ اخلاقیات کی کمی والے یہ ادارے طالب علموں کو گمراہ کر رہے ہیں۔یہ سرگرمیاں یا تو ڈائریکٹر یٹ کی نظروں میں آئی نہیں یا پھر انہوں نے اسے درکنار کر دیا۔اس قسم کے مضامین کی اشاعت کے بعد گوشت خوری کو اگر دیش بھکتی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے تو اس کا مطلب سمجھاجاسکتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس حملے کی زد میں اب خود آرایس ایس آگیاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 709