donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Bharat Duniya Ka Pahla Sabzi Khor Mulk Banega


کیا بھارت دنیا کا پہلا سبزی خور ملک بنے گا؟


گوشت پر سیاست بند ہو


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    چند سال قبل کی بات ہے کہ مجھے دو راتیں مغربی بنگال کے ایک ایسے گائوں میں بتانی پڑیں جو بنگلہ دیش کی سرحد سے چند کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ صبح میری آنکھ، گھنٹیوں کی آواز سے کھلی اور باہر جھانک کر دیکھا تو بہت سے بیل کھڑے تھے جن کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی ، انھیں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ دوسری رات گزار کر بیدار ہوا تو کوئی بیل نہیں تھا۔مقامی لوگوں سے معلوم ہوا کہ تمام جانور بنگلہ دیش چلے گئے اور یہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ پورے ملک سے گائیں اور بیل خرید کر لائے جاتے ہیں اوربنگلہ دیش بھیجے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بی ایس ایف جوانوںکی مدد سے ہوتا ہے جو اس غیر قانونی دھندے سے خوب کمائی کرتے ہیں۔ مجھے یہاں معلوم ہوا کہ ہر روز ہزاروں گائے،بیل بنگلہ دیش اسمگل کئے جاتے ہیں اور بعض اوقات جانوروں سے لدے ہوئے ہزاروں ٹرک غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش جاتے ہیں اور انھیں اتار کر واپس آجاتے ہیں۔ اس دھندے میں کچھ مسلمان بھی شامل ہونگے مگر بیشتر غیر مسلم ہوتے ہیں اور اسے نیتائوں کی بھی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اتنا بڑا کاروبار مرکزی اور ریاستی سرکار کے علم میں نہ ہو ،ایسا ہو نہیں سکتا۔ مرکز میں کانگریس کی سرکار ہو یا بی جے پی کی، ہر زمانے میں یہ دھندہ چلتا رہتا ہے اور کوئی سرکار اسے نہیں روکتی ہے۔ یہ ایک طرح سے سرکار کی غیر مبینہ پالیسی کا حصہ ہے۔ جن جانوروں کو بنگلہ دیش لے جایا جاتا ہے انھیں گوشت کے لئے ذبح کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں ہندوستانی جانوروں کے گوشت کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش سے بھی گائے اور بیل کا گوشت بڑی مقدار میں بیرون ملک اکسپورٹ کیا جاتا ہے، جیسا کہ ہمار ے ملک سے کیا جاتا ہے۔ البتہ بھارت گوشت اکسپورٹ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اورہمارے ملک کو اس کے ذریعے کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں چین ہمارے ملک سے پیچھے ہے۔ بھارت ڈیری کی صنعت اور جانوروں کی افزائش کرنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ اسی کے ساتھ ہمارے ہاں جانوروں کے گوشت پر سیاست کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور بہانے بہانے سے دنگا بھی کرایا جاتا ہے مگر کسی سرکار میں یہ ہمت نہیں کہ گوشت خوری اور اس کے اکسپورٹ پر مکمل پابندی عائد کردے کیونکہ یہاں کی ساٹھ فیصد آبادی گوشت کھانے والی ہے۔ گوشت خوری پر طرح طرح کے اخلاقی سوال اٹھانے والے آج کے سائنسی زمانے میں خود سوالوں کے گھیرے میں ہیں کیونکہ جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ گوشت خوری صحت کے لئے مفید ہے اور پیڑ پودوں میں بھی جان ہوتی ہے اور وہ کاٹے جانے کا احساس کرتے ہیں۔  

قانون کی ضرورت؟

    ہمارے ملک میں ساٹھ فیصد شہری گوشت خور ہیں جب کہ نو فیصد وہ لوگ ہیں جو گوشت تو نہیں کھاتے مگر انڈے کھاتے ہیں۔ صرف اکتیس فیصد ہی خالص ویجیٹیرین ہیں۔ ملک کی کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں گوشت نہیں کھایا جاتا۔ ہمارے ملک کے شہری عموماً ۳۳۱ روپئے ماہانہ گوشت مچھلی اور انڈے پر خرچ کرتے ہیں۔ نان ویج کی خریداری پر سب سے زیادہ کیرل والے خرچ کرتے ہیں۔ یونہی ملک کی اکثر ریاستوں میں گئو کشی کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے اور اگر کوئی شخص انھیں ذبح کرتا ہے تو قانونی طور پر ممانعت نہیں ہے۔ بہار، کیرل اور نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں اس کے لئے کوئی قانون نہیں ہے۔ جب کہ مغربی بنگال، تمل ناڈو اور آسام نے باقاعدہ قانون بناکر اس کی اجازت دی ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک بار معاملہ گیا تھا مگر اس نے بھی یہاں روک لگانے سے منع کردیا البتہ یہ حکم بھی جاری کیا کہ جو گائیں دودھ دینے کے لائق ہیں انھیں ذبح نہ کیا جائے بلکہ عمر رسیدہ گایوں کو ذبح کیا جائے۔ گجرات، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور راجستھان میں گئو کشی پر پابندی ہے مگر یہاں بھینسوں کے ذبح کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔۱۴۔۲۰۱۳ء میںبھارت نے 32,288.57کروڑروپئے کا گوشت اکسپورٹ کیا ہے جس میں 26,457کروڑروپئے کا بھینسوں کاگوشت بھی شامل تھا۔ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جانوروں کی پوجا کی جاتی ہے اور انھیں کا گوشت کھایااور بیچا جاتا ہے۔ اس کے اکسپورٹرس میں مسلمان بہت کم ہیں بیشتر غیر مسلم ہیں۔     

گائے پر سیاست کی پرانی تاریخ

    بھارت میں پرانے زمانے سے ایک طبقہ ایسا رہا ہے جو سبزی خور رہا ہے مگر اسی کے ساتھ گوشت خوری کی بھی اپنی روایت رہی ہے۔ یہاں کی قدیم مذہبی کتابوں میں دیوتائوں سے سامنے جانوروں کی قربانی کا ذکر ملتا ہے۔بدھ ازم کے زیر اثر بھارت میں اہنسا کی تحریک شروع ہوئی اور جانوروں کو ذبح کرنے کی مخالفت ہوئی۔اسی تحریک کے زیر اثر گائے نے تقدس کا درجہ پایا اور یہ تقدس بڑھ کر عبادت کے مقام تک پہنچ گیا۔یہاں بنارس کے پنڈتوں میں سبزی خوری کو فروغ ملا اور ملک کے کچھ دوسرے حصوں میں بھی برہمنوں اور جینیوں نے گوشت کھانا سے پرہیز کیا مگر کشمیر، مغربی بنگال اور دوسرے ساحل سمندر پر رہنے والے برہمنوں میں گوشت خوری کا رواج رہا اور انھیں آج بھی اس سے پرہیز نہیں ہے۔ حالانکہ جہاں ایک طرف گجرات اور راجستھان میں ہندووں کا ایک بڑا طبقہ اور جینی گوشت سے اجتناب کرتے ہیں ،وہیں دنیا کے کئی ممالک میں بدھسٹ بھی گوشت ،مچھلی کھاتے ہیں۔بھارت میں جب سیاست کی بات آتی ہے تو پھر کسی بھی عام بات کو بہانہ بناکر سیاست کی جاسکتی ہے، گوشت خوری اور گئو کشی بھی ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔ اس پر قدیم دور سے سیاست کا سلسلہ چل رہا ہے۔ بھارت میں مغل شہنشاہیت کے بانی بابر نے ہمایوں کو نصیحت کی تھی کہ گئوکشی نہ کرنا اور ہندووں کے جذبات کا لحاظ کرنا، جب کہ ہمایوں کے جانشیں اکبر کے زمانے میں گئو کشی پرمکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مسلم اکثریتی کشمیر میں راجہ کے عہد میں گئو کشی پر پابندی تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ یہاں آج بھی لوگ بکرے اور بھیڑوں کا گوشت کھاتے ہیں۔ مہاتما گاندھی گئو کشی کو پسند نہیں کرتے تھے مگر اس کے لئے کسی زور زبردستی کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ اپنی مرضی سے ہی اسے ترک کردیں۔ آریہ سماج کی شدھی تحریک کے زمانے میں گئوکشی کو بھی ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس کے خلاف تحریک چلائی جاتی تھی۔سنگھ پریوار گئو کشی پر سیاست کرتا رہا ہے اور اس کو بہانہ بناکر اکثر دنگے فساد کرائے جاتے رہے ہیں۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگ ہر سال عیدالاضحی سے قبل سرگرم ہوجاتے ہیں اور جہاں کہیں بھی کوئی ٹرک جانوروں سے بھرا ہوا ملتا ہے اسے پکڑ کر جانوروں کو ادھر ادھر ہانک دیتے ہیں۔ وہ لوگ کئی مقامات پر گئو کشی کو بہانہ بناکر اشتعال انگیزی بھی کرتے ہیں اور اس کے خلاف تحریک ان کے ایجنڈے کا خاص حصہ ہے۔

آرایس ایس اور گوشت خوری

     آر ایس ایس تو سبزی خوری کی حمایت کرتا رہا ہے اور گوشت خوری کی مخالفت کرتا رہا ہے مگر اس کے ایک چیف بالا صاحب دیورس کے بارے میںبعض لوگوں نے لکھا ہے کہ وہ گوشت خور تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ حال ہی میں آر ایس ایس کے موجودہ چیف موہن بھاگوت نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا ہے کہ گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی لگنی چاہئے اور گئو کشی تو مکمل طور پر بند ہونی چاہئے۔ان کی یہ تقریر دور درشن سے نشر کی گئی جس پر تنازعہ بھی اٹھا۔ ان سے پہلے ایک مرکزی وزیر منیکا گاندھی کہہ چکی ہیں کہ اس کے اکسپورٹ سے ہونے والی آمدنی کا استعمال دہشت گردی کے فروغ میں ہورہا ہے۔ وزارت کامرس کا کہنا ہے کہ گوشت کے کاروبار پر پابندی عائد کرنے سے ملک کا معاشی نقصان ہوگا ،جبکہ دو قسم کے بیانوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لئے وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاوڈیکر کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کے پاس اس معاملے میں کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۶۰ء میں مرکزی سرکار نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا مقصد گئو کشی پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں غوروفکر کرنا تھا۔ اس کمیٹی کے سربراہ تھے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈچیف جسٹس اے کے سرکار۔ سرکار کمیٹی کے ممبران میں تب کے آر ایس ایس چیف ایم ایس گولوالکر، پوری کے شنکر آچاریہ، ڈاکٹر وارگھیس کورین وغیرہ تھے۔ پشپا ایم بھارگو جو کہ اِس وقت Centre for Celular and Molecular Biology(سی سی ایم بی) کے فائونڈر ڈائرکٹر ہیں، ربط میں تھے ،وہ اپنے تجربے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ایک مٹینگ میں ایک ممبر نے کہہ دیا کہ’’ اگر ہم گائے کو نہ کھائیں تو گائے ہمیں کھاجائے گی۔‘‘ اس پر کچھ لوگوں کو ناراضگی ہوئی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ایک بار شنکر اچاریہ اور گولوالکر نے مجھ سے پوچھا کہ دودھ اور گوشت ہمارے جسم کو کس طرح قوت فراہم کرتے ہیں تو میں نے انھیں بتایا کہ جس طرح سے دودھ ہمارے جسم کو قوت فراہم کرتا ہے اسی پروسیز میں گوشت بھی تقویت پہنچاتا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ پھر آپ کیوں گوشت کھاتے ہیں اور دودھ نہیں پیتے؟ تو میں نے انھیں جواب میں کہا کہ آپ کیوں دودھ پیتے ہیں اور گوشت نہیں کھاتے؟ میری بات سے وہ ناراض ہوگئے۔

گوشت خوری پر پابندی کیوں نہیں؟

    بھارت میں گوشت خوری اور گئو کشی دونوں سے زیادہ مستفید ہونے والے بیشتر ہندو ہیں۔ اس وقت بیشتر ہندو گوشت کھاتے ہیں اور ان کا ایک طبقہ گائے کا گوشت بھی کھاتا ہے۔ دلت ، آدیباسی اور بعض دوسری برادریوںکے لوگ صدیوں سے گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ نیپال دنیا کی واحد ہندو ریاست ہو اکرتی تھی مگروہاں بھی بھینسوں کو ذبح کرنے کی اجازت تھی۔ حالانکہ سائنسی نقطۂ نظر سے وہ بھی گایوں کے ہی کنبے سے ہیں۔ اس کے گوشت سے ہماری خوراک کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اور اس کے کاروبار سے پورے ملک کو فائدہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ گئو سیوا کے نام پر چندہ کرتے ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ کے نام پر دولت جمع کرتے ہیں مگر سیاست کا نشانہ ہمیشہ مسلمان بنتے ہیں۔ آج مرکز اور کئی ریاستوں میں آر ایس ایس کی پشت پناہی والی بی جے پی کی سرکار ہے اور اس کے پاس اکثریت بھی ہے لہٰذا وہ چاہے تو پابندی بھی عائد کرسکتی ہے اور بھارت کو ایک سبزی خور ملک بنا سکتی ہے مگر اس میں ہمت نہیں کہ وہ ایسا کرسکے ورنہ ان کی سیاست ہی بند ہوجائے گی اور جو ملک کوہرسال ہزاروں کروڑ کا چونا لگے گا وہ الگ ہے۔ 

(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر ہیں)  


    رابطہ
Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 573