donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Ham Sachche Mazhabi Hain


کیا ہم سچے مذہبی ہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    صبح کا سہانا وقت تھا۔ سورج نے دھیرے سے پورب کی اوٹ سے اپنا سر نکالا اور آہستہ آہستہ اوپر کی طرف بڑھنے لگا۔ میں سورج مکھی کے کھیتوں کے درمیان سے گزررہاتھا۔ سورج مکھی کے بڑے بڑے خوش رنگ ،زعفرانی پھول ،سورج کی طرف منہ کئے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ اس دلفریب منظر نے میرے دل کو موہ لیا۔ میں بیخود ہوگیا۔

            خرامِ جلوہ کے نقشِ قدم تھے لالہ وگل
            کچھ اور اِس کے سوا موسمِ بہار نہ تھا

    یہاںٹھہر کرکچھ وقت گزارنا چاہتا تھامگر جلدی میں تھا اس لئے آگے بڑھ گیا۔۔۔ شام کو دانستہ طور پر پھر اسی راستے سے واپس ہوا،تاکہ ایک بار پھر وہی من موہک دِرشیہ دیکھ سکوں۔۔۔ اب بھی پھول کھلے ہوئے تھے۔ اب بھی ان کا رنگ ویسا ہی دلکش تھامگر اب ان کا رُخ پورب کے بجائے پچھم کی طرف تھا۔میرے قدم رک گئے۔ میں ایک پگڈنڈی پر کھڑا سوچنے لگاکہ ان پھولوں کا رخ صبح کو پورب کی طرف تھا ، اب پچھم کی طرف کیوں ہے؟پھر بات سمجھ میں آگئی۔۔۔ ان پھولوں کو سورج مکھی کہتے ہی اِس لئے ہیں کہ ان کا مکھ سورج کی اُور ہوتا ہے۔ جب صبح کوسورج مشرق کی طرف تھا تو اِن کا رخ بھی مشرق کی طرف تھا اور اب جب شام کومغرب کی طرف ہے تو ان کا رخ بھی مغرب کی طرف ہوگیا ہے۔ ۔۔ سورج مکھی کو توانائی سورج سے ملتی ہے۔ ان پھولوں کی انرجی (ENERGY)کا مرکزآفتاب ہے لہٰذا ان کا رخ بھی اپنے مرکز کی طرف ہوتاہے۔۔۔ میں سوچتاہوا آگے بڑھنے لگا، کہ ہمیں توانائی کہاں سے ملتی ہے؟ انسان کی انرجی کا مرکز کہاں ہے؟ ہماراPOWER HOUSEکدھر ہے؟ظاہر ہے اگرہمیں کوئی توانائی فراہم کرنے والا ہے تو ہمارا رخ بھی اسی کی جانب ہونا چاہئے۔ توانائی کے مرکز سے اپنے رخ کو پھیرلیناکسی بھی طرح نامناسب ہے۔

    ہمیں توانائی کہاں سے ملتی ہے؟ہمارے جسم میں انرجی کون بھرتا ہے؟ ہمارے جسمانی اور روحانی نظام کی گاڑی کس ایندھن سے چلتی ہے؟ اس قسم کے سوالوںکے جواب میرے خیال سے بیشتر لوگوں کی جانکاری میں ہیں۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کائنات اور تمام مخلوقات کی توانائی کا مرکز بس ایک ہے۔ اسے پکارنے والے خواہ کسی نام سے پکاریں مگرصاحبِ نام ایک ہے۔ وہی سب کا پالنہار ہے۔ وہی سب کااَن داتا ہے۔ وہی سب کا سہارا ہے۔ اسی کی مرضی سے نظام کائنات رواں دواں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مرکز کہاں ہے؟ اور ہمارارخ کدھر ہونا چاہیے پھر بھی ہم کیوں اپنے مرکز کی طرف پیٹھ کئے کھڑے ہیں؟ہم سے بہتر تو سورج مکھی کے پھول ہیں جو کسی بھی حال میں اپنے مرکز سے منہ نہیں پھیرتے۔

    دنیا کے تقریباً تمام مذاہب اللہ کے وجود کے قائل ہیں اور ان کاماننا ہے کہ وہی اس دنیا کا خالق اور مالک ہے۔ گویا یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر اکثریت کا اتفاق ہے۔ سبھی مذاہب مانتے ہیں کہ انسان اسی خالق کی مخلوق ہے،مگر اس کے باوجود اگر دیکھیں تو ان مذاہب کے ماننے والوں میں سخت اختلافات رہے ہیں اور ان مذاہب کے درمیان بڑی بڑی جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سب ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیںتوپھر ان کے درمیان خونریز معرکے کیوں؟ ایک دوسرے کی گردن مارنے کی سعی کیوں؟ بلکہ اسے بھی نظرانداز کر کے ذرا اور قریب آکر دیکھیں تو ایسی مثالوں کی بھرمار ہے جب ایک ہی مذہب کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کی گردنیں ماری ہیں۔ یہ برادرکشی اگر صرف سیاست داں کرتے یا کسی دنیاوی مقصد کے لئے ہوتی تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ایسا نہیں بلکہ اکثر علماء ِمذاہب کے احکام کے تحت یہ لڑائیاں ہوئیں اور نہ صرف انھوں نے اس کی قیادت کی بلکہ اس آگ کر بھڑکانے میں بھی پیش پیش رہے۔

بم سے دنیا جیتنے والے
اس کے لئے مسکان بہت ہے

    ایسا لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مذہبی احکام کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے یا پھر اس کی تعبیر غلط کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں کہاگیا ہے کہ جس نے ایک جان کوبے سبب قتل کیا اس نے گویا پوری عالم انسانیت کو قتل کرڈالا مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھی خونریزیاں کیں اور برادر کشی میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور کب بند ہوگا ،کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ آج بھی مسجدیں میزائلوں کے حملوں میں تباہ کی جا رہی ہیں۔ آج بھی نمازوں کے درمیان خودکش حملے ہورہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ سب مذہب کی غلط تشریح کے نتیجے میں ہورہا ہے اور مذہب کی اصل اسپرٹ کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔پھول اور پودے اپنے خالق کو پہچان لیتے ہیں۔ آسمان کی بیکراں وسعتوں میں تیرنے والے ستارے اور سیارے اس کی مرضی سے سرِمو برابر بھی انحراف نہیں کرتے، پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں اس کے ذکر کے بغیر نہیں رہتیں مگر یہ انسان ،اشرف المخلوقات اور ذی شعور ہوکر بھی سب سے زیادہ اللہ کی مرضی کی خلاف ورزی کرتاہے۔ اے انسان خود کو پہچان۔ ذرا غور تو کر کہ تو کون ہے اورکس لئے دنیا میں آیا ہے؟

ذرہ ہوں، آفتاب ہوں، شب ہوں کہ ماہتاب ہوں
ساگر ہوں یا سحاب ہوں، دریا ہوں یا حباب ہوں
میں سوز ہوں کہ ساز ہوں، نے ہوں کہ میں رباب ہوں
جلوہ ہوں یا حجاب ہوں، کانٹا ہوں یا گلاب ہوں


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 476