donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Hisabe Jrm Doge Tum Khuda Ke Samne


کیا حساب جرم دوگے تم خدا کے سامنے؟


یہ شیعوں کا نہیں انسانیت کا قتل ہے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    دنیا بھر میں شیعوں کے قتل پر سنیوں کو خاموش رہنا چاہئے؟ کیا یہ صرف شیعوں کا قتل ہے، انسانیت کا قتل نہیں؟کیا وہ ہماری طرح انسان نہیں ہیں؟کیا ان کا خون ، خون نہیں پانی ہے؟کیا انھیں صرف اس لے جینے کا حق نہیں کہ وہ شیعہ ہیں؟اگر ان کے قتل اور استیصال کو ہم غلط مانتے ہیں تو اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟سوا ل یہ بھی ہے اگر آج ان کا قتل اس لئے ہورہا ہے کہ وہ شیعہ ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل بریلویوں کا قتل نہیں ہوگا؟ دیوبندی نہیں مارے جائیں گے؟ سلفی دہشت گردوں کے نشانے پر نہیں ہونگے؟ حنفی، شافعی اور مالکی وحنبلی استبداد کا نشانہ نہیں بنیں گے؟ دہشت گردی کی آگ اب پر امن سعودی عرب تک پہنچ چکی ہے اور یہاں کی شیعہ مساجد ان دنوں تخریب کاروں کے نشانے پر ہیں، حالانکہ پہلے یہ صورتحال صرف پاکستان میں تھی۔ آج یہ بھی سوچنے کا موقع ہے کہ اس کے لئے آخر کون لوگ ذمہ دار ہیں؟ کیا اسلام کے نام پر تکفیری احکامات لاگو کرنا اور پھر کلمہ گو اور اہل قبلہ کا قتل کرنا کسی بھی طرح سے اسلامی ہوسکتا ہے؟ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ آخر غلطی کہاں ہوئی ہے کہ آج مسلمان، مسلمان کو کافر قرار دے رہے ہیں اور ان کا قتل کر رہے ہیں ؟کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ اگر ہم مسلمان ہوتے ہوئے خون خرابہ میںیقین رکھتے ہیں تو پھر اسلام کو امن کا مذہب کہنا بند کردینا چاہئے اور اگر اسلام کو امن کا دین سمجھتے ہیں تو قتل وخونریزی کرنے والوں کو امن اور اسلام کا دشمن قرار دینا ہوگا۔خلیجی ممالک میں شیعہ۔سنی اختلاف کا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ یہاں تقریباً چالیس فیصد شیعہ ہیں اور شیعہ سنی ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ خلیج میں تقریباً ۶۰فیصد شادیاں بین مسلکی ہوتی ہیں لہٰذا اس خطے میں ایسے سنی نہیں ملیں گے جن کی رشتہ داری شیعوں میں نہ ہو اور ایسے شیعہ نہیں ملیں گے جن کے رشتہ دار سنی نہ ہوں۔یہاں کے مسلمان شیعہ۔سنی اختلافات کو عہد وسطیٰ میں چھوڑ آئے تھے مگر دانستہ طور پر انھیں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے۔ حالانکہ اب تک جس قدر حملے بھی شیعوں پر ہوئے ہیں وہ عام سنیوں کی طرف سے نہیں ہوئے بلکہ دہشت گرد گروہوں کی طرف سے ہی ہوئے ہیں۔ حالانکہ اب دہشت گردی کی آگ سعودی عرب تک پہنچ چکی ہے جو عام طور پر ایک پرامن ملک سمجھا جاتا تھا اور جہاں سب سے کم جرائم ہوتے ہیں۔جہاں آج بھی دکانیں کھلی رہتی ہیں اور چوریاں نہیں ہوتیں۔

نفرت کی آگ سعودی عرب تک پہنچی

     ۲۲ مئی ۲۰۱۵ء کو قطیف کے شیعہ نشین صوبے کے شہر القدیح کی مسجد امام علی میں کہ جو سعودی عرب کے مشرق میں ہے نماز جمعہ کے دوران پاکستانی لباس پہنے ایک دہشت گرد نے مسجد میں داخل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں ۲۱ نمازی شہید اور۱۵۰ زخمی ہو گئے تھے۔ سعودی حکام کے مطابق اس دہشت گردانہ کارروائی کو دولت اسلامی عراق و شام( داعش) کے دہشت گردوں نے انجام دیا ہے یہ سلسلہ وار قتل و خونریزی کا ایک حصہ ہے کہ جو بحرین سے شروع ہو کر عراق اور یمن تک پہنچا ہے اور آخر کار مشرقی علاقے کے شیعوں کو اس نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے ۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ دہشت گرد تنظیموں نے مسجد کو نشانہ بنایا ہے اور نہ یہ آخری بار ہے ،کیونکہ اس کے بعد دوسرا حملہ ایک ہفتہ بعد ہی ۲۹مئی کو ایک مسجد پرہوا۔سعودی شہر دمام میں نماز جمعہ کے وقت ایک شیعہ مسجد کے باہر ہونے والے ایک بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم چار افراد جاں بحق ہو گئے ۔ حالانکہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی تھی مگر کار بم سے کیا گیا یہ حملہ وقت سے ذرا پہلے ہوگیا تھا۔ترجمان کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا، جب سکیورٹی حکام نے پیشگی طور پر حملے کا اندازہ لگا لیا تھاحملہ آور کی کار تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔سکیورٹی اہلکار جب اس کی طرف بڑھے تو کار میں دھماکا ہو گیا، جس سے مرنے والوں کی تعداد صرف چار تک محدود رہی، اگریہ دھماکہ مسجد کی دیوار سے ٹکراکر ہوتا تو مرنے والوں کی تعداد امید سے زیادہ ہوتی۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک خاتون عینی شاہد نسیمہ السدہ کا کہنا ہے کہ یہ دھماکا ایک خاتون خودکش حملہ آور کی جانب سے کیا گیا، جو مسجد میں خواتین کے لیے مخصوص حصے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ جب سکیورٹی رضاکاروں نے حملہ آور کو دمام کی اس اکلوتی شیعہ مسجد میں داخل ہونے سے روکا تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ان حملوں کے بعد نمازیوں نے سکیورٹی کمیٹیاں بنائی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے رضاکار نماز کے وقت مسجد میں داخل ہونے والوں کی تلاشی لیتے ہیں۔

یمن میں شیعوں پر سعودی حملہ

    خلیجی ملکوں میں شیعوں پر حملہ کے لئے داعش کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے مگر شیعہ کشی کا جرم تنہا داعش نہیں کر رہا ہے بلکہ خود سعودی عرب بھی کر رہا ہے۔اسی کی ایک شکل سعودی عرب کا اپنے ہمسایہ ملک یمن میں حوثی شیعوں کے خلاف حملہ ہے ،جورواں برس مارچ کے آخر سے جاری ہے۔ سعودی عرب کے مطابق ایران نواز شیعہ باغیوں کے خلاف اس کارروائی کا مقصد یمنی صدر منصور ہادی کی قانونی حکومت کی بحالی ہے۔حالانکہ سوال یہ بھی اٹھ سکتا ہے کہ سعودی عرب میں عوام کی مرضی کے خلاف بادشاہت چلانااور عوام کی دولت کو اپنے عیش وعشرت کے لئے خرچ کرناکتنا قانونی ہے اور کتنا اسلامی ہے؟

داعش کا تکفیری فرمان

    خلیجی ملکوں میں دہشت گردوں کی جانب سے شیعوں کا قتل، ان کی مساجد پر حملے یا ان کی زیارت گاہوں کو نشانہ بنانا عام بات ہے اور اس کے لئے عام طور پر داعش کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔شیعہ اس کے نشانے پر کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی بہت آسان ہے۔ ادھرجون 2015 کی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق داعش دہشت گرد گروہ نے سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیو پیغام میں شیعہ مسلمانوں کو مشرک اور مرتد قرار دیتے ہوئے ان کے قتل عام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ داعش دہشت گرد گروہ نے اپنے فتنہ انگیز پیغام میں سعودی عرب کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف کاروائی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کو ان کے کفر کے سبب سعودی عرب میں زندگی بسر کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس پیغام میں ابن تیمیہ کے اس دعوے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ شیعہ یہودیوں اور عیسائیوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ داعش کے خلیفہ کے فرمان کے مطابق شیعہ جہاں کہیں بھی ہوں ان کو قتل کر دیا جائے۔

پاکستان میں شیعوں کی نسل کشی

    شیعوں کے قتل اور نسل کشی کے حوالے سے پاکستان ہمیشہ سرخیوں میں رہا ہے۔یہاں حال ہی میں کئی حملے شیعوں پر ہوئے ہیں اور مملکت خداداد میں ان کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سال بھر کے اندر لگ بھگ دوہزار شیعوں کو دہشت گردانہ حملوں میں قتل کیا گیا ہے۔ حالانکہ ماضی میں بھی اس کی روایت رہی ہے۔سال بھر پہلے پاک۔ ایران سرحد کے قریب تفتان میں شیعہ زائرین کو نشانہ بناکر متواتر دو خود کش دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں 24 افراد ہلاک اور متعد زخمی ہوگئے۔ بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی کے مطابق واقعے کی تفصیل یوں ہے کہ شیعہ زائرین کو لے کر دس بسیں ایران سے پاکستان میں داخل ہوئیں۔تو ان بسوں کو دو ہوٹلوں پر پارک کیا گیا، جس کے بعد دھماکے ہوگئے۔ان کے مطابق چار خود کش حملہ آوروں نے زائرین سے بھرے ہوئے دو ہوٹلوں پر حملہ کیا۔جب کہ ایک خود کش حملہ آور کو ہوٹل میں داخل ہونے کی کوشش میں ہلاک کر دیا گیا تھا ۔۱۶اگست ۲۰۱۲ء کو اسلحہ بردار دہشت گردوں نے ایک بس کو مانسہرہ (پاکستان) کے علاقے میں روکا۔ اس میں سے شیعہ مسلمانوں کو اتارا اور انھیں گولی مار دی۔یہ ۲۰۱۲ء میں اگست تک کا اپنی نوعیت کا تیسرا واقعہ تھا۔یہ بس پاکستان کے پہاڑی علاقے گلگت ، جو کہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے، کی طرف جا رہی تھی۔ خبروں کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان نے اس شرمناک حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ ۸ ۲ فروری کو اسی طرح کا قتل عام ہوا تھا جب آرمی کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے کچھ شیعوں کو بسوں سے اتار کر مارا تھا۔اسی طرح ۲۰۱۲ء کے ہی اپریل مہینے میں ایک دہشت گروہ نے شیعہ مسلمانوں کو بیدردی سے چلاس نامی شہر میں قتل کیا تھا۔ 30 دسمبر 2012 کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں شیعہ زائرین کی بسوں کو ایک کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا اور اس دھماکے کے نتیجے میں انیس افراد جاں بحق اور پچیس زخمی ہوگئے ہیں۔مرنے اور زخمی ہونے والے سبھی افراد شیعہ تھے۔ 28 جون 2012 کوپاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں ایران جانے والی زائرین کی بس میں دھماکے سے چھ افراد ہلاک اور پندرہ مسافر زخمی ہو گئے۔یہ سبھی زائرین شیعہ تھے۔ 19 ستمبر 2012 کوپاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شیعہ زائرین کی ایک بس پر بم حملے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور نو زخمی ہو گئے۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق شیعہ زائرین ایران سے واپس کوئٹہ آ رہے تھے کہ ضلع مستونگ میں ان کی بس بم دھماکے کی زد میں آئی۔ اسی سال کوئٹہ میں باچا خان چوک پر دو دوکانوں پر فائرنگ کرکے 4 شیعہ تاجروں کو مارڈالا گیا۔پاکستانی اخباروں نے خبر چھاپی کہ دہشتگرد تنظیم سپاہ صحابہ کے ایک گروپ نے یہ حملہ کیا تھا جو دنیا کے باقی مسلمانوں کو کافر سمجھتا ہے۔اس سے دوہفتہ قبل بھی اس گروہ نے ایک حملے میں ہزارہ شیعہ فرقے کے7 افراد کو مارڈالا تھا۔ان واقعات سے قبل کوئٹہ میں ہی ایک مظاہرے میں تکفیری دہشتگردوں نے شیعہ مسلمانوں کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا اور سیکورٹی اداروں کو بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر شیعوں کا قتل عام روکنے کی کوشش کی تو وہ انہیں بھی قتل کریں گے۔سپاہ صحابہ 1984 میں بنی تھی اور اس کا ایک ہی نعرہ ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور حکومت ان کو کافر قرار دے۔ جب حکومت نے ایسا نہیں کیا تو ان کو چن چن کر مار رہے ہیں۔ 2013کے ابتدائی دو مہینوں میں شیعوں پر ہوئے دو حملوں میں 200 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔اسی سال ۱۰ جنوری کو کوئٹہ میں ہوئے دو دھماکوں میں 115 لوگوں کی موت ہو گئی۔ ان میں سے زیادہ تر ہزارہ شیعہ تھے۔ایک دوسرے واقعے میںایران روڈ پردھماکے میں 89 لوگ مارے گئے۔ یہ سب شیعہ تھے۔ لشکر جھنگوی نامی دہشت گرد تنظیم نے دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کی ۔۱۷ فروری 2013کوپاکستان کے بلوچستان صوبے کے کوئٹہ شہر میں ہوئے دھماکے میں قریب 90 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ سب شیعہ تھے۔شیعہ مسلمانوں کے ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنا کر کیے گئے اس دھماکے میں 160 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ان میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی تھی۔

کیوں نہیں رکتاموت کا یہ کھیل؟

    اوپر ہم نے صرف چند واقعات کا اجمالی ذکر کیا ورنہ شیعوں پر حملوں کی تفصیل دی جائے تو اس کے لئے ایک دفتر کم پڑجائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ حملے کیوں ہورہے ہیں اور پاکستانی حکومت انھیں روکنے میں ناکام کیوں ہے تو اس سلسلے میں پاکستانی صحافی محمد حنیف کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا نہیں کہ یہ روکا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر صرف ایک ادارے کا قصور ہوتا تو اور بات تھی لیکن ساری کی ساری تنظیمیں اور کمیونٹیز میں یہ احساس ہے کہ جو مارے جا رہے ہیں ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔محمد حنیف کہتے ہیں کہ بہتر ہوگا کہ پہلے اپنے گھر میں جھانک لیا جائے۔ ان کے خیال میں نفرتوں کی یہ جنگ پاکستان کی اپنی ہے اور اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا ہے۔ان کے مطابق معاشرے میں بنیاد پرستی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ شدت پسند تنظیموں کا کام آسان ہو رہا ہے۔وہ کہتے ہیں، بار بار ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں لیکن یہ نام بدل کر پھر اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔کئی محلوں میں آپ کو ایسی مساجد مل جائیں گی جہاں شیعہ کافر، شیعہ کافر کے نعرے اٹھتے ہیں۔لوگوں کو اس طرح اکسانا جرم ہے لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ایسا تھانیدار نہیں جو کسی مسجد میں گھس کر یہ بات کہہ سکے یا کسی جلسے کو روک سکے۔

آخر خرابی کہاں ہے؟

    آخر دنیا بھر کے سنی مسلمان، شیعوں کے قتل عام پر خاموش کیوں ہیں؟اس سوال پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل میں یہ خاموشی ہماری بے حسی کی دلیل بھی ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر بھی توتمام مسلمان خاموش ہیں۔ وہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ بدھسٹ دہشت گرد حکومت کی مدد سے کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہماری بے حسی انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ہم اس قسم کے واقعات ہوتے دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔ ہمارے سماج میں دہشت گرد یا ان سے ہمدردی  رکھنے والے ایک فیصد بھی نہیں ہیں مگر باوجود اس کے پورا معاشرہ ان کے آگے مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ اس قسم کے واقعات کو ہم اسلام دشمن امریکہ اور اسرائیل کے سر ڈال کر چھپ بیٹھ رہتے ہیں اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے۔ اسی کے ساتھ کہیں نہ کہیں ہمارے دل میں مسلکی عصبیت بھی ہے جسے مسلسل مذہبی حلقوں کی طرف سے ہوا دیا جاتا ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان ایسا لٹریچر موجود ہے جسے ہم مذہبی سمجھتے ہیں مگریہ مسلکی مجادلوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں، دونوں طبقات میں ایسے کچھ لوگ ہیں جو نفرت انگیز باتوں کو بڑھاوا دیتے ہیں اور ملت کے نوجوانوں کے معصوم ذہنوں کو مسموم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ آج مسلمانوں میں سینکڑوں فرقے بن چکے ہیں اور یہ اس قدر تنگ نظر ہیں کہ اپنے علاوہ ساری دنیا کے کلمہ گو اور اہل قبلہ کو کافر اور لائق گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ مدرسوں کے طریقہ تعلیم میں بھی تنگ نظری سے انکار نہیں کیا جاسکتا جہاں بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ حق صرف ہمارا مسلک ہے اور باقی تمام فرقے گمراہ اور باطل ہیں۔ہم زبان سے یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ اسلام امن کا پیغام ہے اور یہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے مگر اسی کے ساتھ ہمارے تحت الشعور میں کہیں نہ کہیں یہ بات بھی ضرور بیٹھی ہوتی ہے کہ اسلام بدامنی اور تخریب کاری کا مذہب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم کبھی تخریب کاری کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لئے آگے نہیں آتے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم حق وباطل کا فیصلہ اللہ اور یوم آخرت پر چھوڑ دیں اور بردار کشی کا سلسلہ بند کریں نیز جو اس قسم کی تخریب کاریوں میں ملوث ہیں ان کی شدت کے ساتھ مخالفت کریں؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے بچوں کو مسلکی ، مذہبی،علاقائی، عصبیت کی تعلیم دینے کے بجائے ، انسانیت کی تعلیم دیں؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیاجب ہم اس نفرت انگیز لٹریچر پر نظر ثانی کریں جو ہمیں تقسیم کرتا ہے اور بھائی کو بھائی کا دشمن بناتا ہے؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اس قسم کے نفرت انگیز مواد کو بیچ چوراہے پر رکھ کر نذرآتش کردیں اور اعلان کردیں کہ یہ اسلام نہیں،الزام ہے، کیونکہ اسلام تو پیار ، محبت اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 633