donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Is Jinsi Darinde Ko Kabhi Phansi Milegi


کیا اس جنسی درندے کو کبھی پھانسی ملے گی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     وہ درندہ ہے حالانکہ اس کے جسم کی بناوٹ انسانوں جیسی ہے۔ وہ ایسا حیوان ہے جس کی حیوانیت کے آگے جانور کی حیوانیت بھی معمولی لگے۔ وہ ایسا شیطان ہے، جس کے کارناموں سے شیطان بھی شرمندہ ہوجائے۔ جی ہاں! اس کا نام ہے رویندر کمار۔ وہ راجدھانی دہلی کا رہنے والا ہے اور ہمارے مہذب سماج کا ہی حصہ ہے مگر اس کی شیطانی حرکتیں ایسی ہیں کہ ان سے واقف ہونے والا شخص اس سے نفرت کرنے لگے۔ اس نے وحشت اور درندگی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔پولس کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک سنگین کیس آتے ہیں مگر رویندر کی وحشیانہ حرکتوں کو دیکھ کر پولس بھی دنگ ہے۔رویندر کمار یوں تو بس کنڈکٹر تھا مگر ا س کا اصل کام تھا بچوں اور بچیوں کو اغوا کرنا، ان کے ساتھ بدفعلی کرنا اور پھر انھیں قتل کردینا۔ اس نے ایک ٹی وی چینل کے نمائندے سے یہاں تک کہا کہ وہ بعض بچوں اور بچیوں کو قتل کے بعد بھی نہیں بخشتا تھا بلکہ اس کے بعد ان کی لاشوں کے ساتھ بھی بدکاری کرتا تھا۔یہ تمام حرکتیں انجام دینے کے سے پہلے وہ شراب ضرور پیتا تھا اور اس کے بعد وہ مکمل شیطان کا روپ اختیار کرلیتا تھا۔نٹھاری سانحہ کی طرز پر بچوں کے ساتھ آبروریزی کرنے اور ان کے قتل کرنے کے ملزم درندے کو پولیس نے قومی دارالحکومت کے جنوبی دہلی سے گرفتار کرلیا۔پولیس ڈپٹی کمشنر کے مطابق، رویندرسائیکو قسم کا انسان ہے حالانکہ گرفتاری کے وقت اس کی ذہنی حالت نارمل تھی۔انھوں نے کہا اگر ضرورت پڑی تو ہم دماغ میپنگ ٹیسٹ کرائیں گے۔حکام کے مطابق پولیس ،اس طرح کے سات مقدمات میں رویندر کمار کے ملوث ہونے کو ثابت کرنے کے قابل ہے۔اس کے زیادہ تر شکار دہلی کے مضافات جیسے بیگم پور، کنجھاول، سمے پور بادلی، منڈکا اور وجے نگر سے ہیں۔

جب گناہ کا پردہ فاش ہوا

    رویندر کے جرائم کا پردہ فاش تب ہوا ،جب دلی کے بیگم پور علاقے کی جین کالونی سے 14 جولائی کو چھ سال کی ایک بچی اغوا ہو گئی۔ چار دن بعد پولس کو علاقے کی ایک خالی عمارت سے بچی کی لاش ملی۔ بچی کو ریپ کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے جب موقع واردات کی جانچ کی تو پتہ چلا کہ وہاں ایک ڈرائیونگ لائسنس اور کچھ دوسرے دستاویزات ہیں۔ ڈرائیونگ لائسنس سنی کے نام کاتھا، پولیس نے جب سنی کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا وہ ایک ہسپتال میں داخل ہے۔پولیس نے جب سنی سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ کنجھاول علاقے میں کچھ دن پہلے اس کے دوست رویندر نے اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ مل کر سنی کی پٹائی کی تھی اور اس کی موٹر سائیکل، پرس اور روپے چھین لئے تھے۔اسی پرس میں سنی کا ڈرائیونگ لائسنس تھا جو رویندر جان بوجھ کر بیگم پور میں چھوڑ گیا، جس سے بچی کے قتل اور ریپ کا الزام سنی پر لگے۔ سنی سے پوچھ گچھ کی بنیاد پر پولیس ملزم رویندر تک پہنچی۔

وہ اس حیوانیت کا عادی ہے

    پیشے سے بس کنڈکٹر رویندر بدایوںاور علی گڑھ میں کئی وارداتیں انجام دینے کے بعد دہلی آ گیا تھااور پھر اس نے دہلی۔این سی آر میں کئی وارداتوں کو انجام دیا۔ رویندر سے پولیس کی پوچھ گچھ میں جو کچھ سامنے آیا وہ چونکانے والا ہے۔ علی گڑھ کے رہنے والے رویندر نے بتایا کہ وہ 2009 سے اس طرح کی وارداتوں کو انجام دے رہا ہے اور یہ وارداتیں دہلی کے علاوہ ہریانہ اور اترپردیش میں کی گئی ہیں۔وہ چاکلیٹ کے بہانے بچوں کو پاس بلاتا تھا ۔بیرونی دہلی کے ڈی سی پی بکرم جیت سنگھ نے بتایا کہ ملزم نے 15 بچوں کو ٹارگیٹ کیا اور سب کے ساتھ عصمت دری کی۔ اس نے 11 بچوں کے قتل کی بات قبول کی ہے۔ یہ بچوں کو چاکلیٹ یا پیسے دینے کے بہانے بلاتا تھا اور پھر ان کے ساتھ ریپ کرتا تھا پھران کا قتل کر دیتا تھا۔غورطلب ہے کہ یہ سب ابتدائی جانکاری تھی مگر بعد میں پوچھ تاچھ میں ۲۸بچوں کے قتل کا اس نے اعتراف کیا۔آگے ابھی اور بھی انکشافات کی امید کی جارہی ہے۔پچھلی وارداتوں میں اس نے کوئی ثبوت نہیں چھوڑا تھا مگر بیگم پور کی بچی کا قتل اس کے لئے آخری ثابت ہوا۔ملزم دماغی طور پر ٹھیک ہے، لیکن وہ نشے کا عادی ہے۔ اس کے گناہوں میں کسی دوسرے کے شامل ہونے کی بات سامنے نہیں آئی۔ پولیس کی پوچھ گچھ میں اس شخص نے جو انکشاف کیا ہے، اس سے پولیس کے بھی ہوش اڑ گئے ہیں۔ رویندر نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔اس نے پولس کو بتایا ہے کہ کئی معاملے پولیس تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ پولیس رویندر کے دعووں کی تحقیقات کر رہی ہے۔پولس کے مطابق رویندر زیادہ تر 4-5 سال کی بچیوں اور بچوں کو نشانہ بناتا تھا۔ ملزم نے بتایا کہ کچھ بچیاں ریپ کے بعد ہلاک ہو جاتی تھیں اور جن کی موت نہیں ہوتی تھی ان بچیوں کووہ گلا دبا کر مار دیتا تھا۔ اس کے بعد وہ ان کی لاش کو نالے میں پھینک دیتا یا ان کو جلا دیتاتھا۔وہ پہلے بھی جیل جاچکا ہے اور کچھ دن پہلے ہی جیل سے باہر آیا تھا۔گزشتہ سال بیگم پور میں ہی ایک معمولی لڑکے پر حملہ کرنے کے الزام میں پولیس نے روندر کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 24 سال کا روندر نشے کا عادی ہے اور غیر شادی شدہ ہے۔

جنسی درندہ

    بچوں کے قتل کے کیس میں گرفتار روندر کمار کے بارے میں چونکانے والاانکشاف یہ ہوا ہے۔ سیکس کی بھوک کی وجہ سے رویندر حیوان بن گیا تھا۔ وہ قتل کے بعد لاشوں سے جنسی تعلق قائم کرتا تھا۔ گزشتہ سات سالوں سے وہ ایسا کر رہا تھا۔دہلی پولیس کے مطابق روندر کی ذہنی حالت اس مریض کی سی ہے جس میں مردوں کے ساتھ سیکس کرنے کی چاہت پائی جاتی ہے۔

 دوست ذمہ دار؟

    روندر نے بتایا کہ اس کے گناہوں کے لئے اس کے دوست ذمہ دار ہیں، جو اسے پورن فلمز دکھاتے تھے اور شراب پلاتے تھے۔ایک  پولیس افسر نے بتایا کہ کورٹ لے جاتے وقت میڈیا سے مختصر بات چیت کے دوران اس کی ذہنی حالت مستحکم لگ رہی تھی۔ رویندر نے بتایا کہ کرائم کرنے کے بعدنہ پکڑے جانے کی وجہ سے وہ مسلسل بچوں کو اپنا شکار بناتا رہا۔

  پہلا جرم

    رویندرکمار کی پیدائش 1992 میں یوپی کے بدایوں ضلع کے گجدوارے گاؤں میں غریب خاندان میں ہوئی تھی۔ اس کے والد پلمبر کا کام کرتے تھے۔وہ علی گڑھ میں رہ چکا ہے اور 2007 میں اس کا خاندان دہلی کے مضافات کرالا میں آکر بس گیا کیونکہ گاؤں میں چھ ارکان کے خاندان کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا تھا۔پولیس کے مطابق روندر نے پہلا جرم 2008 میں کیا تھا، اگرچہ وہ کرائم رپورٹ نہیں ہوا تھا۔

تین سے آٹھ سال کے بچوں کو بناتا شکار

    ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ، ایسا لگتا ہے کہ روندر کمار جنسی مریض ہے۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ جب بھی سیکس کی خواہش بیدار ہوتی تو وہ تین سے آٹھ سال کے بچوں کی تلاش کرتا۔بچہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ بچوں کو اس وقت اپنا شکار بناتا جب وہ اکیلے کھیل رہے ہوتے۔سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ رویندر سیکس ورکرز سے جنسی اطمینان حاصل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔

غریب خاندانوں پر نشانہ

    پولس افسر نے بتایا کہ کمار اکثر غریب اور ناخواندہ خاندانوں کے بچوں کو اپنا شکار بناتا تھا، جنہیں یہ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ شکایت کس طرح درج کروائے۔ بعض صورتوں میں شرم اور بدلے کے خوف سے کئی خاندان پولس میں شکایت درج کرائے بغیر دوسری جگہوں پر چلے گئے۔ پولیس ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہم رویندر کو ان تمام جگہوں پر لے جائیں گے جہاں اس نے اپنی گھناؤنی حرکتوں کو انجام دیا تھا۔

شیطان کو کوئی پچھتاوا نہیں

    درجنوں چھوٹے بچوں اور بچیوں کا ریپ اور قتل کرنے والے 24 سال کے روندر کمار کو اپنے کئے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ پولیس کی طرف سے گرفتار کئے جانے کے بعد میڈیا سے اس نے کہا کہ اس نے جو کچھ کیا، شراب کے نشے میں کیا اور اگر وہ پکڑا نہیں جاتا تو وہ بچوں کو نشانہ بنانا جاری رکھتا۔ اس نے کہا، میں شراب پی کر یہ جرم کیا کرتا تھا ۔ مجھے برا تو لگتا تھا لیکن میں جب بھی دوبارہ پیتا، م یہی سب پھر سے کرتا۔ وہ دہلی کے کرالا علاقے کا رہنے والا ہے۔اسے اپنے جرم کی سنگینی کا احساس ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ باپ ہوتا اور اس کے بچے کے ساتھ ایسا ہی ہوتا جیسا اس نے دوسروں کے بچوں کے ساتھ کیا ہے تو وہ بھی قاتل کے لئے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کرتا۔

کون ہے ذمہ دار؟

    زانی اور قاتل رویندر کمار ایک نارمل انسان لگتا ہے اور شکل وصورت سے عام آدمی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اسے دیکھ کر کہیں سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ ایک عادی مجرم ہے۔اسی لئے بچوں کی گمشدگی پر کسی نے اس پر شک بھی کیا تھا۔اس کی پوری کہانی میں شراب اور پورن فلموں کا اہم کردار نظر آتا ہے جو آج ہمارے معاشرے میں بہت عام ہیں۔ ہم اس معاملے میں حکومت ، انتظامیہ اور پولس کو بھی بے قصور نہیں ٹھہراسکتے جو وی آئی پی افراد کی خدمت میں پولس فورس لگادیتی ہے مگر عام لوگوں کی شکایتوں پر دھیان نہیں دیتی ہیں۔ بھارت میں ہر روز بے شمار بچے غائب ہوجاتے ہیں اور راجدھانی دلی میں تو یہ بات اور بھی عام ہے مگر سپریم کورٹ کے سخت احکام کے باوجود ان بچوں کی تلاش نہیں ہوئی ہے۔ پولس یہ مان لیتی ہے وہ بچے گھر سے بھاگ گئے ہوں گے، واپس آجائیں گے مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 603