donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Modi - Mulayam Me Khufia Samjhauta Hai


کیا مودی۔ملائم کے بیچ خفیہ سمجھوتہ ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ملائم سنگھ یادو نے بہار میں سیکولر اتحاد سے الگ ہونے کا علان کردیا ہے ۔ اب ان کی پارٹی تنہا الیکشن لڑے گی اور خود خواہ ایک سیٹ بھی نہ جیت پائے مگر درجنوں سیٹوں پر سیکولر اتحاد کو شکست دلا کر بی جے پی کی جیت کی راہ ہموار کرے گی۔اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا ملائم سنگھ یادو اور نریندر مودی کے درمیان کوئی ڈیل ہوئی ہے؟ کیا سماج وادی پارٹی کا بی جے پی کے ساتھ کوئی خفیہ سمجھوتہ ہے؟ بہار میں جہاں ملائم سنگھ یادو ایک سیٹ بھی جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں وہاں پانچ سیٹوں کا آفر ٹھکراکر بی جے پی کی جیت کے لئے کام کیوں کر رہے ہیں؟ کیا اس کے عوض میں ا ن کے پیچھے لگی سی بی آئی کو مودی روکے رکھیں گے؟ بی جے پی کے ساتھ خفیہ ڈیل کی بات اس لئے بھی سامنے آرہی ہے کہ میڈیا کی خبروں کے مطابق ابھی چند دن قبل بی جے پی صدر امت شاہ اور ملائم سنگھ یادو کے بھائی رام گوپال یادو کی ملاقات ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ملاقات میں یہی طے پایا کہ بہار ملائم سنگھ اپنے امیدوار اتار کر لالو ور نتیش کوہرائیںگے اور بی جے پی کے لئے میدان صاف کرینگے؟ ویسے ان کی پرانی روایت بھی کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔انھوں نے حال ہی میں پارلیمنٹ کے اندر بھی مودی سرکار کی مدد کی ہے۔  ملائم سنگھ یادو نے اپنی ماضی کی روایتوں کے مطابق مرکزی سرکار کے لئے وردان ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ مودی سرکار کو پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن پارٹیوں نے گھیر رکھا تھاملائم سنگھ یادو کی قلابازی کے سبب اسے راحت مل گئی۔ آج سیاسی گلیاروں میں اس کے بہت سے مطلب نکالے جارہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ملائم سنگھ یادو نے مودی سرکار کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ کر لیا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ اگلے چار سال تک وہ مودی سرکار کے لئے راحت رسانی کا کام کرتے رہیں گے کیونکہ ماضی میں بھی وہ برسراقتدار جماعت کے ساتھ رہے ہیں اور اس کی قیمت وصول کرتے رہے ہیں۔ سابق وزیر بینی پرساد ورما تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ملائم سنگھ نے کانگریس سرکار کو حمایت کے بدلے میں پیسے لئے تھے۔کسی کی زبان پر یہ الزام ہے کہ ۲۰۱۶ء میں ہونے والے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں ان کا بی جے پی کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ ہوگیا ہے اور بی جے پی کی کوشش ہوگی کہ بی ایس پی کو نقصان پہنچائے جب کہ ملائم سنگھ یادو کی پارٹی مسلمان ووٹوں کو لام بند کرکے بی جے پی کے لئے ہندوووٹوں کو متحد کرے گی۔ ظاہر ہے اس قسم کی خبروں کی تصدیق نہیں کی جاسکتی مگر جو کچھ کہا جارہا ہے وہ ’’زبان خلق‘‘کی آواز ہے جو پوری طرح بے بنیاد بھی نہیں ہوسکتی۔

ملائم کی قلابازی بے سبب نہیں

    سماج وادی پارٹی سربراہ ملائم سنگھ یادو کا پارلیمنٹ میں یو ٹرن سیاسی مجبوری کے تحت ہو سکتا ہے، لیکن پلٹی کھانے کی ان کی پرانی تاریخ ہے۔جس وقت للت گیٹ اور ویاپم کے مسئلے پر اپوزیشن نے مرکزی سرکار کو گھیر رکھا تھا۔ مرکز نے اپوزیشن کے اتحاد کو توڑنے کی کئی کوششیں کیں اور کل جماعتی مٹینگ بھی بے نتیجہ رہی۔ اپوزیشن نے جیسے تیور دکھائے تھے، اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ مانسون اجلاس میں کام کاج کر پانا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج کے استعفیٰ کی قیاس آرائیاںبھی ہورہی تھیں،ایسے میں سب سے کمزور کڑی ملائم سنگھ یادو ہی ثابت ہوئے۔نریندر مودی نے اسی کڑی کو توڑنے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے۔ملائم سنگھ، خاتون بتا کر سشما سوراج کو پہلے ہی کلین چٹ دے چکے تھے۔اس کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں ہو رہے احتجاجی مظاہروں کو نامناسب بتا کر کانگریس کو الگ تھلگ کر دیا۔ ملائم نے ایوان کو چلانے کی وکالت کر مودی سرکار کو راحت دی اور وزیر اعظم مودی کی تعریف بھی بٹور لی۔ملائم سنگھ کی اس پلٹی کا سیاسی حساب کتاب لگایا جارہا ہے۔ویسے ان کے یوٹرن کی ایک لمبی تاریخ ہے اور اس کے پیچھے کچھ اسباب بھی رہے ہیں۔

ملائم کی قلابازیوں کی تاریخ

    ملائم سنگھ یادو،اس وقت جس طرح سے مودی سرکار کے لئے آسانیاں فراہم کر رہے ہیں، اسی طرح گزشتہ لوک سبھا میں یو پی اے حکومت کے لئے بھی راحت کا سامان رہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 2012 کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے یو پی اے حکومت سے الگ ہوکر اپنا صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کا اشارہ دیاتھا۔ کانگریس سے خفا ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی نے بھی ان کا ہاتھ تھام لیاتھا۔ممتا صدارتی انتخابات کے لئے حکمت عملی طے کرنے کے لئے دہلی آئیںمگر ملائم سنگھ یادو نے انہیںجوپانچ ہزار وولٹ کا سیاسی جھٹکا لگایا ، وہ ممتا شاید زندگی بھر نہ بھول پائیں۔سماج وادی پارٹی کے سربراہ نے ممتا بنرجی کے ساتھ ملاقات کر کے صدر کے عہدے کے ممکنہ امیدواروں کے طور پر سابق لوک سبھا اسپیکر سومناتھ چٹرجی اور سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے نام طے کئے۔ ملائم-ممتا کے اتحاد سے دہلی کی سیاست میں حرارات آگئی۔ اسی دوران ملائم نے قلابازی دکھائی اور ممتا بنرجی کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر تے ہوئے کانگریس کے امیدوار کی حمایت میں آ گئے۔ ملائم نے 2008 میں بائیں محاذ کو بھی اپنی قلابازی کا ذائقہ چکھایا تھا۔ بائیں پارٹیاں، بی جے پی، سماج وادی پارٹی سمیت کئی جماعتیں بھارت امریکہ جوہری معاہدے کے خلاف تھیں۔بائیں بازو کی جماعتوں کے بیرونی تعاون سے ہی یو پی اے حکومت ٹکی ہوئی تھی۔ معاہدے کو روکنے کے لئے بائیں محاذ کی پارٹیاں، یو پی اے حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تجویز لے کر آئیں۔ ملائم سنگھ یادو آغاز میں بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ رہے مگر لوک سبھا میں پلٹ گئے اور حکومت بچ گئی۔

    بائیں محاذ کو ملائم نے 2002 میں بھی مات دیا تھا۔تیسرے مورچہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ملائم نے بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے طے کئے گئے صدارتی امیدوار کی حمایت کی یقین دہانی کرائی لیکن آخری وقت میں انہوں نے بائیں بازو کی جماعتوں کی امیدوار کیپٹن لکشمی سہگل کے بجائے قومی جمہوری اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی حمایت کر دی۔ ویسے کلام کا صدرکے امیدوار کے طور پر نام ملائم نے ہی تجویز کیا تھا۔ملائم نے اپنی پلٹی کھانے والی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس بار مودی سرکار کو راحت دی۔مانسون اجلاس میں کانگریس کو الگ تھلگ کرنے اور اپوزیشن اتحاد میں دراڑ لانے کی حکومت کی کوشش سماج وادی پارٹی کے ذریعہ آخر کار کامیاب ہو گئی۔انھوںنے پہلے لوک سبھا میں تو بعد میں اسپیکر کی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں پارلیمنٹ نہیں چلنے دینے کو لے کر کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیا۔اجلاس میں انہوں نے ایوان چلانے میں رضامندی ظاہر کرتے ہوئے یہ کہہ کر کانگریس کو سکتے میں ڈال دیا کہ ایوان میں مسلسل ہنگامے کا کوئی جواز نہیں ہے۔سماج وادی پارٹی کے سربراہ کے موقف کی آر جے ڈی اورجے ڈی یونے بھی حمایت کی۔ جبکہ ترنمول کانگریس نے کارروائی چلانے پر اتفاق کے ساتھ ہی للت گیٹ اور ویاپم گھوٹالے پر جاری تعطل کے معاملے میں حکومت کے سامنے درمیان کا راستہ نکالنے کی شرط رکھ دی۔مودی سرکار بس اس لئے خوش ہے کہ اس نے ملائم سنگھ کے ذریعے اپوزیشن اتحاد کو توڑ دیا ۔

اجیت سنگھ کی نظر میں سب سے بڑا بے ایمان

     ملائم سنگھ یادو نے اب تک جب جب قلابازیاں کھائی ہیں ،وہ بے سبب نہیں کھائیں بلکہ اس کی بھرپور قیمت وصول کی ہے۔ ان کی حمایت سے دس سال تک یوپی اے سرکار چلتی رہی ہے۔ جب جب سرکار کے سامنے مشکل وقت آتا ملائم سنگھ یادو ا س کے ساتھ کھڑے نظر آتے۔ اس دوران ان کا پورا خاندان آمدنی سے زیادہ دولت رکھنے کے الزام میں جاری سی بی آئی تفتیش میں بچتا رہا۔ کیا یہ کم بڑی قیمت تھی؟ راشٹریہ لوک دل پارٹی کے قومی صدر چودھری اجیت سنگھ نے یوپی کی سماج وادی پارٹی حکومت کو حال ہی میںسب سے بڑی بے ایمان بتایا ہے۔ چودھری اجیت سنگھ نے کہا کہ اس وقت ریاست میں سب سے بدعنوان وزیر اعلی بیٹھا ہے۔ بغیر پیسے لئے کوئی کام یہاں نہیں ہوتا ہے۔ یہ باتیں انہوں نے میرٹھ میں اپنی پارٹی کی کسان،مزدور کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی۔چودھری اجیت سنگھ نے کہا کہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ دونوں ہی عوام کو بیوقوف بنا کر کرسی پر بیٹھے ہیں۔ فی الحال پردیش میں جو لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال ہے، اس کی وجہ سے کوئی صنعت کار یہاں صنعت لگانے کو تیار نہیں ہے۔ سرکاری نوکری میں ایک مخصوص ذات اور تین اضلاع کے نوجوانوں کو ہی موقع دیا جا رہا ہے۔ایسے میں دوسری ذات برادری کے نوجوانوں کو کیسے روزگار ملے گا؟ ملائم کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ریاست میں جتنے بھی انتخاب کمیشن ہیں، سب میں اپنی ذات کے آدمی بیٹھا دیے ہیں۔ ریاست میں جرائم رک نہیں رہے ہیں اور کرپشن عروج پر ہے۔اسی لیے وہ اتر پردیش کو الٹا پردیش کہتے ہیں۔اجیت نے کہا،کہ یادو سنگھ جیسے بدعنوان افسروں کو سی بی آئی جانچ سے بچانے کے لئے ملائم سنگھ سپریم کورٹ میں پیروی کرنے جا رہے ہیں۔

مودی ۔ملائم اتحاد؟

    یادو سنگھ نوئیڈا کا سابق چیف انجینئر ہے جو کہ ایک معمولی غریب گھرانے سے تھا مگر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے نیتائوں سے اس کے قریبی تعلقات رہے ہیں اور اس نے نوئیڈا میں زبردست لوٹ مچائی۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے اعلیٰ نیتائوں تک یہاں سے لوٹ کے پیسے جاتے رہے ہیں۔ ان دنوں اس کی بدعنوانی کی جانچ سی بی آئی کر رہی ہے۔ سیاسی گلیاروں میں خبر گرم ہے کہ اگر ٹھیک طریقے سے جانچ ہوئی تو ملائم سنگھ یادو ، وزیر اعلیٰ اکھلیش یادواور ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی اس کی آنچ سے نہیں بچ پائیں گے۔ اجیت سنگھ نے یادو سنگھ کی پیروی کا الزام لگایا ہے اس کا سبب یہی ہے۔ اجیت سنگھ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ملائم پریوار کے ۲۲ افراد ہی پورے یوپی پر قابض ہیں۔ ظاہر کہ سی بی آئی اب مودی سرکار کا طوطا ہے۔

    ملائم سنگھ یادو کی قلابازی کے سلسلے میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ انھوں نے مودی سرکار سے خفیہ سمجھوتہ کرلیا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ یوپی میں عوام کا رجحان اب دھیرے دھیرے بی ایس پی کی طرف ہورہا ہے ۔ ایسے میں مایاوتی کو مات دینے کے لئے بی جے پی کی خفیہ حمایت کی ضرورت ہے۔ ملائم سنگھ یادو کو اب مسلمانوں پر بھروسہ نہیں رہا کیونکہ ان سے کئے ہوئے وعدے سرکار نے پورے نہیں کئے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی ناراضگی انھیں جھیلنی پڑسکتی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے ساتھ ساز باز سے کم از کم ہندوووٹ تو پکے کئے ہی جاسکتے ہیں۔ملائم سنگھ کی جیت میں ہمیشہ مسلم ووٹ اہم کردار نبھاتا رہا ہے جب کہ یادو کم تعداد میں ہیں اور ان دنوں ان کا رجحان بھی بی جے پی کی طرف ہورہا ہے۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں انھوں نے بی جے پی کی کھل کر حمایت کی تھی۔ اس ووٹ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سماج وادی پارٹی خود کو ہندو نواز ظاہر کرے۔ اسی لئے اب اعظم خاں کو بھی حاشیئے پر ڈالا جارہا ہے۔ انھوں نے جو یعقوب کی پھانسی کی حمایت کی وہ بے سبب نہیں تھی۔   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 511