donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Modi Sarkar Musalmano Me Phoot Dalna Chahti Hai


سنگھ پریوار کی چھترچھایا میں انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کی تیاریاں


کیا مودی سرکار مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا چاہتی ہے؟


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    وزیراعظم نریندر مودی تصوف کو بھی سیاست زدہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا سنگھ پریوار صوفی ازم کے بہانے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے؟آخر انھیں ان صوفیوں پر پیار کیوں آنے لگا ہے جن کے بارے میں وہ ہمیشہ سے منفی رویہ رکھتا ہے؟آخر مودی سرکار کی چھترچھایا میں چار روزہ انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کی تیاریاں کس مقصد سے چل رہی ہیں؟ اس کانفرنس سے بی جے پی، سنگھ پریوار اور مودی سرکار کیا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں؟ اس قسم کے سوال ان سبھی لوگوں کے ذہن میں اٹھتے ہیں جو یہ سنتے ہیں کہ مودی سرکار کی چھتر چھایا میں ایک عظیم الشان انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کی تیاریاں چل رہی ہیں اور حکومت ہی نہیں بلکہ بی جے پی اور آرایس ایس کی طرف سے بھی اسے حمایت مل رہی ہے۔ سنگھ پریوار کا تصوف اور اہل تصوف سے پیار ویسے ہی ہے جیسے شیطان آیت الکرسی کی فضیلت بیان کرے۔مسلمانوں کے چند چہرے اگرچہ سامنے رکھے گئے ہیں مگر پورا سنگھ پریوار اس کی کامیابی کے لئے کوشاں ہے۔ 17-20مارچ کے دوران ہونے والی اس کانفرنس کے لئے راجدھانی دلی میںوگیان بھون، انڈیااسلامک سنٹر اور رام لیلامیدان کی بکنگ ہوچکی ہے۔ دنیا کے لگ بھگ 40ممالک سے مہمانوں کو بلایا جارہاہے جن کے قیام کے لئے دلی کے بڑے بڑے ہوٹلوں کو بک کیا جارہاہے۔ اطلاعات کے مطابق ہندوستان بھر کی لگ بھگ600درگاہوں کے سجادہ نشینوں، متولیوں اور ذمہ داروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیںسینکڑوں دینی مدرسوں کے اساتذہ،علماء ا ورطلبہ کو بھی جمع کیا جارہاہے۔ کوشش ہے کہ اس کانفرنس میں لاکھوں کی تعداد میں عام مسلمان بھی جمع ہوں۔یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگوں کو اس سچائی سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے کہ کانفرنس کے پس پشت مودی سرکار ہے ۔ یوں تو اس بظاہرکانفرنس کا انعقاد آل انڈیاعلماء ومشائخ بورڈ نامی تنظیم کر رہی ہے مگر اس کی نگرانی پر خود وزیر اعظم نریندر مودی کی نظر ہے اور اس کے انتظامات کی ذمہ داری انھوں نے انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کے سابق ڈائرکٹر ا ٓصف ابراہیم کو سونپ رکھی ہے۔آصف ابراہیم وزیر اعظم کے مشیروں میں شامل ہیں۔ حالانکہ کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں مولانا سیدمحمداشرف کچھوچھوی کا چہرہ سامنے رکھاگیا ہے جو کہ علماء ومشائخ بورڈ کے صدر ہیں اور ماضی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ایک وفد کے ساتھ ملاقات کر چکے ہیں جس کی خبر میڈیا میں بھی آئی تھی۔

علماء مشائخ کے سرپروزیراعظم کا ہاتھ

    اس انٹرنیشنل کانفرنس کے پس پشت مودی سرکارہے، یہ حقیقت اب کھل چکی ہے اور اسے قبول کرنے سے مولانا محمد اشرف کچھوچھوی کو بھی انکار نہیں ہے۔ پچھلے دنوں انگریزی میگزین’’ آئوٹ لُک‘‘میں ایک اسٹوری شائع ہوئی ہے جسے انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے مانا ہے کہ ان کی اس کانفرنس کو مودی سرکار کی حمایت حاصل ہے۔وہ یہ بھی قبول کرتے ہیں کی کانفرنس کی نگرانی وزیر اعظم کے قریبی آصف ابراہیم کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس کانفرنس کا افتتاح خود وزیراعظم نریندر مودی 17مارچ کو وگیان بھون میں کریںگے۔ یہ جانکاری بھی ملی ہے کہ اس کی تیاریوں پر اب تک 50لاکھ سے زیادہ روپئے خرچ کئے جاچکے ہیں جب کہ کل بجٹ کروڑوں میں ہے۔ کانفرنس میں شمولیت کے لئے صرف سنی بریلوی مسلمانوں کو ہی بلایا جارہاہے۔ان میں ابتدائی طور پر کانفرنس کو کامیاب بنانے کے تعلق سے جوش وخروش پایا جاتا تھا مگر جیسے جیسے لوگوں کو پتہ چل رہاہے کہ کانفرنس کے پیچھے مودی سرکار ہے تو اب لوگ کنی کاٹنے لگے ہیں۔ درگاہ خواجہ معین الدین چشتی (اجمیرشریف) کے دیوان سید زین العابدین علی خاں نے اس کانفرنس میں شرکت سے منع کردیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ’’یہ صوفی کانفرنس نہیں بلکہ سیاسی کانفرنس ہے اور یہ اتحاد کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو تقسیم کرنے کے لئے ہورہی ہے۔‘‘ اسی طرح درگاہ حضرت سلیم چشتی (فتح پوری سکری) کے سجادہ نشیں پیرزادہ رئیس میاں چشتی بھی اس میں شریک نہیں ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری اسپانسرڈپروگرام میں شریک نہیں ہوتے۔علاوہ ازیں دیگر کئی معروف درگاہوں کے سجادہ نشیں اور علماء اس کانفرنس میں شرکت سے گریز کر رہے ہیں۔حالانکہ باوجود اس کے کانفرنس کی تیاریاں زوروں پر ہیں اور بہت سے لوگ دن رات کانفرنس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ اس بیچ اندر کی خبر یہ بھی ہے کہ پیسے کے لین دین میں گڑبڑی کے سبب اندرون خانہ اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔جنھیں پیسے نہیں ملے ہیں اب وہ اس کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔

صوفیوں کے نام پر سیاسی کھیل

    پچھلے دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی کئی تقریروں میں تصوف کی تعریف کی اور کہا کہ صوفی اسلام تشدد کے خلاف ہے۔ انھوں نے اس موضوع پرپہلے ’’من کی بات‘‘ عنوان سے ریڈیو پرخطاب میں گفتگو کی جب کہ اس کے بعد انھوں نے لندن میں بھی اسی قسم کابیان دیا تھا۔ اگرمودی جی کو واقعی تصوف پسند آگیا تھاتو وہ اس کی اشاعت کے لئے کئی اہم کام کرسکتے تھے۔ مثلاً اسے اسکولوں کے نصاب تعلیم میں شامل کرتے، اس پر ریسرچ کے لئے یونیورسٹی قائم کرتے، وزارت ثقافت کی طرف سے اس موضوع پر سیمنار کرنے کے لئے فنڈ جاری کرتے،اس کی اشاعت کے لئے کوئی خاص محکمہ قائم کرتے اور فنڈمخصوص کرتے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے سیاسی استحصال کا راستہ اپنایا اور سادہ لوح مسلمانوں کو پھنسانے کے لئے داڑھی، ٹوپی والوں اور درگاہوں سے جڑے ہوئے لوگوں کو ہائر کیا جسے کسی بھی طرح مناسب نہیں کہا جاسکتا۔ کیا وہ اس کانفرنس کے ذریعے سیاست کے اسی راستے پر نہیں جارہے ہیں جس کے لئے وہ کانگریس کو کوستے رہے ہیں؟مگر انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کا کھیل محض اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت آگے کا ہے اور اس کھیل کوعام مسلمان بھی سمجھنے لگے ہیں۔اصل معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر مسلکی تقسیم کوئی نئی بات نہیں ہے مگر اب سنگھ پریوار کا کھیل یہ ہے کہ اس تقسیم کو مزید گہرائی دیں۔ اس کانفرنس کے لئے صرف سنی بریلوی مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جارہاہے۔یہ طبقہ ملک میں سب سے بڑا ہے۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو خود کو بریلوی کہے یا نہ کہے مگر درگاہوں پر جاتا ہے اور صوفیہ وبرگان دین سے عقیدت رکھتا ہے لہٰذا اس طبقے کی اسی عقیدت کا استحصال کرکے اسے دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ مسلمانوں سے الگ کرنے کا پلان ہے۔دلی اور بہار کے ودھان سبھا الیکشن میں سبھی طبقے کے مسلمانوں نے پوری شدت کے ساتھ بھاجپا کی مخالفت کی تھی جسکے نتیجے میں اسے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا،اب سنگھ پریوار کا کھیل یہ ہے کہ بریلوی مسلمانوں کو عام مسلمانوں سے الگ کرایا جائے تاکہ اس کا سیاسی فائدہ بی جے پی کو آئندہ چند مہینوں کے اندر ہونے والے پانچ ریاستوں کے انتخابات میںمل سکے۔ حالانکہ جو مسائل دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کے ہیں وہی بریلوی مسلمانوں کے بھی ہیں۔جس طرح سے عام مسلمان سنگھ پریوار سے نفرت کرتا ہے، اسی طرح بریلوی مسلمان بھی اس سے نفرت کرتا ہے اور اسے مسلمانوں کا دشمن سمجھتا ہے۔ گجرات کے دنگوں میں مسلمانوں کا مسلک پوچھ کر قتل نہیں کیا گیا تھا۔نریندر مود ی کے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے جن بے گناہوں کو فرضی انکائونٹر میں مارا گیا تھا،ان سے مسلک نہیں دریافت کیا گیا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کے خاتمے سے جو نقصان ہوگا وہ کسی ایک طبقے کے مسلمان کا نہیں ہوگا۔قابل توجہ پہلو ہے کہ نریندر مودی ایک طرف مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر حملہ کرکے ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑدینا چاہتے ہیں جب کہ دوسری طرف انھیں اچانک تصوف سے ہمدردی ہوگئی ہے۔ اگر انھیں تصوف اچھا لگتا ہے تو سب سے پہلے اپنی راج گدی کو تیاگ دیں اور پھر اس کی بنیادی تعلیمات یعنی توحید، توکل،تقویٰ اور تزکیہ نفس کو قبول کرلیں مگر اس پر سیاست کا کیا مطلب ہے۔یہاں ایک واقعے کا ذکربرمحل ہوگا کہ بابری مسجد کو شہید کرانے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا رائو نے کچھ بریلوی مولویوں کو پکڑا تھا اور وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی تھی جو آج نریندر مودی کھیل رہے ہیں ۔ رائو نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کوخوش کرنے کے مقصد سے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے نام پر ڈاک ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان کیا۔ اس مقصد سے بریلی درگاہ اعلیٰ حضرت پر وہ پہنچنے والے تھے جس کی خبرعام ہوگئی۔ خبر کے عام ہوتے ہی یہاں کے مسلمانوں نے درگاہ کو گھیرلیا اور اس وقت تک لاحول ولاقوۃ کا ورد کرتے رہے جب تک کہ نرسمہارائو کے بریلی چھوڑنے کی خبر نہ آگئی۔ واضح ہوکہ نرسمہارائو نے کانپور پہنچ کر وہ ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔ اس واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ مولویوں کے سرکار کے ہاتھ پر بک جانے سے عام مسلمانوں کی سوچ پر کوئی فرق نہیں آتا۔ آج قوم اس قدر بیوقوف نہیں ہے کہ چند جبہ ودستار والے اسے جس جانب چاہیں ہانک دیں۔

سنگھ پریوار کو صوفیہ سے محبت کیوں؟

    اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفیہ کرام کی تعلیمات پیار ومحبت کا درس دیتی ہیں اور انسان کو انسان کا بھائی بناتی ہیں مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ سنگھ پریوار صوفیہ کے بھی خلاف رہاہے۔ اس کا ماننا ہے کہ ان صوفیوں نے ہندوستان میں اسلام کا چراغ روشن کیا اور ہندووں کو مسلمان بنایا۔ اگر یہ صوفی نہ ہوتے تو کشمیر کی اکثریت مسلمان نہ ہوتی۔ وشو ہندو پریشدکی طرف سے کہا جاتا رہاہے کہ درگاہ خواجہ معین الدین چشتی، درگاہ حاجی ملنگ سمیت ہندوستان کی سینکڑوں درگاہیں مندروں کوتوڑ کر بنائی گئی ہیں۔ وزیر اعظم بھی اسی سنگھ پریوار سے تعلق رکھتے ہیں اور آرایس ایس کے پرچارک رہ چکے ہیں،اب ایسے میں اگر انھیں صوفیہ سے اچانک ہمدردی ہونے لگی ہے تو شکوک وشبہات کا پید اہونا لازمی ہے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 541