donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Quran Kareem Ki Aayat Jehad Musalmano Ko Dahshat Gardi Par Uksati Hain


کیا قرآ ن کریم کی آیات جہاد مسلمانوں کو

 

دہشت گردی پر اکساتی ہیں؟


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


مغربی ممالک میں اکثر وبیشتر قرآن کریم کی آیات جہاد پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ انھیں کے سبب مسلمانوں کا ایک طبقہ دہشت گردی کی طرف مائل ہوتا ہے۔خود مسلمانوں کے اندر بھی کچھ مغرب زدہ دانشور اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ آخر اس تعلق سے سچائی کیا ہے؟

اسلام کا فریضۂ جہاد دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہے؟ کیا قرآن کریم کے احکام کے سبب دنیا میں تشدد بڑھ رہا ہے؟ کیا قرآن کی وہ ۲۴آیات جن میں جہاد کا حکم ہے،مسلمانوں کے اندر بڑھتے ہوئے خلفشار کے لئے ذمہ دار ہیں؟ اس وقت مسلم دنیا میں خاص طور پربدامنی ہے۔ عرب سے عجم تک اور مشرق سے مغرب تک جہاں جہاں مسلمان زیادہ تعداد میںآباد ہیں،وہاں بدامنی بھی ہے۔ مسلمانوں کی شبیہ ان دنوں ایسی قوم کی بن گئی ہے جس کا تصور ہی دہشت گردی اور تشدد کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایشیا سے یوروپ تک ہوائی اڈوں پر خاص طور پر مسلمانوں کی جانچ پڑتال ہوتی ہے اور وہ دنیا کے جن ممالک میں رہتے سہتے ہیں، وہاں ان پر حکومت کی جانب سے خصوصی نظر رکھی جاتی ہے۔ دوسری اقوام کے افراد، مسلمانوں کو شک وشبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان اگر کسی علاقے میں رہتے ہیں تو وہاں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف کوئی نہ کوئی سازش ضرور رچ رہے ہونگے، کیونکہ جہاد مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے اور قرآن کریم میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔اس سوچ کے پیچھے موجودہ دور کے سیاسی حالات بھی ہیں جن سے مسلمان دوچار ہیں اور کہیں اپنی غلط فہمیوں تو کہیں سازشوں کے سبب ان کا ایک طبقہ تشدد کے واقعات میں ملوث نظر آتا ہے۔ میڈیا نے بھی جہاد کا خوب ہوّا کھڑا کیا ہے اور اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اسی کے ساتھ ہم اس سچائی کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ قرآن وحدیث اور اسلامی احکام کی غلط تشریح کرکے نہ صرف مسلم نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے بلکہ دنیا کو موقع بھی فراہم کر رہا ہے کہ وہ مسلمان اور اسلام کو شک کی نظر سے دیکھے۔

قرآن کی وہ آیات جنھیں قرآن سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے

قرآن کریم نے حکم جہاد ضرور دیا ہے مگر اس کا مقصد دنیا میں بدامنی پھیلانا نہیں بلکہ بدامنی سے انسانوں کو نجات دلانا ہے۔ اس کا مقصد تشدد نہیں بلکہ تشدد کا خاتمہ ہے۔ حالانکہ ۲۴آیات جہاد کوبار بار دنیا کے سامنے رکھا جاتا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دنیا میں بدامنی، بے چینی اور خلفشار کا سبب یہی آیات قرآنیہ ہیں۔ یوروپ وامریکہ کی اسلام مخالف تنظیموں سے لے کر بھارت کی ہندتووادی طاقتوں تک میں یہ یکسانیت دیکھی گئی ہے کہ ان کی جانب سے یہ مطالبہ اٹھتا رہتاہے کہ ان آیات کو قرآن سے خارج کردیا جائے اور بچوں کو ان کی تعلیم دنیا بند کردیا جائے۔ ان آیات میں سے چند کے ترجمے یوں ہیں:

’’اور اللہ کے راستے میں ان سے جہاد کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو، بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور ان لڑنے والوں کو جہاں پائو مارواور انھیں نکال دو ان جگہوں سے جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا تھا۔‘‘

(سورہ البقرہ، آیت۱۸۹۔۱۹۰)

’’وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنی جان ومال سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، ان کا درجہ اللہ کے یہاں بڑا ہے اور وہی مراد کو پہنچے۔‘‘

(سورہ توبہ، آیت:۲۰)

’’اور جس طرح مشرک تم سے لڑتے ہیں،ویسے ہی تم بھی ان سے جہاد کرو اور جان رکھو کہ بیشک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘

(سورہ التوبہ،آیت ۳۶)

’’مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر کچھ شک نہ کیا، اور اپنی جان ومال سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ وہی سچے ہیں۔‘‘ 

(سورہ الحجرات، آیت۱۵)

’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت نہ بتادوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ ایمان رکھو اللہ اور اس کے رسول پر اور اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہاد کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔‘‘

(سورہ الصف، آیت۱۰۔۱۱)

   ’’اجازت دی گئی انھیں جن سے کافر لڑتے ہیں۔ یہ( اجازت ) اس لئے ہے کہ وہ (اہل ایمان) مظلوم ہیں، اور بیشک اللہ ان کی مدد پر ضرور قادر ہے۔ وہ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے، صرف اس بات پر کہ انھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور اللہ اگر آدمیوں میں سے ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں وہ خانقاہیں ، گرجا گھر ،کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام بہ کثرت لیا جاتا ہے۔ اور بیشک اللہ قوت والا اور غلبہ واقتدار والا ہے۔‘‘ (سورہ الحج، آیت۳۹۔۴۰)
’’اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فساد باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کا ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز رہیں تو اللہ ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔‘‘

(سورہ الانفال، آیت ۳۹)

 اوپر درج آیات قرآنیہ کے تراجم کو ایک بار پھر پڑھیں اور سمجھ کر پڑھیں۔ کیا ان میں سے کسی آیت میں کہا گیا ہے کہ مسلمان، جہاد کے نام پر کسی پر ظلم کریں، تشدد برپا کریں اور عام لوگوں کو نقصان پہنچاتے پھریں۔ پورے قرآن میں ایک بھی ایسی آیت نہیں ہے جس میں ظلم وتشدد کا حکم دیا گیا ہے۔ حکم جہاد کی حقیقت بس یہ ہے کہ اگر بہ حیثیت قوم مسلمانوں کے جان وایمان ، عزت وآبرو کو کسی دوسری قوم سے شدید خطرہ لاحق ہو تو اس کے تحفظ کے لئے وہ کوشاں ہوجائیں۔ لفظ ’جہاد‘جہد سے مشتق ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کوشش کرنا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کوشش میں تلوار اٹھانے کی نوبت ہی آجائے۔ علماء اسلام نے اس جہاد کا ذکر کیا ہے جو علم سے کیا جاسکتا ہے، اسے بھی جہاد مانا ہے جو مال خرچ کرکے کیا جاسکتا ہے، اسے بھی وہ جہاد مانتے ہیں جو قلم سے کیا جائے اور اسے بھی جہاد تسلیم کرتے ہیں جو زبان یا دل سے کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ سماج کے افراد کی صلاحیتیں الگ الگ ہوتی ہیں اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق جدوجہد کرسکتا ہے۔ ایک قلمکار اپنے قلم کا استعمال قوم وملت کی فلاح کے لئے کرتا ہے تو وہ جہاد ہے، ایک دولت مند اپنی دولت کو بندگان خدا کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا ہے تو وہ جہاد ہے، ایک آدمی اگر ظالم حکمراں کے سامنے اپنی زبان سے حق بات کہتا ہے تو وہ زبان سے جہاد کر رہا ہے۔

جہاد کا حکم کب ہے؟

قرآن اور حامل قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں جس جہاد کی نوبت سب کے بعد آتی ہے وہ ہے جہاد بالسیف یعنی تلوار لے کر میدان میں اترنا۔ یہ کام کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ اسلامی مملکت کا ہے۔ جب اسلامی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوجائے اور ان کا ایمان، ان کی جان، ان کی دولت اور عزت وآبرو کی حفاظت کا کوئی دوسرا راستہ باقی نہ بچے تو پھر یہی ایک راستہ بچتا ہے اور ایسے وقت میں یہ اجازت نہیں ہے کہ کوئی بھی لڑنے کے لائق مسلمان اپنے ملک کی حفاظت کے لئے آگے نہ آئے۔ ان حقوق کی حفاظت کے لئے جنگ کی اجازت اقوام متحدہ بھی دیتا ہے۔ کیا امریکہ کا وجود خطرے میں ہوتو وہ جنگ نہیں کرے گا؟ کیا اہل چین کی جان پر بن آئے تو وہ میدان جنگ میں نہیں آئیں گے؟ کیا بھارت نے اپنی تاریخ میں جنگیں نہیں لڑی ہیں؟ کیا بائبل، گیتا اور دنیا کی دیگر مذہبی کتابیں ایسے وقت میں تحفظ خود اختیاری کی اجازت نہیں دیتی ہیں؟ پھر جہاد کے لئے اسلام ہی کو موردالزام ٹھہرانے کا کیا مطلب ہے؟ البتہ اسلام نے انسانی جان کے احترام کا سخت حکم دیا ہے اور حالت جنگ کے لئے بھی سخت قاعدے قانون بنائے ہیں۔ آج کی مہذب دنیا میں پہلی بار اقوام متحدہ نے جنگ کے کچھ بین الاقوامی اصول بنائے ہیں مگر اسلام نے اس دور میں جنگ کے قاعدے بنائے جب اس قسم کے ضابطوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس نے صرف مسلمانوں کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غیرمسلموں کی جانوں کو بچانے کا حکم بھی دیا۔ اس نے سبھی جانداروں کی جانوں کو قابل احترام مانا اور پھلدار درختوں کو کاٹنے نیز کھیتیاں تباہ کرنے سے منع کیا۔اسلام کی نظر میں انسانی جان کا احترام کعبہ سے بڑھ کر ہے۔حالانکہ دنیا کی تمام عبادت گاہوں میں سب سے افضل کعبہ ہے۔ یہ دنیا کی مرکزی عبادت گاہ ہے۔ یہ دنیا میں اللہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی پہلی مسجد ہے‘ مگراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو اس سے بھی افضل بتایا ۔ ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’کتناپاکیزہ ہے تو اور کیسی خوشگوار ہے تیری فضا‘کتناعظیم ہے تو اور کتنامحترم ہے‘ تیرامقام مگراس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے‘ ایک مسلمان کی جان ومال وخون کا احترام اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘۔

اللہ اکبر ذراغورتو کریں انسانی جان کا‘ اس سے بڑھ کر کیا احترام ہوسکتا ہے کعبہ تواللہ کی عبادت کی جگہ ہے‘ مگر انسان کا دل اللہ کی محبت کی جگہ۔ عبادت سے افضل محبت ہے۔ اوپر کی حدیث میں مسلم یامومن کہاگیا ہے ۔ یہ خاص موقع کی مناسبت سے کہاگیا‘ ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی جان کا احترام سکھایا ہے۔ اس میںمذہب کی کوئی قید نہیں ۔ چنانچہ نسائی کی حدیث ہے کہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

’’جس نے کسی غیرمسلم(ذی) کو قتل کیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس پرجنت حرام کردی‘‘۔

جنگ کے دوران خون انسانی کا احترام

 جنگوں کے دوران ایک ملک کا دوسرے ملک کے عوام پر حملہ عام بات ہے۔ ان حملوں میں بچے‘بوڑھے‘ کمزور‘مریض اور عورتیں ماری جاتی ہیں۔ ان کی کوئی کھوج خبر لینے والا نہیںہوتا۔ جنگ کے بعد بھی کسی بین الاقوامی قانون کے تحت حملہ آور کو سزا نہیں دی جاتی‘ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان طبقات پر کسی قسم کے حملے سے منع فرمایا۔ سب سے پہلے آپ نے جنگ وجدال سے ہی دور رہنے کی تاکید فرمائی‘ مگرناگزیر حالات میں اگر جنگ کی نوبت آجائے‘ تو اپنے دفاع کے لئے لڑنا جائزہے۔ ایک مرتبہ دوران جنگ کچھ غیر مسلم بچے زد میں آگئے اور مارے گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا‘ توسخت رنج ہوا اور پریشان ہواٹھے۔ کسی نے کہا کہ وہ تومشرکین کے بچے تھے کیاہوامارے گئے‘ تو یہ بات سن کر آپ نے فرمایا۔

’’خبردار بچوں کو قتل نہ کرو‘ خبردار بچوں کو قتل نہ کرو‘ ہرجان خدا ہی کی فطرت پر پیدا ہوئی ہے(مسند امام احمد) اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پاک میں رحمت اللعٰلمین کے لقب سے نوازا ہے۔ یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ ظاہر ہے اس دنیامیںصرف مومن ہی نہیں رہتے‘ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی رہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے لئے رحمت بن کردنیامیں تشریف لائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کی رحمت صرف مسلمانوں تک محدودکردی جائے۔ آج ضرورت ہے کہ اس رحمت بھری تعلیم کو دنیامیں عام کیاجائے۔ظاہر ہے کہ آج اگر اسلام کی بدنامی ہورہی ہے اور اسے تشدد سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے تو اس کے لئے خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں جو احکام اسلام کی غلط تشریح کرکے خود تو گمراہ ہورہے ہیں دوسروں کو بھی مصائب میں مبتلا کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 592