donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Sangh Pariwar Hindu Aurton Ko Bachcha Paida Karne Ki Masheen Samajhta Hai


کیا سنگھ پریوار ہندو عورتوں کو بچہ پیدا کرنے کی مشین سمجھتا ہے؟


یہ عورتوں کی تذلیل نہیں تو کیا ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    سکاشی مہاراج کا کہنا ہے کہ تمام ہندو عورتوں کو چار چار بچے پیدا کرنے چاہئیں جب کہ پروین توگڑیا کا کہنا ہے کہ انھیں دس دس بچے پیدا کرنے چاہئیں۔آخر وش ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا اور بی جے پی ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج ہندو عورتوں کو کیا سمجھتے ہیں؟ کیا انھوں نے اِن عورتوں کو بچے پیدا کرنے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے؟ اگر وہ ان عورتوں سے چار چار بچے پیدا کرانا چاہتے ہیں تو خود کتنے بچے پیدا کریںگے اور کتنے بچوں کی پرورش کریںگے؟ کیا یہ عورتیں، مردوں کے بغیر ہی بچے پیدا کرلیں گی یا انھیں کسی کی مدد کی ضرورت بھی پڑے گی؟ آخر یہ بچے کہاں سے آئینگے جب کہ آر ایس ایس میں کام کرنے والے مرد شادیاں ہی نہیں کرتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ ساکشی مہاراج جو نصیحت ہندو عورتوں کو دے رہے ہیں،وہی موہن بھاگوت اور نریندر مودی کو کیوں نہیں کرتے جن میں سے ایک کنوارا ہے اور دوسرا شادی کرکے بھی کنوارا بنا ہوا ہے؟ کیا سنگھ پریوار کی نظر میں بچے پیدا کرنے کی ذمہ داری صرف ہندو عوروتوں کی ہے اور مردوں کی نہیں ہے؟ اس قسم کے سوال ان دنوں بھاجپا کو پریشان کئے ہوئے ہیں اور اس کا سبب بنے ہیں ساکشی مہاراج۔وہ پہلے بھی پارٹی کے سامنے مسائل کھڑے کرتے رہے ہیں اور الٹے سیدھے بیانات کے سبب تنازعوں میں رہے ہیں مگر اس بار پارٹی  نے ان کے بیانوں سے پریشان ہوکر انھیں وجہ بتائو نوٹس تھمادیا ہے۔ حالانکہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس نوٹس کا ساکشی مہاراج پر کوئی اثر پڑے گا یا وہ آگے بھی تنازعوں کے مہاراج بنے رہیں گے؟ ان کے بیانات کے سبب میڈیا میں بحث چلتی رہی ہے اور بی جے پی کی کرکری ہوتی رہی ہے۔ پارٹی کے لیڈروں سے جواب مانگا جاتا رہا ہے مگر ساکشی مہاراج نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے ہیں۔ پچھلے دنوں پارٹی صدر امت شاہ سے بھی میڈیا نے سوال کیا کہ وہ اپنے اس ممبر پارلیمنٹ کے اس بیان پر کیا کہیں گے جس میں انھوں نے ہندو عورتوں سے چار چار بچے پیدا کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس پر امت شاہ کا کہنا تھا کہ یہ ان کا ذاتی بیان ہے۔ حالانکہ میڈیا کی طرف سے سوالوں کا سلسلہ جاری رہا اور پارٹی کے کسی ترجمان کے پاس کوئی ایساجواب نہیں تھا جو میڈیا کے لئے تشفی بخش ہو۔ غور طلب ہے کہ انھوں نے ایک جلسے میں کہا تھا کہ ہندو عورتیں چار چار بچے پیدا کریں ۔ ان میں سے ایک سرحد کی حفاظت کے لئے بھیجیں اور دوسرا وشو ہندو پریشد کے حوالے کردیں۔ ساکشی مہاراج کے بیان پر ابھی بحث جاری تھی کہ سادھوی پراچی نے بھی اسی بات کو دہرادیا۔ میڈیا نے اسے جس انداز میں بی جے پی کے ساتھ جوڑ کردکھایا ،اس سے پارٹی کی بدنامی ہوئی اور اسی لئے وجہ بتائو نوٹس جاری کرنا پڑا۔ لطف کی بات یہ رہی ہے کہ چار بچے پیدا کرنے کا ہندو عورتوں کو مشورہ دینے والے ساکشی مہاراج اور سادھوی پراچی خود غیر شادی شدہ ہیں اور سنگھ پریوار میں کنوارے رہنے کا کلچر بھی ہے۔ سنگھ کے بیشتر

عہدے داران اور ذمہ داران کنوارے رہتے ہیں۔ ساکشی مہاراج نے اپنے چار بچوں والے بیان سے پہلے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت قرار دیا تھا جس کے سبب پارلیمنٹ کے اندر تک ہنگامہ مچا اور آخر کار انھیں اپنے بیان پر معافی مانگنی پڑی تھی۔  

تنازعوں کے مہاراج، ساکشی مہاراج

    ’’تنازعوں کے مہاراج‘‘ اپنے بیانات ہی نہیں بلکہ اپنی حرکتوں کے سبب بھی سرخیوں میں رہتے ہیں۔ ان پر بابری مسجد کی شہادت میں ملوث ہونے کا الزا م ہے اور اس سلسلے میں کیس چل رہا ہے۔ وہ رام مندر تحریک میں پیش پیش رہے ہیں۔ ان پر قتل اور ریپ کا بھی الزام لگا مگر باوجود اس کے انھیں بی جے پی نے ٹکٹ دیا کیونکہ ان کی امیج ہندتو وادی ہے۔ساکشی مہاراج سے بی جے پی کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ لودھ برادری سے آتے ہیں اور پارٹی اس ذات کے ووٹروں کے بیچ انھیں ایک چہرہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ برادری مشرقی یوپی میں یادو برادری کے بعد اپنی تعداد کے لحاظ سے خاص ہے۔ ۵۹ سالہ ساکشی مہاراج نے سنسکرت کی پڑھائی کی ہے اور شاستری کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی کریئر کی شروعات رام جنم بھومی تحریک سے کی تھی۔ان کی ابتدا اگرچہ بی جے پی سے ہوئی تھی مگر بعد میں انھوں نے ملائم سنگھ یادو کے ساتھ ہاتھ ملا لیا تھا اور بی جے پی کو چھوڑ کر سماج وادی پارٹی میں چلے گئے تھے۔ بہت دنوں تک ملائم سنگھ اس بھرم میں مبتلا رہے کہ سماج وادی ہارٹی کو لودھ ووٹ ساکشی مہاراج کے سبب مل رہا ہے اور اسی لئے انھیں راجیہ سبھا میں بھی بھیج دیا تھا۔ تب ملائیم سنگھ یادو اس ہندتو وادی لیڈر کو سیکولر ہونے کا سرٹیفکٹ دیا کرتے تھے اور اپنی پارٹی کے لئے الیکشن کیمپین کرایا کرتے تھے۔ انھوں نے ۱۹۹۹ء میں بی جے پی کو چھوڑ کر سماج وادی پارٹی میں جانا قبول کیا تھا اور تب وہ نعرے لگایا کرتے تھے ’’بابا نہیں، بوال ہوں، بھاجپا کا کال ہوں‘‘۔ تب وہ بھاجپا کا کال بنے ہوں یا نہیں مگر اب تو وہ بھاجپا کے لئے کال بن رہے ہیں اور اس کے لئے بوال کھڑے کر رہے ہیں۔ وہ ایک مدت تک کلیان سنگھ کی راشٹریہ کرانتی پارٹی کے ساتھ بھی رہے۔ ملائم سنگھ، کلیان سنگھ اور ساکشی مہاراج کی دوستی ایک مدت تک چلتی رہی مگر آخر کار ساکشی مہاراج کی ’’گھر واپسی‘‘ ہوگئی اور انھیں پارٹی نے گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں انائو سے ٹکت دیا جہاں سے وہ جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں۔

    ساکشی مہاراج بنیادی طور پر ضلع ایٹہ کے بلائی پور گائوں کے رہنے والے ہیں مگر وہ متھرا، قنوج اور مین پوری سے بھی الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ وہ ایک بزنس مین ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ٹرسٹ بھی چلاتے ہیں جس کی شاخیں یوپی کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال، جھارکھنڈ، بہار، ہریانہ وغیرہ ریاستوں میں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔اس ٹرسٹ کی جانب سے ۵۰ آشرم چلائے جاتے ہیں جو ملک کے الگ الگ حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔

دم ہے تو بچے پیدا کرکے دکھائو

    ہندو عورتوں کو کتنے بچے پیدا کرنا چاہئے؟ اس سوال پر ساکشی مہاراج کی اپنی رائے ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ دوسری پارٹیوں کے لیڈران نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے ، اس سے پورا سنگھ پریوار سوالوں کے گھیرے میں آگیا ہے۔ جنتادل یو کے کے سی تیاگی کا کہنا ہے کہ

ہمارے ملک میں پہلے ہی سے آبادی ایک مسئلہ ہے اور ایسے میں اس قسم کی باتیں کرنا قابل اعتراض ہے۔ آبادی میں اضافے سے ہمارا مسئلہ کم نہیں ہوگا بلکہ بڑھ جائے گا۔ دوسری طرف سی پی آئی ایم کی برند کرات کہتی ہیں کہ کونسی عورت کتنے بچے پیدا کرے گی ،اس کا فیصلہ کرنے والے ساکشی مہاراج کون ہوتے ہیں؟ کیا وہ ہندو عوروتوں کو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھتے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے اس بیان کو عدہ وسطیٰ کا بیان قرار دیا ہے جب لوگ بہت سے بچے پیدا کرتے تھے اور کثرت اولاد کو طاقت و شوکت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو اس قسم کے بیان کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہئے۔ اسی بیچ وشو ہندو پریشد نے آسام کی ایک ایسی ہندو فیملی کی تعریف کی ہے جس کے پاس آٹھ بچے ہیں ۔ساکشی مہاراج کے بیان پر اگرچہ واویلا مچا ہوا ہے مگر وہ خود اب کچھ نہیں بول رہے ہیں اور جب سے پارٹی نے انھیں وجہ بتائو نوٹس جاری کیا ہے تب سے وہ میڈیا سے بچتے نظر آرہے ہیں مگر دوسری طرف سادھوی پراچی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور انھوں نے میڈیا کے سوالوں کے جواب میں بھی کہا ہے وہ مانتی ہیں کہ ہندو عورتوں کو چار چار بچے پیدا کرنا چاہئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس ملک میں دوسرے  طبقے کے لوگ چالیس چالیس بچے پیدا کر رہے ہیں لہٰذا اب ہند وعورتوں کو کم از کم چار بچے تو پیدا کرنا ہی چاہئے۔ غیر شادی شدہ سادھوی سے یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ جو مشورہ دوسروں کو دے رہی ہیں اس پر خود کب عمل کریںگی؟  

    اس بیچ اترپردیش کے وزیر برائے شہری ترقیات اعظم خان کا کہنا ہے کہ اگر دم ہے تو زیادہ بچے پیدا کرکے دکھائو، اس کے کے لئے دم کی ضرورت ہے۔ اعظم خان کی اس چٹکی کو سنگھ پریوار اپنی سبکی مان رہا ہے جہاں بیشتر لیڈران کنوارے رہتے ہیں اور نہ شادی کرتے ہیں اور نہ ہی بچے پیدا کرتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی ساکشی مہاراج اور سادھوی پراچی کے بیان پر بحث جاری ہے اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ نریندر مودی کب بچے پیدا کریںگے اور موہن بھاگوت کب شادی کرکے گھر واپسی کریںگے؟

دوبچوں کا قانون

    جہاں ایک طرف ہندو عورتیں کے چار بچے پیدا کرنے والے بیانات سامنے آئے ہیں، وہیں دوسری طرف وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسا قانون بنائے جس کے تحت لوگوں کو صرف دو بچے پیدا کرنے کا حق ہو۔ اس سے زیاد ہ بچے پیدا کرنا قانوناً جرم قرار دیا جائیے۔  وشو ہندو پریشد کے لیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہورہا ہے اور ہندووں کی آبادی گھٹ رہی ہے لہٰذا دو بچوں والا قانون لازمی ہے تاکہ ہندووں کی آبادی میں کمی کو روکا جاسکے۔حالانکہ توگڑیا کے بیان کے بعد سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارت میں ’’کنیا بھرن ہتیا‘‘ کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بری رسم سب سے زیادہ ہندووں کے اندر پائی جاتی ہے جس کے سبب ان کی آبادی کم ہورہی ہے۔ ہریانہ ، راجستھان، پنجاب اور دلی ایسی ریاستوں میں سرفہرست ہیں ،جہاں مرد وعورت کی آبادی کا تناسب بگڑتا جارہا ہے۔ یہاں یہ حالت ہے کہ مردوں کوشادی کے لئے دلہنیں نہیں مل پارہی ہیں۔ یہاں ہزار مردوں کے مقابلے خواتین کا تناسب آٹھ سو سے نو سو کے بیچ ہے۔ (یو این این)


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 436