donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Maligaon Ke Masoom - Kya Inhen Insaf Mil Payega


مالیگائوں کے معصوم


کیا انھیں کبھی انصاف مل پائے گا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مالیگائوں بلاسٹ (۲۰۰۶) کے  سابق ملزمین کو فکر لاحق ہے کہ انھیں دوبارہ پھنسایا جاسکتا ہے۔وہ اس لئے خوف زدہ ہیں کہ انھیں پہلے ہی غلط طریقے سے پھنسایا گیا تھا اور اب جب کہ مرکز اور مہاراشٹر دونوں جگہ بی جے پی کی سرکار ہے۔ اصل مجرموں کو رہا کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔این آئی اے، حکومت کے دبائو میں کام کررہی ہے۔ کیس کے گواہ ایک ایک کر مکرتے جارہے ہیں اور حکومت کی طرف سے معاملے کی پروسیکیوٹر روہنی سالیان پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ ڈھیل برتیں۔ان حالات سے وہ سابق ملزمین پریشان ہیں جو برسوں جیل میں بند رہے ہیں اور اولاً انھیں ملزم بنایا گیا تھا۔اب انھیں لگتا ہے کہ کہیں انھیں دوبارہ نہ پھنسادیا جائے، کیونکہ اب تک جانچ ایجنسی کے ڈھیلے ڈھالے رویہ کے سبب انھیں کلین چٹ نہیں ملی ہے۔اس سلسلے میں انڈین اکسپریس نے ایک خصوصی رپورٹ چھاپی ہے جس میں ان سبھی لوگوں سے بات چیت کی ہے جو ایک مدت تک اس کیس میں بند رہے ہیں۔ذیشان شیخ کی اس رپورٹ میں نورالہدیٰ شمس الہدیٰ، سلمان فارسی عبداللطیف ایمی،محمد زاہد عبدالماجد انصاری،فروغ اقبال احمد مخدومی، رئیس احمد رجب علی منصوری، ابرار احمد غلام احمد اور شبیر مسیح اللہ (مرحوم) کے درد کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان سبھی کی فکرمندی واجب بھی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی شناخت ایک دائیں بازو کی سرکار والی ہے۔ ملک دیکھ چکا ہے کہ گجرات میں ان سبھی ملزموں کو رہا کیا جاچکا ہے جو معصوم لوگوں کے فرضی انکائونٹرس میں ملوث تھے اور آج وہ لوگ دوبارہ اپنے عہدوں پر بحال ہوچکے ہیں۔پچھلے دنوں مالیگاؤں دھماکہ کیس کی خصوصی سرکاری وکیل روہنی سالیان اپنے انٹرویو میں کہہ چکی ہیں کہ نئی حکومت آنے کے بعد سے مالیگاؤں معاملے میں ملزمان کے تئیں نرم رویہ اختیار کرنے کے لئے ان پر دباؤ پڑتا رہا ہے اگر ایسا ہو جائے گا، تو ہمارے نظام انصاف میں لوگوں کا اعتماد کیسے قائم رہے گا؟حاانکہ این آئی اے نے اس الزام کو غلط بتایا ہے مگر ماضی کی روایات اور موجودہ حکومت کے رویے کو دیکھتے ہوئے روہنی سالیان کے الزام میں صداقت لگتی ہے۔بی جے پی اور سنگھ پریوار کا رویہ دہشت گردی کے تعلق سے دوہرا رہا ہے۔ پہلے دہشت گردی کے واقعات کو مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ پولیس اور تفتیشی ایجنسیاں کئی بار صرف شک کی بنا پر یا محض خانہ پری کے لئے مسلم نوجوانوں کو پکڑ لیتی تھیں۔ ملزم بنائے گئے ایسے بہت سے لوگ عدالتوں سے بری ہو گئے۔ کسی کسی معاملے میں پولیس کو عدالت کی پھٹکار بھی سننی پڑی۔مالیگاؤں معاملے کی جانچ مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی دستے کو سونپی گئی، جس کی کمان ہیمنت کرکرے کے ہاتھ میں تھی جو 26 نومبر 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ کرکرے کی درخواست پر ہی مالیگاؤں معاملے میں خاص طور پر پبلک پراسیکیوٹر کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے سالیان تیار ہوئی تھیں۔ جانچ آگے بڑھی تو پتہ چلا کہ اس سانحہ کے پیچھے اندور کی ایک شدت پسند ہندو تنظیم کا ہاتھ تھا۔ اس سے دو سال پہلے بھی مالیگاؤں، پھر اس کے اگلے سال اجمیر شریف، حیدرآباد کی مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے ہوئے اور ان کے پیچھے بھی ویسے ہی لوگوں کا ہاتھ سامنے آیا۔آج ان سبھی لوگوں کی زندگی میں بدلائو آچکا ہے جو جھوٹے الزام کے تحت جیلوں میں بند کئے گئے تھے۔ انھوں نے ایک مدت تک قید وبند کی صعوبتیں جھیلی ہیں جو ان کی ناکردہ گناہی کی سزا تھی۔

زندگی بدل گئی

    نورالہدیٰ شمس الہدیٰ گرفتاری کے وقت محض ۲۳سال کے تھے اور چند مہینے قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی، وہ درد وکسک ان کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے جب انھیں اپنے اہل خانہ اور بیوی ثمرین کو چھوڑکرجاتے ہوئے محسوس ہوا۔ ان کی نئی نویلی دلہن کو ذہنی طور پر سخت مرحلوں سے گزرنا پڑا۔آج ان کی ایک دوسالہ بیٹی بھی ہے جس کا نام انشیرہ ہے۔ بچی کی مسکراہٹوں میں وہ اپنے درد کا درماں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔نورالہدیٰ کو ۲۰۱۱ میں ضمانت ملی اور وہ جیل سے باہر آئے۔حالانکہ انھیں کچھ دوسرے مقدموں یں بھی پھنسایا گیا تھا جن سے وہ نبرد آزما ہونے میں لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اہل حدیث طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے شدت پسند سمجھا جاتا ہے اسی لئے وہ جانچ کرنے والوں کے لئے آسان نشانہ بن گئے۔ ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ سیمی سے منسلک تھے۔ان کا کہنا ہے کہ پولس نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے بم پلانٹ کئے تھے حالانکہ وہ ان دنوں چکن گنیا میں مبتلا ہونے کے سبب ہلنے کے قابل بھی نہیں تھے۔وہ اپنی زندگی کے تعلق س بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایک کرانے کی دکان کی تھی مگر چل نہیں پائی تو انھوں نے ۳۰۰ روپئے روزانہ پر ملازمت کرلی۔

سیکولرازم زندہ ہے

    رئیس احمد رجب علی منصوری کا تعلق مالیگائوں سے نہیں تھا۔ ان کا خاندان الہ آباد کا رہنے والا ہے۔ وہ پہلی بار ۱۹۹۰ء میں مالیگائوں آئے۔ ان کی شادی شبیر مسیح اللہ کی بہن سے ہوئی تھی جنھیں مالیگائوں بلاسٹ میں اصل ملزم بنایا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ممبئی کی ایک امبروئیڈری یونٹ میں کام کرتے تھے۔ اس کے بعد ۱۹۹۳ء میں وہ سعودی عربیہ چلے گئے جہاں سے ۲۰۰۴ء میںواپس ہوئے تو ان کا خاندان مالیگائوں منتقل ہوچکا تھا لہٰذا وہ بھی یہاں آگئے۔ان کا کہنا ہے کہ شبیر مسیح اللہ ان کے قریبی دوست اور سالے تھے جنھوں نے انھیں مالیگائوں آنے کو کہا تاکہ ان کے بیٹری کے کے بزنس میں ساتھ دے سکوں۔بلاسٹ کے ایک مہینہ بعد ایک روز پولس ان کے گھر آئی اور انھیں پکڑ کرلے گئی۔ان کا کہنا ہے کہ ایک مہینہ تک انھیں پولس کی سخت زیادتیوں کا شکار ہونا پڑا۔ وہ لوگ ننگے کرکے پیٹتے تھے۔ میں ان کے کہتا کہ تمہیں مارنا ہے مار لومگر کپڑے تو نہ اتارو۔یہ ایک مسلمان کے لئے باعث شرم ہے۔ وہ روہنی سالیان کے بیان پر کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سیکولرزم زندہ ہے۔سالیان کو وہ امید کی کرن قرار دیتے ہیں۔

سماجی برائی کے خلاف تحریک نے جیل تک پہنچایا

    سلمان فارسی مالیگائوں کے ایک امام مسجد کے بیٹے ہیں۔ وہ گیارہ بھائی بہن ہیں۔ سلمان یونانی کے ڈاکٹر ہیں اور ۱۹۹۸ء میں ممبئی کے گونڈی علاقے کے جھونپڑپٹی میں کلینک کھول کر بیٹھ گئے تھے۔ انھوں نے یہاں چل رہے پورن فلموں کے تھیٹر کے خلاف تحریک چلائی تھی تبھی سے وہ پولس کے راڈار پر آگئے تھے۔جب مالیگائوں دھماکہ ہوا تو انھیں ممبئی کے کلینک سے پولس نے اٹھا لیا۔اب جیل سے رہائی کے بعد وہ مالیگائوں شفٹ ہوگئے ہیں۔یہاں انھوں نے کلینک کرنا چاہا مگر کم پیسے کے سبب نہیں کھول سکے۔ انھوں نے شہر کے نواح میں ایئولا کے علاقے میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ فی الحال وہ مالیگائوں سے تیس کیلو میٹر دورنام پور میںایمرجنسی میڈیکل افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔   انھوں نے ۲۰۱۲ء میں مالیگائوں میونسپل کارپوریشن کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ وہ آج بھی خوفزدہ ہیں کہ کہیں انھیں دوبارہ اٹھا نہ لیا جائے۔ اس کیس کو تین مختلف ایجنسیاں دیکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خود اپنے آپ میں کسی چٹکلے سے کم نہیں۔

غلط فہمی نے جیل تک پہنچایا

    فروغ اقبال احمد مخدومی ایک ڈاکٹر ہیں اور آج بھی پرکٹس کر رہے ہیں۔ وہ اپنی گرفتاری کے وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کا ایم اے کا امتحان چل رہا تھا کہ ۶نومبر ۲۰۰۶ء کو رات ۱۰ بجے پولس ان کے گھر آدھمکی۔ وہ بھی پولس کا آسان ٹارگیٹ اس لئے بن گئے کہ وہ اہل حدیث مسلک کے تعلق رکھتے تھے اور اکثر ان لوگوں کے خلاف تحریک چلاتے تھے جو مزارات اولیاء پر جاتے ہیں یا تعویز وغیرہ میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کی مسلکی شدت پسندی کے سبب آئے دن مقامی مسلمانوں سے بھی نوک جھونک ہوتی رہتی تھی۔ ان پر خود مسلمانوں کی طرف سے بھی حملے ہوتے رہے تھے۔ گرفتاری کے بعد ان کی زندگی بدل گئی اور وہ ممبئی کی کالا چوکی جیل میں بند کردیئے گئے۔ان پر سیمی سے منسلک ہونے کا الزام بھی لگا تھا جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔ان دنوں وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ وقت بتارہے ہیں اور خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ غلط فہمی کے سبب ہوا۔ وہ روہنی سالیان کے الزام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ اے ٹی ایس اور سی بی آئی نے بھی ایسا کیا ہے۔

کیا اللہ کی مرضی یہی ہے؟

    جن لوگوں کو مالیگائوں بلاسٹ کیس میں پکڑا گیا تھا ان میں سب سے غریب محمد زاہد عبدالماجد انصاری۔ ان دنوں وہ ایک مسجد میں امام ہیں اور بتاتے ہیں کہ مشکل کی گھڑی میں کوئی کسی کو نہیں پوچھتا۔ دہشت گردی کے الزام کے ساتھ سماج انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔وہ ۲۰۱۱ میںضمانت پر جیل سے رہا ہوئے ہیں۔ ان پر سیمی سے منسلک ہونے کا الزام تھا جس کی وجہ سے پولس ان کے گھر آگئی اور ان کے والد نے ناراض ہوکر انھیں گھر سے نکال دیا۔ تب سے واپس نہیں گئے۔۲۰۰۶ء میں انھیں پولس نے گرفتار کرلیا اور مالیگائوں کے مشاورت چوک پر بم نصب کرنے کا الزام لگادیا حالانکہ اس وقت وہ یہاں سے دور پھولساونگی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کر رہے تھے۔اب ان کی زندگی اپنی بیوی اور ایک بچے کے گرد گھوم رہی ہے۔ انھیں بھی اندیشہ ہے کہ بھگوا دہشت گردوں کو بچانے کے لئے انھیں دوبارہ پھنسایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ کو منظور ہے کہ ہم دوبارہ جیل جائیں تو یہی سہی۔

اسے بیوی اور سالے نے پھنسایا تھا

    ابرار احمد غلام احمد ایک سابق الیکٹریشین ہیں۔وہ مالیگائوں بلاسٹ کیس میں ملزم نمبر ۹ تھے۔ انھیں پولس نے گرفتار کرنے کے بعد الیکٹرک شاک دئے تھے اور اب رہائی کے بعد بھی وہ اس سے دور ہیں۔ان دنوں وہ خوبصورت اسکیچیز بناتے ہیں جن کی بازار میں مانگ ہے۔وہ گرفتاری کے وقت اپنی بیوی کے ساتھ پنے خاندان سے الگ رہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیوی اور سالا پولس انفارمر تھے جنھوں نے پیسے کے لئے انھیں اس کیس میں پھنسایا تھا۔ انھیں جب حقیقت حال کا پتہ لگا تو انھوں نے بیوی کو طلاق دے دیا۔ ان کا الزام ہے کہ انھیں سازش کے تحت اس معاملے میں پھنسایا گیا تھا۔  

این آئی اے کی غیر جانبداری سوالوں کے گھیرے میں

    اس وقت جہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ مالیگائوں کیس کے سابق ملزموں کو دوبارہ پھنسایا جاسکتا ہے اور انھیں جیل بھیجا جاسکتا ہے وہیں دوسری طرف جانچ ایجنسی این آئی اے کی ساکھ بھی دائو پر لگی ہے۔چھ سال پہلے قائم ہوئی قومی جانچ ایجنسی نے اپنے اب تک کے دور میں غیر جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔مگر کیا اس کی یہ ساکھ بنی رہے گی؟ یہ تبھی ممکن ہے جب دہشت گردی کے معاملات کی تحقیقات آزادانہ اور غیرجانبدارانہ طور پر کی جائے۔سالیان کے الزام سے اٹھے تنازعہ کا سبق بھی یہی ہے کہ مجرمانہ مقدمات کے سرکاری وکیل ایسے ہوں جو ثبوتوں کو منطقی انجام تک لے جانے کے لئے وقف ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 619