donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Mamta Ke Bengal Me Musalmano Ka Eiman Khatre Me


ممتا کے بنگال میں مسلمانوں کا ایمان خطرے میں


بنگالی عورتوں کا ’’لوشدھی کرن‘‘یا بنگال میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مغربی بنگال کی قومی یکجہتی بے مثال رہی ہے اور یہاں بین المذاہب شادیاں عام ہیں مگر ان دنوں جس طرح سے سنگھ پریوار مسلم خواتین کا مذہب تبدیل کرانے کی مہم چلا رہاہے وہ اپنے آپ میں قابل تشویش بات ہے۔ اس سے یہاں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی خطرے میں نظر آرہی ہے۔ہندو لڑکوں سے مسلمان لڑکیوں کی شادی ملک کے کئی حصوں میں دیکھی گئی ہے مگر ایسا عام طور پر مغرب زدہ مسلم لڑکیاں ہی کرتی ہیں۔بنگال میں پہلی بار ایسا دیکھا جارہا ہے کہ غریب اور متوسط درجے کی مسلم لڑکیاں اس راستے پر چل رہی ہیں اور یہ سب باقاعدہ سازش کے طور پر ہورہا ہے۔کیا مسلم قائدین اخباری بیانات سے باہر آئیں گے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ، ملی کونسل، مجلس مشاورت جیسی تنظیمیں اب بھی حرکت میں آئینگی؟کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ عام مسلمان ہوش میں آئیں؟

       مغربی بنگال میں مسلمانوں کی اسلامی تربیت کی زیادہ ضرورت ہے؟ کیا یہاں دوسرے خطوں کے مقابلے مسلمانوں پر غیراسلامی اثرات زیادہ ہیں؟ آخر کیا سبب ہے کہ یہاں کے مسلمان ہندتوادیوں کے لئے لقمہ تر ثابت ہورہے ہیں؟ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ یہاں ان دنوں مسلم لڑکیوں کو ہند وبنایا جارہا ہے اور ان کی شادی ہندو لڑکوں سے کرائی جارہی ہے۔ اس خبر میں کتنی سچائی ہے؟اس بارے میں زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے۔ کیا واقعی مسلمان لڑکیاں ہندو بن رہی ہیں؟ کیا سنگھ پریوار کی جو مہم اترپردیش میں کامیاب نہیں ہوئی اب وہ مغربی بنگال میں کامیاب ہو رہی ہے؟ کیا مسلمان لڑکیوں کا ایمان اتنا کمزور ہے کہ وہ صرف چند سکوں میں ٹوٹ جاتا ہے؟ایک طرف تو وزیر اعظم نریندر مودی دنیا کو یہ بتانے میں لگے ہیں کہ بھارت ایک کثیر ثقافتی ملک ہے جہاں سبھی مذاہب کے افراد اپنے طریقے کے مطابق زندگی جینے کے لئے آزاد ہیں تو دوسری طرف سنگھ پریوار ان کی باتوں کو جھوٹ ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ ایک طرف اتر پردیش میں ’لوجہاد‘ کے نام پر ہنگامہ کیا گیا تو دوسری طرف اب تبدیلی مذہب کے نام پر بنگال میں آگ لگانے کی کوشش ہورہی ہے اور اس کے پیچھے ایک بڑا مقصد ہے بنگال میں فرقہ پرستی کے لئے ماحول کو سازگار بنانا۔اگر یہاں مذہب کے نام پر بٹوارہ نہیں ہوا اور سماج میں تعصب کا زہر نہیں پھیلا تو بی جے پی کو کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔وزیر اعظم کی بات کو بھی سنگھ پریوار اچھی طرح سمجھ رہا ہے اور اس قسم کے بیانات کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کو تیار نہیں ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کرسی کے اپنے کچھ تقاضے ہیں۔ حالانکہ جس قسم کی خبریں بنگال سے آرہی ہیں وہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے لئے تشویش کی بات ہوسکتی ہیں کیونکہ انھیں اپنے اقتدار کی حفاظت کرنی ہے اور مسلمانوں کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

’’لو جہاد‘‘ غیر موجود ’’لو شدھی کرن‘‘موجود

    مظفر نگر میں فسادات کا سبب تھا ’’لوجہاد‘‘ کے نام پر سنگھ پریوار کی طرف سے ماحول خراب کیا جانا۔ ملک کے کئی حصوں میں اس نسخے کو آزمایا جاتا رہا ہے اور اس کی نئی تجربہ گاہ بن گئی ہے مغربی بنگال کی پر امن سرزمین۔شمالی اور مغربی ہندوستان میں ’’گھر واپسی‘‘ کے پروگرام چلانے کے بعد ہندو تنظیموں نے مغربی بنگال میں نئی متنازعہ مہم شروع کر دی ہے۔ ہندو مسلم شادی پر اعتراض جتانے کی بجائے تنظیم کے لوگ ایسے جوڑوں کی مدد کرنے میں لگ گئے ہیں۔’’بہو لائو، بیٹی بچائو‘‘ کے نام سے چل رہی اس مہم کی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ ان معاملات میں دلہن مسلم لڑکی کو شددھی کرن کے ذریعہ ہندو مذہب قبول کرنا ہوگا۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع ایک خبر کے مطابق، یہ مہم بنگال کے ایسے اضلاع میں چلائی جا رہی ہے، جہاں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے۔ ان اضلاع میں وشو ہندو پریشد، ہندو جاگرن منچ، ہندوسویم سنگھ اور بھارت سیواشرم سنگھ جیسی تنظیموں نے 'بہو لائو، بیٹی بچائو‘‘ مہم کی شروعات کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے 'لو جہاد' کا جواب بتایا جا رہا ہے۔مرشداباد، ہوڑہ اور بیربھوم جیسے علاقوں میں بی جے پی نے گزشتہ کچھ انتخابات کے دوران اچھی حالت بنا لی تھی۔ اب یہیں ہندو تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور یہاں ایسے کئی جوڑے بھی ہیں جو ہندو تنظیموں کو اپنی شادی کا کریڈٹ دے رہے ہیں۔اس مہم کی ذمہ داری سنبھال رہے وی ایچ پی لیڈر بادل داس دعوی کرتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال میں اس مہم کے چلتے 500 مسلم-عیسائی لڑکیوں کو ہندو بنایا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، تمام خاندانوں کو اپنی حفاظت کرنے کے لئے بی جے پی سے جڑنے کے لئے کہا گیا ہے۔ہندو رضاکار تنظیم کے چیف تپن گھوش نے بتایا کہ وہ لو جہاد کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جس میں مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر شادی کر لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ہماری کوشش متاثرین کو بچانے اور مسلم لڑکیوں کو ہندو گھروں میں لانے کی ہے۔ جادو پور یونیورسٹی میں پروفیسر اچنتیا وشواس نے جو کہ وشو ہندو پریشد کی گولڈن جوبلی تقریبات میں مہمان خصوصی تھے، کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہندو لڑکا کسی مسلم لڑکی کو ہندو بناتا ہے تو یہ بہت اچھی اور اہم بات ہے۔ ہم ہندو لڑکیوں کے مسلم لڑکوں سے شادی کے رجحان کو توڑنا اور مسلم لڑکیوں کے ہندو لڑکوں سے شادی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ ایسی تمام مہموںکے چلتے وزیر اعظم مودی کو مخالفین کے نشانے پر رہنا پڑا تھا۔ آخر کار عاجز آکر مودی نے سدن میں کھڑے ہو کر اس بات کا یقین دلایا تھاکہ مذہب لوگوں کی ذاتی آزادی ہے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ ہندو تنظیموں نے اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے لوگوں کے سامنے کئی آفرس بھی رکھے ہیں۔ اس میں ہندو خواتین اورمسلم مرد میں مرد کا مذہب تبدیل کرنے سے زیادہ ہندو مرد اور مسلمان عورت میں عورت کا مذہب تبدیل کرانے پر زور دیا جارہا ہے۔اس سلسلے میں ان کو تحفظ دینے کے ساتھ ہی  شادی کے انتظامات جیسی سہولیات دی جا رہی ہیں۔

 مسلم، عیسائی خواتین بنیں ہندو

    وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ اب تک پانچ سو مسلمان اور عیسائی خواتین کو انھوں نے ہندو بنانے میں کامیابی پائی ہے۔ان میں سے کچھ خواتین کی پہچان بھی سامنے آئی ہے۔ رابقہ خاتون اب میناکشی نسکر کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہ جنوبی چوبیس پرگنہ کے گائوں لکشمی نارائن پور کی باشندہ ہے۔ وہ اب پوری طرح ہندو رنگ میں ان چکی ہے اور پوجا پاٹ کرتی ہے۔ اس نے اپنے گھر میں کالی کی مورتی بھی رکھی ہوئی ہے جس کی وہ پوجا ارچنا کرتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے والی وہ کوئی تنہا نہیں ہے بلکہ جن جن مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنایا گیا ہے ان سب کا ایسا ہی کردار دکھائی دیتا ہے۔ شبینہ اب نندنی بن چکی ہے ،کشمیرہ اب کویتا ہے تو رقیہ اور روشنہ اب رمپا اور جیوتشنا ہیں۔ ان کی زندگی ایک الگ ہی راستے پر چل پڑی ہے اور واپنی نئی پہچان کے ساتھ زندگی جینے لگی ہیں۔ انھیں اس کا  کوئی غم نہیں کہ ان کا کل کیا تھا بلکہ وہ آج میں زندہ ہیں۔

جیسے کو تیسا

    سندر بن علاقے کے مینا خان گائوں کی ام کلثوم نے آر ایس ایس ورکرراج شیکھرباچر سے شادی کی ہے۔ اس کا شدھی کرن کیا گیا اور اسے مسلمان سے ہندو بنایا گیا۔ یہ کام کرایا ہندو سہمتی نامی تنظیم کے تپن گھوش نے۔ ام کلثوم کا کہنا ہے کہ تپن گھوش کو وہ ’’بابا‘‘ کہتی ہے جس نے اس کے خاندان کی بہت مدد کی ہے۔ اس کی مدد کے بغیر اپنے پریوار کو چلانا ممکن نہیں ہوپاتا۔راج شیکھر ایک کھانے کا اسٹال چلاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ راما کرشنا آشرم اسکول کا پڑھا ہوا ہے۔ اس کی بہن نے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کی مگر شادی سے قبل اسے مسلمان بنایا گیا تھا لہٰذا اس نے بھی اسی انداز میں جواب دیا اور ایک مسلمان لڑکی کو ہندو بناکر شادی رچالی۔ اس نے مزید بتایا کہ اس کا مسلمان بہنوئی اس کی بیوی کا کزن ہے۔

نابالغ کی شادی اور تبدیلی مذہب

    مٹیا برج، کلکتہ کی چندن سردار اب ایک ہندو لڑکے سے شادی کرکے ہندو بن گئی ہے۔ اس نے ۱۸سال کی عمر سے پہلے ہی ہندو لرکے سے شادی کا فیصلہ کرلیا تھا مگر قانونی طور پر بالغ نہ ہونے کے سبب اسے کچھ دن انتظار کرنا تھا اور اس رہنے سہنے کے لئے جگہ فراہم کیا ہندو سمہتی نامی تنظیم کے لوگوں نے۔ انھوں نے بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کرادی اور اس کے شوہر کے لئے ایک پرائیوٹ کمپنی میں گارڈ کی جاب کا انتظام بھی کرادیا۔  چندن داس کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کے خلاف اس کے میکے والوں نے مقامی تھانے میں ایک ایف آئی آر بھی کرادی تھی جس کے جواب میں اس نے بھی اپنے باپ کے خلاف معاملہ درج کرادیا۔ دونوں کے ایف آئی آر اب بھی تھانے میں ہیں۔ چندن داس کا کہنا ہے کہ ہندو سہمتی کے ارکان نے اس کے سسرال والوں سے مل کر کہا کہ’’ مسلمان لڑکی سے شادی کرنا ہندودھرم کی بڑی خدمت ہے۔‘‘

شبینہ بن گئی نندنی

    ۲۷سالہ شبینہ یاسمین اب نندنی راکھال ہے۔ وہ جنوبی چوبیس پرگنہ ضلع کے ملار چوک گائوں کی رہنے والی ہے جو سندربن علاقے میں پڑتا ہے۔ وہ ایم اے کی طالبہ تھی مگر ببلو ماکھال نامی ایک اسکول ڈراپ آئوٹ ہندو لڑکے سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو تلسیر ہاٹ گائوں کا رہنے والا ہے۔شبینہ کو ہندو بنانے کے لئے شدھی کیا گیا اور بعض ہندورسو م کے بعد اسے ہندو بنالیا گیا۔ اس کام میں بھارت سیواآشرم نے اس کی مدد کی اور اسے ہندو ہونے کا سرٹیفکٹ بھی دیا۔ حالانکہ جون ۲۰۱۴ء مین اس نے سیالدہ کورٹ میں قانونی طور پر بھی تبدیلی مذہب کیا۔ ببلو کے باپ چندرشیکھر نے بتایا کہ وہ کسی بھی حال میں ایک مسلم لڑکی کو بہو کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں تھا مگر آرایس ایس کے بھائیوں نے سمجھایا کہ یہ ہندو ازم کی بڑی خدمت ہے تو اس نے قبول کرلیا۔ دوسری طرف شبینہ کے والد عبدالقادر ایک ڈاکٹر ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اس شادی کو کسی بھی حال میں قبول نہیں کرسکتا۔

مذہب اور سیاسی نظریے کی تبدیلی

    رقیہ خاتون نے اب خود کو رمپا چکرورتی بنا لیا ہے اور اس میں اس کی مدد کی تھی ہندو سہمتی نے۔ اس نے جب ایک ہندو پجاری ہری داس کے بیٹے کارتک سے شادی کا پروگرام بنایا تو مخالفت شروع ہوئی اس اس میں اس کی مدد سنگھ کے لوگوں نے۔ انھوں نے سمجھایا کہ جب تک حالات اعتدال پر نہیں آتے تب تک انھیں کلکتہ میں رہنا چاہئے جہاں ان کے رہنے سہنے کا انتظام ہندو سہمتی نے کیا تھا۔ وہ کچھ مہینے یہاں مقیم رہی اور پھر واپس اپنے گائوں چلی آئی۔ اس کے سسر نے اپنے خاندان کی حفاظت کے لئے بی جے پی جوائن کرلی اور کچھ دن بعد اس کے باپ سراج الدین ملا نے بھی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی جو پہلے ایس یوسی آئی کا ممبر تھا۔


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 559