donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Markazi Sarkar Gosht Ke Export Par Pabandi Lagane Ki Himmat Nahi Rakhti


فیصد ہندوستانی گوشت خورپھر مسلمان ہی مورد الزام کیوں

 

مرکزی سرکار گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی لگانے کی ہمت نہیں رکھتی


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    کیا بی جے پی اپنے انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت رکھتی ہے؟ کیا مرکزی سرکار گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی عائد کرے گی؟ کیا وہ گئو کشی پر سیاست کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کرے گی اور اس ایشو کو ختم کرے گی؟ کیا وہ خود نہیں چاہتی کہ اس معاملے پع سیاست بند ہو ورنہ اس کے ہاتھ سے ایک اہم ایشو نکل جائے جائیگا؟ آخر جو نریندر مودی چند مہینے قبل تک یوپی اے سرکار کو Pink Revolutionکے لئے موردِالزام ٹھہرا رہے تھے وہ آج خود اسی راستے پر کیوں چل رہے ہیں؟ وہ گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی کیوں نہیں لگاتے ؟ کیا ان کے اندر اس کی ہمت نہیں ہے یااب ان کے لئے یہ آسان نہیں رہا کہ ملک کو ملنے والے اربوں روپئے کے زرمبادلہ کو روک سکیں؟ اگر وہ گوشت کا اکسپورٹ نہیں روک سکتے تو اپنے انتخابی وعدے سے پھرنے کا اعتراف کیوں نہیں کرتے اور بی جے پی آج بھی گوشت خوری اور گئوکشی پر سیاست کیوں کرتی ہے؟ سنگھ پریوار گوشت کے بہانے مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیوں کرتا ہے،جس کی تازہ مثال اترپردیش میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یوپی اسمبلی میں اس وقت ہنگامہ کھڑا ہوگیا جب بی جے پی کے ممبران اسمبلی نے گئو کشی پر پابندی کی مانگ کی،حالانکہ یہاں پہلے سے ہی گئو کشی پر مکمل پابندی ہے۔ بی جے پی کا کہنا تھا کہ دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد میں کمی آرہی ہے جب کہ مویشی پروری کے وزیر کا دعویٰ تھا کہ دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد بڑھ ہے۔ اسی کے ساتھ وزیر پارلیمانی امور اعظم خاں کا مطالبہ بجا تھا کہ جب دودھ دینے والے جانوروں کی کمی ہورہی ہے تو مرکزی سرکار گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی کیوں نہیں عائد کرتی۔ وہ اس معاملے میں پہل کرے ویسے بھی نریندرمودی اس کا وعدہ دہراتے رہے ہیں۔ اعظم خان کے کے مطالبے پر بی جے پی نے قدم پیچھے کھینچ لئے مگر اس بات کی سچائی سے فرار ممکن نہیں کہ بی جے پی کے لئے یہ ایک انتخابی موضوع رہا ہے اور اسی بہانے وہ مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ بھارت میں گوشت کون سے لوگ کھاتے ہیں؟ کیا صرف مسلمان گوشت کھاتے ہیں یا دوسری اقوام بھی گوشت کھاتی ہیں؟ایک سروے رپورٹ کے مطابق یہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی گوشت خور ہیں،حالانکہ الزام مسلمانوں پر ہی دھرا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں ۶۸فیصد افراد گوشت کھاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کی آبادی محض۱۵فیصد کے آس پاس بتائی جاتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سبزی خوروں میں بھی دس فیصد وہ لوگ ہیں جو انڈے کھاتے ہیں اور اسے سبزی میں ہی شمار کرتے ہیں۔ ملک میں جینی گوشت نہیں کھاتے اور کچھ علاقوں کے برہمن گوشت نہیں کھاتے باقی تمام طبقات گوشت کھاتے ہیں۔ مغربی بنگال اور کشمیر میں تو برہمن بھی اس سے پرہیز نہیں کرتے۔ یونہی نارتھ ایسٹ علاقے میں گوشت خوری میں کسی قسم کا طبقاتی  بھید بھائو نہیں ہے،ایسے میں مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرانا اور ان کے نام پر سیاست کرنا غلط ہے۔ گوشت اکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں میں بھی بیشتر غیر مسلمون کی ہیں۔
گئو کشی ،فرقہ پرستوں کا گھٹیا ہتھیار


    انتخابات کے دوران عام طور پر جانوروں کے سلاٹر کا معاملہ اٹھتا رہتا ہے اور گئو کشی پر سیاست کا سلسلہ تو اس ملک میں آزادی کے قبل سے چل رہا ہے۔ آریہ سماج اس معاملے میں سیاست کرکے اکثر فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ حالانکہ بھارت میں گئو کشی کا سلسلہ انگریز دور حکومت میں عام ہوا ،ورنہ مغلوں کے دور میں تواس کا رواج بہت کم  رہا ہے۔ عام طور پر مغل بادشاہ اپنے ہندو رعایا کی تالیف قلب کے لئے اس سے پرہیز کرتے تھے۔ مغل سلطنت کے بانی بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی کہ گئو کشی سے پرہیز کرنا اور اس کی وصیت پر ہمایوں ہی نہیں بلکہ اس کے جانشین تک عامل رہے۔ اکبر کے زمانے میں تو گئو کشی کرنے والوں کو بہت سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ شیخ سلطان تھانیسری جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سسر تھے اور تھانیسر علاقے کے حاکم تھے محض اسی الزام میں جلاوطن کردیئے گئے تھے اور دوبارہ جب ان کی سزا معاف ہوئی اور چند سال بعد تھانیسر کے کروڑی ہوکر واپس آئے تو پھر ہندووں پرمظالم کی شکایت موصول ہونے پر اکبر نے انھیں پھانسی پر چڑھا دیا تھا باوجود اس کے کہ وہ بادشاہ کے قریبی تھے۔کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں آج بھی گئو کشی کا رواج نہیں ہے اور اس سے مسلمانوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔عام طور پر اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں میں گائے ،بھینس کے بجائے بکرے اور بھیڑ کے گوشت کے کھانے کا رواج رہا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت کھانا پسند کرتے تھے مگر حلال ہونے کے باوجودآپ کا گائے اور بھینس کا گوشت کھانا احادیث سے ثابت نہیں ۔ ملک کے بیشتر حصوں میں گائیں ذبح نہیں کی جاتی ہیں ،صرف کیرل، بنگال اور نارتھ ایسٹ میں ان کے سلاٹر کی اجازت ہے۔ ایسے میں اگر باقی ملک میں بھی نہ ہو تو مسلمانوں کا کیا جاتا ہے۔ بلکہ انھیں ایک انتخابی ایشو سے ہی نجات مل جائیگی مگر مرکزی حکومت خود ایسا نہیں کرنا چاہتی کیونکہ سنگھ پریوار اس بہانے سیاست کرتا رہا ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بناتارہا ہے۔ کئی جگہوں پر وہ اسے بہانہ بناکر فسادات بھی کراتا ہے۔اترپردیش اسمبلی میں بھی جو بی جے پی نے اس ایشو کو اٹھایا ہے اس کا مقصد ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔جن ریاستوں میں گئو کشی قانونی ہے وہاں بھی مسلمان سے زیادہ عیسائی اور دلت گوشت کھاتے ہیں۔

گئوکشی پر سیاست گرم کرنے کی کوشش

    پچھلے دنوں یوپی اسمبلی میں گئو کشی کا معاملہ جب بی جے پی کی طرف سے اٹھا تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی مگر ریاستی وزیر اعظم خان کے اس انکشاف نے بہتوں کو حیرت میں ڈال دیا کہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں گائے گا گوشت پیش کیا جاتا ہے اور یہ سب ان کی مینو کا حصہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹل پورے ملک کے بڑے شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے مہمانوں میں بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہوتی ہے جو گائے کا گوشت پسند کرتے ہیں اور جن ریاستوں میں گئو کشی پر پابندی ہے وہاں کے لئے دوسری ریاستوں سے منگوایا جانا حیرت انگیز نہیں ہے۔ حالانکہ بی جے پی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ ریاست میں دودھ دینے والے جانوروں کی تعداد کم ہورہی ہے اور اس کا سبب ان کا ذبیحہ ہے۔ستیش مہانا اور لوکیندر سنگھ کے سوال پر وزیر مویشی پروری راج کشور سنگھ نے بتایا کہ ریاست میں مویشیوں کی تعداد کم نہیں ہورہی ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ ۲۰۱۲ء میں مویشیوں کی تعداد بڑھ کر 205.66لاکھ ہوگئی ہے جب کہ ۲۰۰۳ء میں یہ تعداد185.51لاکھ تھی۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ دودھ کی پیدا وار بھی پہلے کے مقابلے میں بڑھی ہے ۔ صرف ایک سال میں یہ 225.568  میٹرک ٹن سے بڑھ کر 241.939لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر موصوف کے مطابق گئو کشی ریاست میں Cow Slaughter Prevention Act 1955  کی ترمیم 2002ء کے مطابق جرم ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔غور طلب ہے کہ رواں سال میں اب تک یوپی میں ۲۰۳۲ معاملے گئو کشی کے رجسٹرڈ ہوئے ہیں مگر ان میں سے بیشتر ملزمین مانتے ہیں کہ انھوں نے گئو کشی نہیں کی بلکہ بھینس کے گوشت کو گائے کا ثابت کرنے کی کوشش ہوئی۔ بجنور کے شوقین قریشی کا کہنا ہے کہ مجھ پر بھی جھوٹا کیس کیا گیا ہے، ویسے بھی ہم جانور کو ہی کاٹتے ہیں مگر یہ نیتا تو انسان کشی کرتے ہیں۔ہم پر جس طرح جانور کشی کا کیس بنتا ہے ویسا کیس ان انسان کشی کرنے والوں کے خلاف کیوں نہیں بنتا؟

سب سے بڑا گوشت اکسپورٹر ہے بھارت

    بھارت دنیا کا سب سے بڑا گوشت اکسپورٹر ملک ہے۔ پورے ملک میں ہزاروں کو سلاٹر ہائوس موجود ہیں جن میں سے سوائے چند کے اکثر وبیشتر غیرمسلموں کے ہیں۔ ان کمپنیوں میں اونچے عہدوں پر کام کرنے والے بھی مسلمان نہیں ہیں۔ البتہ ان سلاٹر ہاسیز میں معمولی کام کرنے والے بیشتر مسلمان ہیں۔ گویا غریب مسلمانوں میں سے چند کے چولہے اس سے ضرور جلتے ہیں مگر اصل ملائی کھانے والوں میں کم ہی مسلمان ہیں، پھر بھی گوشت خوری اور اس سے کمائی کرنے کا الزام مسلمانوں پر ہی لگایا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر منیکا گاندھی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ گوشت اکسپورٹ کی کمائی کا استعمال دہشت گردی کے فروغ میں ہورہا ہے۔ حالانکہ اس سنگین الزام کی جانچ ہونی چاہئے تھی کیونکہ یہ ملک کی سلامتی سے جڑا ہوا معاملہ تھا مگر آج تک ایسے کسی بھی الزام کی جانچ نہیں ہوئی اور ہوگی بھی بہیں کیونکہ اس کے پیچھے کا اصل مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو الزام دے کر سیاست کرنا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک نے 2012-13ء کے بیچ 1.89  ملین ٹن بیف اکسپورٹ کیا ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس میں پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یونہی گزشتہ سال ہمارے ملک نے 3.5ملین ٹن پولٹری پروڈکٹ اکسپورٹ کیا ہے۔اس دوارن ہمارے ملک کو گوشت کے اکسپورٹ سے 21,000کروڑ روپئے کا فائدہ ہوا ہے۔گوشت اکسپورٹ کرنے والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر برازیل ہے۔ بھارت کا گوشت بازار خلیجی ممالک اور یوروپی ممالک ہیں۔ اسی کے ساتھ کچھ ایسٹ ایشیا کے ملکوں میں بھی یہاں سے گوشت جاتا ہے اور ہمارے ملک کو ڈالر ملتا ہے جو معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

    نریندر مودی نے اپنے انتخابی خطابات میں تو گوشت کے کاروبار کو نشانہ بنایا تھا مگر اب جب وہ اقتدار میں ہیں تو یہ سلسلہ برابر جاری ہے اور وہ چپی سادھے ہوئے ہیں۔وشو ہندو پریشد کے ترجمان پرکاش شرما کا کہنا ہے کہ بھارت ایک دودھ فروخت کرنے والا ملک ہے نہ کہ گوشت بیچنے والا۔ ہم گورنمنٹ سے امید کرتے ہیں کہ وہ گوشت کے اکسپورٹ پر پابندی لگائے گی۔ پرکاش شرما کی امید اپنی جگہ مگر ایسا نہیں لگتا کہ مودی سرکار اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔ پچھلے دنوں مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا تھا کہ مزید سلاٹر ہائوس کھولے جائینگے اور اس کام کو بڑھایا جائے گا۔


رابطہ
Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 483