donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Raj Ke Khe;af Hindustani Adeebon Ka qalmi Jehad


مودی راج کے خلاف ہندوستانی ادیبوں کا قلمی جہاد


کہاں ہیں اردو کے اہل قلم؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    مودی راج میں پورے ملک میں تیزی سے پھیل رہے تشدد کے واقعات اور اظہار رائے پر قدغن کے خلاف ملک بھرکے ادیب وشاعر اور قلم کار متحد ہورہے ہیں اور احتجاج کے طور پر اپنے ایوارڈس واپس کر رہے ہیں۔   پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کے رسم اجراء سے قبل بی جے پی کے سابق ممبرپارلیمنٹ سدھیندرکلکرنی کے چہرے پر شیوسینکوں میں ممبئی میں کالک پوت دی۔یہ اظہار رائے کی آزادی پر حملہ ہے۔ اپنی قسم کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔اس سے پہلے ممبئی میں مشہور پاکستانی غزل سنگر غلام علی کا پروگرام شیوسینا کے سبب ہی منسوخ کرنا پڑا۔شیوسینا کے آگے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس بھی بے بس نظر آئے جنھوں نے صرف احتجاج جتانے تک پر اکتفا کیا۔حالانکہ اس واقعے کی بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ جمہوریت کے لئے ٹھیک نہیں۔نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے عدم برداشت اور تشدد کا جو ماحول قائم ہوا ہے اس کے خلاف ملک بھر کے ادیب اپنے اپنے ایوارڈ لوٹا رہے ہیں۔اس میں ایک نام ہندی کی سینئر مصنفہ کرشنا سوبتی کا بھی جڑ گیا ہے۔انھوں نے’’ادب اکیڈمی فیلوشپ‘‘اوارڈ لوٹانے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے۔

اس سے پہلے سارا جوزف ،سچدانندن ،پی کے پرکادائو، ادے پرکاش، اشوک باجپائی،عبدالرحمٰن، ششی دیش پانڈے،منگلیش ڈبرال، اجمیر سنگھ اولکھ، آتم جیت سنگھ،گربچن بھلڑ، وریام سندھو، گنیش دیوی، نین تاراسہگل، راجیش جوشی،ویربھدرپا اورامن سیٹھی نے اپنے ایوارڈ لوٹانے اور سرکاری ادبی اداروں سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔حالانکہ اس قطار میں اردو ادیب سب سے پیچھے نظر آرہے ہیں ۔ صرف ناول نگار رحمٰن عباس نے اپنا ایوارڈ لوٹانے کا فیصلہ کیا ہے مگر دوسرا کوئی ادیب سامنے نہیں آیا۔ وجہ صاف ہے کہ اردو کے بیشتر ادیب وشاعر حضرات ایوراڈ پانے اور ادبی ولسانی اداروں کی ممبر شپ پانے کے لئے بہت جتن کرتے ہیں اور کئی طرح کے جگاڑ کے بعد انھیں ایوارڈ ملتے ہیں۔ اچھی اچھی تصنیفات کو کوئی نہیں پوچھتا اور اول جلول کتابوں پر اردو کے شعراء اور ادباء کواردو اکیڈمیوں اور سرکاری اداروں سے ایوارڈ مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان ادیبوں کو صرف جگاڑ سے ایوارڈملتا ہے۔ ایسے میں ایوارڈ نہ لوٹانے کے فیصلے پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔

 ہندوستان بن گیا پابندستان ؟

    اس وقت صرف ادیبوں کے قلم پر ہی روک نہیں ہے بلکہ پابندیاں کئی سطح پر ہیں۔ مرکز اور بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں جس طرح سے روزبروز پابندیاں لگائی جارہی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اب ہندوستان ایک ایسا ملک بنتا جارہا ہے جہاں قدم قدم پر بندشیں ہیں۔ یوں تو بھارت ایک جمہوری ملک ہے جہاں شہریوں کو کھانے، پہننے، کتابیں پڑھنے، فلمیں دیکھنے، اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہے مگر اب تو حکومت طے کرنے لگی ہے کہ شہریوں کو کیا کھانا چاہئے اور کیا نہیں کھانا چاہئے؟ کون سی کتابیں پڑھنی چاہیں اور کونسی نہیں پڑھنی چاہیئیں؟ کس قسم کی فلمیں دیکھنی چاہئیں اور کونسی فلمیں نہیں دیکھنی چاہئے؟ پینٹر کو کس قسم کی تصویرں بنانی چاہیئیں اور کس قسم کی تصویروں سے اجتناب کرنا چاہئے؟ یہی نہیں اب جس انداز میں میڈیا کی ملکیت والے صنعتی گھرانوںکو حکومت کی جانب سے متاثر کرنے کی کوشش ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ سچ بولنے اور سننے پر بھی قدغن لگ جائیگی۔حالیہ دنوں میں بی جے پی حکومت کے وزرائ، سنگھ پریوار اور بی جے پی کی ریاستی سرکار وں کی طرف سے جس قسم کے بیانات آئے ہیں اور جس طرح کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں انھیں دیکھتے ہوئے،ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں پابندیوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔ابھی زیادہ دن نہیں بیتے جب وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف فیس بک پر تبصرہ کے سبب گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔کارٹون بناکرممتابنرجی کا مذاق اڑانے والے کارٹونسٹ کو جیل میں ڈالا جاچکا ہے اور یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات اعظم خان کے خلاف فیس بک پوسٹ کی وجہ سے ایک نوجوان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔بھارت میں ووٹ بینک کے لئے پابندیوں کی سیاست ہوتی رہی ہے، لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے تو بین گویا عام بات ہو گئی ہے۔لوگوں کے کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر فلم، دستاویزی فلم، کتابیں تک مودی حکومت کی بین لسٹ میں شامل ہیں۔بہت سی چیزوں پر خاموشی سے بین لگایا گیامثلا حکومت نے قریب 900 فحش ویب سائٹس پر پابندی لگا دی، لیکن جب سوشل میڈیا پر معاملہ گرمایا تو حکومت نے فوری طور پر صفائی دی کہ صرف چائلڈ سیکس سے متعلق ویب سائٹس پر پابندی لگائی گئی ہے۔پابندی دراصل چند چیزوں پر نہیں لگ رہی ہے بلکہ نئی سوچ پر لگ رہی۔ گزشتہ چند مہینوں کے اندر تین سوچنے والے قلمکاروں کا قتل کیا جاچکا ہے جن میں گوند پانسرے،نریندر دابھولکراور ایم ایم کلبرگی شامل ہیں۔

کھانے ،پینے پر پابندی

    مہاراشٹر حکومت نے بیل بچھڑے کے گوشت پر پابندی عائد کی ہے جسے ابھی زیادہ دن نہیں بیتے ہیں۔ گائے کے گوشت پر تو پہلے ہی سے پابندی عائد تھی۔ہریانہ سرکار نے بھی اسی قسم کی پابندی لگائی ہے۔ گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان، دلی سمیت کئی ریاستوں میں اس قسم کی پابندی بہت پہلے لگائی جاچکی ہے۔ اسی کے ساتھ مرکزی حکومت ایک قانون بناکر پورے ملک میں گائے، بیل ،بچھڑے کے گوشت پر پابندی عائد کرنے کا پلان بنا رہی ہے۔گویا ہندوستان کے لوگ کھانے پینے کے لئے بھی آزاد نہیں ہیں۔ وہ کیا کھائیں گے اور کن چیزوں سے پرہیز کریں گے یہ فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ جین دھرم کے تہوار پریوشن پر ہر قسم کے گوشت پر پابندی کے بہانے عوام کی نبض ٹٹولنے کی کوشش بھی ہوچکی ہے۔

پابندیوں کی فہرست

    ہندوستان میں پابندیوں کی ایک لمبی فہرست ہے اور اب تک جس قدر پابندیاں لگ چکی ہیں ان کی تفصیل میںجائیں تو پوری کتاب تیار ہوجائے گی۔ حال ہی میںمصنفہ وینڈی ڈونگر پر الزام لگا کہ ان کی کتاب ’’the hindu alternative history‘‘(دی ہندو اینڈ الٹرنیٹیو ہسٹری) میں ہندوؤں کی تاریخ کی غلط معلومات دی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت سنگھ پریوار کی زیر نگرانی کام کر رہی جو ملک کی تاریخ کو بھگوا چشمے سے دیکھنے کی قائل ہے۔ اس کے اپنے مورخین ہیں ۔ وہ تاریخ وتہذیب کے شعبوں کو بھگوا رنگ دینے میں لگی ہوئی ہے اور اسے دیش بھکتی کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی کتاب اس کے نظریے کے خلاف ہے تو پابندی کا امکان بنا رہتا ہے۔ وینڈی ڈونگر کی کتاب پر پابندی لگنی تھی یا پبلشر کے ہاں توڑ پھوڑ بھی ہوسکتی تھی لہٰذا پبلشر نے کتاب خود ہی واپس لے لی۔ماضی میں سلمان رشدی کی کتاب پر مسلمانوں کے اعتراض کے بعد پابندی لگ چکی ہے۔ حالانکہ اگر اس کتاب پر پابندی نہیں لگتی اور مسلمانوں کی طرف سے احتجاج ومظاہرے نہ ہوتے تو کوئی اس کا نام بھی نہیں جان پاتا۔دہلی کے ’’نربھیا کانڈ ‘‘ پر بی بی سی کے لئے ایک دستاویزی فلم بنی تھی جس پرمودی سرکار نے روک لگا دی،بعد میں عدالت نے بھی اس پابندی کو جاری رکھا۔مودی حکومت نے اسی سال مارچ میں غیر ملکی فنڈ لینے والی 69 غیر سرکاری تنظیموں کو بلیک لسٹ کر دیا، اس کے بعد جون میں 4470 این جی اوز کے لائسنس منسوخ کر دیے۔پہلاج نہلانی کی سربراہی میں مرکزی بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن یعنی سینسر بورڈ نے فروری 2015 میں ایک حکم جاری کیا جس میں فلموں میں ہندی اور انگریزی کے کل 36 الفاظ کے استعمال پر روک لگانے کی بات کی گئی تھی۔تازہ خبر یہ ہے کہ واٹس ایپ پر آنے والے پیغام کو ۹۰ دن سے پہلے ڈیلیٹ کرنے کومودی سرکار ممنوع قرار دینے والی ہے۔

آر ایس ایس کے اشارے پر پابندیاں

    پابندیوں کے سبب ہندوستان کی پہچان اب پابندی نیشن کے طور پر ہونے لگی ہے۔ کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی کہتے ہیں،’’مودی حکومت کے پاس ایک ہی کام ہے لوگوں کو یہ بتانا کہ انہیں کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے، کیا دیکھنا ہے، کون سا مذہب اپنانا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘انہوں نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت یا ریاستوں کی بھاجپائی حکومتیں آر ایس ایس کے اشارے پر کام کر رہی ہیں۔غور طلب ہے کہ حال ہی میں آر ایس ایس اور اس کی اتحادی تنظیموں کی راجدھانی دلی میں تین دنوں تک میٹنگ ہوئی تھی جس میںخود وزیر اعظم اور کابینہ کے کچھ وزیر بھی شامل ہوئے تھے۔

فلموں پر پابندی

    ایسی فلموں کی ایک لمبی لسٹ ہے جن پر پابندی کی بات بھگوا تنظیموں کی طرف سے ہوتی رہی ہے۔ حال ہی میں عامر خان کی فلم ’’پی کے‘‘ ریلیز ہوئی اور زبردست بزنس کرنے والی فلموں کی قطار میںشامل ہوئی۔اس فلم پر پابندی لگانے کی مانگ بھگوا جماعتوں کی طرف سے کی گئی۔ عامر خان کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا جس کا سبب یہ تھا کہ وہ عامر خان ہیں۔فلم کے ڈائرکٹر اور پروڈیوسر کو کسی نے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ ’’خان‘‘ نہیںبلکہ راج کمار ہیرانی ہیں۔اس سے پہلے فلم ’’اومائی گاڈ‘‘پر بھی اعتراض جتایا گیا مگر بات زیادہ آگے نہیں بڑھی کیونکہ فلم کے مرکزی اداکار پریش راول کا بی جے پی سے تعلق ہے۔حال ہی میں فلم ’’محلہ اسی‘‘ پر بھی اعتراض جتایا گیا ۔دراصل ’’محلہ اسی‘‘ کے دو منٹ کے ٹریلر میں ایک طرف تو ایک خاص گالی کو بنارس کا ذائقہ کہا گیا ہے، دوسری طرف شیو کا بھیس لئے ہوئے ایک آرٹسٹ کو گالی دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔فلم ’’محلہ اسی‘‘کے ٹریلر پر ایف آئی آر درج ہو گئی ۔ایف آئی آر میں اداکار سنی دیول، اداکارہ ساکشی تنور کے علاوہ فلم کے ڈائریکٹر چندر پرکاش دویدی کے نام شامل ہیں۔یہ ایف آئی آر وارانسی کے شنکراچاریہ سوامی نگیندرانند سرسوتی نے درج کروائی ہے۔سوامی جی کا کہنا ہے کہ اس ٹریلر سے ملک اور ایک خاص دھرم و کمیونٹی کی تصویر خراب ہو رہی ہے۔

  لازمی امور کی فہرست

    ہمارے ملک میں جس طرح پابندیوں کی ایک طویل فہرست ہے اسی طرح ان مسائل کی بھی فہرست لمبی ہوتی جارہی ہے جنھیں مودی سرکار نے لازم کردیا ہے یا کرنا چاہتی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کی جرمن کی جگہ سنسکرت زبان سکھانے کے خط نے خاصا تنازعہ کھڑا کیا تھا۔سنسکرت کو لازمی بنائے جانے کی خبر کے بعد اچھا خاصا ہنگامہ ہوا تھا ۔ہر جانب سے تنقید کے بعد حکومت کو واضح کرنا پڑا کہ سنسکرت کو لازمی زبان نہیں بنایا جائے گا۔اسی طرح راجستھان حکومت نے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں صبح کی پریئر کے بعد بچوں کی طرف سے سورج نمسکار اور یوگا کرنا لازمی کرنے کے احکامات جاری کئے۔تعلیم کے بھگوا کرن کے الزامات کے باوجود شیوراج حکومت نے مدھیہ پردیش کے اسکولوں اور مدرسوں میں گیتا پڑھانا ضروری کر دیا تھا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے سیاحت و ثقافت مہیش شرما نے حال ہی میں کہا کہ رامائن اور مہابھارت کی تعلیم اسکولوں میں لازمی ہونا چاہئے۔مرکزی حکومت نے یوگا کلاس 6 سے لے کر 10 تک کے کورس میں ایک لازمی موضوع کے طور پر شامل کیا ہے۔مرکزی سیکورٹی فورسز کے جوانوں کے لئے یوگا ضروری کر دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت نے پرائم ٹائم شو میں مراٹھی فلمیں دکھائے جانے کا حکم دیا تھا۔بعد میں اس کیس کے طول پکڑنے پر ریاستی حکومت نے اس میں ترمیم کرتے ہوئے پرائم ٹائم کی جگہ مراٹھی فلم دکھائے جانے کی مدت دوپہر 12 بجے سے رات 9 بجے تک کردی۔

    ہندوستان میں بڑھتی پابندیوں اور کچھ چیزوں کو عوام پر مسلط کئے جانے کے سوال پر بی جے پی ترجمان سری کانت شرما کا کہنا ہے کہ ’’گوشت بین سمیت زیادہ تر کیس پہلے کی حکومتوں کے فیصلے کے تحت ہی ہوئے ہیں، لیکن اب چونکہ ہماری حکومتیں ہیں، تو تعصب میں مبتلا لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 586