donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Sarkar Gaye Ke Gosht Par Pabandi Kiyon Nahi Lagati


مودی سرکار گائے کے گوشت پر پابندی کیوں نہیں لگاتی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    ان دنوں پورے ملک میں گائے کو لے کر ہنگامہ مچا ہوا ہے اور اس بہانے فرقہ پرستوں کے نشانے پر مسلمان آگئے ہیں۔ ایک طرف جہاں دادری میں بیف رکھنے کی افواہ پر محمد اخلاق کا قتل ہوگیا اور ہماچل پردیش میں محمد نعمان کو گائے کی تجارت کے الزام میں مارڈالا گیا وہیں دوسری طرف ہریانہ کے وزیر اعلیٰ  منوہر لعل کھٹر کا کہنا ہے کہ مسلمان بھارت میں رہ تو سکتے ہیں مگر بیف کھانا چھوڑنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بیف صرف مسلمان کھاتے ہیں؟ اس سے پہلے مودی سرکار کے وزیر مختار عبا س نقوی کہہ چکے ہیں کہ جسے بیف کھانا ہو وہ پاکستان چلا جائے۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ مرکز اور ملک کے بیشتر ریاستوں میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے اور وہ اس پر پابندی کیوں نہیں عائد کرتی؟ اس میں ہمت ہے تو گائے، بیل، بھینس کے گوشت پرمکمل پابندی عائد کرے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیںکہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ اسی گوشت کو اکسپورٹ کرکے حکومت اربوں ڈالر کماتی ہے اور زرمبادلہ پاتی ہے۔ ریڈ میٹ کے تاجروں میں سنگیت سوم جیسے بی جے پی کے لیڈران شامل ہیں اور ان کی عیش وعشرت اسی کی مرہون منت ہے۔ خود مودی سرکار کے وزیروں میں سے ایک کرن رجیجو کہہ چکے ہیں کہ وہ بیف کھاتے ہیں، کوئی روک سکتا ہے تو روک لے، ایسے میں ریڈ میٹ پر پابندی نہ لگاکر حکومت سیاست کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتی ہے۔  

ہندو بھی کھاتے ہیں بیف

    بھارت میں مسلمانوں کی طرف سے گئو کشی پر کبھی اصرار نہیں کیا گیا اور یہاں گائے کا گوشت کھانے والوں میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی، دلت، آدیباسی قبائیلی اور بعض دوسرے ہندو بھی بیف کھاتے ہیں۔ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں آسام، میزورم ، ناگالینڈ، منی پور، تری پورہ، سکم وغیرہ میں بیف کھانا عام بات ہے۔ کیرل میں بھی بیف کھانے والے بڑی تعداد میںہیں۔ مغربی بنگال میں غیرمسلموں کی ایک بڑی تعداد بیف کھاتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا صر ف اور صرف سیاست کا حصہ ہے۔حالانکہ بہف پر پابندی کی مخالفت کرنے والوں میں کئی ہندو شامل ہیں۔ مہاراشٹر میں اس کے لئے تحریک چلا رہے ہیں دلت لیڈر رام داس اٹھاولے۔ اداکار رشی کپور نے بھی بیباکی سے اپنی بات رکھی ہے۔ سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے بھی بیف خوری کا اعتراف کرکے سب و چونکا دیا ہے۔ کاٹجو نے گئو کشی پر پابندی کی مخالفت کی ہے اور اسے غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ پابندی کا مطالبہ صرف سیاسی ہے۔ کاٹجو نے اپنے بلاگ میں گو کشی پر پابندی کی مخالفت میں پانچ دلیل دی ہیں۔نھوں نے لکھا ہے کہ یہ سستے پروٹین کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں بیف کی فروخت پر پابندی نہیں ہے۔ ناگالینڈ، میزورم، تریپورہ اور کیرالہ میں بیف کی فروخت پر پابندی نہیں ہے۔ان کا ماننا ہے کہ بیف پر پابندی سے دنیا کو ہم پر ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔ اس طرح کی پابندی سے ہماری جاگیردارانہ سوچ کا پتہ چلتا ہے۔گوکشی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ان گایوں کی پرواہ کرنی چاہئے، جنہیں ٹھیک سے کھانا نہیں ملتا ہے۔کئی بار میں نے گایوں کو ڑے کچڑے کے ڈھیر سے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔میں نے بھی بیف کھایا ہے. لیکن اپنے خاندان کے لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے نہیں کھاتا ہوںلیکن موقع ملنے پر میں ضرور کھائونگا۔دنیا میں زیادہ تر لوگ بیف کھاتے ہیں۔کیا وہ تمام لوگ گنہگار ہیں؟مجھے بیف کھانے میں کچھ غلط نہیں لگتا ہے

      فلم ساز مکیش بھٹ نے گو کشی کو لے کر حکومت پر تیکھاتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت لوگوں کو نہ بتائے کی وہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔انسان جو چاہے وہ کھانے کے لئے آزاد ہے۔ فلم ڈائریکٹر نے ٹوئٹر پر لکھا، بیف پر پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ میں کیا کھائوں یہ حکومت طے نہیں کر سکتی۔لگتا ہے کہ ہندوستان کا جمہوری آئین تنوع میں یقینی نہیں کرتا۔بیف پر پابندی اس مایوس کن ہے۔ اداکار رشی کپور کا بھی کہنا ہے کہ میں ہندو ہوں اور بیف کھاتا ہوں۔ کھانا میری اپنی پسند ہے۔ اداکار فرحان اختر، ایوشمان کھرانا اور اداکارہ رچا چڈھا بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو بیف کھاتے ہیں اور اس پر پابندی کو پسند نہیں کرتے۔

بیف کے حامی امبیڈکر کو پاکستان بھیجیں گے؟

    آئین ہند کے معمارڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو ان دنوں بی جے پی ہائی جیک کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔حالانکہ وہ کانگریس کے لیڈر تھے اور بیف کے حامی تھے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک مضمون ’’کیا ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا؟‘‘ موجود ہے جو ان کی کتاب ’’اچھوت کون تھے اور وہ اچھوت کیوں بنے؟‘‘ میں ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر امبیڈکرویدوں کے حوالے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وید کال میں ہندو بیف کھاتے تھے ۔امبیڈکر نے قدیم دور میں ہندوؤں کے بیف کھانے کی بات کو ثابت کرنے کے لئے ہندو اور بودھ مذہبی کتابوں کا سہارا لیاہے۔ان کے مطابق، گائے کو مقدس مانے جانے سے پہلے گائے کو مارا جاتا تھا۔ تحقیق کی بنیاد پر امبیڈکر نے لکھا کہ ایک وقت ہندو گایوں کو مارا کرتے تھے اور بیف کھایا کرتے تھے جو بدھ مت کے ذرائع میں دیے گئے یشتھ کے رپورٹس سے صاف ہے۔ امبیڈکر لکھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کر سکتا کہ ایک وقت ایسا تھا جب ہندو، برہمن اور غیر برہمن دونوں تھے، جونہ صرف گوشت بلکہ بیف بھی کھاتے تھے۔

    سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر بیف کے حامی تھے اور اس کے باوجود بی جے پی ان دنوں انھیں اپنا آئی کان بنانے میں لگی ہوئی ہے کہ صرف اس لئے کہ دلتوں کا ووٹ حاصل کیا جاسکے۔اب کیا مختار عباس نقوی انھیں بھی پاکستان بھیجنے کی بات کریں گے؟

بیف اکسپورٹ پر پابندی ؟

    بھارت میں کئو کشی کے الزام مسلمانوں پر لگائے جاتے ہیں مگربیف اکسپورٹ کرنے والی بیشتر کمپنیاں مسلمان ہیں اور سالانہ ہزاروں گایوں کو ذبح کرکے ان کے گوشت بیرون ملک بھیجتی ہیں۔ اس سلسلے میں دوارکا پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی سوروپانند سرسوتی نے مرکز کی مودی حکومت سے بیف کی برآمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے گوکشی قانون کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا حکومت پر زور دیا ہے۔ اس معاملے میں شنکراچاریہ نے مہاراشٹر حکومت کے اقدامات کی تعریف کی۔انہوں نے گونش پابندی قانون کا دائر بڑھا کر اس میں سانڈوں اور بیلوں کو بھی شامل کرنے کے ریاستی حکومت کے اقدامات کے لئے فرنویس حکومت کو مبارکباد دی ۔شنکرآچاریہ کا کہنا تھا کہ ہندو اکثریتی قوم ہونے کے باوجود بھارت بیف کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔یہ شرم کی بات ہے۔برآمد فورا بند ہونا چاہئے۔ہمیں ہر قیمت پر گورکشا کرنی چاہئے۔حالانکہ ایک نئے معاہدے کے تحت بھارت سے روس کے لئے بھینسے کے گوشت کا برآمد شروع ہو گیا ہے، جبکہ دودھ سے بنی دیگر مصنوعات کا بھی برآمد جلد شروع ہو جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ صدر پرنب مکھرجی اور روس کے صدر بلادمر پوٹن کی موجودگی میں ہوا تھا۔

    مسلم عہد حکومت میں بھارت میں گئو کشی پر سخت پابندی تھی ۔مغل بادشاہوں نے اس کی کبھی اجازت نہیں دی۔بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی تھی کہ ہندو جنتا کو خوش رکھنے کے لئے گئو کشی پر پابندی عائد رکھے۔ اکبر کے دور میں بعض اعلیٰ افسران اور جاگیرداروں کو گئو کشی کے جرم میں سخت سزائیں دی گئی تھیں۔ دلی میں ’’غدر‘‘ کے دوران جب فاقہ کشی کی نوبت آچکی تھی تب بھی بہادر شاہ ظفر نے گوکشی کی اجازت نہیں دی تھی۔ اصل میں یہ معاملہ مسلمانوں سے جڑا ہوا نہ تو پہلے کبھی تھا اور نہ اب ہے۔ آج یہ ملک کی معیشت سے جڑا ہو امسئلہ ہے جسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 494