donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Moharamul Haram Ki Aamad Par Mubarakbadiyon Ka Silsila Kiyon


محرم الحرام کی آمد پر مبارکبادیوں کا سلسلہ کیوں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسمٰعیل


    محرم الحرام کی آمد پر ایک بار پھر مبارکبادیوں کا سلسلہ چلا اور جہاں بعض اردو اخبارات نے صفحہ اول پر مبارک بادیوں کے پیغامات شائع کئے، وہیں دوسری طرف مسلمانوں کے ایک حلقے میں بھی موبائل اور ایس ایم ایس کے ذریعے مبارک بادیوں کے پیغامات تقسیم کئے گئے۔ علاوہ ازیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دی گئیں۔ یہ چلن گزشتہ چند برسوں میں تیزی کے ساتھ عام ہوا ہے اور محرم کی آمد پر مبارک بادیوں کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ اس کی ابتدا بھی یقینا انگریزوں کی دیکھا دیکھی ہوئی ہے جو شمسی سال کی آمد پر ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کا وہ طبقہ محرم کی آمد پر مبارکبادیاں پیش کرنے میں سب سے آگے آگے رہتا ہے جو عام مسلمانوں کے معمولات کو سنت اور بدعت کے خانے میں تقسیم کرکے دیکھنے کا عادی رہاہے۔سوال یہ ہے کہ محرم کی پہلی تاریخ کی مبارکبادیاں کیوں پیش کی جاتی ہیں کیا اس عمل کا کوئی ثبوت اسوۂ رسول میں ہے یا قرآن کریم میں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے؟کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نئے ’’اسلامی سال‘‘ کی مبارکباد کا پیغام بھیجا تھا؟کیا اس کی فضیلت میں قرآن کریم کی کوئی آیت یا کوئی حدیث ہے؟ کیا اللہ کے رسول نے مسلمانوں کو اس کاحکم دیا تھا کہ نئے اسلامی سال کی مبارکبادیاں بھیجا کرو؟کیا قرآن وحدیث میں کہیں لکھا ہے کہ کونسا سال اسلامی ہے اور کونسا غیراسلامی؟ کیا قرآن کریم یا احادیث میں کہیں بتایا گیا ہے کہ قمری سال یا ہجری تقویم اسلامی سال ہے اور باقی دوسرے کیلنڈر غیر اسلامی ہیں؟ اگر قمری سال اسلامی سال ہے تو شمسی سال کیا غیراسلامی ہے؟ اور بھارت میں صدیوں سے رائج فصلی، بکرمی ، پنجابی، بنگالی سال کیا ہیں،کیا یہ بھی غیر اسلامی کیلنڈر ہیں؟ میرے ذہن میں اس قسم کے سوالات اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ بھارت میں گزشتہ چند برسوںمیں محرم کی آمد پر مبارکبادیوں کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے اور مسلمانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جو کررہے ہیں اس کی تائید میں کوئی نص موجود ہے یا نہیں۔مبارکبادی کا یہ سلسلہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی چلتا ہے اور کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ کام اسلامی ہے یا غیر اسلامی؟ میں نے اب تک علماء سے بھی اس سلسلے میں کبھی کوئی بیان نہیں سنا۔ نہ تائید میں اور نہ ہی مخالفت میں۔ان علماء  سے بھی نہیں جو ہرجمعہ کو خطبہ میں یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ’’ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے‘‘۔ اگر اسلام نے تقویم میں اسلامی اور غیر اسلامی کی تفریق نہیں کی ہے تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ فرق کرے؟ اور جب قرآن و احادیث میں نئے سال کی مبارکباد کا کوئی تصور نہیں ہے تو اسے شروع کرنا بدعت وگمراہی ہے یا نہیں؟

عہد نبوی کا معاشرہ اور کلینڈر

    عہد نبوی کے عرب معاشرے میں تاریخوں کو جاننے کی ضرورت بہت کم پڑتی تھی۔عموماً اس کی ضرورت اسلامی تیوہار اور حج وغیرہ کے لئے ہوتی تھی اور اس کے لئے قمری تاریخوں کو اہمیت دی گئی تھی کیونکہ چاند دیکھ کر بادیہ نشیں اور ناخواندہ اہل عرب بھی تاریخ کا اندازہ لگالیتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطوط مختلف سربراہان مملکت کو بھیجے تھے ان میں بھی تاریخیں درج نہیں تھیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی طے نہیں تھا کہ کونسا مہینہ قمری کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ بہت سے لوگ ربیع الاول کو سال کا پہلا مہینہ مانتے تھے۔ ’ربیع‘کا مطلب ہے بہار۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر فصلی کلینڈر موسم بہار سے ہی شروع ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ’بیساکھ ‘اور ایران میں ’نوروز‘ اس کی مثال ہیں۔ البتہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب تاریخوں کے معاملے میں کنفیوزن شروع ہوا تو باقاعدہ طور پر صحابہ کے مشورے سے اس کی تدوین ہوئی اور محرم کو قمری سال کا پہلا مہینہ مانا گیا اور اس کا حساب ہجرت کے واقعے سے لگایاگیا۔ سیرت نبوی اور تاریخ اسلام پر کتابیں لکھنے والے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا سال قمری مہینے کے لحاظ سے تحریر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ماہ ربیع الاول میں یکم عام الفیل کو آپ کی ولادت ہوئی۔ بعد کے واقعات بعثت نبوت تک کا ذکر بھی وہ عام الفیل کے حوالے سے کرتے ہیں۔ یوں ہی اس کے بعد کے برسوں کو نبوی سال کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ نے ہجرت فرمائی اور پھر ہجری سال کی شروعات ہوتی ہے۔ تاریخ اسلام میں اکثر واقعات کا ذکر اسی ہجری تقویم کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہجری کیلنڈرکا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہوا مگر ہجرت نبوی محرم نہیں ربیع الاول کے مہینے میں پیش آئی۔تاریخی روایات کے مطابق ربیع الاول کی پہلی تاریخ کورات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے اور آٹھ دن کے سفر کے بعد ۸ ربیع الاول کو دوپہر کے وقت مدینہ منورہ کی قریبی بستی ’قبا‘ میں وارد ہوئے جو کہ مدینہ کا ایک محلہ سمجھا جاتا تھا۔ویسے مدینہ منورہ کے اندرونی حصے میں ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو وارد ہوئے۔ اس لحاظ سے ہجرت کی شروعات اور مدینہ منورہ میں داخلہ سب کچھ ربیع الاول کے مہینے میں ہوا۔ گویایہ قمری سال جو کہ محرم سے شروع ہوتا ہے، وہ پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی کی کتاب’’ تاریخ اسلام‘‘ جلد اول کے صفحہ ۶۳۱ کی ایک عبارت ملاحظہ ہو:

    ’’سنین ہجری: اس وقت تک زمانہ کا اندازہ کرانے کے لئے سنہ نبوی استعمال کئے گئے ہیں،جن سے مدعا یہ ہے کہ آپ کو نبوت ملے ہوئے اتنے سال ہوئے،لیکن یہ بتادینا ضروری ہے کہ قمری سال کے مہینوں کی ترتیب اور نام وہی ہیں جو پہلے عرب میں رائج تھے، اس لئے سنہ نبوی کا پہلا سال صرف چند ہی مہینے کے بعدمیں ختم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا داخلہ مدینہ کے اندر ماہ ربیع الاول  ۴ ۱ نبوی میں بیان کیا گیا لیکن آپ کی بعثت اور نبوت کو صرف ساڑھے بارہ سال ہوئے تھے۔ اسی طرح آپ کے مدینہ میں ہجرت فرماکر تشریف لانے سے سنہ ہجری شروع ہوتا ہے۔ چونکہ آپ بارہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ میں تشریف لائے اس لئے پہلا ہجری سال صرف ساڑھے نو مہینے کے بعد ختم ہوگیا اور یکم محرم سے دوسرا سال شروع ہوگیا۔‘‘

     اوپر کی عبارت کو آپ دوبارہ پڑھیں۔ اس میں کہیں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ یہ سال اسلامی سال ہے بلکہ ان تاریخوں کو صرف اسلئے بتایا جاتا ہے کہ واقعات کو بیان کرنے میں آسانی ہو۔

اسلامی اور غیر اسلامی کی تفریق کیوں؟

    عرب میں قمری تاریخوں کا رواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے قبل سے تھا۔ یہاں شمسی سال کا رواج نہیں تھا لہذااسلامی تیوہار وغیرہ کو قمری مہینوں کے مطابق بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً رمضان کا مہینہ اور شب قدر کی تعیین، عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے تیوہار، یوم عاشورہ کا تعین وغیرہ۔ آج تک مسلمان قمری مہینوں کے مطابق ہی ان ایام کی تعیین کرتے ہیں مگر باقی کاموں کے لئے شمسی تاریخوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنے دیگر کاموں کے لئے بھی قمری تاریخوں کا استعمال کرنے لگیں تو اسی طرح کنفیوزن ہوجائے جس طرح عید اوررمضان کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ یعنی تین تین عیدیں اور الگ الگ تاریخوں میں رمضان کا آغاز۔دنیا کے کسی بھی ملک میں سرکاری کام کاج کے لئے ہجری کلینڈر کا استعمال نہیں ہوتا ہے،کیونکہ ایسااگر کیا گیاتوبہت سے مسائل پیدا ہوجائیںگے۔ قدم قدم پر کنوفیوزن جنم لینگے۔ مثال کے طور پر آپ نے کسی کام کے لئے یکم شعبان کی تاریخ طے کی اور آپ نے ۲۹کا چاند مانا جب کہ دوسرے شہر میں ۳۰ کا چاند مانا گیا۔ ایسے میں یہ کیسے طے ہوگا کہ کس دن پروگرام کیا جائے۔فی الحال ہم تین دن عیدیں کرتے ہیں مگر قمری تاریخ پر عمل کی صورت میں ہمارا ہر کام تین تین دن ہوگا۔ یہ مسائل اس لئے بھی پیدا ہونگے کہ ہم چاند کی تاریخوں کو طے کرنے کے لئے جدید سائنسی علوم کا استعمال نہیں کرتے اورہمارے علماء جب تک اپنی آنکھوں سے چاند نہیں دیکھ لیتے تب تک عید کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ آج کے دور میں سائنسی علوم کے استعمال سے اجتناب ویسا ہی ہے جیسے ہوائی جہاز چھوڑ کر اونٹ سے حج بیت اللہ کے سفر پر روانہ ہونا۔

    بھارت جیسے ملک میں صدیوں سے فصلی تاریخیں رائج ہیں کیونکہ یہاں قدیم ایام سے لوگ فصلوں اور موسموں کے لحاظ سے دنوں اور تاریخوں کا تعین کرتے رہے ہیں۔ یہاں کی مختلف ریاستوں میں موسموں اور فصلوں میں فرق ہوتا ہے لہٰذا الگ الگ ریاستوں میں لوگوں نے الگ الگ سنہ اپنی سہولت کے مطابق بنا رکھے ہیں۔ مثلاً مغربی بنگال میں بنگلہ سال کا رواج ہے تو پنجاب میں الگ سال اور تاریخ ہے۔ گجراتی سال الگ ہے تو جنوبی ہند کا سال الگ چلتا ہے۔ ایسا صرف بھارت میں ہی نہیں ہے بلکہ ایران سے چین تک ہرجگہ لوگوں نے اپنی سہولت کے مطابق سنہ اور تاریخیں طے کر رکھی ہیں۔ اب ان سنوں اور تاریخوں کو اگر ہم اسلامی اور غیر اسلامی کے خانوں میں بانٹنا شروع کردیںگے تو مصیبت ہوجائے گی۔ویسے بھی جب اللہ اور رسول نے اس کی تقسیم نہیں کی ہے تو دوسرے کیوں کریں؟ اس بارے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسرمفتی محمد مشتاق تجاروی (قاسمی)سے ہم نے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ قرآن میں بارہ مہینوں کا ذکر ہے مگر کسی سال کو اسلامی سال نہیں قرار دیا گیا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہجری سال کی ابتدا ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہجری سال کو اسلامی سال کہنا شرعی احکام کا حصہ نہیں بلکہ یہ مسلم کلچر کا حصہ ہے۔ یونہی نئے سال کی مبارکباد کا رواج بھی دورحاضر کی پیداوار ہے۔   

اس کے پیچھے کا مقصد کیا ہے؟

    عرب ملکوں میں رہنے والے بیشتر لوگ مسلمان ہیں جو سنّی اور شیعہ میں منقسم ہیں۔ اندازہ ہے کہ ان ممالک میں چالیس فیصد کے آس پاس شیعوں کی آبادی ہوگی۔یہاں شیعہ سنی فرق جیسی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ سبھی مسلمان ایک ساتھ مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں اور رشتہ کرنے میں بھی عموماً مسلک آڑے نہیں آتا۔ یہاں ۶۰فیصد شادیاں بین مسلکی ہوتی ہیں۔ سنٹرل ایشیا،افغانستان ،پاکستان اور بھارت میں بھی شیعوں کی خاصی آبادی ہے۔عام طور پر شیعہ حضرات محرم کے مہینے کو غم کے مہینے کے طور پر مناتے ہیں اور سنیوں کا ایک طبقہ بھی ان کے جذبات کا احترم کرتا ہے۔ ہندوستان میں سینکروں سال سے یہ رواج چلاآتا  ہے کہ سنیوں کا ایک طبقہ محرم کے مہینے میں خوشی کی تقریبات کرنے سے کریز کرتا ہے۔اہل بیت اطہار کے احترام کے سلسلے میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں ہے۔ یونہی اگر بعض معاملات میں اختلافات ہیں بھی تو دونوں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے ان کے ذکر سے گریز کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ دونوں فرقوں میں ایک شدت پسند طبقہ بھی ہے ،جو ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ان دنوں جو عرب ملکوں میں شیعوں کی مساجد پر حملے شروع ہوئے ہیں وہ عام سنی نہیں کرتے بلکہ دہشت گرد کرتے ہیں یا وہ تکفیری گروہ کرتے ہیں جو کلمہ گو اور اہل قبلہ کو بھی مشرک اور بدعتی قرار دیتے پھرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محرم میں مبارکبادیوں کا سلسلہ نام نہاد سنیوں کا ایسے ہی گروہ کے ذہن کی اپج ہے۔ یہ درست ہے کہ اس مہینے میں کچھ اچھے واقعات بھی ہوئے ہیں مگر محرم کی دسویں تاریخ کو نواسۂ رسول اور ان کے رفقاء کی شہادت کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کی یادآج تک دلوں سے محو نہیں ہوئی ہے۔ اب جو اس مہینے میں مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ اچھے مقاصد نہیں ہیں۔ ویسے بھی اسلام میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں ہے اور اسلام نے کسی بھی سال کو غیر اسلامی سال نہیں کہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 657