donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Muslim Motalqa Ki Zimmedari Kaun Uthayega


مسلم مطلقہ کی ذمہ داری کون اٹھائے؟


کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرنے والے پہلے اپنے گھر کو درست کریں


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    (مسلم مطلقہ کدھر جائے؟ کون اٹھائے اس کی ذمہ داری؟کیا اسے سڑکوں پر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے؟ یہ سوال ہندوستانی عدالتوں کے سامنے بھی آتا رہا ہے اور اسی لئے اکثر اس قسم کے فیصلے آئے ہیں کہ طلاق دینے والا شوہر ہی اپنی سابقہ بیوی کا خرچ دے۔علماء کہتے ہیں کہ یہ شریعت میں مداخلت ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ ایک عورت نے جس مرد پر اپنی ناکتخدائی نثارکی، کنوارپن قربان کیا، جوانی خراب کی، اب عمر کے ایسے مقام پر اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کرتا ہے جہاں اس کے لئے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں تو وہ کہاں جائے؟اس کے اخراجات کا ذمہ کون اٹھائے گا؟جس ملک میں کنواری لڑکیوں کی شادی ایک مسئلہ ہے وہاں ایک بال بچہ دار مطلقہ سے کون نکاح کرے گا؟جو لوگ نہیں چاہتے کہ عدالت شریعت میں کوئی مداخلت کرے وہ ایسی خواتین کے لئے کوئی فنڈ کیوں نہیں قائم کرتے؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ علما ہند، جمعیۃ اہل حدیث اور دیگر مسلم جماعتیں سامنے آکر اس مسئلے کا حل کیوں نہیں نکالتیں؟)

    آخر کیوں نہیں رک رہا مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا سلسلہ؟ ایک بار پھر سپریم کورٹ نے مسلم مطلقہ کو گزاراہ بھتہ دینے کا فیصلہ کیوں دیا؟ کیا ایک بار پھر مسلم پرسنل لاء بورڈ حرکت میں آئے گا اور اس سلسلے میں تحریک چلائے گا؟ کیا عام مسلمان ایک بار پھر سڑکوں پر اتریں گے اور ایک بار پھر وہی جنگ لڑی جائے گی جو ۱۹۸۰ء کی دہائی میں لڑی گئی تھی؟ کیا پھر اس مسئلے کو لے کر سیاست کا بازار گرم کیا جائے گا یا مسلمان سمجھداری کے ساتھ وقت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے اسے حل کر نے کی کوشش کریں گے؟ آج ہم یہ سوال اس لئے اٹھا رہے ہیں کیونکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک مسلم مطلقہ شمیمہ فاروقی کے سلسلے میں گزارہ بھتہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جسے علماء دین، شریعت کے خلاف مانتے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال اس وقت بھی تھی جب شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ نے اسی قسم کا فیصلہ دیا تھا ۔ اس فیصلے کے نتیجے میں مسلمان سڑکوں پر اتر آئے تھے اور اس وقت کی حکومت کو تحفظ شریعت کے سلسلے میں ایک قانون لانا پڑا تھا۔ بی جے پی سے لے کر کمیونسٹ پارٹیوں تک نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اسی کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے تھے انھیں نارمل کرنے کے لئے بابری مسجد کے قریب ہی رام جنم بھومی کا سنگ بنیاد حکومت کی مرضی کے مطابق رکھا گیا تھااور ملک میں ایک الگ قسم کی سیاست شروع ہوگئی تھی جس کا سلسلہ اب بھی چل رہا ہے اور ملک خطرناک حالات سے گزرنے پر مجبور ہے۔ آج شمیمہ فاروقی کے سلسلے میں جو فیصلہ آیا ہے وہ من وعن شاہ بانو کیس جیسا ہی ہے اور اس فیصلے کے بعد مسلمانوں میں بے چینی محسوس کی جارہی ہے۔جنتا دل (یو) کے ممبر پارلیمنٹ مولانا غلام رسول بلیاوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کورٹ کا فیصلہ شریعت اسلامی میں مداخلت ہے اور وہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آوازاٹھائیں گے۔ اسی کے ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے عہدیداروں اور مسلم علماء کی طرف سے بھی اس کی مخالفت میں بیانات آئے ہیں۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب اس معاملے میں سیاست شروع ہوسکتی ہے۔ ملک کی فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ مسلمان، کورٹ کے فیصلوں کو نہیں مانتے ہیں لہٰذا اگر بابری مسجد معاملے میں کورٹ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ بھی اسے نہیں مانیںگی۔ اب اگر مسلمان کورٹ کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو فرقہ پرستوں کو اشتعال انگیزی کا ایک موقع ہاتھ آجائے گا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے؟

    ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت نے شمیمہ فاروقی نامی خاتون کی درخواست پر فیصلہ سنایا ہے کہ اس کا سابق شوہر شاہد اسے ماہانہ گزارہ بھتہ ادا کرے۔ جسٹس دیپک مشرا اور پرفل چندر پنت کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مسلم خواتین کو بھی دفعہ ۱۲۵کے تحت گزارہ بھتہ لینے کا حق ہے۔ اگر کسی خاتون کو طلاق ہوگئی ہو تب بھی وہ سابق شوہر سے گزارہ بھتہ لے سکتی ہے، جب تک کہ دوسری شادی نہیں کرلیتی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ صرف عدت کے دوران خرچ دینا کافی نہیں ہے بلکہ سابق شوہر کو اس کے بعد بھی گزارہ بھتہ دینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ شمیمہ فاروقی کیس میں سب سے پہلے لکھنو کی فیملی کورٹ نے چار ہزار روپئے ماہانہ گزارہ بھتہ دینے کا حکم دیا تھا اور اس حکم کے مطابق شمیمہ فاروقی کا شوہر شاہد یہ رقم ادا کرتا تھا مگر بعد میں یہ معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ پہنچا جہاں شاہد کے ریٹائرمنٹ کے بعد صرف پنشن ملنے کے سبب کورٹ نے حکم دیا کہ گزارہ بھتہ کی رقم چار ہزار سے گھٹا کر دوہزار کردی جائے۔ اس فیصلے سے شمیمہ فاروقی کو اختلاف تھا اور اس نے سپریم کورٹ میں اپیل کردی جس پر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے گزارہ بھتہ کی رقم چار ہزار کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔ خبروں کے مطابق شمیمہ فاروقی اور شاہد کی شادی ۱۹۹۲ء میں ہوئی تھی۔ شمیمہ نے اپنے شوہر پر ٹارچر کرنے اور کسی سے بات نہیں کرنے دینے اور جہیز میں کار کے مطالبے کا الزام لگایا اور طلاق لے لی۔ شوہر مذکور نے طلاق کے بعد مہر کی رقم بھی ادا کردی تھی۔اس معاملے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اخترالواسع کا کہنا ہے کہ طلاق کے بعد مطلقہ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے سابق شوہر سے نفقہ حاصل کرے۔ کورٹ کے فیصلے کے معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کوئی قدم اٹھانا چاہئے۔

دستور ہند میں مسلم پرسنل لاء کے لئے جگہ

      دستورہند کے مطابق بھارت ایک سیکولر ملک ہے مگر یہاں رہنے والوں کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار ہے۔ مسلم پرسنل لاء میں اس بات کومانا گیا ہے مسلمان نکاح، طلاق، وراثت اور بچہ گود لینے کے معاملے میں اپنے مذہبی ضابطوں پر عمل میں آزاد ہونگے۔ حالانکہ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں ایسا فیصلہ دیا تھا جو مسلمانوں کے مذہبی اصول سے ٹکراتا تھا۔ اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے ،اسے دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر فقہی کتابوں کے حوالے سے یوں لکھا گیا ہے۔

    ’’طلاق کے بعدآثارِ نکاح ختم ہوجانے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے، اْسے عدت کہتے ہیں، مطلقہ کی عدت، اگر اْسے حیض آتا ہے تو مکمل تین حیض ہے، اور اگر کم عمری یا زیادہ عمر کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو تین قمری مہینے ہیں۔(فتاویٰ ہندیہ : ۱/۶۲۵ ،اسلام کے عائلی قوانین: ص/۲۱۲) ،عدت کی اِس مدت میں عورت طلاق دینے والے کی طرف سے رہائش ، نفقہ وخرچہ کی حقدار ہے(ہدایہ:۲/۳۲۴)، عدت کے بعد وہ اجنبیہ ہے، اس لیے عدت کے بعد طلاق دینے والے کے ذمہ اْس کی رہائش ونفقہ واجب نہیں ہے۔

(اسلام کے عائلی قوانین: ص/۲۲۱)‘‘

کورٹ کے فیصلے پر تشویش

    آج کے علماء اور اسلامی شریعت کے جانکار بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو شریعت میں مداخلت مان رہے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیرپروفیسرنصرت علی کا کہنا ہے کہ کورٹ کا یہ فیصلہ شریعت میں مداخلت ہے اور اسے مسلمان کبھی پسند نہیں کریںگے۔کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار مفتی مکرم اور مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کیا ہے۔ مشہور وکیل اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر ظفریاب جیلانی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے مسلم پرسنل لاء کے خلاف فیصلے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس قسم کے فیصلے آتے رہے ہیں اور بورڈ ان پر غور وخوض کرتا رہا ہے۔ جہاں تک حالیہ فیصلے کی بات ہے تو اس بارے میں اس وقت تک کچھ کہنا مناسب نہیں ہوگا جب تک کہ اسے پڑھ نہ لیا جائے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس قسم کے فیصلے آخر کورٹ کی طرف سے بار بار کیوں آرہے ہیں جب کہ اس کے لئے مسلمانوں نے ایک طویل لڑائی لڑی ہے ۔ اس تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان اور جماعت اسلامی ہند کے رکن ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ قانون پاس کیا گیا تھا ، اس میں کچھ جھول رکھ دی گئی تھی اور اس کا فائدہ اٹھا کر ہندوستانی عدالتیں شریعت کے خلاف فیصلے دے رہی ہیں۔ آج صرف یہ راستہ ہے کہ مسلمان اس سلسلے میں دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں یا پھر حکومت سے کہیں کہ اس قانون میں ترمیم کرے۔جب کہ قانون داں انوار عالم خاں کا کہنا ہے کہ شاہ بانو کیس کے بعد جب اس سلسلے میں قانون وجود میں آیا تو مسلم قائدین کو حکومت نے ٹھگنے کا کام کیا تھا۔ ایک لمبی تحریک چلی تھی جس میں لاکھوں مسلمانوں کی شرکت ہوئی تھی اور آخر کار قانون کا مسودہ تیار کرنے کے بعد راجیو گاندھی حکومت نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سامنے بھی رکھا تھا مگر بہت چالاکی کے ساتھ اس کے اندر ایسی پیچ چھوڑ دی گئی تھی کہ شریعت اسلامیہ کے خلاف فیصلے آتے رہیں۔  

شاہ بانو کیس کیا تھا؟

    شاہ بانو ایک 62 سالہ مسلمان خاتون اور پانچ بچوں کی ماں تھیں جنہیں 1978 میں ان کے شوہر نے طلاق دے دیا تھا۔ مسلم خاندانی قانون کے مطابق شوہر بیوی کی مرضی کے خلاف ایسا کر سکتا ہے۔اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے شاہ بانو نے اپنے شوہر کے خلاف گزارہ بھتہ کا کیس کردیا جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شاہ بانو کو ان کا شوہر گزارہ بھتہ دے۔کورٹ نے یہ فیصلہ آئین کی دفعہ ۱۲۵ کے تحت سنایا تھا۔اس فیصلے کی مسلمانوں کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت میں تحریک شروع ہوئی جو اس وقت تک چلتی رہی جب تک کہ اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدلنے کے لئے قانون بنانا منظور نہیں کرلیا۔

1986 میں، کانگریس (آئی) نے، جسے پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت حاصل تھی، ایک قانون پاس کیا جس نے شاہ بانو معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو الٹ دیا۔مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اس قانون کے باوجود نکاح،طلاق اور وراثت وغیرہ سے متعلق سرکاری عدالتوں کے اِس طرح کے فیصلے جہاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہیں، وہیں مسلمانوں کو دستورِ ہند میں حاصل حق سے محروم کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی منصوبہ بند سازش کاحصہ ہے۔

ایک حل طلب مسئلہ

    جہاں ایک طرف مسلم علماء اور قائدین کی طرف سے یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ مسلم مطلقہ کو تاحیات یا نکاح ثانی تک گزارہ بھتہ دینا اسلامی شریعت کے خلاف ہے وہیں یہ سوال بھی جواب چاہتا ہے کہ ایک عورت جو اپنی جوانی ،شوہر پر نچھاور کرچکی ہے اور آج جب وہ کئی بچوں کی ماں ہے، اس حالت میں وہ کہاں جائے؟ اس کے اخراجات کون ادا کرے؟ آج جب کہ کنواری دوشیزائوں کی شادیاں مشکل سے ہورہی ہیں، ایسے میں ایک عمر رسیدہ اور کئی بچوں کی ماں کو کہاں پناہ مل سکتی ہے؟ کون اس کو گزارہ بھتہ دے گا اور اس کی ضرورتیں پوری کرے گا؟ یہ سوال اس لئے بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ مسلم سماج میں لڑکیوں کو گھر میں قید رکھنے اور سخت پردے کا رواج آج بھی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ اس قسم کا پردہ اسلام کا حصہ ہے اور لڑکیوں کے کمانے کو وہ آج بھی معیوب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے انھیں کمانے سے روکا نہیں تھا۔ بھارتی عدالتوں نے اب تک مسلم مطلقہ کو گزارہ بھتہ دینے کے جتنے بھی فیصلے دیئے ہیں اس کے پس منظر میں یہ سوال رہا ہے کہ طلاق کے بعد اس کے اخراجات کی ذمہ داری کس کے سر ہوگی؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم علماء یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ عدت کی مدت کے بعد مطلقہ کا اپنے سابق شوہر سے گزارہ بھتہ لینا شریعت کے خلاف ہے مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ اس کا خرچ کون ادا کرے؟ ظاہر ہے کہ اس کا باپ اب زندہ نہیں رہا یا اگر زندہ ہے تو بڑھاپے میں کمانے کے لائق نہیں رہا ہے۔ بچے چھوٹے ہیں اور بھائی اپنے گھر سنسار میں الجھے ہوئے ہیں، ان کے پاس بہن کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، ایسے میں وہ مطلقہ کہاں جائے؟ اس سوال کو اسلامی اسکالر پروفیسر اخترالواسع بھی اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اس جانب دھیان دینا چاہئے کہ جن خواتین کو زیادہ عمر مین طلاق دے دی جاتی ہے اور ان کا کوئی کفیل نہیں ہوتا وہ کہاں جائیں؟انھوں نے سوال کیا کہ پرسنل لاء بورڈ نے غیراسلامی طریقے سے طلاق پانے والی یا بے سہارا مطلقہ خواتین کے لئے کوئی بیت المال قائم کیا ہے؟  


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 562