donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Muslim Personal Law,Common Civil Programme Aur Hindustani Moashra


 

مسلم پرسنل لائ،کامن سِول کوڈ اور

ہندوستانی معاشرے کی تکثیری جہات


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


     بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مذاہب، خیالات اور طریقہ ٔ زندگی کے لوگ رہتے سہتے ہیں۔ہندو،مسلم، بدھسٹ،سکھ ،عیسائی اور پارسی ہی نہیں بلکہ ان طبقوں کے اندر بھی بہت سے مسلک موجود ہیں اور ان سبھی کا زندگی جینے کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہاں عام ہندووں سے الگ جینی، وشنوئی، آریہ سماجی گروہ ہیں۔ بعض ہندو بت پرستی کرتے ہیں تو کچھ توحید کے قائل ہیں۔ملک کے الگ الگ خطوں میں الگ الگ دیوتائوں کی پوجا ہوتی ہے تو کچھ مندروں میں کوئی بت نہیں ہوتا۔ سکھوں کے اندر بھی کئی فرقے ہیں اوراس ملک میںمسلمانوں کے 72 نہیں تو کم از کم 20 فرقے ضرور مل جائینگے۔ ظاہر ہے کہ جہاںشیعوں میں کئی فرقے ہیں اور ان کے الگ الگ شرعی مسائل ہیں وہیں سنیوں میں بھی بہت سے گروپ ہیں اور وہ اپنے مسائل پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔ اسی طرح کیتھولک عیسائیوں سے الگ پروٹسٹنٹ اور بپٹسٹ عیسائی بھی یہاں رہتے ہیں۔ یہودی اور پارسی بہت کم تعداد میں ہیں مگر ان کے اندر بھی فرقہ بندیاں ہیں اور ان کے سبھی فرقے ایک دوسرے سے الگ طریقے سے زندگی جیتے ہیں۔ معاشرتی تکثیریت اور سماجی تنوع ہی بھارت کی پہچان ہے۔ اسی کو انیکتا میں ایکتا اور کثرت میں وحدت کہا جاتا ہے۔ یہ رنگارنگی ہمیں دنیا کے کسی مسلم ملک میں نہیں ملے گی اور نہ ہی یوروپ کے کسی دیش میں اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی قوت ہے اور اسے ختم کرکے تمام طبقات کو ایک طریقے سے زندگی جینے پر مجبور کرنا سماج کی رنگارنگی کو ختم کرنے جیسا ہوگا۔ بھارت میں وقفے وقفے سے کامن سول کوڈ کی بات کی جاتی ہے  جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک ملک کے لئے ایک ہی قانون ہو اور سبھی گروہوں کے اپنے مخصوص قوانین کو ختم کردیا جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ہماری ثقافتی خوش رنگی کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا؟ اگر ملک کے تمام شہریوں کو ہم نے ایک طرز زندگی پر مجبور کیا تو ہم دنیا سے کہہ سکیں گے کہ ہماری تہذیب میں قوس قزح کے رنگ ہیں؟ ہمارے ملک کی عدالتیں بھی اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ ملک میں کامن سول کوڈ ہونا چاہئے اور ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں جس ایک قانون کی بات کہی گئی ہے اس پر جلد ازجلد عمل ہونا چاہئے اور اس وقت مرکز میں ایک ایسی پارٹی کی سرکار ہے جس کے انتخابی مشہور کا حصہ رہاہے کامن سول کوڈ۔ ایسے میں اس ایشو پر حکومت کی جانب سے قدم بڑھانے کا امکان زیادہ ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر مسلمانوں میں مسلم پرسنل لاء کی بقا کے تئیں فکرمندی بھی بجا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کی مخالفت میں صرف رائٹ ونگ والے نہیں ہے بلکہ لیفٹسٹ بھی شرعی قوانین کے خلاف ہیں اور وہ بھی بار بار کامن سول کوڈ کی حمایت میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان کے  الگ الگ گروہوں کے پرسنل قوانین صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور انگریزوں نے بھی پرانے قوانین کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی تھی، جس کی وجہ سے 19 ویں صدی اور اس سے بھی پہلے بنائے گئے تمام پرانے قانون بنے رہے اور آگے چل کر یہی قانون یونیفارم سول کوڈ یعنی ملک کے ’’ہر شہری کے لئے ایک قانون‘‘ بنانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئے۔آج ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے لوگوں کے لئے مختلف قانون ہیں اور مسلمانوں، عیسائیوں اور پارسیوں کے لئے الگ الگ پرسنل لاز ہیںاور جب بھی ان کی جگہ یونیفارم سول کوڈ بنانے کی بات ہوتی ہے تو تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے۔اگر کامن سول کوڈ نافذ ہوا تو ملک کے سبھی مذاہب اور فرقوں کے شہریوں کے لئے شادی، بیاہ، طلاق،رضاعت،وراثت، بچہ گودلینے اور دوسرے معاملات میں اسی قانون کو نافذ کیا جائے گاجو اس وقت ہندووں پر نافذ ہے۔حالانکہ ہندووں کے اندر بھی کئی الگ الگ قوانین موجودہیں۔

بہت کٹھن ہے ڈگر کامن سول کوڈ کی

    آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آزادی کے بعد 1950 کی دہائی میں ہندو قانون میں تبدیلی کی گئی لیکن دوسرے مذاہب کے ذاتی قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یونیفارم سول کوڈ لاگو کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لئے قوانین میں ڈھیر ساری تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں الگ الگ وجوہات سے اس مسئلے پر بحث نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ یہ ان کے ایجنڈے کو سوٹ نہیں کرتا۔ پرسنل قوانین کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئین سازی کے وقت ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈکر کو جس اکلوتے مسئلے پر سب سے زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑا وہ یہی مسئلہ تھا۔ انھیں اس مسئلے پر وزیر قانون کے عہدے سے استعفی دینا پڑا اورملک کے پہلے عام انتخابات میں بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑاتھا۔ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سڑکوں پر بھی خوب ہنگامہ ہوا۔ یہاں تک کہ آئین ساز اسمبلی کے چیئرمین ڈاکٹر راجندر پرساد اور تمام تجربہ کار کانگریسی، ڈاکٹر امبیڈکر سے متفق نہیں تھے۔ اب ایک بار پھر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کامن سِول کوڈ ملک کو متحد کرے گا یا انتشار کا سبب بن جائے گا؟ پورے ملک کے لئے ایک قانون کی وکالت ایک مختلف الخیال اور مختلف المذاہب ملک کے لئے کس قدر مفید ہوگی؟ کیا اب وہ وقت آچکا ہے جب اسلامی شرعی قوانین کو ختم کرکے مسلمانوں کو کو بھی ہندو کوڈ بل کے دائرے میں لایا جائے؟ کیا وہ وقت آچکا ہے جب عیسائیوں اور دوسرے اقلیتی طبقات کو ان کے صدیوں پرانے مذہبی دستور سے محروم کرکے ایک ہی قانون کے دائرے میں لایا جائے؟ کیا اب آدیباسیوں اور دوسرے گروہوں کو بھی ان کے پرانے ضابطوں سے محرم کردیا جائے گا؟ کیا جس کامن سِول کوڈ کا شوشہ پنڈت نہروکے دور میں چھوڑا گیا تھا اب مودی کے دور میںاس پر عمل ہوگا؟ کیا اب بی جے پی سرکار اپنے متنازعہ ایشوز کو نافذ کرنے کی طرف قدم بڑھا رہی ہے؟ کیا سرکار اندرونِ خانہ قانون میں بدلائو کی تیاری کر رہی ہے؟ کیا ہندوستانی مسلمان شریعت اسلامیہ کی قربانی دینے کو تیار ہوجائینگے؟ یہ سوالات آج خواہ مخواہ ہی نہیں اٹھائے جارہے ہیں بلکہ ان کی خاص اہمیت ہے اور آج حالات جس رخ پر جارہے ہیں انھیں دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں کامن سول کوڈ کا خطرہ زیادہ سنگین ہوگیاہے۔ حال ہی میں سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے اپنے ایک بیان میں شدت کے ساتھ شریعت اسلامیہ کی مخالفت کی اور کامن سول کوڈ کی حمایت کی ہے۔ حالانکہ سرکار کی طرف سے ابھی اس سلسلے میں کوئی واضح بیان نہیں آیا ہے اور اس نے یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ اس معاملے میں اندرونِ خانہ کیا کر رہی ہے؟ مگر اندر کی اطلاعات یہ ہیں کہ مودی سرکار نے ایک کمیٹی بنا رکھی ہے جو ان قوانین کی شناخت کر رہی ہے جن میں بدلائو کی ضرورت ہے، اسی کے ساتھ ماہرین قانون کامن سول کوڈ کا مسودہ بھی تیار کر رہے ہیں اور مناسب وقت پر اسے قوم کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ آر ایس ایس کے منصوبوں میں بھی کامن سول کوڈ کا نفاذ شامل ہے اور وہ شروع سے اس کی وکالت کر رہا ہے۔ حالانکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں بھی کامن سول کوڈ نہیں ہے اور ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق زندگی جی سکتا ہے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق رکھتا ہے ،پھر بھارت میں اس کی کیا ضرورت پڑگئی جہاں کا معاشرہ تنوع رکھتا ہے اور یہاں الگ الگ طریقے کے مطابق لوگ زندگی گزارتے ہیں۔

کامن سول کوڈ کی آہٹ

    کامن سول کوڈ کا شوشہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور میں جب ملک کا آئین مرتب ہوا تھا اسی وقت ایک شق رکھ دی گئی تھی کہ ملک کی ذمہ داری ہوگی کہ مناسب وقت پر تمام شہریوں کے لئے ایک قانون بنائے۔ اس کے بعد سے سپریم کورٹ بھی سوال کر چکا ہے کہ اس شق پر کب عمل کیا جائے گا؟ مگر مرکزی سرکار ٹال مٹول کرتی رہی ہے۔ اب بی جے پی اقتدار میں ہے اور اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ اس کے ایجنڈے میں کامن سول کوڈ شامل ہے نیز اس کے پاس پارلیمنٹ میں اتنے ممبران بھی ہیں کہ وہ کسی بھی قانون کو بنا اور بدل سکتی ہے، لہٰذا وہ اندرونِ خانہ اس تیاری میں مصروف ہوتو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وہ اس بل پر کام کر رہی ہے اور ماہرین قانون سے بات کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں علماء اسلام ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ارکان اور دوسرے مذاہب کے اہلِ حل وعقد سے بھی مناسب وقت پر مشورہ کیا جائے گا اور ان کے خیالات کو سامنے رکھا جائے گا۔

شرعی قوانین پہ سوال

    ماضی میں بھی اسلامی شرعی قانون پر سوال اٹھتے رہے ہیں اور اس سلسلے میں ججوں کے سامنے کئی ایشوز آتے رہے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں شاہ بانو کیس اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر سامنے آیا تھا، جس میں کورٹ کا فیصلہ اسلامی قانون کے اندر مداخلت مانا گیا تھا اور پھر مسلمانوں نے ایک تحریک چلائی جس کے سبب مسلم پرسنل لاء بل پاس ہوا۔ اس قانون کے سبب مسلمانوں کو اپنے شرعی قوانین پر عمل کرنے کا حق زیادہ پختہ طریقے سے مل گیا۔ حالانکہ اس کے بعد مسلمانوں کے اپنے طریقۂ کار کے سبب بھی کئی مسائل سامنے آتے رہے اور ملکی عدالتوں کو بھی سوچنا پڑا کہ وہ کیا کریں؟ مثال کے طور پر حنفی فقہ کے مطابق ایک مجلس میں تین بارطلاق کہہ دینے سے تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے معاملے اکثر ہمارے سماج میں سامنے آتے ہیں اور طلاق کایہ غیرشرعی طریقہ بہت سے بسے بسائے گھروں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن جاتا ہے۔ علماء کا ایک طبقہ اس کے خلاف نظریہ رکھتا ہے مگر ہندوستان میں بس ایک ہی طریقے پر عمل پر اصرار ہے۔طلاق کے بعد مسلمان مطلقہ کو شوہر سے گزارابھتہ نہیں ملتا اور اس کا مستقبل بالکل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس ملک میں کنواری لڑکیوں کی شادی مشکل ہے وہاں ایک عمررسیدہ مطلقہ کا کیا ہوگا؟ اس کا خرچ کون چلائے گا؟ باپ نے تو اپنی زندگی بھر کی کمائی جمع کرکے مشکل سے شادی بیاہ کردیا تھا۔ اس کے بعد اس کی موت ہوگئی، بھائی اگر ہیں تو اپنے بال بچے اور گھر سنسار میں مصروف ہیں ان کے پاس اپنی مطلقہ بہن کو پناہ دینے کے لئے نہ وقت ہے اور نہ جگہ ۔ ایسے میں وہ جائے تو جائے کہاں؟ اب اس کے سامنے بھیک مانگنے کے علاوہ کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ نہ شادی کے وقت اسلامی احکام پر عمل کیا گیا اور نہ ہی طلاق دینے میں اسلامی طریقے کا خیال رکھا گیا تو سابق شوہر جس پر اس نے اپنی ناکتخدائی قربان کی ہے اور جس کے حوالے اس نے اپنی زندگی بھر کی محفوظ پونجی کی ہے،اس سے گزارہ بھتہ لینے میں شریعت کیوں آڑے آتی ہے؟ علماء کرام سے بصداحترام کیا ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر جب اسلامی احکام کی پابندی نہیں کی جارہی ہے تو پھر خواتین کے حق کے معاملے میں اس پر اصرار کیوں؟ ایک مسلمان مرد دوسری شادی کے لئے شریعت سے حاصل حق کا دعویٰ کرتا ہے مگر پھر وہی پوری زندگی ان شرائط کو بھول جاتا ہے جو تعدد ازواج کے سلسلے میں اسلام نے عائد کی ہیں اور کسی ایک بیوی کی حق تلفی کرتا رہتا،اب ایسے میں کامن سول کوڈ کے ذریعے تعدد ازواج پر پابندی عائد کردی جائے تو کیابرا ہوگا؟ کیا ہم مسلمان ہی اسلامی احکام کی دھجیاں اڑا کر حکومت کو شریعت میں مداخلت کا موقع نہیں دے رہے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ اسلام نے ہر انسان کو اس کا جائز حق دیا ہے مگر اس کا غلط استعمال ہی تو دوسروں کو ہمارے معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم کرتا ہے۔تمام مسائل اس لئے سامنے آرہے ہیں کہ ہم شریعت پر آدھے ادھورے طریقے سے عمل کرتے ہیں یا آسان راستے کو چھوڑ کر مشکل راستے پر چلنا شروع کردیتے ہیں۔ جب ہم یہ مانتے ہیں کہ علماء اور فقہاء کے اختلاف کی صورت میں کسی بھی ایک عالم کے طریقے پر عام مسلمان عمل کرسکتا ہے تو ہم فقہ شافعی، حنبلی اور مالکی سے بھی استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ حالانکہ ہم حنفی ہونے کے باوجود اکثر امام ابوحنیفہ کے مسلک کے برخلاف کبھی امام محمد تو کبھی امام یوسف کے مسلک پر عمل کرتے ہیں۔ ہمیں اللہ اور رسول کی طرف سے قرآن وسنت پر عمل کا حکم ہے اور قرآن و سنت سے مسائل کا استخراج سبھی اماموں اور علماء نے کیا ہے،پھر اس تقلید میں تھوڑی سی لچک پیدا ہوجائے تو کیا ہی خوب ہو،اور شاید ہمارے مسائل میں کچھ کمی آجائے نیز ان مسائل کا حل بھی نکل جائے جو ہندوستانی عدالتوں میں اٹھتے رہے ہیں۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ شریعت سے بہتر کوئی طریقۂ زندگی نہیں ہے اور دنیا کے تمام ماڈرن قوانین کی پیدائش اسی قانون سے ہوئی ہے۔ یہاں مسئلہ قانون میں بدلائو کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے طرز عمل میں بدلائو کا ہے۔ آج جو سوالات اٹھ رہے ہیں وہ اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ہی اس کی روح کو ترک کردیا ہے اور اسلامی احکام کو پسِ پشت ڈال دیاہے۔اگر پوری طرح اسلام پر عمل کیا جائے اور تعلیمات اسلامی کی روح کو ہم اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو ہمارے مسائل ختم ہوجائیں۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 529