donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Obama Ka Hunter Dekh Modi Ke Moonh Se Secular Bol Nikal Parhe



ابامہ کا ہنٹر دیکھ کر مودی کے منہ سے سیکولر بول نکل پڑے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


کیا مودی کو راہ راست پر رکھنے کے لئے بار بار بی

ن الاقوامی دبائو کی ضرورت پڑے گی؟ اگر عالمی لیڈروں نے دبائو نہیں بنایا تو سنگھ پریوار اقلیتوں کے خلاف مظالم کی انتہا کردے گا؟ کیا بھارت کے عیسائیوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لئے مغربی ممالک مودی پر دبائو دے رہے ہیں؟حال ہی میں جو مودی نے سیکورازم کا راگ الاپنا شروع کیا ہے اس کے پیچھے کا سبب کیا ہے؟وزیر اعظم نریندر مودی نے آخر کار اس موضوع پر بولا جس پر ان سے بولنے کے لئے کہا جارہا تھا۔ وہ اپوزیشن کے ہنگامے پر نہیں بولے تھے، پارلیمنٹ کے کئی دن ضائع ہونے کے باوجود انھوں نے زبان نہیں کھولی تھی، یہاں تک کہ ابامہ نے انھیں دو دو بار جھٹکا دیا مگر پھر بھی انھوں نے زبان نہیں کھولی مگر اب وہ بول پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس ملک پر سب کا حق ہے اور سبھی مذاہب کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے عیسائیوں کے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت مذہبی تشدد اور انتہا پسندی کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہر ہندوستانی کے دل میں سبھی مذاہب کے احترام کا جذبہ ہوتا ہے اور یہ ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔ بھارت میں بہت سے مذہبی نظریات اور پنتھوں کا عروج ہوا اور یہاں انھیں پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔انھوں نے مذہب کو انسان کی ذاتی پسند کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دنوں ساری دنیا میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے خلاف لڑائی کی ضرورت ہے۔مودی نے ملک کی ہزاروں سال کی قومی یکجہتی اور بھائی چارہ کی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے گوتم بدھ، مہاتما گاندھی اور سوامی وویکانند کے اقوال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ

یہاں ہر مذہب کے لوگ ہزاروں سال سے ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ سے رہتے ہیں آئے ہیں اور ملک کا دستور بھی اسی سے عبارت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کسی بھی ایسی کارروائی کو برداشت نہیں کرے گی جو ملک کے لوگوں کو بانٹنے والی ہو اور جو تشد پر یقین رکھتی ہو۔ مودی کے اس بیان کا کانگریس کی طرف سے خیرم مقدم کیا گیا ہے اور پارٹی ترجمان م افضل نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ مودی جی اپنی پارٹی کے ان لوگوں کے خلاف بھی کاروائی کریں گے جو اشتعال انگیز بیان دے رہے ہیں اور انھیں بھی تنبیہ کریں گے جو ماحول بگاڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ ایسا ماننے والے م افضل اکیلے نہیں ہیں بلکہ دوسرے لو گ بھی یہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ جب وہ اتنا سخت بیان دے رہے ہیں تو ان لوگوں کو پارٹی میں پناہ کیوں دے رکھی ہے جو انھیں جرائم میں ملوث ہیں۔ ادھر وشو ہندو پریشد کے انٹرنیشنل ورکنگ صدر پروین توگڑیا سے جب وزیر اعظم کے بیان اور’’ گھر واپسی‘‘ و’’لوجہاد ‘‘جیسے ایشوز کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ اس بارے میں آپ مجھ سے نہیں بلکہ  نریندر مودی اور امت شاہ سے پوچھئے۔ اس سے جب دلی انتخابات میں بی جے پی کی ہار کے لئے اشتعال انگیز بیانات اور لوجہاد وگھر واپسی جیسے معاملوں کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کاکہنا تھا کہ یہ ایشوز تو لوک سبھا الیکشن کے وقت بھی تھے تب ہار کیوں نہیں ہوئی؟

ابامہ کے انتباہ کا اثر

وزیر اعظم کے بیان کو کئی جہات سے دیکھنے کی کوشش ہورہی ہے اور اسے مختلف حلقوں میں الگ الگ انداز سے دیکھا جارہا ہے۔ امریکی صدر براک ابامہ اپنے بھارت دورے کے بیچ کہا تھا کہ بھارت اس وقت تک ترقی کرے گا جب تک وہ مذہبی خطوط تقسیم نہیں ہوگا۔ ابامہ کے اس بیان کو مودی کے لئے تنبیہ مانا جارہا تھا اور اشارہ تھا کہ وہ ملک میں ہندتو کے جنونیوں کی بڑھتی اشتعال انگیزیوں پر لگام لگائیں اور عیسائیوں کے خلاف پورے ملک میں ہورہے نفرت انگیز پرچار اور حملوں کو روکیں۔ حالانکہ مودی نے اس بیان کے باوجود ان لوگوں کے خلاف کسی قسم کا بیان نہیں دیا اور ابامہ کو امریکہ واپس جاکر دوبارہ سخت لہجے میں یہاں کے حالات پر تنقید کرنی پڑی۔ سمجھا جاتا ہے کہ ابامہ نے ملک بھر میں سنگھ پریوار کے ذریعے ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر عیسائیوں کو دہشت زدہ کئے جانے کے خلاف اس قسم کا بیان دیا تھا۔ حالانکہ اسی بیچ راجدھانی دلی میں گرجا گھروں پر حملے کی خبریں بھی آئیں اور پورے ملک میں کئی جگہوں سے خبریں آئیں کہ عیسائی مشنریوں کے کام میں انتہا پسند افراد مداخلت کر رہے ہیں اور انھیں پریشان کر رہے ہیں۔ انھیں حالات کے تناظر میں ابامہ پر دبائو تھا کہ وہ بھارت کو تنبیہ کریں اور انھیں کہیں کہ وہ فرقہ پرستوں کوقابو میںکریں۔حالانکہ ساکشی مہاراج اور پروین توگڑیا سمیت کئی ہندتو وادیوں کی جانب سے اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ جاری تھا اور اس پر پارلیمنٹ کے اندر بھی بحث کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ سرکار بحث کے لئے تیار بھی تھی مگر وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی کہ وزیر اعظم اس پر جواب دیں ۔ البتہ اپوزیشن کی جانب سے اس پر اصرار کیا جارہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم منہ کھولنے کے لئے تیار نہیں ہوئے اور پارلیمنٹ کی کارروائی میں رخنہ پڑنا تھا سو پڑا۔  مودی کے حالیہ بیان کو پارلیمنٹ کے بجٹ سشن سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش ہورہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کو لگتا ہے کہ آئندہ سشن میں یہ معاملہ بھی پارلیمنٹ میں اٹھ سکتا ہے لہٰذا انھوں نے پہلے ہی اپنی طرف سے صفائی پیش کردی۔ غور طلب ہے کہ عالمی شہرت یافتہ اخبار نیویارک ٹائمس نے اداریہ لکھ کر مودی کی خاموشی کو خطرناک بتایا تھا اور بین الاقوامی پلیٹ فارمس پر ان کی خاموشی کو پر اسرار قرار دیا جارہا تھا جو اب ٹوٹ چکی ہے مگر لوگوں کو انتظار ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کارروائی کے لئے وہ کہہ رہے ہیں ، اس پر عمل کب ہوگا؟

مودی کے قول وفعل میں تضا د کیوں؟

وزیر اعظم کے بیان کا مسلمانوں کے بیچ استقبال کیا گیا ہے اور بیشتر مسلم تنظیموں نے اسے بھگواوادیوں کے خلاف تنبیہ مانا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ آواز پہلے ہی سے اٹھ رہی تھی کہ جو بھاجپا اور سنگھ کے لوگوں کی طرف سے عجیب وغریب بیانات آرہے ہیں ان پر وزیر اعظم کو لگام لگانی چاہئے اور ان کا منہ بند کرنا چاہئے ، آج انھیں لگتا ہے کہ وزیر اعظم نے ٹھیک بولا ہے مگر ذرا دیر سے زبان کھولی ہے۔ ساکشی مہاراج اب بھی ان کی پارٹی میں ہے جو اکثر اشتعال انگیز کی کرتا رہتا ہے ۔ اسی طرح ’’حرام زادے‘‘ والا بیان دینے والی ساتھوی نرنجن جیوتی آج بھی مودی کی کابینہ میں وزیر ہے۔ پروین توگڑیا اور اشوک سنگھل جیسے وشو ہندو پریشد کے نیتائوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ کھلم کھلا بابائے قوم کے قاتلوں کا مندر بنانے کی بات کہی جارہی ہے اور ۲۰۲۱ء تک اس ملک کو عیسائیوں اور مسلمانوں سے خالی کرانے کی دھمکی دی جارہی ہے مگر وزیر اعظم اب تک صرف کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں۔  

ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک لمبی خاموشی کے بعد اپنے لب کھولے اور کسی بھی مذہب کے خلاف تشدد و نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کہی ہے لیکن یہ کیسا تضاد ہے کہ اسی کے ساتھ ان کی حکومت مظفر نگر سے بی جے پی رکن اسمبلی سریش رانا کو زیڈ زمرہ کی سیکورٹی فراہم کرتی ہے۔ سریش رانا پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مظفر نگر میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ زیڈ زمرہ کی سیکورٹی کے تحت پیراملٹری کے 34جوان رہائش گاہ پر تعینات ہوں گے۔ اس پر تقریباً 15لاکھ روپے خرچ آئے گا۔ یہ سیکورٹی عام طورپر مرکزی حکومت کے وزراء و دیگر اہم شخصیات کو ملتی ہے لیکن جس طرح مظفر نگر فساد کے ملزم کو یہسیکورٹی فراہم کی گئی ہے وہ حکومت کی منشار اور عمل پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ وزیر اعظم کے بیان کا اثر تبھی محسوس کیا جائے گا جب آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ذریعہ کی جارہی اشتعال انگیزی پر قدغن لگے اور اقلیتوں کے خلاف جو مہم چلائی جارہی ہے وہ بند ہو۔انھوں نے اپنے بیان میں کہا کر کانپور کے مسلمانوں نے آر ایس ایس کے ذمہ داروں سے سوال کرکے گھر واپسی، تبدیلی مذہب اور ہندو راشٹر جیسے کئی ایشوز کو سمجھنے کی کوشش کی تھی لیکن سنگھ کے ذمہ دار اس کے لیے تیار نہیں ہوئے اور انہو ںنے ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کی غلط فہمی اور سنگھ اور اس سے جڑے لوگوں کی ماحول خراب کرنے والی سرگرمیاں اپنی جگہ برقرار ہیں۔

اشتعال انگیزی پر لگام کب لگے گی؟

نریندر مودی طویل خاموشی کے بعد اس موضوع پر بولے ہیں جس پر انھیں بہت پہلے بولنا چاہئے تھا حالانکہ اب بھی وہ صرف زبان سے ہی کام چلا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اثرات کا استعمال کرکے کسی کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ان کی پارٹی نے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں۔ حالانکہ اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی سے مودی کو اگر نفرت ہے تو انھین پولس کو حکم دینا چاہئے تھا اور ذمہ داروں کو حوالات وجیل کی ہوا کھلانی چاہئے تھی مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دلی الیکشن میں شکست کے بعد انھیں احساس ہوگیا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے  اور یہاں اشتعال انگیزی و انتہاپسندی کو عوام برداشت نہیں کرسکتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ لوگوں نے بی جے پی کو بری طرح مسترد کردیا ہے اور اس سے سبق لیتے ہوئے انھوں نے سیکولر بیان دیا ہے۔ بہرحال اگر وہ اس معاملے میں مخلص ہیں  تو انھیں صرف زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عمل سے بھی کام لینا چاہئے۔ اچھی تقریر سن کر کچھ دن لوگ خوش ہونگے مگر اس کے بعد انھیں کام چاہئے ہوگا۔ باتوں پر زیادہ دن لوگوں کو نہیں ٹرخایا جاسکتا ہے۔

(یو این این)

*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 549