donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   PDP Aur BJP Sarkar : Kashmiriyon Ke Masael Ka Hal


پی ڈی پی اور بی جے پی سرکار، کشمیریوں کے مسائل کا حل؟


کیا مفتی صاحب بھارت ۔پاک بات چیت شروع کرانے کی کوشش کرینگے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

    جموں وکشمیر میں کسی بھی وقت بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد کی سرکار قائم ہوسکتی ہے۔ کسی بھی وقت دونوں پارٹیوں کی جانب سے سمجھوتے کا اعلان ہوسکتا ہے۔ دونوں میں ایک مدت سے بات چیت چل رہی ہے اور مفتی محمد سعید بی جے پی کو جتنا جھکا سکتے ہیں جھکانا چاہتے ہیں اور اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں۔وہ دفعہ ۳۷۰ اور ’’افسپا‘‘ پر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں کیونکہ اگر انھوں نے اس پر بی جے پی کے سامنے سپر ڈال دی تو عوام انھیں کبھی نہیں بخشیں گے۔ جموں وکشمیرمیں پی ڈی پی اور بی جے پی کا ساتھ آنا ریاست کے لئے مفید ہوگا؟ کیا ریاست ومرکز کی تال میل سے چلنے والی سرکار یہاں ترقی کے نئے دروازے کھولے گی؟ کیا اس سرکار سے امید کی جانی چاہئے کہ وہ عوامی مسائل کو حل کرنے کی طرف قدم بڑھایائے گی؟ چند دن قبل ہوئے اسمبلی الیکشن کے بعد سے یہاں صدر راج نافذ تھاکیونکہ کسی پارٹی کو تنہا اکثریت نہیں ملی تھی۔ یہاں حکومت سازی کا بس ایک راستہ تھا کہ ملی جلی سرکار بنے مگر اب تک سیاسی پارٹیوں میں اتفاق رائے نہیں بن پایا تھا لہٰذا سرکار بھی نہیں بن پائی تھی مگر اب سرکار کی راہ ہموار ہوچکی ہے اور پی ڈی پی و بی جے پی مل کر سرکار بنانے جارہی ہیں۔ یہ سرکار کیسی ہوگی اور کن خطوط پر چلے گی یہ دیکھنے والی بات ہوگی مگر اتنا واضح ہوچکا ہے کہ وزیر اعلیٰ پی ڈی پی کا ہوگا کیونکہ مفتی محمد سعید اپنی بیشتر شرائط منوانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔انھوں نے حکومت سازی میں جلد بازی نہیں کی اور انتہائی دانشمندی کے ساتھ اپنے دائوچلتے رہے جس کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی کو ان کے آگے سپرڈالنا پڑا اور ان کی بیشتر شرائط اسے ماننی پڑیں۔ حال ہی میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے نئی حکومت بننے کی بات کہی گئی۔ دونوں پارٹیوں کے لیڈران نے گورنر این این ووہرا سے ملاقات کی اور اس سلسلے میں گفتگو کی۔ نئی سرکار میں دونوں پارٹیوں کے منتری ہونگے۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری اور کشمیر میں پارٹی امور کے انچارج رام مادھو نے پارٹی کے لیڈران کی معیت میں گورنر سے ملاقات کی اور انھیں جانکاری دی کہ عنقریب ان کے بیچ حکومت سازی پر اتفاق رائے مکمل ہوجائے گا ۔ اس تین رکنی وفد میں پارٹی کے ریاستی صدر جگل کشور اور ممبر اسمبلی نرمل سنگھ بھی شامل تھے۔ انھوں نے بتایا کہ باہمی امور پر وہ جلد ہی بات چیت مکمل کرلیں گے اور سرکار بنانے کی طرف قدم بڑھائینگے۔ اس دوران بی جے پی نے اپنے نومنتخب ممبران اسمبلی کی ایک مٹینگ جموں میں بلائی تھی جس میں انھیں حکومت سازی کی پیش رفت کے بارے میں جانکاری دی گئی ۔ اطلاع ہے کہ بی جے پی چھ سال کے لئے وزیر اعلیٰ کا عہدہ پی ڈی پی کو دینے پر راضی ہوگئی ہے، تاہم نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ بی جے پی کے پاس ہوگا۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ بی جے پی نے شروع میں کہا تھا کہ دونوں پارٹیاں تین تین سال اپنے پاس وزیر اعلیٰ کا عہدہ رکھینگی مگر مفتی محمد سعید اس کے لئے راضی نہیں تھے۔ دوسری طرف پی پی ڈی پی کے ایک وفد نے بھی گورنر ووہرا سے ملاقات کی جس کی جانکاری پارٹی ترجمان نعیم اختر کی طرف سے میڈیا کو دی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ سرکار بنانے کی طرف وہ بڑھ رہے ہیں۔ کچھ امور پر بات چیت ہوچکی ہے اور کچھ معاملوں پر بات چیت جاری ہے۔ غور طلب ہے کہ سرکاربنانے کے معاملات میں بولنے کا اختیار محبوبہ مفتی نے صرف نعیم اختر کو دے رکھا ہے اور دوسرے لیڈروں کو اس بارے میںبولنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی اپنی شرائط پر سرکار بنائے گی اور جن ایشوز کو لے کر اس نے الیکشن لڑا ہے انھیں ترک نہیں کرے گی۔ وہ عوام سے کئے وعدوں کو پورا کرے گی اور اپنے ارادوں سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔اطلاع ہے کہ حکومت کے معاملات پر نظر رکھنے کے لئے دونوں پارٹیاں ایک مشترکہ کمیٹی بنائیںگی۔ اس میں دونوں پارٹیوں کے ممبران ہونگے اور حالات کی نگرانی کریں گے۔ اسی کے ساتھ دونوں کے مشترکہ ایجنڈے بھی ہونگے جن میں کچھ ترجیحات شامل ہونگی۔دونوں پارٹیوں کے اتحاد کا فائدہ انھیں راجیہ سبھا الیکشن میںمل چکاہے جس میں پی ڈی پی کے دو اور بی جے پی کے ایک امیدوار کامیاب ہوکر راجیہ سبھا پہنچ چکے ہیں۔دوسری طرف کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے مشترکہ امیدوار سابق مرکزی وزیر اور ریاست جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد اس اتحاد کی طرف سے تنہا ایوان بالا میں پہنچے ہیں۔

کن ایشوز پر اتفاق رائے ہوا؟

    پی ڈی پی اور بی جے پی نے آپسی اتحاد میں جن معاملوں پر اتفاق رائے کرلیا ہے، اس میں سب سے اہم ہے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر اتفاق۔ اسی طرح منتریوں اور ان کے پورٹ فولیو پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے بی جے پی سے یہ بات بھی منوالی ہے کہ بی جے پی کے وزیر منمانی نہیں کریںگے اور وزیر اعلیٰ کے احکام کے مطابق کام کریںگے۔ انھوں نے بی جے پی کے سامنے یہ بات بھی رکھی ہے کہ جب تک ان کی سرکار ہے تب تک دفعہ۳۷۰ کا معاملہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ حالانکہ اس معاملے میں دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے برخلاف الیکشن لڑا تھا۔ جہاں پی ڈی پی نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس دفعہ کے تحفظ کے لئے کوشاں رہے گی، وہیں دوسری طرف بی جے پی نے اپنے ووٹروں سے کہا تھا کہ دفعہ ۳۷۰ کو وہ آئین سے حذف کراکر دم لے گی۔ بہرحال فی الحال بھاجپانے اس ایجنڈے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالنے کا وعدہ کرلیا ہے مگر اسی کے ساتھ وہ جموں کے ہندووں کی ترقی پر خاص دھیان دے گی اور مفتی صاحب سے قول وقرار ہوچکا ہے کہ ہندورفیوجیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے وہ راستہ ہموار کریںگے نیز اپنا گھر بار چھوڑ چکے کشمیری پنڈتوں کو بسانے کے معاملے میں بھی وہ کوشاں رہیں گے۔ مفتی صاحب نے بھاجپا سے عہد لیا ہے کہ وہ ریاست کی ترقی کے لئے مرکز سے فنڈ لائے گی اور مرکزی سرکار ریاست میں ترقیاتی کام شروع کرائیگی۔  

مفتی کیوں نہیں گئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ؟

    اسمبلی انتخابات کے رزلٹ آنے کے بعد سے پی ڈی پی اور بی جے پی کے بیچ حکومت سازی کے بارے میں پس پردہ گفتگو چل رہی تھی۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے مفتی محمد سعید کو اپنی حمایت دینے کی پیش کش کی تھی مگر مفتی صاحب نے اسے قبول کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ انھیں احساس تھا کہ ان کے لئے یہ خودکشی کے مترادف ہوگا۔ اگر انھوں نے ان پارٹیوں کے ساتھ مل کر سرکار بنائی تو یہ زیادہ دن تک چل نہیں پائے گی اور یہ پارٹیاں انھیں بلیک میل کریں گی۔ نیز ایک بڑا مسئلہ مرکز سے دوری کا بھی تھا۔ اصل میں جموں وکشمیر میں کسی بھی پارٹی کے لئے مرکز سے الگ ہوکر سرکار چلانا آسان نہیں ہے لہٰذا انھوں نے بی جے پی کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ مرکز سے تال میل بنا رہے گا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ جموں اور وادی کشمیر کے لوگوں میں دوری نہیں بڑھے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ جموں کے ہندوو وٹروں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا، جب کہ کشمیر کے ووٹروں کی اکثریت نے پی ڈی پی کی حمایت کی تھی۔ ایک چھوٹا طبقہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ گیا تھا۔ اگر مفتی صاحب نیشنل کانفرنس کے ساتھ چلے جاتے تو یہاں کی ہندو۔مسلم تقسیم مزید گہری ہوجاتی اور جموں کے ہندو خود کو ٹھگا محسوس کرتے۔ ریاست کسی ایک خطے کے لوگوں سے مکمل نہیں ہوسکتی ہے اور ریاست تب مکمل ہوتی ہے جب جموں، وادی کشمیر اور لداخ ساتھ ساتھ ہوں۔ سبھی علاقے کے ووٹروں کی رایوں کا احترام کیا جائے۔ ماضی میں جب نیشنل کانفرنس کی سرکار تھی تب بھی وہ کانگریس کو ساتھ لے کر چلتی تھی اور کانگریس کو جموں سے اچھی خاصی سیٹیں ملی تھیں۔

تمہیں سے محبت، تمہیں سے لڑائی

    ریاست جموں وکشمیر کی اب تک کی تاریخ رہی ہے کہ ہر سرکار مرکز کے ساتھ گئی ہے اور آج اگر مفتی محمد سعید بھی مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے ساتھ گئے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں نیشنل کانفرنس بھی بی جے پی کے ساتھ رہ چکی ہے اور مرکز میں جب اٹل بہاری واجپائی کی سرکار تھی تو عمرعبداللہ منتری تھے۔ یہاں تک کہ گجرات دنگوں کے بعد بھی انھوں نے اٹل بہاری کی کابینہ سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ ریاست میں اٹل بہاری سرکار کی مدد سے بھی بہت سے ترقیاتی کام ہوچکے ہیں لہٰذا بی جے پی کے ساتھ مفتی سعید کا جانا کچھ عجیب نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور ان کے بعض ایشوز ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے مگر مفتی محمد سعید ایک حقیقت پسند سیاست داں ہیں لہٰذا انھوں نے موجودہ حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے کانگریس ونیشنل کانفرنس کے ساتھ جانے کے بجائے بی جے پی کے ساتھ جانے کو ترجیح دی۔ ویسے بھی اس وقت ریاست کے سامنے۔ کئی بڑے اور اہم مسائل ہیں جن میں سے اہم مسئلہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ریاست کی تعمیر نو کا ہے۔ عمر عبداللہ جو کرسکتے تھے انھوں نے کیا مگر یہاں فی الحال بہت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے مرکزی فنڈ چاہئے۔ حال ہی میں ریاستی گورنر این این ووہرا نے وزیر داخلہ راجناتھ کو اس جانب متوجہ کیا ہے اور سیلاب زدگان کی بازآبادرکاری کی طرف دھیان دینے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے ایک خط لکھ کر وزیرداخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ جن لوگوں کے مکانات سیلاب کے سبب تباہ ہوچکے ہیں انھیں مزید ڈیڑھ لاکھ کی اضافی رقم دی جائے کیونکہ پہلے جو روپیہ انھیں دینے کی بات ہوئی تھی وہ ناکافی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے تمام تعمیراتی کام اب مفتی صاحب کے حصے میں آنے والے ہیں۔

    جموں و کشمیر کے لئے وہ سرکار بہتر ہے جو عوام کی امنگوں اور آرزوں پر کھری اترے اور ان کے دکھوں کا مداوا بنے۔ ریاست کو مرکز سے بھی امید ہے کہ وہ پاکستان سے بات چیت کرکے مسئلہ کشمیر کا کوئی ایسا حل نکالے گی جو عوام کے لئے بھی قابل قبول ہو اور اس سلسلے میں بھی مفتی صاحب کی طرف سے شرط رکھی گئی ہے۔حال ہی میں دونوں ملکوں کی طرف سے پیش قدمی بھی شروع ہوئی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مفتی صاحب اس میں معاون ثابت ہونگے۔     

   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 373