donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   RSS Ka Badalta Rang Roop


آرایس ایس کا بدلتا رنگ روپ


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


     راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اب اپنا رنگ وروپ بدلنے کی کوشش میں ہے۔ وہ نئی نسل کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے۔اس کے لئے جہاں وہ اپنا ڈریس کوڈ بدل رہا ہے وہیں وہ نئی ٹکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ پہلے جہاں آرایس ایس کے لوگوں کا پورا انحصار لاٹھیوں پر ہوتا تھا ،وہیں اب وہ سنگھ کی شاکھائوں میں بھی لیپ ٹاپ، موبائل، آئی پیڈ کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ ان دنوں دنیا کے کئی ممالک میں سنگھ ای۔شاکھائیں بھی لگا رہاہے۔اسی کے ساتھ اب وہ عنقریب اپنا روایتی یونیفارم بھی بدل رہاہے۔ اگر ہر صبح پارکوں میں سنگھ کی شاکھائوں میں نظر آنے والے آرایس ایس کے سویم سیوک آپ کو ہاف پینٹ کی بجائے فل پینٹ میں نظرآئیں تو آپ حیرت میں نہ پڑیں کیونکہ سنگھ اپنے رنگ ڈھنگ کو وقت کے ساتھ بدلنے میں یقین رکھتا ہے۔ خود کو سماجی تنظیم کہنے والے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے فیصلہ کیا ہے کہ نوجوانوں سے خود کو قریب کرنے کے لئے اسے ہاف پینٹ سے فل پینٹ پر آجانا چاہئے ۔ اسی کے ساتھ نوجوانوں کو اپنے قریب لانے کے لئے سنگھ انٹرنیٹ پر بھی پوری طرح سرگرم ہوگیا ہے اور جدید وسائل وذرائع کا استعمال بھی کرنے لگا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لاکھوں افراد انٹرنیٹ کے ذریعے اس سے جڑ رہے ہیں اور ساری دنیا میں اس کا پھیلائو ہو رہا ہے۔ وہ ہندوستان سے نکل کر دنیا کے لگ بھگ چالیس ملکوں تک پہنچ چکا ہے جن میں خلیج عرب کے مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ سنگھ نے ان ممالک کے حالات اور مقامی ضرورتوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں کوئی کور کسر بھی نہیں چھوڑی ہے۔ ہندوستان بھر میں آرایس ایس کے رضاکار عام طور پر خاکی ہاف پینٹ میں نظر آتے ہیں مگر اب وہ فل پینٹ میں دکھائی سکتے ہیں کیونکہ سنگھ اب اس کی اجازت پر غور کرر ہاہے۔ اسے لگتا ہے کہ اپنے اندر کچھ تبدیلیاں کرکے وہ نئی نسل کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔اس سلسلے میں سنگھ کے اندر کئی مٹینگیں ہوئی ہیں اور ڈریس کی تبدیلی کے بارے میں سوچا گیا ہے۔

ڈریس میں تبدیلی کی تاریخ

    رانچی میں گزشتہ دنوں ہوئی سنگھ کی میٹنگ میں ڈریس کوڈ پر غور کیا گیاتھا۔ سنگھ کے بیشتر پرچارکوں کا خیال تھا کہ شاکھائوں میں پہنی جانے والی خاکی ہاف پینٹ کی جگہ پتلون رکھی جائے۔ رانچی میں سنگھ کے عہدیداروں کے سامنے کچھ رضاکاروں نے پتلون پہن کر یہ ظاہر بھی کیا۔ آر ایس ایس کی یونیفارم کے سلسلے میں آخری بار سال 2010 میں فیصلہ لیا گیا تھا، تب چمڑے کی پٹی کی جگہ پر کینوس بیلٹ لاگو کی گئی تھی۔ کینوس کی بیلٹ بدلنے میں دو سال کا وقت لگ گیا تھا۔ سنگھ کے قیام کے دور 1925 سے لے کر 1939 تک سنگھ کا لباس مکمل طور پرخاکی تھا۔1940 میں سفید قمیض لاگو کی گئی۔ 1973 میں چمڑے کے جوتوں کی جگہ لانگ بوٹ نے لیا۔ تاہم رضاکاروںکو جوتے کا بھی اختیار دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈریس کوڈ میں تبدیلی کی کچھ پرانے پرچارکوں نے مخالفت بھی کی ہے البتہ بیشتر لیڈروں کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی رہنی چاہئے۔تاہم تنظیم میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو ہاف پینٹ کو ہٹائے جانے کے خلاف ہیں۔ سنگھ کے کچھ عہدیداروں نے سفید یا کسی دیگر کلر کی ٹی شرٹ، سیاہ فل پینٹ، سیاہ ٹوپی، سفید جوتے اور خاکی جرابوں کی تجویزیں بھی دی ہیں۔ جب کہ کچھ لوگوں نے سفید فل بازو شرٹ، خاکی، نیوی بلیو، یا گرے کلر کی فل پینٹ، ریگزین یا چمڑے کے سیاہ جوتے، کینواس بیلٹ اور کالی ٹوپی کی تجویز بھی دی ہے۔

ڈریس میں اختیارات

    میڈیا رپورٹووں کے مطابق سرسنگھ چالک موہن بھاگوت اور آرایس ایس میں دوسرے نمبر کی حیثیت رکھنے والے بھیا جی جوشی نے بھی نئے ڈریس کوڈ کو پسند کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وقت کے مطابق ڈریس کو تبدیل کرنا چاہئے۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے نئے ڈریس کوڈ کی مخالفت بھی کیا ہے جن میں زیادہ تر مہاراشٹر کے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے ڈریس کوڈ میں دو اختیارات رکھے گئے ہیں۔ پہلے اختیار میں سفید یا دوسرے رنگ کی ٹی شرٹ اور سیاہ رنگ کے پتلون کے ساتھ پرانی سیاہ ٹوپی، خاکی جرابوں اور سفید کینوس کے جوتے ہیں۔دوسرے اختیارمیں پورے بازوکی سفید شرٹ کے ساتھ خاکی، نیوی بلیو، بلیو یا گرے رنگ کی پتلون، سیاہ ٹوپی، چمڑے یا ریگزین کے سیاہ جوتے، خاکی جرابیں اور کینوس بیلٹ شامل ہیں۔ واضح ہوکہ سنگھ کی 50 ہزار سے زیادہ شاکھائیں ہیں اور ہر شاکھا میں کم از کم 10 لوگ آتے ہیں۔ ایسے میں کپڑے بدلنے کے لئے کم از کم 5 لاکھ نئے کپڑوں کی ضرورت ہو گی جس پر عمل کرنے میں کافی وقت لگے گا۔آر ایس ایس کی اس تبدیلی سے بہت سے لوگ حیران ہوں گے لیکن اس کے پیچھے ایک خاص سوچ اور ضرورت نظر آتی ہے۔

آرایس ایس کے یونفارم میں تبدیلی کیوں؟

    اگرچہ ایس ایس کا ہی ایک طبقہ اس تبدیلی کی مخالفت کر رہا ہے لیکن ایسا کرنا وقت کی ضرورت اور سنگھ کی دور رس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ یونیفارم بدلنے کے اقدام کے پیچھے جو سب سے بڑا سبب مانا جا رہا ہے وہ ہے نوجوانوں کو سنگھ کی طرف متوجہ کرنا۔ اس سے کہیں نہ کہیں آر ایس ایس کٹر تصویر کو توڑ اس نوجوان نسل کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے جسے کسی بھی ایسی نظریے سے گریز ہے جس کے ذریعے تعصب کو فروغ ملتا ہو۔ جس ملک میں دنیا کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی رہتی ہو، جہاں کی 50 فیصد آبادی 25 سال سے کم اور 65 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر کی ہو، وہاں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش سمجھ میں بھی آ جاتی ہے۔ 2014 کے عام انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کو ملی بھاری کامیابی کے پیچھے بھی نوجوانوں کا ہی ہاتھ تھا۔ اپنے قیام کے وقت سے ہی خاکی رنگ  سنگھ کی شناخت بنا ہواہے۔ خاکی رنگ نظم و ضبط اور سروس کی علامت سمجھا جاتا ہے جو کہ سنگھ کے اصولوں پر فٹ بیٹھتا ہے لیکن سنگھ کی شناخت رہا خاکی رنگ ہاف پینٹ جدید سوچ والے فیشنل ایبل نوجوانوں کے لئے کشش نہیں رکھتا۔اسی کے ساتھ ان ذہن میں سنگھ کی کٹروادی تصویربھی قید ہو گئی ہے جس سے سنگھ اب نجات پانا چاہتا ہے۔

سنگھ کی عیسائی ونگ؟

     سنگھ اپنی امیج بدلنے والے عوام کے بڑے طبقے تک اپنے نظریات پہنچانے کے لئے جو کوششیں کر رہاہے اس کا حصہ ہے سنگھ کا عیسائی ونگ بنانے کا فیصلہ۔آر ایس ایس نے عیسائیوں تک اپنی پہنچ بنانے کے لئے حال ہی کمیونٹی کے کئی لیڈروں سے ملاقات کی ہے۔ سنگھ کی اس قواعد کا مقصد ایک دہائی پہلے قائم ہوئی مسلم راشٹریہ منچ کی طرح عیسائی کمیونٹی کے لئے ایک تنظیم بنانا  ہے۔ ذرائع کے مطابق ابھی اس تنظیم کا نام طے نہیں ہوا ہے، لیکن کمیونٹی کے ساتھ ’’ہم آہنگی‘‘ قائم کرنے کے مقصد سے اس کا نام راشٹریہ عیسائی سنگھ رکھا جا سکتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کے قیام کے وقت سے ہی سنگھ کے رہنما اس کے لئے کوشاں ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایسی کوششیں عیسائی کمیونٹی کے لوگوں تک پہنچ بنانے کے مقصد سے ہو رہی ہے۔ اس کے لئے 17 دسمبر 2015 کو ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ سنگھ کی قومی مجلس عاملہ کے رکن اندریش کمار کا کہنا تھا کہ ، 10 سے 12 ریاستوں کے 4-5 ارک بشپ اور 40-50 ریورنڈ بشپ سے ملاقات ہوچکی ہے۔ 17 دسمبر کو دہلی میں منعقد اجلاس میں اندریش کمار کے ساتھ ہی وشو ہندو پریشد کے چنمیانند سوامی بھی موجود تھے۔

آرایس ایس کا بڑھتا دائرہ اثر

    راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نظریات کے معاملے میں رنگ تبدیل کرتا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ نظر آتا ہے وہ ہے نہیں، مگر اسی کے ساتھ اپنے یونیفارم کے معاملے میں وہ سخت رہاہے کہ اور کم ہی ایسا وقت آیا جب اس نے تبدیلیاں کی ہیں۔آج جب کہ دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے لہٰذا اس نے بھی ظاہری رنگ وروپ میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کرلی ہے۔  اسے لگتا ہے کہ وقت کی ضرورت ہے یہ بدلائو۔ وقت اور ھالات کے ساتھ مطابقت کا اسے فائدہ بھی مل رہاہے۔ حال ہی میں سنگھ کے ایک اہم لیڈر منموہن وید نے کہا ہے کہ جدید ذرائع کے استعمال سے اس تک رسائی حاصل کرنے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان دنوں میں جو لوگ اس رابطہ قائم کر رہے ہیں ان میں اکثر افراد آن لائن رابطہ کر رہے ہیں۔ واضح ہوکہ آرایس ایس سے وابستہ ہونے کے خواہش مند افراد کی تعداد ماضی میں ماہانہ 1700ہوا کرتی تھی مگر سال گزشتہ یہ بڑھ کر 7000ماہانہ ہوگئی ہے۔ اس کے پیچھے جدیدٹکنالوجی کے استعمال کی برکت کو دیکھا جارہاہے۔حالانکہ آرایس ایس اس تعداد کو مزید بڑھانا چاہتی ہے اور خود کو نئی نسل کے لئے پرکشش بناکر پیش کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 587