donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Sangh Parivar Ab Karana Chahta Hai Dalit - Muslim Jung


سنگھ پریوار اب کرانا چاہتا ہے دلت ۔ مسلم جنگ


ابامہ کی نصیحت سے سنگھ پریوار سبق کیوں نہیں لیتا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    کیا سنگھ پریوار اب بھارت کے دلتوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی سازش رچ رہا ہے؟ کیا وہ ملک کو اختلاف کے ایک نئے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے؟ کیا وہ ہندووں کے چھوت چھات کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑنا چاہتا ہے؟کیا بھارت صرف ہندووں کا ہے؟ کیا یہاں بسنے والے دوسرے مذاہب کے افراد کا اس ملک پر کوئی حق نہیں ہے؟ کیا صرف ہندووں کا اتحاد ہی ضروری ہے اور دوسرے طبقات کا اتحاد ملک کے مفاد میں نہیںہے؟ مسلمانوں کے خلاف دلتوں کو بھڑکانے کی کوشش آخر کیا رنگ لائے گی؟ کیا اس سے ملک میں انتشار نہیں پھیلے گا؟ کیا ملک کے شہریوں کے بیج نفرت کا بیج بونے سے بھارت کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ یہ سوال ہم اس لئے اٹھا رہے ہیں کہ جہاں ایک طرف آرایس ایس چیف موہن بھاگوت یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستا ن کی ترقی کے لئے ہندووں کا اتحاد لازمی ہے وہیں دوسری طرف ان کے سپہ سالار اشوک سنگھل کا کہنا ہے کہ بھارت میں چھوت چھات کی شروعات غیرملکی حملہ آوروں نے کی اور انھوں نے ہی دلتوں کو دلت بنایا اور وہ اس ملک کی ہزاروں سال کی تاریخ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی باتوں کو ملک کے اتحاد وسالمیت پر کیا اثر پڑے گا اور یہاں رہنے والے ان باتوں سے اگر متاثر ہوتے ہیں تو کیا یہ ملک کے مفاد میں ہوگا؟ کیا اس قسم کی باتیں ہندووں کو مسلمانوں کے ساتھ لڑانے کے لئے کی جارہی ہیں؟ کیا سنگھ پریوار کا مقصد یہ ہے کہ اب دلتوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف لاکھڑا کیا جائے؟ کیا وہ اپنے ہندو اسلاف کے ان مظالم کو دانستہ طور پر مسلمانوں کے کھاتوں میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو انھوں نے ہزاروں سال تک دلتوں پر جاری رکھے اور انھیں آگے نہی بڑھنے دیا۔ موہن بھاگوت اور اشوک سنگھل جیسے لوگ دلی کے انتخابی نتیجوں سے کوئی سبق کیوں نہیں لیتے؟

اگر تمام ہندوستانی ہندو ہیں۔۔

    راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آرایس ایس) کے چیف موہن بھاگوت نے حال ہی میںمیرٹھ میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی سالمیت کے لئے ہندووں کا اتحاد ضروری ہے۔ بھارت ہندووں کا ملک ہے اور وہ متحد ہوئے تو اس ملک کی ترقی ہوگی۔ ہندووں کا اتحاد دنیا کے لئے وردان ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات

گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہندووں کے حق میں نہیں تھے مگر اب ان کے حق میں ہوگئے ہیں۔ اس وقت ہمارے لئے جتنا حالات سازگار ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ ان کا کہنا ہے پہلے ہمارے ورکروں کو اپنے نظریات کے پرچار میں جس قسم کی دقتیں آتی تھیں وہ اب نہیں آرہی ہیں۔ موجودہ حالات ہمیں اپنے پلان کو لاگو کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ یہ باتیں وہ ایسے وقت میں کہہ رہے تھے جب امریکی صدر باراک ابامہ کا دورہ ہند مکمل ہوچکا ہے اور انھوں نے اپنے بیانات میں ہندوستان کو مذہبی خطوط پر تقسیم ہونے سے رکنے کا سندیس دیا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ بھارت جب تک فرقہ وارانہ تقسیم سے بچے گا ترقی کرتا رہے گا۔ انھوں نے امریکہ واپس جانے کے بعد اس موضوع پر مزید نصیحت کرڈالی اور یہاں اٹھ رہے فرقہ وارانہ معاملوں کی جانب اشارہ بھی کیا۔ موہن بھاگوت نے ابامہ کی باتوں سے کوئی نصیحت نہیں لی اور ایک بار پھر تمام ہندوستانیوں کے اتحاد کی بات کرنے کے بجائے صرف ہندووں کے اتحاد کی بات کہہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندو بہت سے دیوی دیوتائوں کی پوجا کرتے ہیں مگر وہ ایک ہیں اور ان کے اندر کسی قسم کی تقسیم نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بھارت دوہزار سال سے دنیا کی رہنمائی کر رہا ہے اور آج بھی دنیا رہنمائی کے لئے اس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ امریکہ کے پاس دولت ہے اور چین کے پاس فوجی طاقت ہے مگر بھارت کے پاس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ آج دنیا ہندوازم کی طرف دیکھ رہی ہے اور امریکہ میں بھی ہندو دیوی دیوتائوں کی پوجا کا رواج بڑھ رہا ہے۔حالانکہ انھوں نے اپنے اس دعوے کے لئے کوئی دلیل پیش نہیں کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ امریکہ جیسے پڑھے لکھے اور سائنسی اصولوں پر چلنے والے ملک میں آخر اینٹ پتھر کی مورتیوں اور پیڑ پودوںکی پوجا میں یقین کیوں بڑھ رہا ہے؟موہن بھاگوت کی طرف سے اس قسم کی باتیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ سنگھ پریوار کا یہی نظریہ ہے جسے دوسرے لوگ بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ ماضی میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جو لوگ بھارت میں رہتے ہیں وہ سب کے سب ہندو ہیں۔ اس طرح انھوں نے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور پارسیوں کے وجود سے بھی انکار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ تمام طبقے ہندو ہیں تو انھیں آر ایس ایس کی ممبر شپ کیوں نہیں دی جاتی ہے؟ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہاں پیدا ہونے والا ہر شخص ہندو ہے تو دوسری طرف وہ ان کے حقوق کی مخالفت کرتے ہیں۔ چند دن قبل وشو ہندو پریشد کے ورکنگ صدر پروین توگڑیا نے کہا تھا کہ بھارت میں پیدا ہونے والا ہر شخص ہندو ہے مگر وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی ممبر شپ کسی مسلمان، عیسائی ، بدھسٹ یا پارسی کو نہیں دی جاتی ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان لوگوں کی زبان اور نظریے میں فرق ہے۔ اگر یہ لوگ ایسا سمجھتے تو ان مذاہب کے پیروکاروں کے بیچ فرق نہیں کرتے۔  

سنگھ پریوار کا تاریخی جھوٹ

     ان دنوں سنگھ پریوار میں ذات پات کو ختم کرنے کے لئے زبردست تحریک چل رہی ہے حالانکہ یہ بھی سچائی ہے کہ سنگھ کا قیام ہی اونچی ذات والوں کے ذہن کی اپج ہے اور اس پر ہمیشہ انھیں کا دبدبہ رہا ہے۔سنگھ نے اب ایک نئی تاریخ گڑھی ہے جس کے تحت ہندووں میں ذات پات کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیرملکی حملہ آوروں نے ہندووں و ذات پات میں تقسیم کیا تھا۔ حالانکہ تاریخ سچائی ہے کہ ایران سے آنے والے آریوں نے اصل ہندوستانیوں کو غلام بنائے رکھنے کئے پانچ ہزار سال قبل ذات پات کا سسٹم شروع کیا تھا۔ اس کا ذکر ہندووں کی قدیم مذہبی کتابوں میں ملتا ہے۔حال ہی میں موہن بھاگوت نے ہندووں کو متحد کرنے کے لئے ذات پات کے سسٹم سے اوپر اٹھنے کی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ذات پات سے اوپر اٹھنے اور ان دیواروں کو توڑنے کا مناسب وقت ہے۔   انھوں نے بھی اپنی تقریر کے دوران ذات پات کے سسٹم کے لئے غیرملکی حملہ آوروں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بھاگوت کے بیان کی حمایت میں وشوہندو پریشد کے سرپرست اشوک سنگھل سامنے آئے اور لکھنو میں ایک تقریر کے دوران انھوں نے کہا کہ انتہائی پسماندہ بالمیکی اور سونکر اصل میں ہندومذہبی مجاہد تھے۔انھیں اچھوت بنانے کا کام حملہ آور مسلمانوں نے انجام دیا تھا ورنہ اصل میں وہ اعلیٰ ذات کے ہندو ہیں۔ انھوں نے دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ اس ملک میں ہندووں کو تقسیم کرنے کے لئے ذات پات کا نظام مسلمانوں نے بنایا تھا۔ اشوک سنگھل نے اپنی تاریخ دانی سے سنگھ پریوار کے دوسرے لوگوں کو بھی مستفید کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مزید کہا کہ بنارس کی گیان وافی مسجداصل میں مندرہے۔ مغل حکمراں اورنگ زیب عالمگیر نے مندر کو مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔ اشوک سنگھل کے مطابق وشو ہندو پریشد عنقریب گیان وافی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کو مندر میں تبدیل کرنے کے لئے تحریک چھیڑے گی۔ غور طلب ہے کہ ابھی چند مہینے قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ پرتھوی راج چوہان آخری ہندو حکمراں تھا۔ اس کے آٹھ سو سال بعد اب بھارت میں ہندو راج لوٹا ہے۔ حالانکہ اس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ جب کہ الیکشن سے قبل تک وہ خود کو سیکولر بتارہے تھے اور بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت کی مٹی میں سیکولرازم شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مودی کے قول وفعل میں تضاد ہے؟ اگر نہیں تو اشوک سنگھل اور پریون توگڑیا جیسے لیڈروں کی زبان پر وہ لگام کیون نہیں لگاتے ہیں؟

کیا ہندو گرنتھ مسلمانون نے لکھے تھے؟

    ہندوستان میں ہزاروں سال سے ذات پات کا نظام چلا آرہا ہے۔ سنگھ پریوار کی طرف سے اس بارے میں الگ الگ وقت میں الگ الگ باتیں کہی جاتی رہی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جھوٹ کے ہاتھ پیر نہیں ہوتے۔ تاریخ کو جھٹلانے کی کوشش میں وہ جو باتیں کہتے ہیں اس میں تضاد صاف نظر آتا ہے۔ سنگھ والوں کی طرف سے ایک تو یہ کہا جاتا رہا ہے ذات پات کا نظام کچھ غلط نہیں تھا اور جھوت چھات کے سبب ہی بھارت میں آج بھی کروڑوں ہند وبچے ہوئے ہیں، ورنہ جس طرح وسط ایشیا میں سبھی مذاہب اسلام

میں ضم ہوگئے تھے اسی طرح ہندو بھی اسلام کے پیروکار بن گئے ہوتے۔ چھوت چھات نے انھیں مسلمانوں کے قریب جانے سے روکے رکھا۔ دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اس ملک کو مسلمانوں نے ذات پات اور چھوت چھات میں تقسیم کیا۔ اس بارے میں یہ سوال بجا ہے کہ رامائن، مہابھارت اور وید سمیت تمام قدیم ہندو دھرم گرنتھوں میں ذات پات کا کہیں نہ کہیں ذکر مل جاتا ہے۔ کیا ان کتابوں کو بھی پانچ ہزار سال پہلے مسلمانوں نے لکھا تھا؟ کیا ہندو شریعت کی تنہا کتاب ’’منوسمرتی‘‘ بھی مسلمانوں کی تصنیف ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شودر علم کی بات سن لے تو اس کے کان میں کانسہ پگھلا کر انڈیل دیا جائے؟ اسی کتاب میں ہندووں کے چار ورنوں کا ذکر ہے اور ان کے کام وحقوق بھی متعین کئے گئے ہیں۔ اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ شودر کا کام ہے تمام ذات کے لوگوں کی خدمت کرنا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں نے ہی ہندووں کے گرنتھوں میں لکھا ہے کہ برہما کے سر سے برہمن، بازووں سے چھتری، رانوں سے ویشیہ اور پیروں سے شودر پیدا کئے گئے ہیں؟ آج سنگھ پریوار تاریخی جھوٹ بول رہا ہے اور اپنی مذہبی کتابوں کو بھی جھٹلانے میں لگا ہوا ہے، کیا اس کے پیچھے اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان کھائی کھودی جائے اور ان کے بیچ ٹکرائو پیدا کیا جائے؟ 

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 529