donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Sari Duniya Musalmano Ke Khoon Ki Payasi Magar Zimmedar Musalman Nahi To Kaun


ساری دنیا مسلمانوں کے خون کی پیاسی مگر ذمہ دارمسلمان نہیں تو کون؟

 

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو ظلم و تشدد کے نشانے پرر کھا گیا ہے اور ان پر مظالم ہورہے ہیں مگر کیا آپ نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہورہاہے اور اس صورتحال سے باہر نکلنے کی ترکیب کیا ہے؟مشرق تا مغرب دنیا ان کے خون کی پیاسی کیوں ہے اور اس کے لئے ذمہ دار مسلمان خود نہیں تو کون ہے؟

     امریکہ اسلاموفوبیا کا شکار کیوں ہے؟ برطانیہ کو مسلمانوں سے ڈر کیوں لگتا ہے؟ فرانس اہل توحید سے دہشت زدہ کیوں ہے؟ یوروپ کو اسلام کے نام سے خوف کیوں آتا ہے؟ مغرب مسلم ملکوں کے خلاف سازشیں کیوں کرتا ہے؟اس نے عراق کو تہس نہس کیوں کیا؟ افغانستان کو برباد کیوں کیا؟ پاکستان پر اس کی بری نظر کیوں ہے؟ ایران کو تباہ وبرباد کرنے کی تیاریاں کیوں ہیں؟ ترکی کا نام سن کر اس پر وحشت کیوں طاری ہوجاتی ہے؟ ساری مغربی دنیا اسلام کے خلاف متحد کیوں ہوجاتی ہے؟ بھارت کی حکومت کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کی کوششیں کس لئے اور چین کو ان کے نام پر کیوں اکسایا جاتا ہے؟ دنیا بھر میں قرآنی تعلیمات کی غلط تشریح کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں آخر کیوں ہوتی ہیں اور میڈیا میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کس لئے کیاجاتا ہے؟ دنیا بھر کے ٹی وی چینل اور اخبارات اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ کیوں بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پرچار کس لئے کیا جاتا ہے؟قرآن اور اسلامی تعلیمات پر پابندی کی بات بار بار کیوں اٹھائی جاتی ہے اور یوروپ میں مسجدوں کی تعمیر پر قدغن کیوں لگائی جاتی ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ مغربی طاقتوں نے پہلے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا اور پھر مسلمانوں کوسویت یونین کے خلاف کھڑا کردیا؟ مسلمانوں کو مسلمانوں ہی کے خلاف کس طرح برسرِ پیکار کیا جاتا ہے اور انھیں مسلک، رنگ، نسل اور علاقائیت کے نام پر آپس میں کیسے ٹکرایا جاتا ہے؟دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلام کے خلاف جنگ کیسے بن جاتی ہے اور ساری دنیا میں مسلمانوں کا حقہ پانی کیسے بند کردیا جاتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا احساس ہرحساس مسلمان کوہوتا ہے اور وہ بے چینی محسوس کرتا ہے۔ وہ جاننا اور سمجھنا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ دنیا بھر میں الگ قسم کا برتائو کیوں کیا جارہا ہے اور اسے شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جارہا ہے؟اسے دنیا کے وجود کے لئے خطرہ کیوں سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ بھید بھائو کیوں ہورہا ہے؟ وہ ساری دنیا میں مظالم کا شکار کیوں ہے اور اس کے ساتھ عام انسانوں جیسا برتائو کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان تمام سوالوں کا جواب صدیوں کی تاریخ میں پھیلا ہوا ہے اور اگر اختصار میں سمجھنا چاہیں توایک حدیث پڑھ لیں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت وہ آئے گا جب ساری دنیا تمہاری طرف ایسے دوڑی آئے گی جیسے بھوکے ہر طرف سے کھانے پر ٹوٹ پرتے ہیں۔پوچھا گیا کہ کیا اس زمانے میں ہم بہت کم تعداد میں ہونگے تو اللہ کے رسول نے فرمایا کہ نہیں تم بہت زیادہ تعداد میں ہوگے مگر سمندر کی جھاگ کی طرح بے وقعت اور بے وزن ہوجائو گے۔جس کے سبب دشمنوں کے دل سے تمہارا ڈر نکل جائے گا اور تمہارے دل میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف بیٹھ جائے گا۔

  صلیبی جنگوں کی تاریخ

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

    اسلام کی چودہ سوسال کی تاریخ میں بار بار اسلام اور اس کے مخالفین کا ٹکرائو ہوتا رہا ہے۔ عرب میں اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی اس کے خلاف جنگوں اور سازشوں کا دور بھی چلتا رہا ہے مگر باوجود اس کے اسلام کا آفاقی اور انسانی پیغام دنیا کو متاثر کرتا رہا ہے۔ جب اسلام عرب سے نکل کر عجم تک پہنچا تو اس کا سب سے زیادہ ٹکرائو عیسائیوں کے ساتھ ہوا، حالانکہ عیسائیت اور اسلام میں بہت سی مشترک قدریں تھیں اور دونوں ہی آسمانی اور الہامی مذاہب تھے۔ صلیبی جنگوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوششیں ہوئیں ،خون کی ندیاں بہیں اور لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا۔ترکی اور اٹلی کا علاقہ اکثر ان جنگوں کا میدان بنتا رہا اور صدیوں تک ایک دوسرے کے خلاف کشمکش جاری رہی۔ بیشتر اوقات مسلمانوں کا ہی غلبہ رہا ان کے قدم مغرب کی طرف بڑھے مگر دوسری طرف سے بھی اس کا سختی سے مقابلہ کیا گیا۔ آخر کا رجب سلطنت عثمانیہ کمزور پڑی تومغرب کے حوصلے بلند ہوگئے اور اسے مزید کمزور کرنے کے لئے سعودیوں کے ساتھ لڑا دیا گیا۔ پھرعرب کے قلب میں ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں آیا جو مغرب کی پروردہ تھی اور اسی کے اشارۂ ابرو پر چلنے والی تھی ۔ پہلے سعودی عرب اور پھر اسرائیل کا قیام مغربی طاقتوں کی بالادستی کی علامت کے طور پر آج تک قائم ہے۔ ان دونوں ملکوں کی حفاظت کی ذمہ داری کا وعدہ آج تک مغرب نبھا رہا ہے اور یہ بھی خلیج عرب میں اس کے مفاد کی نگہبانی کر رہے ہیں۔

سازشوں کا دھنی مغرب

    چونکہ مغربی ملکوں کی افزائش ہی اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کے خطوط پر ہوئی تھی لہٰذا انھوں نے یہ سلسلہ نئے دور میں بھی جاری رکھا۔ جنگ کا انداز بدل گیا اور زندگی کی طرز تبدیل ہوگئی مگر جنگ جاری رہی۔ مغرب ہر دور میں سازشوں میں یکتا رہا ہے۔ قیصر روم سے لے کر موجودہ امریکہ تک کوئی دور ایسا نہیں ملے گا جب اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہ رچی ہوں۔ اس کی حکمت عملی کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ وہ اپنے دو دشمنوں کو آپس میں لڑاکر تماشہ دیکھتا ہے۔ اس کی تاریخ میں کئی مثالیں مل جائیں گی۔سویت یونین جب امریکہ اور اس کے حواریوں کے لئے خطرہ تھا تو اس کا ٹکرائو مسلمانوں سے کرادیا گیا۔ افغانستان میں اس کے مداخلت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب دنیا کی ایک سُپر پاور اَن پڑھ اور ناخواندہ افغانیوں سے لڑ کر ختم ہوئی۔ انھیں امریکہ نے ہتھیار سپلائی کیا اور مجاہد کے خطاب سے نوازا مگر جب اانھیں مجاہدین نے اس کے خلاف جہاد چھیڑا تو انھیں دہشت گرد قرار دے کر ساری دنیا میں اسلام کی رسوائی کا سامان کیا گیا ۔ چیچنیا کے مسلمانوں کو بھی روس کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ عرب ملکوں کے مغرب نواز حکمرانوں کے بر خلاف جب شاہ فیصل نے دم خم دکھانے کی کوشش کی تو انھیں اپنے ہی بھتیجے سے مروادیا گیا۔ عراق اور ایران کی طاقت ابھری تو دونوں کو آپس میں لڑا کر برباد کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ پھر بھی بچ گئے تو صدام حسین کے استیصال کے بہانے عراق کو نیست ونابود کردیا گیا اور ایران پر پابندیاں لگا کر کمزور کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے اور بہت سے مسلم اکثریتی ممالک ہیں مگر کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں بچا ہے جو امریکہ اور یوروپ کے سامنے سر اٹھانے کے لائق ہو۔ شام کی طاقت ابھر رہی تھی تو اسے کچل دیا گیا۔ مصر میں اخوان کا ظہور ہوا تو سنبھلنے سے پہلے ہی اس کے خلاف سازشیں کرکے حکومت کی باگ ڈور اپنے پٹھووں کے سپرد کردی گئی۔ ترکی کی موجودہ حکومت کے خلاف سازشیں جاری ہیں اور کئی بار فوج کو جمہوری حکومت کے مد مقابل لانے کی کوشش ہوچکی ہے۔ ترکی کے اسلام پسندمغرب کی آنکھ میں کھٹک رہے ہیں اور انھیں برباد کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ اصل میں یہ سب اسی صلیبی جنگ کا حصہ ہے جو صدیوں سے اسلام کے خلاف جاری ہے۔ اس جنگ میں صلیبی طاقتوں نے صہیونیوں کو بھی شامل کرلیا ہے جب کہ یہودی صدیوں تک مسلمانوں کے ساتھ میل محبت سے رہ چکے ہیں اور انھیں غارت کرنے کی تمام کوششیں عیسائیوں نے کی ہیں۔ ان دنوں مغرب نے اس جنگ میں بھارت کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے جب کہ اس خطے میں ہندواور مسلمان صدیوں سے بھائی چارے کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دونوں کے اندر تب غلط فہمیاں پھیلنی شروع ہوئیں جب یہاں انگریز آئے اور ان کے بیچ نفرت کی دیواریں کھڑی کیں۔

اسلام کے خلاف جنگ جاری ہے

    آج کے دور میں امریکہ سے یوروپ تک ہر جگہ اسلامو فوبیا پایا جاتا ہے جو صرف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ عیسائی اور مسلمان صدیوں تک آپس میں ٹکراتے رہے ہیں۔ مغرب نے اسے دو تہذیبوں کی جنگ کا بھی نام دیا ہے اور اب مسلمانوں کے خلاف ایک طرف بھارت کی حکومت کو کھڑا کردیا ہے تو دوسری طرف چین کو ۔دہشت گردی کے خلاف لڑائی اصل میں مسلمانوں کے خلاف لڑائی ہے۔ دہشت گردی تو صرف ایک ہوّا ہے جسے دوسرے شہریوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے۔ اسی خوف کے نتیجے میں ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اقدام کئے جارہے ہیں۔ کہیں قرآن پر پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو کہیں مسجدوں کی تعمیر میں رخنہ ڈالا جارہا ہے۔ کہیں مسجدوں کی میناروں کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا جارہا ہے تو کہیں برقع کو مغربی تہذیب کے خلاف سمجھا جارہا ہے۔ امریکہ جو خود کو دنیا کی ایک مضبوط جمہوریت قرار دیتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہاں سبھی شہریوں کے حقوق محفوظ ہیں وہاں بھی اسلاموفوبیا کے نتیجے میں اسلام دشمنی کے واقعات ظہور میں آرہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال ۲۰۱۲۔۲۰۱۱ء کے دوران امریکہ کی ۲۹ ریاستوں میں ۷۸ ایسی قانون پیش کئے گئے جو اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں تھے اور اسی سال مسجدوں کے خلاف تعصب کے ۵۱ معاملات روشنی میں آئے۔ ایک جگہ سکھوں پر صرف اس لئے حملہ کیا گیا کیونکہ حملہ آوروں نے انھیں مسلمان سمجھ لیا تھا۔ یوروپ میں مسلم مخالفت کے معاملات اکثر و بیشتر روشنی میں آتے رہتے ہیں ۔ مسلم ملکوں کو آپس میں ٹکرانے کی کوشش اور مسلم عوام کو شیعہ۔سنی کے نام پر لڑانے کا کام ان دنوں بہت زور وشور سے جاری ہے۔ علاوہ ازین ٹی وی چینلوں، اخبارات، کتب اور سوشل میڈیا پر تو گویا اسلام مخالف مواد کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ عرب ممالک کے پاس دولت ہے اور وہ ان جنگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔جرمنی میں عوام کے ٹیکس کا۸ فیصدچرچ کو جاتا ہے جو اس سے ساری دنیا میں سماجی کام کرتا ہے،ایسا عرب کے تیل مالکان کیوں نہیں کرسکتے؟ خاص طور پر جو کچھ انٹرنیٹ اور عالمی میڈیا کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کو مسخ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اس کا بہتر ڈھنگ سے مقابلہ عرب حکمراں کرسکتے تھے۔ وہ اگر اپنی دولت کا ایک فیصد حصہ بھی خرچ کردیں تو مسلمانوں کے پاس کئی بی بی سی اور سی این این جیسے چینل آجائیں اور گوگل ووکی پیڈیا سے بڑے بڑے سرچ انجن تیار ہوجائیں، بڑے بڑے اخبارات ہوں مگر وہ ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ اسی سازش کا حصہ ہیں جس کے تحت نہ صرف مسلمانوں پر حملہ کیا جاتا ہے بلکہ انھیں دفاع کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں نے بھی کم غلطیاں نہیں کی ہیں۔ انھوں نے بھی ایسے حالات بننے دیئے جو ان کے لئے ہلاکت خیز ہوں اور اسلام کے تعلق سے پھیلی غلط فہمیوں کو دور نہیں کیا۔ دنیا ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ ہم اسلامی نظام قائم کریں مگر وہ ہمیں اسلام کی ترویج و اشاعت سے نہیں روک سکتی اور یہ سب کرنے کے لئے ہمارے پاس ہمیشہ ہی اچھے مواقع رہے ہیں مگر ہم دوسروں کی ستم ظریفی کا رونا روتے رہے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔

شکوۂ ظلمت شب سے کہیں اچھا ہوتا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

     اسلام کے نمائندہ کے طور پرمسلمانوں کے لئے لازم تھا کہ وہ اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچاتے اور انھیں سچے دین کے اصلی چہرے سے آگاہ کرتے مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ دنیا تو ہمارے کردار وعمل سے ہمارے مذہب کے بارے میں اندازہ لگاتی ہے، وہ اسلام کا مطالعہ نہیں کرتی اور نہ ہی قرآن کریم کے تراجم یا سیرت نبوی کی کتابیں پڑھتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خود مسلمان ہی قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتے اور نہ ہی اپنے بچوں کو دین کے قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اس لئے مسلمان ہیں کہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوگئے ہیں۔ خدانخواستہ غیر مسلم گھرانے میں پیدا ہوتے تو ہمارا مذہب کچھ اور ہوتا۔ایسے حالات میں دنیا ہم سے یا ہمارے مذہب سے محبت کرے تو کیسے جس کی نظر میں اسلام ایک غیر معتدل مذہب ہے اور مسلمان ایک بدترین قوم۔

تم ہو صورت میں نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

    (مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ ر ائٹر ہیں)  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

Comments


Login

You are Visitor Number : 569